التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سورہ النساء ۔ رکوع 3 ۔ مردوں کی حکومت پر ایک نظر

Surah Al-Nisa - Raku 3 - Mardon Ki Hukumat Par Ek Nazar. Quranic insights on the governance of men, its significance, and guidance.

سورہ النساء ۔ رکوع 3 ۔ مردوں کی حکومت پر ایک نظر | Surah Al-Nisa - Raku 3 - Mardon Ki Hukumat Par Ek Nazar

"Surah Al-Nisa, specifically Raku 3, offers profound insights into the governance of men and its importance in society. It provides guidance on the responsibilities and roles of men in various aspects of life, shedding light on their leadership and decision-making roles. Let's delve into the Quranic perspective on this vital subject."

ٱلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنْفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَٱلصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ وَٱللاَّتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً ﴿٣٤﴾
 مرد بالادست ہیں عورتوں پر بوجہ اس کے کہ فضیلت دی اللہ نے بعض کو بعض پر اور بوجہ خرچ کرنے ان کے اپنے مالوں میں سے پس نیک عورتیں اطاعت گزار (جان مال کی) پاسدار ہیں پیٹھ پیچھے بوجہ پاسداری اللہ کے اور جو عورتیں ڈرتے ہو تم ان کی نافرمانی سے تو ان کو نصیحت کرو اور ان سے یکسوئی کرو سونے میں اور ان کو مارو پس اگر اطاعت کرلیں تو نہ طلب کرو ان پر کوئی راہِ الزام تحقیق اللہ بلند و بزرگ ہے ﴿٣٤﴾

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُواْ حَكَماً مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلاَحاً يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيْنَهُمَآ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيماً خَبِيراً ﴿٣٥﴾ 
اور اگر ڈرو ان کے باہمی اختلاف سے تو بھیجو ایک مرد مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے اگر چاہیں گے وہ دونوں اصلاح تو میل دے گا خدا ان دونوں کو تحقیق اللہ دانا بینا ہے ﴿٣٥﴾



سورہ النساء ۔ رکوع ۳


اَلّرِجَالُ قَوَّامُوْنَ: خداوند کریم نے مردوں کو عورتوں پر بالاستی عطا فرمائی ہے اوراس آیت مجیدہ میں اس کی دووجہیں بیان فرمائی ہیں ایک تو یہ کہ مرد کو عورت پر خدانے فضلیت دی ہے اوروہ علم وعقل اورعزم وتدبیر ہے کہ عورتوں میں صفات بہ نسبت مرد کے یقینا بہت کم ہوتی ہے اورخانگی نظام میں جب تک مرف کو بالادستی حاصل نہ ہو کبھی تدبیر منزل میں کامیابی نہیں ہوسکتی اوردوسری وجہ مرد کی بالادستی کی جو خدانے بیان کی ہے وہ ہے مرد کا خرچ کرنا یعنی عورت کے حق مہر کی ادائیگی اوراس کے بعد اس کے جملہ اخراجات بذّمہ مرد کے ہوا کرتے ہیں لہذابالادستی کا حق بھی اسی کو حاصل ہونا چائیے اس کی مزید وضاحت تیسری جلد میں ہوچکی ہے ص 63 تاص66 وص95 تاص108 ۔ 

حَافِظٰتٌ : ص171 یعنی مرد کی غیر حاضری کے زمانہ میں بھی وہ اپنی ناموس اور مرد کے اموال کی محافظ رہتی ہے جس طرح خدا وند کریم نے ان کے حقوق کو محفوظ فرمایا ہے کہ ان کے جملہ اخراجات کا بوجھ مردوں کے کندھوں پر رکھ دیا ہے۔

وَٱللاَّتِى تَخَافُونَ :  یعنی جن عورتوں سے نافرمانی کے آثار نمودار ہونے لگیں اورتمہیں خطرہ محسوس ہوکہ یہ اورآگے بڑھ کر فساد کا پیش خیمہ بنیں گی تو ابھی اسے ان کو نصیحت کرو اگر زبانی نصیحت کار گر نہ ہوتو سونے میں ان کے ساتھ یکسوئی کرو کیونکہ اگر عورت کی مرد کے ساتھ محبت ہوگی تو قطعاً اس مفارقت پر صبر نہ کرسکے گی اوراگر محبت کم ہوگی تو پرواہ تک نہ کرے گی اورجب عورت اس نوبت سے آگے بڑھ جائے تو پھر مرواس کو سزادے یعنی کم سزا سے رفتہ رفتہ زیادہ کی طرف قدم بڑھائے اورمارتے وقت اتنا بھی نہ مارے کہ اس کو زخمی کردے۔ 

فَٱبْعَثُواْ حَكَماً : مجمع البیان میں اس امر کا مخاطب سلطانِ وقت ہے جس کی طرف عورت ومرد نے اپنا مقدمہ پہنچایا ہو چنانچہ صادقین علیہم السلام سے ایساہی مروی ہے۔ 

تفسیر برہان میں کافی سے مروی ہے کہ سائل نے دریافت کیا کہ دونوحکم اگر عورت ومرد سے صاف اجازت لےلیں کہ کیا تم دونوں نے اپنا معاملہ ہمارے سپرد کردیا ہے اگر ہم چاہیں تو تمہیں ملادیں اوراگر چاہیں تو تمہیں الگ کردیں پس عورت ومرد اجازت دے دیں اوراس پر گواہ بھی قائم ہوجائیں تو کیا اب یہ دونوں حکم عورت ومرد کے درمیان طلاق واقع کرکے ان کو جدا بھی کرسکتےہیں آپ نے فرمایا ہاں لیکن شرط یہ ہے کہ عورت حیض میں نہ ہو اوراس طہر میں عورت ومرد نے ہمبستری نہ کی ہو پھر سائل نے پوچھا اگر ایک حکم ان میں جدائی کرنا چاہے اوردوسراان کوملانا چاہے تو پھر آپ نے فرمایا جدائی نہ ہوگی جب تک دونوں کا اتفاق جدائی پر نہ ہو. 

پس روایات معصومین علیہم السلام میں بکثرت وارد ہے کہ دونوں فیصل مرد وعورت کی تفریق کا حکم نہیں دے سکتے جب تک کہ عورت ومرد سے اجازت نہ حاصل کرلیں اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوحکم خود مختار ہیں خواہ ان میں تفریق کا فیصلہ کریں خواہ ان کو ملادیں لیکن یہ مذہب امامیہ کے فیصلہ کے خلاف ہے جیسا کہ بعض روایات کا مضمون گزر چکا ہے۔ 

محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا جب تک عورت ومرد سے نہ لیں حکمین کے لئے ان کی تفریق جائز نہیں نیز زید شحام نے بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے جس کے الفاظ مثل حدیث سابق کے ہیں اوراس قسم کی بہت سی احادیث خانوادہ عصمت سے صادر ہوئی ہیں اوراجازت حاصل کرنے کے بعد وہ حکم وکیل طلاق ہوجائیں گے لہذا ان کی تفریق جائز ہوگی اورآیت مجیدہ قرانیہ میں صرف یہ ہے کہ وہ دونوں اصلاح کی کوشش کریں اوراگر دونوں کی نیت درست ہوگی تو ممکن ہے کہ خداتو فیق صلح دے دے اب آیا مرد وعورت کے درمیان صلح نہ ہوسکے تو دونوں خود بخود ان میں طلاق کا حکم بھی نافذ کردیں تو آیت قران اس سے خاموش ہے بس اس سلسلہ میں بجائے قیاس کرنے کے ناطق قران کے فیصلہ کو دیکھنا چاہیے اوروہ ہی قرآنی نکات کو تمام امت سے بہتر سمجھنے والے ہیں اوران کے فرامین ذکر ہوچکے ہیں۔ 

سورہ النساء ۔ رکوع ۳ ۔ مردوں کی حکومت پر ایک نظر


آیت مجیدہ الرجال قرامون علی الاطلاق عورتوں پر مردوں کی بالادستی کا اعلان کررہی ہے تدبیر منزل میں بھی اورسیاست مدینہ میں بھی اورعورت ومرد کی جداجدا وضح ساخت بھی اسی کی متقاضی ہے ہاں اخروی سزاوجزا میں عورت ومرد مساوی ہیں اوراللہ کے نزدیک اکرم وہ ہے جو متقی ہو خواہ مرد ہو یا عورت چنانچہ تفسیر میزان میں تفسیر درمنثور سے مروی ہے کہ ایک روزجناب رسالتمابؐ مجمع اصحاب میں رونق افروز تھے کہ اسماءبنت یزید انصار یہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اورعرض کی حضوؐر میرے ماں باپ آپ پر فداہو ں میں صنف نساءکی طرف سے بصورت وفد خدمت بابر کت میں حاضر ہوئی ہوں اورمیں جو کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مشرق سے لے کر مغرب تک کی تمام عورتیں میری آواز سے متفق ہیں۔ 

آپ کو خداوند حکیم نے مردوں اور عورتوں کی طرف رسول بالحق بنا کر بھیجا ہے پس آپ کی رسالت اورآپ کے بھجنے والے خداکی الوہیت پر ہمارا ایمان ہے ہ عورتیں گھروں میں پابند مردوں کی خوہشات کی تکمیل کا ذریعہ اورتمہاری اولاد کی حامل ہیں اورتم مردوں کو جمعہ جماعت بیمارپرسی جنازہ خوانی اورحج وغیرہ کےلئے خدانے ہم پر فضلیت دی اورجہاد ایک افضل عمل ہے وہ بھی مردوں کے حصہ میں ہے لیکن جب مرد حج عمرہ اورجہاد وغیرہ کےلئے گھر سے باہر جائے تو ہم ان کےلباس کی اصلاح اورمال کی تربیت میں مصروف رہتی ہیں تو کیا اجر میں ہم مردوں کے ساتھ شریک نہیں۔ 

حضورؐ یہ سنتے ہی صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاکیاامور دینیہ کے متعلق تم نے کبھی کسی عورت کو اس سے بہتر سوال کرتے سنا ہے انہوں نےعرض کی نہیں حضور ہمیں تو خیال ہی نہیں پڑتا تھا کہ کبھی کوئی عورت اس سنجیدگی سے ایسی بات کرے پس اپ اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا اے عورت تو واپس جااورباقی عورتوں کو بھی میرا پیغام پہنچادے کہ تم میں سے کسی عورت کامرد کے ساتھ حسن سلوک اوراس کی امور خانہ داری میں فرمانبرداری اوررضاجوئی مردوں کے ان تمام امور خیر کے برابر ثواب رکھتی ہے پس وہ عورت یہ سنتے ہی خوشی سے نعرہ تکبیر پڑھتی اورہنستی ہوئی واپس چلی گئی۔ 

بے شک اسلامی عورت ہمیشہ سے اس طریق اوردیدن پر کار بندرہی ہے اورامور خانہ داری کی اصلاح اورمرد کی اطاعت کو ہی بہترین جہاد سمجھتی ہے اورکبھی عورت کو مردوں کے دوش بدوش گھر سے باہر نکل کھڑے ہونے کا خیال تک نہیں آیا اوراپنی عفت وحیا کو روندنا عورت اپنے لئے منافی شرافت سمجھتی رہی ہے جب سے مغرب کی جانب سے نام نہاد نسوانی آزادی کو مسموم ہوا چلی ہے اس نے اپنی ہمہ گیر تباہ کن لہروں سے اسلامی عورت کو بھی متاثر کردیا ہے جس کی بدولت حسن اخلاق عفت اورشرف وحیا کاجنازہ نکل گیا اورمردوں نےعورتوں کی لاحجابی کو اپنی شہوت رانی اورنفس پر ستی کاآلہ کار بناتے ہوئے اس تحریک کو اوراچھالااوران دونوں کی آزادنہ میل جول کی حیا سوزروش نے انسانیت کے پاک وصاف چہرہ کو ایسا داغدار کیا کہ روح حیوانی بھی اپنے مقام پر دم بخود نثر اتی ہے خداوند کریم مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کی توفیق دے تاکہ ان کے ماتحت اپنے کردار کی اصلاح کرسکیں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں