٭ عَنْ
مُسْنَدِ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَل عَنْ اَبِیْ سَعِیْد الْخدْرِیْ قَالَ۔۔۔ قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ
تَضِلُّوْا بَعْدِیْ الثَّقَلَیْنِ اَحَدُھُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْآخِرِ کِتٰبُ
اللّٰہِ حَبْلٌ مَّمْدُوْدٌ مِّنَ السَّمَائِ اِلٰی الْاَرْضِ وَ عِتْرَتِیْ
اَھْلُبَیْتِیْ وَ اِنَّھُمَا لَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضِ۔
ترجمہ: مسند احمد ابن حنبل سے بروایت ابو سعید
خدری منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا:
میں نے تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر ان
سے تمسک رکھو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے، وہ ثقلین (گرانقدر چیزیں) ہیں، ایک چیز
دوسری سے بزرگ تر ہے۔۔۔ کتاب اللہ جو آسمان سے زمین تک لمبی رسی ہے اور میری عترت
اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر
دونوں میرے اوپر وارد ہوں گے۔
٭ عَنْ
صَحِیْحِ الْمُسْلِمِ عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَم فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ قَال
رَسُوْلُ اللّٰہِ مَالَفْظہٗ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ
اَوَّلُھُمَاکِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ النُّوْرُفَخُذُوْا بِکِتَابَ اللّٰہِ
وَاسْتَمْسِکُوْا بِہٖ۔
ترجمہ: صحیح مسلم سے بروایت زید ابن ارقم ایک
طولانی حدیث میں جناب رسالتمآبؐ سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں تم میں
دو بھاری چیزیں چھوڑے جاتا ہوں پہلی ان دونوں میں سے اللہ کی کتاب جس میں نور
(ہدایت ) ہے۔۔۔ پس اللہ کی کتاب لو اور اس سے تمسک پکڑو۔
اِلٰی اَنْ قَالَ وَ اَھْلُبَیْتِیْ۔۔۔
اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَھْلَبَیْتِیْ فَقَالَ حَصِیْن وَمَنْ
اَھْلُبَیْتِہٖ؟ فَقَالَ لَیْسَ نِسَائُ ہُ اَھْلُبَیْتِہٖ وَ لٰـکِنَّ
اَھْلُبَیْتِہٖ مَنْ حَرُمَتْ عَلَیْھِمُ الصَّدَقَۃُ۔
ترجمہ: یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا اور میرے اہل
بیت۔۔۔ اور اپنے اہل بیت کے متعلق تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، (راویٔ حدیث)
حصین نے زید ابن ارقم سے پوچھا کہ اہل بیت رسول کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں اہل
بیت نہیں؟ تو زید نے جواب دیا کہ ان کی بیویاں اہل بیت نہیں۔۔۔ بلکہ ان کے اہل بیت
تو وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔
٭ عَنِ
التَّفْسِیْرِ الثَّعْلَبِیْ فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰہِ؟ عَنْ اَبِیْ سَعِیْد الْخدْرِیْ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
اَیُّھَا النَّاسِ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ خَلِیْفَتَیْنِ اِنْ
اَخَذْتُمْ بِھِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِیْ اَحَدُھُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْآخِرِ
کِتٰبُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَّمْدُوْدٌ مِّنَ السَّمَائِ اِلٰی الْاَرْضِ وَ
عِتْرَتِیْ اَھْلُبَیْتِیْ وَ اِنَّھُمَا لَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ
الْحَوْضِ۔
ترجمہ: تفسیر ثعلبی سے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ
اللّٰہِ کی تفسیر میں بروایت ابو سعید خدری منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے
فرمایا: اے لوگو میں نے دو گرانقدر جانشین تم میں چھوڑے ہیں اگر تم ان کے ساتھ رہو
گے تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے، ان میں ایک دوسرے سے بڑا ہے۔۔۔ کتاب اللہ جو
آسمان سے لے کر زمین تک ایک حبل ممدود ہے اور میری عترت اہل بیت، یہ دونوں ایک
دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے اوپر وارد ہوں گے۔
٭ ابن
مغازلی سے بروایت زید ابن ارقم منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا:
میں تم سے پہلے حوضِ کوثر پرموجود ہوں گا اور تم
سے سوال کروں گا کہ تم نے ثقلین کے ساتھ کیا کیا؟ زید ابن ارقم کہتا ہے کہ ہمیں
ثقلین کا مطلب معلوم نہ تھا تو مہاجرین میں سے ایک شخص اُٹھا اور کھڑے ہو کر عرض
کیا کہ آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوجائیں ثقلین سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
ان میں سے بزرگ تر اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک کنارا اللہ کے پاس ہے اور دوسرا
تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کے تمسک پکڑو اور اس پر اعتراضات نہ کرو۔۔۔ دوسری جو چھوٹی
چیز ہے وہ میری عترت اہل بیت ہے پس جو لوگ میرے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں
اور میری باتوں پر ایمان رکھیں ان پر لازم ہے کہ ان کو قتل نہ کریں اور ان پر ظلم
بھی نہ کریں، یہاں تک کہ ارشاد فرمایا کہ ان کا ناصر میرا ناصر اور ان کا خاذل
میرا خازل اور ان کا دشمن میرا دشمن ہوگا (حدیث)
اقول: حدیث ثقلین کتب فریقین میں تواتر سے
نقل کی گئی ہے تمام آثار جو اس حدیث شریف کے متعلق وارد ہیں ان کا جمع کر نا
مناسب نہیں ہے اور صرف ترجمہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں تاکہ زیادہ طول نہ ہو:
٭
برہان میں جابر ابن یزید جعفی سے مروی ہے کہ حضرت امام محمد باقرؑنے فرمایا: جناب
رسالتمآب ؐ نے لوگوں کو مقام منیٰ پر بلایا اور فرمایا:
اَ یُّھَا
النّاس: میں تم میں دوگر ا نقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں اگر ان سے تمسک پکڑو
گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔۔۔ ایک کتاب اللہ اور دوسری میری اہل بیت یہ دونوں ایک
دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہو ں گے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں
گے۔
پھر فرمایا اے لوگو: میں تم میں اللہ کی تین
حرمتیں چھوڑ رہا ہوں: اللہ کی کتاب۔۔۔ اپنی عترت اہل بیت اور کعبہ بیت
الحرام۔۔۔۔ اس کے بعد امام محمد باقرؑ نے فرمایا پس کتاب اللہ کی لوگوں نے تحریف
کر لی اور کعبہ کر گرادیا اور عترت کو قتل کیا۔۔۔۔۔ گویا اللہ کی تمام امانتوں کو
پس پشت ڈال دیا!؟
اقول: تحریف سے مراد یہ نہیں کہ قرآن
کے الفاظ تبدیل کر دئیے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنی ذاتی رائے سے تاویلاتِ فاسدہ اور
استحسانات عقلیہ پر اعتماد کرکے معانی قرآن کو بدل ڈالا اور ان میں اپنی من مانی
کرلی!؟ اگر اہل بیت کے دَر پر آتے اور ان سے قرآن سیکھتے تو یہ خرابیاں نہ
ہوتیں۔
٭ ابن
بابویہ سے کتاب ’’النصوص علی الآئمہ‘‘ میں عمر ابن خطاب سے مروی ہے کہ میں نے
جناب رسالتمآب کو فرماتے سنا:
اَ یُّھَا
النّاس: حوض کوثر کے کنارے تم میرے پاس پہنچو گے (جس کی وسعت صنعا سے بصرہ
تک کے برابر ہے) وہاں چاندی کے پیالے ستاروں کی تعداد کی مثل ہو ں گے، جب تم میرے
پاس پہنچو گے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا، دیکھنا ان کے ساتھ کیا
برتائو کرتے ہو؟ سببِ اکبر اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک کنارا اللہ کے ہاتھ میں اور
دوسرا کنارا تمہارے ہاتھ میں ہے اس کے ساتھ تمسک پکڑو اور اس کو تبدیل نہ کرو۔۔۔
دوسری میری عترت اہل بیت ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ
حوض کوثر پر وارد ہوں گے، (روای کہتا ہے ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی
عترت کون لوگ ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے اہل بیت جو کہ علی ؑ و فاطمہ ؑ کی
اولاد سے ہیں اور نوشہزادے جو حسین ؑ کی پشت سے ہوں گے، یہ آئمہ اَبرار ہیں اور
یہی میری عترت ہیں میرے گوشت اور خون سے ہیں (یہ روایت گوبطریق اہل بیت منقول نہیں
لیکن چونکہ کتب امامیہ سے منقول ہے اس لئے اس کو ان احادیث کے ضمن میں نقل کیا گیا
ہے)
٭ نیز
اسی کتاب میں ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ سے دریافت کیا گیا کہ حدیث ثقلین میں
عترت سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا میں، حسن ؑ،حسین ؑ اور نو امام۔۔۔ حسین
ؑ کی پشت سے جن کا نواں مہدیؑ قائم ہو گا، یہ ہرگز کتاب اللہ سے جدا نہ ہوں گے اور
کتاب اللہ ان سے جدا نہ ہو گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر جناب رسالتمآبؐ کے پاس
پہنچیں گے۔
٭
اسی کتاب میں حذیفہ سے روایت ہے (بمضمونِ سابق ) یہاں تک کہ فرمایا: رسالتمآبؐ نے
کہ حوض کوثر پہ جب تم میرے پاس پہنچو گے تو بعض لوگ پیچھے ہٹ جائیں گے، میں کہوںگا
اے اللہ یہ لوگ میری امت سے ہیں۔۔۔ تو جواب ملے گا اے محمد کیا تجھے معلوم ہے جو
کچھ انہوں نے کیا؟ یہ لوگ تیرے بعد اپنے پچھلے نقش قدم پر پلٹ گئے، پھر تین
بار ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنی عترت کے متعلق نیکی کی وصیت کر تا ہوں، پس
حضرت سلمان نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ! آپؐ اپنے بعد کے آئمہ کا پتہ
دیجئے جو آپ کی عترت سے ہوں گے؟ تو فرمایا
میرے بعد آئمہ جو میری عتر ت سے ہونگے وہ نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے
برابر ہوں گے، جن میں نو حضرت امام حسین ؑ کے پشت سے ہوں گے، ان کو خداوندکریم نے
میرا علم و فہم عطا فرمایا ہے تم ان کو نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے اَعلم ہیں اور ان
کے پیچھے چلنا کیونکہ وہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔
٭ ابن
بابویہ سے کتاب الغیبۃ میں زید ابن ارقم سے روایت ہے کہ جناب رسالتمآبؐ سے روایت
ہے کہ کہ جناب رسالتمآبؐ حجۃ الوداع سے واپس آکر غدیر خم پر اُترے اور چند
درختوں کے نیچے جھاڑو دینے کا حکم صادر فرمایا، پس درختوں کے نیچے جھاڑو دیا گیا
آپ ؐنے لوگوں کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے گویا دعوت وصال
پہنچ چکی ہے اور میںجانے والا ہوں میں نے تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑی ہیں۔۔۔
ایک بڑی ہے دوسری سے یعنی کتاب اللہ اور عترت اہل بیت، دیکھو ان کے ساتھ میرے بعد
کیا سلوک کرتے ہو؟ وہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کے حوض کوثر پر
میرے پاس پہنچیں گے، اس کے بعد فرمایا تحقیق اللہ میرا مولا ہے اور ہر مومن کا میں
مولا ہوں پھر علی ؑ ابن ابیطالب ؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا جس کا میں ولی ہوں
اس کا علی ؑ ولی، پھر دعا مانگی اے اللہ جو علی ؑ کے ساتھ موالات رکھے تو اس کو
دوست رکھ اور جو علی ؑ سے دشمنی رکھے تو اسے دشمن رکھ، عامر ابن واثلہ راویٔ حدیث
کہتا ہے کہ میں نے زید ابن ارقم سے دریافت کیا کہ کیا تو نے جناب رسالتمآب ؐ سے
خود سنا تھا؟ تواس نے جواب دیا کہ ان تمام درختوں کے نیچے کوئی مرد ایسا نہ تھا جس
نے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ ہو اور کانوں سے سنا نہ ہو۔
٭
عیسیٰ ابن معمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوذر غفاری کو کعبہ کے دروازے کے حلقہ
کو پکڑ کر کہتے ہوئے سنا کہ جو مجھے نہیں پہچانتا تو وہ اب سے جان لے کہ میں ابوذر
جندب ابن السکن ہو ں، میں نے اپنے کانوں سے جناب رسالتمآب کو فرماتے ہوئے سنا کہ
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔۔۔ کتاب اللہ اور عترت اہل بیت، یہ ہر
گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر وارد ہوں گے اور ان دونوں
کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو سوار ہو گیا وہ نجات پاگیااور جو پیچھے رہ گیا وہ غرق
ہو گیا۔
٭
بروایت سلیم ابن قیس ہلالی حضرت امیر المومنین ؑ سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد
فرمایا: خدا نے ہمیں پاک۔۔۔ معصوم۔۔۔ شہید علی الخلق اور اپنی طرف سے حجت بنایا اور
ہمیں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دیا ہم قرآن سے جدا نہ ہوں گے
اور قرآن ہم سے جدا نہ ہو گا، یہ روایت اصل عبارت کے ساتھ ’’ معجز نما کی
ضرورت‘‘ کے عنوان سے ص۷۸ پر گذر چکی ہے۔
٭
بروایت دیلمی۔۔۔ زید ابن ثابت سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: میں
دوگرانقدر چیزیں تم میں چھوڑنے والا ہوں۔۔۔ کتاب اللہ اور علی ؑ ابن ابیطالب، اور
علی ؑ تمہارے لئے کتاب اللہ سے افضل ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کا ترجمان ہے یہ بات
بھی ’’ معجز نما کی ضرورت ‘‘ کے عنوان سے ص۷۸
پر گذر چکی ہے۔
٭
کتاب روضۃ الواعظین سے بروایت امام محمد باقرؑ منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے ایک
خطبہ کے دوران (جو مسجد خیف میں ارشاد فرمایا تھا، جس میں حضرت امیر المومنین ؑ کی
خلافت پر نص فرمائی تھی) ارشاد فرمایا:
تحقیق علی ؑ اور اس کی طیب اولاد۔۔۔ ثقل اصغر ہیں
اور قرآن ثقل اکبر ہے، ان میں سے ہر ایک دوسرے کا ترجمان اور مبیّن ہے، یہ دونوں
ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر (خدا کے امر و حکم، جو
زمین سے متعلق ہیں،کے ساتھ ) وراد ہوں گے، تحقیق اللہ نے فرمایا اور میں نے اس کی
طرف سے پہنچا یا، آگاہ رہو تحقیق میں ادا کرچکا، آگاہ رہو تحقیق میں پہنچا چکا،
آگاہ رہو تحقیق میں سنا چکا، آگاہ رہو تحقیق میں واضح کر چکا، آگاہ رہو تحقیق
امیرالمومنین ؑ سوائے میرے اس بھائی کے اور کوئی نہیں اور اس کے سوا کسی کے لئے
جائز نہیں کہ امیر المومنین ؑ کہلائے، پھر ا پنا دست مبارک حضرت علی ؑ کے بازو میں
ڈال کر ان کو بلند فرمایا، پس حضرت امیر المومنین ؑ ہی پہلے وہ شخص ہیں جن کو
رسالتمآبؐ نے بلند فرمایا اور اس قدر بلند کیا کہ حضرت علی ؑ کے پائے مبارک حضرت
رسالتمآبؐ کے گھٹنوں کے برابر ہو گئے۔
تفسیر برہان میں پچاس سے زائد احادیث اسی مضمون کی
نقل کی گئی ہیں، بعض احادیث میں ثقلین کی وجہ تسمیہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے
ساتھ تمسک پکڑنا چونکہ ثقیل ہے اس لئے ان کو ثقلین کہا گیا ہے۔
یہ واضح رہے کہ قرآن مجید کو ثقل اکبر اور اہل
بیت کو ثقل اصغر کے لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن مقام اطاعت میں حضرت علی ؑ اور
ان کی اولادِ طاہرین ؑ افضل ہیں کیونکہ یہ ناطق ہیں اور قرآن صامت ہے، قرآن پر
ان (اہل بیت) سے دریافت کرکے عمل کرنا ہے، پس ان کی اطاعت ہی قرآن کی اطاعت ہے
اور اسی مطلب کی تائید دیلمی کی گذشتہ روایت سے ہوتی ہے۔
بالجملہ: قرآن
اور اہل بیت میں لازم و ملزوم کی حیثیت ہے اور ہمیں ان ہر دو کے ساتھ یکسانیت سے
تمسک پکڑنے کا حکم ہے، ان دونوں میں سے ایک انکار کفر ہے اور بغیر ان دونوں کی
اطاعت کے خدا ورسول کی رضا کا حاصل کر نا قطعی ناممکن ہے، بلکہ ان دونوں میں سے
ایک سے کنارہ کش ہو کر دوسرے کا دعویٰ کرنا فضول محض اور لقلقۂ لسانی ہے جس کا
کوئی فائدہ نہیں۔
مزید توضیح: چونکہ مسلمانو ں کا مسلمہ
عقیدہ ہے کہ قرآن مجید قیامت تک کیلئے ناقابل تنسیخ دستور العمل ہے اس کے فیصلہ
جات آخری اور قطعی ہیں جن میں ترمیم تک کی کسی کو مجال نہیں، اب عقل سلیم خود
فیصلہ کر سکتی ہے جب کوئی بھی دستور بغیر دستور چلانے والے کے مفید و کار آمد
نہیں ہو تا تو یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ دستورِ خداوندی تنہا کافی قرار پائے؟
اگر یہ تنہا کفایت کرسکتا تو ابتدا سے کسی لانے والے کی کیا ضرورت تھی؟ خدا وند
کریم کیلئے ممکن تھا کہ وہ براہِ راست کسی طریقہ سے ہر انسان کے پاس اپنا قانونی
ضابطہ بھیج دیتا اور ہر انسان اسی ضابطہ پر عمل کر کے راہِ نجات حاصل لیتا۔۔۔ پھر
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ٔ و رسل بھیجنے کا لمبا چوڑا انتظام کرنے کی اس کو کیا
ضرورت تھی؟ صرف صحائف سماویہ اور کتب الٰہی سے کام نکل سکتا تھا لیکن ایسا نہیں،
اور انسانی فطرت سے بہت بعید ہے کہ وہ صرف کتاب ہی پر عمل کر کے راہ حق پر بغیر
کتاب والے کے گامزن ہو، اسی بنأ پر خالق فطرت نے ضروری قرار دیا کہ کتاب کے ساتھ
کتاب والا ہو۔۔۔ قانون کے ساتھ قانون دان ہو۔۔۔ جو لوگوں کو ایک طرف دعوت عمل دے
اوردوسری طرف خلاف ورزی کرنے والے کو قانونی سزادے۔
پس جس طرح قانون الٰہی کی وضع انسان کے بس سے باہر
ہے بلکہ خود خدا ہی بنا کر بھیجتا ہے اسی طرح اس کے مبلّغ کا انتخاب بھی اس کی ذات
سے وابستہ ہے، عام اسکولوں میں جس طرح نصاب درسی اور کتب متعلقہ کا انتخاب
افسراعلیٰ کے اختیار میں ہوا کرتا ہے اسی طرح درجہ دار مدرّسین کا انتخاب بھی اس
کے ہاتھ میں ہوتا ہے، کسی کلاس کا لڑکا اپنی صف میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر
سکتا ورنہ نتیجہ نہایت افسوس ناک ہو گا۔
حکومت رعایا کے لئے جو قوانین ان کے نظم و نسق اور
فلاح و بہبود کے لئے وضع کرتی ہے ان کی محافظت اور نگہداشت کے لئے متعلقہ افسر بھی
خود ہی متعین کرتی ہے، اسی طرح اس مقام پر انتہائی بے راہ روی اور ناانصافی ہو گی
اگر کہا جائے کہ قانون کی کتاب خدا کی طرف سے ہو اور مبلّغ کا انتخاب ہماری مرضی
سے ہو؟ اگر سابق طریق انتخاب توحید پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ جس طرح
انبیا ٔ کا انتخابِ لاجواب خود اللہ نے ہی فرمایا تھا اسی طرح ان انبیا ٔ کے قائم
مقام اوصیا ٔکا انتخاب بھی اسی نے فرمایا۔
چونکہ گذشتہ انبیا ٔ سب صاحب شریعت وحامل کتاب
نہیں تھے لہذاجن انبیا ٔ کو کتاب وشریعت عطا فرمائی گئی اس کے بعد دوسرے صاحب کتاب
و شریعت آنے والے نبی کی آمد تک درمیان میں جس قدر نبی ہوا کرتے تھے گویا وہ
عہدہ دار نبوت بھی تھے اور گذشتہ نبی کی شریعت کے من جانبِ اللہ محافظ و نگہبان و
مبلّغ بھی تھے، ان کا انتخاب گذر جانے والے صاحب شریعت نبی کے اختیار میں نہیں ہوا
کرتا تھا بلکہ ان کو بھی خود خدا وندکریم ہی اس عہدہ کیلئے نامزد فرماتا تھا یہاں
تک کہ یہ سلسلہ جناب رسالتمآب تک منتہی ہوا، اب حضور ؐ نے لانَبِیَّ
بَعْدِیْ (بارشادِ قدرت) فرما کر دروازۂ نبوت کے قطعی طور پر بند ہو جانے کا
اعلان فرمادیا اور اگر آپؐ نے ایسا نہ کیا ہوتا تو آپؐ کے سکوت سے ناجائز فائدہ
اٹھائے جانے کا کافی احتمال تھا کیونکہ کہ قرآن مجید کے فرمان۔۔۔ خاتم النبیین کی
من مانی یادیں کرنا مدعیان نبوت کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، بلکہ جب لانَبِیَّ
بَعْدِیْ کی استغراقی اور عمومی نفی کی مضبوط حصار کو پھاند کر ادّعائے نبوت کے
متوالے اپنے تئیں ظلّی و بروزی یا امتی نبی کہلوا کے ہی رہے تو خدا معلوم اس حصار
کی عدم موجودگی میں نبوتوں کا بے پناہ سیلاب امت اسلامیہ کو کہیں سے کہیں بہا کر
لے جاتا بلکہ بہت ہی ممکن تھا کہ ہر طرح کا تعلیم یافتہ انسان بلکہ ہر با رسوخ
آدمی اپنے آپ کو عہدہ نبوت پر فائز قرار دے کر ایک جماعت بنالیتا۔
بہر کیف باتفاق امت اسلامیہ جناب رسالتمآبؐ پر
سلسلہ نبوت کا خاتمہ ہوا اور آپ کی شریعت اور کتاب کی حد قیامت قرار پائی، تو کس
قدر تعجب خیز بلکہ ایک ناممکن ساتصور ہے کہ سابقہ قابل نسخ اور محدود شریعتوں کی
تبلیغ اور ترویج کیلئے تو اللہ کی جانب سے عہدہ دار متعین ہوں اور ناقابل نسخ
شریعت اور غیر محدود دین کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی انتظام نہ ہو؟ ہر گز ایسا نہیں
ہو سکتا بلکہ یہ بات منافی عدل وحکمت ہے، پس ماننا پڑے گا کہ جس طرح قرون سابقہ
اور امم سالفہ میں صاحبانِ شریعت انبیا ٔ کے قائم مقام نبی ان کی شریعت کے محافظ
اور ان کے دین کے مبلّغ ہوا کرتے تھے اور وہ عالم شریعت و کتاب ہونے کے علاوہ پاک
ومعصوم بھی ہوا کرتے تھے اسی طرح آخری نبی سید الانبیا ٔ کی قائم مقامی کا شرف جن
کو ملے گا وہ گو نبی تو نہ ہوں گے (کیونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے) لیکن عالم کتاب و
شریعت اور معصوم ضرور ہونگے اور جس طرح اُن قائم مقامِ انبیا ٔ کا انتخاب و تقر ّر
دست ِ قدرت میں تھا اسی طرح ان اوصیائے معصومین کا انتخاب اور تقر ّر بھی ید قدرت
میں ہی ہے۔