التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حضرت مولانا باب الحوائج ابوالفضل العباس ؑ قمر بنی ہاشم

حضرت مولانا باب الحوائج ابوالفضل العباس ؑ قمر بنی ہاشم |Mola Abbas
حضرت مولانا باب الحوائج ابوالفضل العباس ؑ قمر بنی ہاشم |Mola Abbas


سید محسن عاملی سے ’’مجالس سنیہ‘‘ میں منقول ہے کہ قمر بنی ہاشم کی ولادت ۲۶ھ؁ میں ہوئی، حضرت امیر ؑ کی بعض جنگوں میں بھی آپ ؑ حاضرتھے لیکن ان کو سرکار ولایت جہاد کی اجازت نہ دیتے تھے، کربلا میں ان کی عمر ۳۴ یا بقول بعض ۳۵ سال تھی۔۔۔۔۔ ۴ شعبان ۲۶ھ؁ مدینہ منورہ میں آپ ؑ پیدا ہوئے۔۔ ان کی والدہ ماجدہ جناب امّ البنین بنت خرام بن خالد بن ربیعہ بن عامر کلابی تھی۔
حضرت امیر ؑ نے حضرت عقیل ؑ سے کہا تھا چونکہ وہ علم الانساب سے واقف تھے کہ قبائل عرب میں سے ایک شجاع قبیلہ تلاش کرو تاکہ میں اس قبیلہ میں شادی کروں تاکہ شجاع ودلیر اولاد پیدا ہو جو میرے فرزند حسین کی ناصر ہو، حضرت عقیل ؑ نے جواب دیا اگر آپ ؑ ایسی عورت چاہتے ہیں تو امّ البنین کلا بیہ سے شادی کریں کیونکہ قباہل عرب میں ان سے زیادہ کوئی بہادروصف شکن قبیلہ نہیں ہے، پس عقیل ؑ کے مشورہ سے حضرت امیر ؑ نے امّ البین سے شادی کی، اس مخدرہ کا نام فاطمہ تھا اورکنیت امّ البنین مشہور تھی اس کے چار فرزند تھے سب سے بڑے حضرت ابولفضل عباس تھے یہ بی بی مدینہ میں رہ گئی تھیں۔
آپ ؑ کی کنیت ابوالفضل مشہورہے کیونکہ ان کے شہزادے کا نام فضل تھا، بعض نے آپ ؑ کی کنیت ابوالقربہ بھی لکھی ہے قربہ کا معنی مشکیزہ ہے غالباً یہ کنیت روز عاشور کے بعد سے ہی مشہور ہوگئی ہے اس کا ہماری زبان میں ترجمہ (ماشکی) کیا جاسکتاہے ان کی ایک کنیت ابوالقاسم منقول ہے۔
آپ ؑ کے القاب متعدد ہیں زیادہ ترمشہور لقب قمر بنی ہاشم ہے اوراس کی وجہ ظاہرہے کیونکہ جس طرح چاند تاریکی میں اُجالاکرتاہے اسی طرح ان کے چہرہ منور کی روشنی ظلمتوں کو رفع کردیا کرتی تھی اوران کے حسن وجمال کا اندازہ اس سے خوب ہوتاہے کہ جب آپ ؑ شہزادہ علی اکبر ؑ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرمدینہ کی گلیوں سے عبور کرتے تھے تو مدینہ کے زن ومرد اِن دوجوانوں کے جمال کے دیدار کیلئے ایک دوسرے سے سبقت کرتے تھے، آپ ؑ کا لقب بابُ الحوائج بھی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ قضائے حاجات وحل مشکلات کیلئے عقیدت مند آپ ؑ سے توسل کرتے ہیں اورآپ ؑ کی کرامات میں سے ہے کہ خد اوند کریم ان کی حاجات پوری کرتاہے اوران کی مشکلات کو دور فرماتاہے اوراسی وجہ سے عوام خواص کی زبان پران کا لقب بابُ الحوائج مشہور ہوگیا ہے، آپ ؑ کا لقب شہید بھی ہے۔۔ نیز عبد صالح بھی آپ ؑ کا لقب ہے چنانچہ آپ ؑ کی زیارت کے الفاظ سے ظاہرہے آپ ؑ کو سقّابھی کہتے ہیں جس کا معنی پانی ہارا کیاجاسکتاہے، نیز مستجاریعنی جائے پناہ بھی آپ ؑ کے القاب میں سے ہے، ان القاب کے علاوہ حضرت ابوالفضل کے اورالقاب بھی ہیں جوآپ ؑکی صفاتِ کمالیہ کے ترجمان ہیں۔
آپ ؑ نہایت خوشرو۔۔۔جسیم اور قد آورجوان تھے، آپ ؑ کا خوشرو ہونا توقمر بنی ہاشم کے لقب سے واضح ہے اورجسیم قدآورہونے کا اس بات سے خوب اندازہ ہوتاہے کہ جب فرس مطہم (بلند قامت گھوڑا ) پرسوارہوتے اوررکابوں سے پائوں باہر کرتے تو آپ ؑ کے قدم مبارک کا زمین بوسہ لیتی تھی، آپ ؑ امام پاک کی فوج ظفر موج کے علمبردارتھے اوربعض کتب سے منقول ہے کہ آپ ؑ جب رکاب میں پائوں ڈالتے تھے توزانومبارک گھوڑے کی گردن کو چھپادیتے تھے، آپ ؑکا چہرہ مظہرجمال اور رُعب مظہر جلالِ الٰہی تھا، اولاد حضرت امیر ؑ میں حضرت امام حسین ؑ کے بعد شجاعت وشہامت میں آپ ؑ کی نظیر کوئی نہ تھا، نیز حسنین شریفین کے بعد علم وفضل، یقین ومعرفت، زہدوتقوی اوردیگر کمالاتِ نفسیہ میں یہ اپنی مثال آپ تھے، زیارتِ ناحیہ مقد سہ میں آپ ؑ کی پرخلوص خدمات اوروفاداری وجانبازی کا جن الفاظ سے تذکرہ کیا گیا ہے وہ صرف آپ ؑہی کا حصہ ہے، امام زین العابدین ؑ سے منقول ہے کہ جنت میں حضرت ابوالفضل عباس ؑ کو دوپَر عطاہوئے ہیں کہ فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت جعفر طیار کو عطا ہوئے ہیں، نیز فرمایا کہ حضرت عباس ؑ کی اللہ کے نزدیک جو قدر ومنزلت ہے قیامت کے روز تمام شہدأ اس پر رشک کریں گے۔
علامہ محمد باقر بیر جندی سے کبریت احمر ج۲ ص۴۵ سے منقول ہے کہ حضرت عباس ؑ اکابرِ فقہا اور افاضل اہل بیت سے تھے بلکہ وہ عالم غیر معلّم تھے اور بعض علمأ نے ذکر کیا ہے کہ معصومین سے اس طرح منقول ہے اِنَّ الْعَبَّاسَ اْبنَ عَلِیّ زُقَّ العِلْمُ زَقاً جب عالم طفولیت میں انہوں نے گہوارۂ علم و حکمت میں تربیت پائی اور فضل و دانش کی گود میں نشوونما حاصل کی تو کیوں نہ وہ ایسے مراتب جلیلۂ علمیہ اور منازلِ رفیعۂ عرفانیہ پر فائز ہوتے!
کہتے ہیں ایک جلیل القدر بزرگ ہر رات سید الشہدأ کی زیارت کو جاتے تھے لیکن حضرت عباس ؑ کی زیارت صرف شب جمعہ کیا کرتے تو رات کو مخدومہ عالم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے خواب میں فرمایا کہ تو میرے فر زند کی زیارت کو کم کم کیوں جاتا ہے؟ تو جواب دیا اے مخدومہ میں تو ہررات زیارت کیا کرتا ہوں مخدومہ نے فرمایا بے شک تو حسین ؑ کی زیارت کو ہر رات جاتا ہے اور وہ میرا فرزند ہے لیکن میری مراد حضرت ابوالفضل عباس ؑ ہے جس کی زیارت تو ہفتہ میں ایک دفعہ کرتاہے۔
مشہور یہ ہے کہ حضرت عباس ؑ کی زوجہ جناب لبابہ خاتون عبداللہ بن عباس کی شہزادی تھی اوراس کے شکم مبارک سے حضرت عباس ؑ کے دوفرزند تھے ایک کا نام فضل اوردوسرے کا نام عبیداللہ تھا اورحضرت عباس ؑ کی نسل عبیداللہ سے آگے بڑھی ہے، چنانچہ انکی نسل سے ایک شخص حِلّہ کے نزدیک مدفون ہے جس کا نام ابوالعلی حمزہ بن قاسم بن علی بن حمزہ بن عبیداللہ بن عباس بن علی بن ابیطالب ہے، یہ شخص نہایت جلیل القدر تھا اس کی قبر زیارت گاہ ہے اوراس پرایک گنبدبھی بناہوا ہے، ابن شہر آشوب سے حضرت عباس ؑ کا ایک فرزند محمد نامی بھی منقول ہے جوروزعاشور کربلا میں شہید ہوا، بعض کتب میں ہے کہ آپ ؑ کا ایک فرزند حسن نامی تھا جس کی ماں امّ ولد تھی۔