علمائے رِجال نے ذکر کیا ہے کہ یہ بزرگوار جناب رسالتمآب کی صحابیت کا شرف
بھی رکھتے تھے اور کربلا میں ان کے ساتھ ان کا چچازاد ربیعہ بن خوط بھی آیا تھا
اور وہ بھی صحابی رسول تھا۔۔ چنانچہ بعد میں اس کا ذکر بھی آجائے گا۔۔ یہ بزرگوار
حضرت امیر ؑ کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔
’’منتخب
طریحی‘‘ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسالتمآبؐ جماعت صحابہ کے ہمراہ ایک جگہ
سے گزر فرما رہے تھے کہ چند لڑکے وہاں کھیل میں مشغول تھے حضورؐ نے لڑکوں میں سے
ایک لڑکے کو پکڑ لیا اور اس کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
بوسہ دینے میں مشغول ہوئے اور اس پُر کمال شفقت و مہربانی کا برتائو کیا کہ صحابہ
نے عرض کیا آقا! اس محبت و مہربانی کی کیا وجہ ہے؟ جو اِن بچوں میں سے صرف اس ایک
بچے سے کی گئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا میں نے اسے دیکھا کہ ایک روز میرے شہزادہ امام
حسین ؑ کے ہمراہ جا رہا تھا اور حسین ؑ کے قدموں کی خاک اٹھا کر اپنے منہ پر مَلتا
تھا اسی لئے اس کی محبت میرے دل میں ہے اور جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ بچہ
واقعہ کربلا میں ہو گا اور حسین ؑ کا مددگار ہو گا اور یہ بچہ حبیب ابن مظاہر تھا۔
حبیب کی صحابیت بتلاتی ہے کہ جناب رسالتمآب کی صحبت کا شرف انہوں نے بلوغ
کے بعد حاصل کیا ہے کیونکہ بچپنے کی محبت چنداں فائدہ نہیں رکھتی۔۔۔ اور واقعہ
کربلا میں حبیب کی عمر ۷۵ برس کی تھی اور
واقعہ کربلا ۶۰ ہجری میں ہوا۔۔۔
گویا بوقت ہجرت حبیب ۱۵ برس کے تھے، اور
امام حسین ؑ کی ولادت ہجرت کے بعد ہوئی تو اس سے معلوم ہوا کہ حبیب حضرت امام حسین
ؑ سے ۱۸ برس بڑے تھے کیونکہ امام حسین ؑ کی شہادت کے
وقت عمر ۵۷ برس تھی۔
تو اس لحاظ سے حضرت حبیب کو امام حسین ؑ کا ہم عمر کہنا بھی غلط ہو گا، اسی
طرح روایات مذکورہ میں حضرت رسالتمآب کا ایک بچے سے پیار کرنا اور وجہ یہ بیان
کرنا کہ میرے فرزند حسین ؑ کے قدموں کی خاک منہ پر مَلتا ہے حالانکہ کم ازکم امام
حسین ؑ کی عمر اس وقت چار یا پانچ برس کی ہو گی تو حبیب کی عمر اس وقت ۲۲یا ۲۳ برس کی ہو گی۔۔ پھر
اس عمر کے نوجوان کے متعلق یہ کہنا کہ بچے کھیل رہے تھے اور حضرتؐ نے ایک بچے کو
پکڑ کر اس کی پیشانی کا بوسہ لیا وغیرہ بعید سا معلوم ہوتا ہے۔
لیکن یہ بات تعجب خیز اس لئے نہیں کہ حضورؐ کے مقابلہ میں تو ایسی عمر کے
نوجوان بچے تھے بلکہ آج کل بھی بڑے بوڑھے لوگ ۲۰ یا ۲۵ برس کے نوجوانوں کو
لڑکے اور بچے کے لفظوں سے ہی تعبیر کیا کرتے ہیں۔۔ اور رسولؐ جو ساری امت کے لئے
باپ کی حیثیت سے ہیں ان کے سامنے تو سفید ریش بھی بچہ کہلانے کے قابل ہیں چہ
جائیکہ نوجوان۔۔۔ لہذا ممکن ہے کہ محبت کے اظہار کے لئے حضور ؐ نے حبیب کی پیشانی
پر بوسہ دیا ہو۔۔۔ واللہ اعلم ۔
فضائلِ حبیب
’’رجالِ
کشی‘‘ سے منقول ہے کہ ایک دن حضرت میثم تمّار گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہے تھے کہ
مجلس بنی اسد کے قریب حضرت حبیب سامنے آتے ہوئے مل گئے پس باتوں میں مشغول ہو گئے
اور ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہوئے کہ گھوڑوں کی گردنیں آپس میں مل گئیں۔
حبیب نے کہا میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں جس سر کے سامنے کے بال گِر چکے
ہیں۔۔۔ خربوزہ اور خرما فروخت کرتا ہے۔۔ اس کو سولی پر لٹکایا جائے گا اور اس کے
پہلو پر نیزہ مارا جائے گا، مقصد یہ تھا کہ اے میثم تجھ سے یہ سلوک ہو گا!
تو میثم نے جواب میں کہا کہ میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں جس کی داڑھی سرخ
ہے اور اس کے سر پر دو گیسو ہیں وہ فرزند رسول کی مدد کے لئے جائے گا اور شہید ہو
گا اور اس کا سر کوفہ کے بازاروں اور کوچوں میں پھرایا جائے گا۔۔ یہ کہہ سن کر ایک
دوسرے سے جدا ہو گئے!
جن لوگوں نے ان کی باتیں سنیں ۔۔ آپس میں کہنے لگے معاذا للہ۔۔ ان دو
شخصوں سے زیادہ دروغ گو ہم نے کوئی نہیں دیکھا۔۔۔ اتنے میں وہاں رشید ہجری آپہنچے
جو اُن دونوں کو تلاش کر رہے تھے، جب اس نے لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں
نے جواب دیا کہ ابھی دونوں اسی مقام پر موجود تھے اور اس اس طرح کی ایک دوسرے سے
باتیں کر رہے تھے۔۔ رشید نے کہا کہ خدا میرے بھائی میثم پر رحم کرے کہ اس نے پوری
بات نہیں کہی کہ جب حبیب کے سر کو کوفہ میں لائیں گے تو اس کا انعام دوسروں کی بہ
نسبت ایک سو درہم زیادہ ہو گا۔
سننے والے کہنے لگے یہ شخص ان دونوں سے زیادہ دروغ گو ہے ۔۔۔ راوی کہتا ہے
کہ ابھی بہت زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ میثم کوسولی پرلٹکادیاگیا اورحبیب کے
سرکو کوفہ میں پھرایاگیا اورجوکچھ انھوں نے کہاتھا سب و اقع ہوا۔
یہ حبیب واقعی ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے نصرتِ حق کے لئے لوہے کی چٹانوں
سے ٹکرلی اوراپنی بلندحوصلگی سے ان کوپاش پاش کرکے رکھ دیا۔۔ تیروتبر اورنیزہ
وتلوارکو سینہ پر کھا کر آوازحق کواس طرح بلند کیا کہ قیامت تک وہ دَب نہ سکے گی،
ثبات قدم اورخوداری کی وہ زندہ مثال قائم کی جسے مرورِزمانہ کہنہ نہ کر سکے گا۔
اس کے سامنے مال پیش کیا گیا۔۔ زروجواہر کی تقدیم کی گئی۔۔ جاگیروں کا لالچ
دیا گیا اورعہدوں کی پیش کش ہوئی لیکن سب کو پائے تحقیر سے ٹھکرادیا اورحق کا ساتھ
نہ چھوڑا۔۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہم بروزمحشر خدا اور رسول کے سامنے کیا جواب دیں گے؟
جب فرزندرسول کوتنہا چھوڑ دیں؟ خداکی قسم ہم جب تک زندہ ہیں اورہماری پلکوں میں
آنکھ متحرک ہے ہم حسین ؑ کی نصرت سے ہاتھ نہ اُٹھائیں گے۔
کشّی سے منقول ہے کہ روز عاشور حبیب بن مظاہر جب خیمہ سے باہر تشریف لائے
تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔۔ بریربن خضیر جو سید القرا ٔ تھے کہنے لگے
اے حبیب! یہ ہنسنے کا مقام نہیں ہے، حبیب نے جواب دیا اس سے زیادہ خوشی کے لئے
زیادہ موزوں ترین وقت اور کونسا ہو گا؟ کہ خدا کی قسم ہمارے حوروں کے ساتھ معانقہ
کرنے کے لئے درمیان صرف ایک حملہ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔
’’اعیان
الشیعہ‘‘ سے منقول ہے کہ ان کی کنیت ابوالقاسم تھی اور بوقت شہادت ان کی عمر ۷۵ برس تھی اور حافظ قرآن بھی تھے اور نماز عشا کے بعد طلوع فجر
تک ہر شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے اور حضرت امیر ؑ کی تمام جنگوں میں شمولیت کا
شرف ان کو حاصل تھا اور حضرت امیر ؑ کے خواص میں سے تھے اور علومِ شاہِ ولایت کے
حامل تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ (۱)عمرو بن
حمق خزاعی (۲)محمد بن ابی بکر (۳)میثم بن یحییٰ التمار (۴)رشید
ہجری (۵)حبیب بن مظاہر اسدی (۶)اویس قرنی ۔۔ یہ لوگ حضرت علی ؑ کے بلند پایہ شاگردوں میں سے
تھے اور علم و عرفان کے بلند ترین منازل پر فائز تھے، انکے علاوہ بھی آپ ؑ کے
وفادار صحابہ کافی ہیں جیسے مالک اشترو کمیل وغیرہ لیکن سب میں سے ان کا پایہ بہت
بلند ہے۔
’’روضۃ
الشہدا ٔ ‘‘سے مروی ہے کہ حبیب کو خدمت نبوی کا شرف بھی حاصل تھا اور آپؐ سے
انہوں نے حدیثیں بھی سماعت کی تھیں۔۔ اور حضرت علی ؑ ان کی بہت عزت و احترام
فرماتے تھے۔
آماد گی حبیب برا ئے کربلا
حبیب کا شمار ان لوگوں میں ہے جنہوں نے سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع
ہو کر امام حسین ؑ کی طرف دعوت نامے لکھے تھے۔۔ پس حضرت امیر مسلم کوفہ میں وارد
ہوئے تو مختار کے گھر میں گرد و نواح سے شیعہ جمع ہوئے اور بیعت کی۔۔۔ عابس بن ابی
شبیب شاکری نے کھڑے ہو کر ایک مختصر اور جامع تقریر کی:
چنانچہ حمد و ثنائے پروردگار کے بعد حضرت مسلم کی طرف متوجہ ہوکر عرض کیا
کہ میں لوگوں کے ضمیر کے متعلق کچھ نہیں کہتا حالانکہ میں ان کی نیّتوں سے واقف
ہوں میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ آپ کو دھوکے میں ڈالوں۔۔۔ ہاں اپنی نیت اور
اپنے دل کی بات کہتا ہوں کہ خدا کی قسم میں نے اپنے نفس کو اس بات پر آمادہ کیا
ہے کہ جب بھی مجھے بلایا جائے حاضر ہوں گا اور آپ کے دشمن سے جہاد کروں گا اور
آپ کی نصرت میں تا دمِ مرگ تلوار چلائوں گا۔
پس حبیب اُٹھ کھڑے ہوئے اور بایں الفاظ عابس
کے قول کی تائید فرمائی:
اے عابس! خدا کی تیرے اوپر رحمت ہو
تو نے خوب بات کہی اور میرا بھی یہی ایمان ہے اور بخدا میں بہ دل و جان تیری بات
کی تائید کرتا ہوں۔
آقائے شیخ ذبیح محلاتی فرماتے ہیں کہ میں نے کتب متاخرین میں سے کسی کتاب
میں دیکھا ہے جس کا نام ٹھیک طور پر مجھے یاد نہیں کہ جب حضرت امام حسین ؑ زمین
کربلا میں پہنچے تو ایک خط حضرت محمد بن حنفیہ کو تحریر فرمایا اور ایک خط تمام
اہل کوفہ کے نام روانہ کیا اور ایک خط بالخصوص حبیب کی طرف رقم فرمایا جس کا مضمون
یہ تھا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مِنَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی اِلٰی الرّجُلِ الْفَقِیْہِ حَبِیْبِ ابْن مُظَاہِرِ
الْاَسَدِیْ۔۔۔ اَمَّا بَعْدُ فَقَدْ نَزَلْنَا کربَلا وَ اَنْتَ تَعْلَمُ
قَرَابَتِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاِنْ اَرَدْتَ نُصْرَتَنَا فَاَقْدِمْ
اِلَیْنَا عَاجِلاً۔
یہ خط حسین بن علی ؑ کی طرف سے مردِ فقیہ حبیب ابن مظاہر اسدی کی طرف ہے ۔۔
اما بعد اے حبیب! ہم کربلا میں پہنچ چکے
ہیں اور تم رسول پاک سے میری قرابت کو جانتے ہو اگر تم ہماری نصرت کا ارادہ رکھتے
ہو تو فوراً پہنچ جائیے۔
گلیوں۔۔ کوچوں پر پہرہ دار مقرر تھے اور سلسلہ رسل و رسائل پر کڑی پابندی
عائد تھی۔۔ نہ معلوم یہ خط حبیب کو کیسے پہنچا؟ بہر کیف قاصد کسی نہ کسی طریقہ سے
حبیب کے دروازہ پر عین اس وقت پہنچا جب کہ حبیب ۔۔ ابن زیاد کے خوف سے اپنے قبیلہ
میں پوشیدہ طور پر زندگی گزار رہا تھا اور اس وقت اپنی زوجہ کے ہمراہ صبح کا کھانا
کھا رہا تھا۔۔ ایک لقمہ حبیب کی زوجہ کے گلوگیر ہوا تو کہنے لگی ابھی ہمارے پاس
کوئی نہ کوئی نئی خبر پہنچنے والی ہے۔۔ چنانچہ قاصد نے پہنچ کر خط پیش کیا۔۔۔۔
حبیب نے پڑھا اور خط کو جیب میں رکھا، زوجہ نے دریافت کیاکہ یہ خط کس نوعیت کا ہے؟
تو حبیب نے جواب دیا حضرت حسین ؑ مجھے اپنی نصرت کے لئے بلا رہے ہیں۔۔ ابھی زیادہ
دیر نہ گزری تھی کہ حبیب کے قبیلہ کو خط کے مضمون کی نوعیت کا علم ہو گیا اور وہ
فوراً پہنچ گئے اور حبیب سے دل کا راز دریافت کرنے لگے کہ آیا نصرت حسین ؑ کے لئے
جانا ہے یا نہیں؟ حبیب نے ان کو تسلی دی کہ میں ایک بوڑھا مرد ہوں اب میں کس کام
کا ہوں؟
جب قبیلہ والوں کو تسلی ہو گئی تو اپنے اپنے کام کاج کے لئے چلے گئے۔۔ زوجہ
حبیب نے دریافت کیا اے حبیب! فرزند رسول تجھے اپنی نصرت کے لئے طلب کر رہا ہے اور
تو جانے سے پس وپیش کر رہا ہے؟ کل بروز قیامت جناب رسالتمآبؐ کے سامنے کیا جواب
دے گا؟ اس وقت حبیب نے اپنی عورت کے سامنے بھی تقیہ کیا اور فرمایا اگر میں کربلا
چلا جائوں تو ابن زیاد میرے گھر کو خراب کر دے گا اور میرا مال و اسباب لوٹ لے گا
اور تجھے قید کرے گا ! تو یہ سنتے ہی زوجہ
حبیب نے نہایت جرأت مندانہ جواب دیا کہ اے حبیب! تو فرزند رسول کی مدد کے لئے جا
۔۔ میرا گھر خراب ہو۔۔ اسباب لوٹ لیا جائے۔۔ اور مجھے قید کر لیا جائے۔۔ مجھے یہ
سب کچھ منظور ہے، اے حبیب خوفِ خدا کرو۔۔ کیا سچ مچ تو نبی زادی کے فرزند کی مدد
کے لئے نہیں جائے گا؟ حالانکہ وہ تجھے اپنی نصرت کے لئے بلا رہے ہیں!
حبیب نے پھر احتیاط سے کام لیتے ہوئے جواب دیا اے عورت تو دیکھتی نہیں کہ
میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔۔ اب مجھ میں دشمن کا مقابلہ کرنے۔۔ حملہ کرنے اورتلوار
چلانے کی طاقت نہیں رہی۔۔ جب یہ سنا تو وہ نیک بخت عورت غم و غصہ سے پُر ہو گئی
اور زبان سے بول نہ سکتی تھی، روتی ہوئی اور آنسو بہاتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ
کھڑی ہوئی اور اپنے سر سے برقعہ اُتار کر حبیب کے سر پر ڈال دیا اور کہنے لگی بے
شک نہیں جاتا تیری مرضی۔۔ اب عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھا رَہ اور پھر ایک جلے
ہوئے دل سے ایک دردناک بین کیا اور کہا:
اے حسین ؑ کاش میں مرد ہوتی تو حاضر خدمت ہو کر تیرے قدموں میں جان فدا
کرتی۔
حبیب نے جب یہ دلخراش منظر دیکھا اور اپنی زوجہ کا ایمان اخلاص کی کسوٹی پر
پرکھ لیا تو طبیعت میں اطمینان پیدا ہوا اور فرمایا تو خاموش رَہ۔۔ میں تیرے دل کو
روشن کروں گا اور اپنی ریش سفید کو نصرتِ حسین ؑ میں اپنے سر کے خون سے خضاب کروں
گا۔۔۔ پس گھر سے باہر نکلے تاکہ کوفہ سے بھاگنے کی کوئی تدبیر میسر آ جائے۔۔۔۔۔
دیکھا لوہاروں کا بازار بڑا گرم ہے، معلوم ہوا کہ ابن زیاد کے لشکری اپنے نیزوں کے
پھل تیز کر رہے ہیں۔۔ تیروں کو زہر میں بجھا رہے ہیں تلواروں کو صیقل کرا رہے ہیں
اور گھوڑوں کی نعل بندی کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ فرزند رسول کے قتل کا سامان ہو
رہا ہے۔۔ حبیب کے دل سے سرد آہ نکلی!
ادھر دیکھا مسلم بن عوسجہ ایک دوکان سے مہندی خرید رہے تھے (اس نے بازار کی
چہل پہل کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ فرزند رسول کے قتل
کے لئے ہو رہا ہے۔۔ لوگ ہتھیار خرید رہے ہیں کہ فرزند رسول کو قتل کریں۔۔۔ پس
مہندی کو فرش بازار پر پھینک دیا اور داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا اب اسے نصرت
حسین ؑ میں اپنے سر کے خون سے ہی خضاب کروں گا) پس دونوں نے کوفہ سے بھاگنے کا قصد
کر لیا۔
حبیب نے اپنے غلام کو بلایا اور گھوڑا اس کے حوالے کیا اور تلوار بھی دی کہ
اس کو اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا کر لے جا اور اس کو ہدایت کی کہ فلاں راستہ سے گزر
کر فلاں جگہ پر میرا انتظار کرنا۔۔۔ اور اگر کوئی پوچھے بھی تو کہنا کہ فلاں کھیتی
کی دیکھ بھال کے لئے جا رہا ہوں۔۔ پس غلام حبیب نے اپنے آقا کی فرمائش پر عمل
کیا۔
حبیب غیر معروف طریقہ سے روانہ ہوئے لیکن ان کو وہاں تک پہنچتے پہنچتے کافی
دیر ہو گئی۔۔۔ کیونکہ پہرہ شدت کا تھا اور چھپ کر جانا تھا۔۔۔ جب غلام نے دیکھا کہ
حبیب نے بڑی دیر کر دی ہے وہ سمجھا کہ شاید ان کا ارادہ بدل گیا ہے یا کوئی رکاوٹ
پیدا ہو گئی ہے گھوڑے کی طرف مخاطب ہو کر کہنے گا۔۔ اے گھوڑا اگر آقا تشریف نہ
لائے تو میں خود تیری پشت پر سوار ہو کر نصرتِ حسین ؑ کے لئے کربلا جائوں گا۔۔۔
گھوڑا سر جھکائے غمزدو حالت میں غلام کی یہ باتیں سن رہا تھا، اتنے میں حبیب پہنچا
اور غلام کے کلمات حبیب کے کانوں میں پہنچے تو جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور
آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کرتے ہوئے کہا۔۔ اے حسین ؑ! میرے ماں باپ تجھ پر قربان
ہو جائیں۔۔ کنیز زادے تیری نصرت کے لئے بے چین ہیں۔۔ لیکن افسوس اُن آزاد مردوں
پر جو تیری نصرت سے گریز کرتے ہیں!
ورود حبیب د ر کربلا
پس گھوڑے پر سوار ہوئے اور غلام سے کہا کہ میں نے تجھے راہِ خدا میں آزاد
کیا ہے جس طرف تیری مرضی ہو چلا جا۔۔۔ غلام یہ سن کر حبیب کے قدموں پر گر پڑا اور
عرض کیا کہ اے آقا! مجھے اس سعادت سے
محروم نہ فرمائیے مجھے بھی اپنے ہمرکاب لے جائیے تاکہ اپنی جان حسین ؑ پر قربان
کروں۔۔۔۔ پس حبیب نے غلام کی درخواست کو منظور کیا اور اسے اپنے پیچھے سوار کر لیا
اور کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔
جب حبیب پہنچے تو حضرت امام حسین ؑ کے تمام صحابہ نے بڑھ کر نہایت گرم جوشی
سے حبیب کا استقبال کیا اُدھر خیمہ گاہ میں بھی خبر پہنچی تو عُلیا مخدرہ جناب
زینب ؑ نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے کہ تمام صحابہ ایک جگہ جمع ہو گئے؟ تو عرض کیا
گیا کہ حبیب آپ ؑ کی نصرت کے لئے پہنچا ہے۔۔ بی بیؑ نے فرمایا میرے سلام حبیب کو
پہنچادو۔۔ جب حبیب کو بی بیؑ عالیہ کا سلام پہنچا تو ایک مٹھی بھر خاک لے کر اپنے
سر میں ڈالی اور کہنے لگے۔۔ ہائے میں کجا اور امیر عرب کی بڑی شہزادی کجا کہ مجھے
سلام بھیج رہی ہے!
’’بحارالانوار‘‘
وغیرہ سے منقول ہے کہ جب حبیب نے امام حسین ؑ کی تھوڑی فوج دیکھی تو عرض کیا آقا!
یہاں نزدیک ہمارے قبیلہ کے لوگ آباد ہیں اگر آپ ؑ اجازت مرحمت فرمائیں تو میں آپ
ؑ کی نصرت کے لئے دعوت دوں۔۔ حضرت ؑ نے اجازت دی، چنانچہ حبیب اپنی ہیئت تبدیل کر
کے وہاں پہنچا۔۔ چونکہ وہ ان کو پہنچانتے تھے اور اپنا بزرگ سمجھتے تھے پس انہوں
نے ان کا کافی احترام کیا اور تشریف آوری کی وجہ دریافت کی۔۔۔ تو حبیب نے جواب
دیا کہ میں تمہارے پاس ایک ایسی بہتر چیز لایا ہوں کہ کبھی کوئی شخص اپنی قوم کے
پاس اس سے بہتر چیز نہ لایا ہو گا، میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ تم لوگوں کو فرزند
رسول کی نصرت کی دعوت دوں کہ ان کے ہمراہ چند ایماندار لوگ ہیں ان کا ایک۔۔ ہزاروں
سے بہتر ہے اور وہ فرزند رسول کی نصرت سے قطعاً دست بردار نہ ہوں گے۔
دوسری طرف عمر بن سعد نے ایک لشکر کثیر کے ساتھ ان کا محاصرہ کیا ہوا ہے تم
چونکہ میری قوم ہو لہذا تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ فرزند رسول کی مدد کے لئے تیار ہو
جائو تاکہ تمہارے لئے دین و دنیا کے شرف کا باعث ہو۔۔ اور میں قسم سے کہتا ہوں کہ
تم میں سے جو بھی حسین ؑ کے ہمرکاب ہو کر شہید ہو گا جنت عدن میں جناب رسالتمآب
کی صحبت اُسے نصیب ہو گی۔
جب انہوں نے حبیب کی پیشکش سنی تو لبیک کہی اور سب سے پہلے عبداللہ بن بشر
نامی ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ پہلا شخص میں ہوں جو اس دعوت پر لبیک کہنے کو تیار
ہوں۔۔۔۔ پھر یکے بعد دیگرے لوگ اُٹھے اور نوے (۹۰) تک تعداد پہنچ گئی، آلاتِ حرب آراستہ کر کے روانہ ہوئے،اسی
قبیلہ میں سے ایک منافق نے ابن سعد تک خبر پہنچا دی، اس ملعون نے ارزق کو چارسو
سپاہ کی فوج دے کر مقابلہ کے لئے روانہ کیا۔۔ راستہ میں ان کے درمیان ایک سخت جھڑپ
ہوئی بنی اسد تابِ مقابلہ نہ لاتے ہوئے پسا ہو گئے اور عمر سعد کے خوف سے راتوں
رات اپنے خیمے وہاں سے اکھیڑ کر کسی دوسری طرف چلے گئے، حبیب نے واپس خدمت امام
علیہ السلام میں پہنچ کر ساری داستان بیان کی، امام نے فرمایا: لا حَوْلَ وَلا قُوّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
عمر بن سعد نے ابن زیاد کا پیغام سنانے اور جواب حاصل کرنے کے لئے امام
حسین ؑ کی طرف قرہ بن قیس حنظلی کو روانہ کیا جب وہ قریب آیا تو امام ؑ نے حبیب
سے فرمایا کہ کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو؟ حبیب نے جواب دیا اے فرزند رسول یہ قرہ
بن قیس حنظلی ہے۔۔ یہ شخص ہمارا خواہر زادہ ہے۔۔ یہ شخص نیک طینت اور نیک خصال تھا
اور مجھے خیال تک نہ تھا کہ اس شیطانی لشکر میں یہ داخل ہو گا۔۔ خلاصہ یہ کہ جب اس
نے پیغام پہنچایا اور جواب لے کر واپس پلٹنا چاہا تو حبیب نے فرمایا وائے تم پر ۔۔
اے قرہ! کہاں جاتا ہے اس ظالم قوم کا ساتھ چھوڑ دے اور فرزند رسول کی نصرت میں
داخل ہو جا۔۔۔ جس کے باپ۔۔نانا کی بدولت تجھے ہدایت ملی ہے، لیکن اس بدبخت نے جواب
دیا میں پیغام کا جواب پہنچا کر غور کروں گا۔۔۔۔ پس اس بدبخت نے بہشت سے منہ پھیر
کر دوزخ کا رُخ کیا اور توفیق توبہ نہ پا سکا۔
جب امام حسین ؑ نے خطبہ پڑھا تو شمر نے آواز دی کہ اگر میں نے آپ ؑ کی
کوئی بات سمجھی ہو تو خدا کی عبادت شک وشبہ سے کی ہو۔۔ فوراً حبیب ابن مظاہر بولے
اور فرمایا خدا کی قسم تو نے بیشک شکوک و شبہات سے خدا کی عبادت کی ہے اور میں
گواہی دیتا ہوں کہ تو نے یہ بات سچ کہی ہے کیونکہ خدا نے تیرے سیاہ دل پر اپنے غضب
کی مہر لگا دی ہے اور تیرا دل قہرِ خدا کے پردہ میں مغمور ہے۔۔ تو کیسے امام
عالیمقام ؑ کے پاک کلام کو سمجھے؟ کیونکہ تیری حیثیت ایک عام حیوان سے زیادہ نہیں۔
جب نویں محرم کی عصر کو حضرت عباس ؑ بفرمان امام ؑ۔۔۔ حبیب ابن مظاہر اور
زہیر قین اور دیگر چند صحابہ کو ہمراہ لے کر حالات دریافت کرنے کے لئے گئے اور
واپس اطلاع دینے کے لئے حضرت عباس ؑ آئے تو حبیب نے قوم اشقیا ٔ سے مخاطب ہو کر
کہا:
خدا کے نزدیک بروز قیامت بدترین انسان ہوں گے جو اولاد پیغمبر کے قاتل
محشور ہوں گے اور یہ ان لوگوں کے قاتل ہیں جو نماز و استغفار سے شب بیداری کرتے
ہیں۔۔۔ ایک ملعون نے جواب دیا حبیب تم اپنی مدح وثنا ہی کر رہے ہو۔۔ تو زہیر نے
پھر ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
کتب معتبرہ سے منقول ہے کہ جب شب عاشور امام ؑ اپنے ساتھیوں کو آزما چکے
تو جناب زینب عالیہ ؑ نے عرض کیا اے برادر! ان باقی ماندہ مٹھی بھر صحابہ کو آپ ؑ
نے آزما لیا ہے؟ ایسا نہ ہو کہ جب لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھیں تو یہ بھی تجھے چھوڑ
کر راہِ فرار اختیار کر جائیں؟ حضرت حسین ؑ بہن کی یہ بات سن کر رو دئیے اور
فرمایا اے ماں جائی۔۔ میں نے ان کا امتحان لے لیا ہے یہ سب کے سب شجاع اور مردِ
میدان ہیں اور میرے سامنے جان دینے کے لئے اس طرح بے تاب ہیں جس طرح بچہ ماں کے
سینے کی طرف بے تاب ہوا کرتا ہے۔
ہلال بن نافع یہ باتیں سن رہا تھا۔۔۔ عالم پریشانی میں فوراً حبیب کے خیمہ
کے دروازہ پر آیا اور آواز دی اے حبیب! دختر علی ؑ کو ہماری وفاداری پر اعتماد
نہیں ہے اور پھر سارا واقعہ دہرایا۔۔۔ حبیب نے کہا بخدا اگر اپنے مولا کے امر کی
انتظار نہ ہوتی تو ابھی تلوار لے کر ان دشمنان دین پر حملہ کر دیتا۔۔ ہلال نے کہا
اے حبیب میں نے حسین ؑ کی بہن زینب ؑ کو بہت پریشان پایا ہے اورشاید تمام بچے اور
باقی مستو رات بھی اسی طرح پریشان ہوں گے۔۔ کیا یہ ہوسکتاہے کہ تمام اصحاب کو جمع
کرکے ان کے اطمینان وتسلی کا انتظام کیا جائے؟ حبیب نے جواب دیا بہتر ہے، پس ایک
طرف حبیب اوردوسری طرف ہلال نے اصحاب کو پکارنا شروع کردیا، تمام اصحاب نے برج
خیام سے ستارہ ہائے آسمان کی طرح منہ باہر کیا تو حبیب نے بنی ہاشم کو واپس بھیج
دیااوردیگر اصحاب سے خطاب کرکے کہا:
اے غیور و۔۔۔ اے بیشہ شجاعت کے شیرو!
ہلال نے مجھے اس طرح کی ایک خبردی ہے۔۔۔ سچ سچ بتاوکہ اب تمہارا کیا ارادہ
ہے؟ تمام اصحاب نے تلوار یں برہنہ کر دیں اورعمامے سروں سے اُتار پھینکے اورکہنے
لگے اے حبیب! خداکی قسم جب تک ہمارے قبضہ میں تلوار ہے کسی کی مجال نہیں کہ ان پاک
بیبیوں کے خیام کی طرف رُخ کرے ہم وصیت پیغمبر پر اس کی ذرّیت کی حفاظت اور
پاسداری کر کے پوراپورا عمل کریں گے، حبیب نے کہا اگرایسا ہے تو پھر میرے ساتھ
آئیے۔
چنانچہ حبیب آگے آگے اوراصحاب اس کے پیچھے روانہ ہوئے اورخیام اہل بیت کے
درمیان میں کھڑے ہوگئے، حبیب نے آوازدی۔۔۔ اے حریم عصمت کی پردہ دارو۔۔اے خاندان
رسالت کی شہزادیو! یہ تمہارے غلام سب تلواریں
لے کر درِدولت پر حاضر ہیں اور قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ یہ تلواریں تمہارے
دشمنوں کی گردنوں پر چلائیں گے اوریہ تمہارے غلاموں کے نیزے موجود ہیں اورقسم سے
کہتے ہیں کہ اُن لوگوں کے سینوں میں پڑیں گے جو ان خیموں کی ہتک حرمت کا ارادہ
رکھتے ہوں، جب امام حسین ؑنے یہ آواز سنی تواہل حرم کو اطلاع دی پس تمام مستورات
کو یک گونہ تسلی ہوئی اورفرمایا اے پاک زادو!
فاطمہ زہراکی شہزادیوں کی ناموس کی حفاظت کرو اگر ذرّیت پیغمبر کی حمایت سے
کوتاہی کروگے توقیامت کے دن کیا جواب دوگے؟ راوی کہتاہے یہ سنتے ہی اصحاب اس قدر
روئے کہ گویا زمین میں زلزلہ بپاتھا۔
روزعاشور جب حبیب حضرت امام حسین ؑ کے ہمراہ مسلم بن عوسجہ کی لاش پر پہنچے
ابھی تک مسلم میں رمق جان باقی تھی، حبیب نے کہا اے مسلم! مجھے ناگوارہے کہ تجھے
اس طرح خاک وخون میں غلطان دیکھو ں۔۔۔ مسلم تجھے جنت کی بشارت ہو، مسلم نے کمزور
آواز سے جواب دیا حبیب تجھے خیر کی بشارت ہو۔۔۔ حبیب نے کہا اے مسلم مجھے معلوم
ہے کہ عنقریب میں بھی تیرے ساتھ ملحق ہونے والا ہوں ورنہ تجھے وصیت کرنے کو کہتا
اور ہر ممکن طریقہ سے اسے پورا کرتا۔۔۔ مسلم نے امام عالیمقام ؑ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے کہا کہ اے حبیب بس میری وصیت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس غریب کی مدد سے
کوتاہی نہ کرنا۔۔ حبیب نے جواب دیا انشاء اللہ پروردگار کعبہ کی قسم یہ وصیت پوری
کر کے تیری آنکھیں ٹھنڈی کروں گا۔
جب ابوثمامہ صائدی نے امام ؑ سے نماز کی درخواست کی اور امام ؑ نے اس کے حق
میں دعا کی تو حبیب نے لشکر ابن سعد کو خطاب کر کے کہا کیا تم اسلام کے احکام بھی
فراموش کر چکے ہو؟ جنگ کو روک دو تاکہ ہم نماز پڑھ لیں اور تم خود بھی نماز پڑھو،
حصین بن نمیر ملعون نے آواز بلند کی کہ اے حبیب! جو کچھ نماز پڑھنی ہے بے شک پڑھ
لو لیکن تمہاری نماز مقبول نہیں ہو گی۔۔۔ یہ سن کر حبیب طیش میں آئے اور فرمانے
لگے اے خمارہ کے بیٹے تیری نماز قبول ہو گی اور فرزند رسول کی نماز قبول نہ ہو گی؟
پس خدمت امام ؑ میں عرض کیا آقا ! ان
لوگوں کی بدکلامی برداشت نہیں ہو سکتی آپ ؑ اجازت مرحمت فرمائیں اور یہ نماز تیرے
نانا کے پیچھے کوثر کے کنارے پڑھوں گا، بعض کتب سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا اے
حبیب تو میرے نانا اور بابا کی یادگار ہے اور بہت بوڑھا ہے میں کس طرح پسند کروں
کہ تو میدان میں جائے؟ حبیب نے رو کر عرض کیا آقا! میرا دل چاہتا ہے کہ تیرے نانا کے سامنے سرخرو
پیش ہوں اور تیرے باپ اور دادا کے رُوبرو تمہارے ناصرین کی صف میں پیش ہوں۔
شہادتِ حبیب
حبیب امام حسین ؑ کی فوج کے میسرہ پر متعین تھے۔۔۔ امام ؑ سے اجازت طلب کر
کے میدان میں آئے اور اس طرف سے مقابلہ کے لئے حصین بن نمیر نکلا، حبیب نے ایک
ضربِ تلوار سے اس کی ناک اُڑا دی، وہ بد حواس ہو کر گھوڑے سے گرا حبیب نے اس کو
قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے ساتھیوں نے اُسے فوراً اٹھالیا، پس قوتِ ایمانی
سے حبیب نے فوجِ اشقیأ پر شیر کی طرح حملہ کیا اور باوجود ضعیفی اور کبرِ سنی کے ۶۲ملاعین کو دار البوار پہنچایا۔
اتنے میں بدیل بن صریم تمیمی نے نیزے کا وار کیاکہ آپ منہ کے بل گر گئے،
حصین بن نمیر جو انتقام کی انتظار میں تھااس نے فو راً موقعہ پا کر تلوار کا وار
کیا کہ حبیب اُٹھنے سے لاچار ہو گئے، پس اس تمیمی ملعون نے گھوڑے سے اُتر کر حبیب
کا سرتن سے جدا کر لیا۔
حصین بن نمیر نے کہا کہ یہ سر مجھے دے دو کہ اس کو میں نے قتل کیا ہے۔۔
لیکن تمیمی نے انعام کے لالچ سے حبیب کا سر حصین کو دینے سے انکار کر دیا، حصین نے
کہا کہ کچھ دیر کے لئے حبیب کا سر مجھے دے تا کہ میں اس کو گھوڑے کی گردن میں
باندھ کر فوج میں ایک چکر لگا ئوں پھر انعام کے موقعہ پر تجھے دے دوں گا، وہ تمیمی
اس بات پر رضا مند ہو گیا اور حصین نے حبیب کے سر کو گھوڑے کی گردن سے باندھ کر
تمام فوج میں پھرایا تا کہ سب لوگ جان لیں کہ یہ حبیب کا قاتل ہے اس کے بعد وہ سر
تمیمی کو واپس کر دیا۔
بعض عبارتوں میں ہے: بِاَنَّ الْاِ
نْکِسَارُ فِیْ وَجْہِ الْحُسَیْنِ مِنْ
قَتْلِ الْحَبِیْبِ حبیب کے قتل ہونے سے حسین ؑ کے چہرہ میں پژمردگی کے آثار
نمایاں ہو گئے اور فرمایا حبیب خدا تجھے جزائے خیر دے تو وہ فاضل شخص تھا کہ ہر
رات ختم قرآن کیا کرتا تھا۔
ا نتقا مِ فرزندِ حبیب
’’تاریخ
طبری‘‘ میں ہے کہ وہ مرد تمیمی ملعون حبیب کے سر کو کوفہ میں لایاتو حبیب کے فرزند
قاسم بن حبیب جو قریب البلوغ تھا اس نے اپنے باپ کا سر پہچان لیا اور اس تمیمی کے
پیچھے پیچھے دار الامارہ کی طرف روانہ ہو ا، تمیمی نے قاسم سے ساتھ آنے کی وجہ
پوچھی؟ تو قاسم نے کہا کہ یہ میرے بابا کا سر ہے۔۔ مجھے دے دو تاکہ میں اس کو دفن
کروں، اس ملعون نے جواب دیا کہ اس طرح ابن زیاد راضی نہ ہو گااور مجھے انعام بھی
نہ مل سکے گا، پس قاسم با آواز بلند رویا اور کہا اے ملعون! تو نے اُس شخص کو قتل
کیا ہے جو تجھ سے بہتر تھا خدا تجھے سخت ترین عذاب میں مبتلا کر دے۔
قاسم نے دل میں اپنے باپ کے قاتل سے انتقام لینے کا عہد کر لیا اور ہمیشہ
اسی جستجو میں رہتا تھا کہ موقعہ ملے لیکن یہ موقعہ دستیاب نہ ہو سکا۔۔۔ حتی کہ جب
مصعب بن زبیر کا زمانہ آیا تو قاسم نے اس تمیمی ملعون کو دوپہر کے وقت اپنے خیمہ
میں تنہا بیٹھا ہو ا دیکھا پس ایک ہی حملہ سے اُسے واصل جہنم کر کے دم لیا۔
قصّہ لطیفہ
علامہ نوری سے ’’دار السلام‘‘ میںمنقول ہے کہ مر حوم شیخ جعفر شوشتری نے
بیان کیا میں نجف اشرف سے علوم دینیہ کی تحصیل کر کے جب وطن مالوف پہنچا تو سلسلہ
تبلیغ کو جاری کیا لیکن فن تبلیغ و مصائب میں مہارت نہ تھی، اس لئے ماہِ مبارک
رمضان میں اور بالعموم جمعہ کے دن منبر پر جا کر تفسیر صافی سے پڑھا کرتا تھا اور
ایام محرم میں روضۃ الشہدأ کو سامنے رکھ کر پڑھتا تھا لیکن کما حقہٗ نہ تبلیغ میں
موثر انداز تھا اور نہ گریہ میں کامیابی تھی کئی سال اسی طرح گزر گئے، ماہ محرم
نزدیک آیا تو دل میں خیال کیا کہ بیان کی کامیابی کیلئے کچھ اختیارکیا جائے لیکن
کوئی علاج نہ سوجھا پس اسی پریشان کے عالم میں نیند غالب آگئی تو اپنے آپ کو
زمین کر بلا میں پایا جب کہ امام حسین ؑ تازہ وار دکربلاہوئے ایک طرف خیام امام ؑ
نصب تھے اور دوسری جانب خیام اشقیا ٔ تھے، خدمت اقدس امام علیہ السلام میں پہنچ کر
سلام عرض کیا حضور نے مجھے اپنے قریب جگہ دی اور میرے ساتھ کمال شفقت کا مظاہرہ
فرمایا پھر حبیب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے حبیب! شیخ جعفر ہمارا تازہ نو
وارد مہمان ہے ہمارے پاس پانی تو نہیں کچھ ستُّو مہمان کے سامنے پیش کرو حبیب نے
حکم امام ؑ کی تعمیل میں میرے سامنے ستُّور کھے اور قاشق بھی دی چنانچہ چند قاشق
تناول کئے اور خواب سے بیدار ہو گیا پس اس طعام کی برکت سے اخبارِ مصائب کے ایسے
اشارات، لطائف اور کنایا ت پر مجھے اطلاع ہوئی کہ مجھ سے پہلے کسی نے سبقت نہ کی
تھی اور روز بروز ترقی ہوتی گئی اور اپنے مقصد پر آخر کار کامیاب ہو گیا۔
ملخصاً۔۔۔ نیز ایک برزگ نے حضرت حبیب کو محلات جنت میں غم گین دیکھا وجہ
پوچھی تو جواب دیاایک حسرت دل میں باقی ہے اور وہ یہ کہ دل چاہتا ہے ایک دفعہ دنیا
میںجا کر حضرت حسین علیہ السلام کے رونے والوں میں داخل ہو جائوں تاکہ عزاداری کا
شرف حاصل کر لوں۔