حضرت علی علیہ السلام کی حکومت روشنی کا مینار تھی | hazrat ali as ki hakomat roshni ka minar thi | ali ibn abi talib
اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ حضرت علی کا دور اقتدار در حقیقت پوری امت اسلامیہ کے لئے روشنی کا وہ بلند مینار ہے جسے جاہ و اقتدار کی آندھیوں نے گرد آلود کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی اور آپ کی خلافت ہی صحیح معنوں میں خلافت راشدہ کہلانے کے مستحق ہے جاہ طلبی ہوس اقتدار عیش کوشی اور اقربا نوازی کے پرستار حکمرانوں کےلئے حضرت علی کی طرف حکومت خار چشم تھی۔ ان کےلئے اسلامی طریق کار کو اپنانا اور اپنی خواہشات نفیسہ و جذبات ذاتیہ کو کچلتے ہوئے قرآنی تعلیمات کا بول بالا کرنا نہایت مشکل ترین امر تھا خصوصاً وہ لوگ جو صحبت نبوی سے فیض یاب نہ ہو سکے تھے یا صحابیت کا لیبل تو ان پر چسپاں ہو گیا تھا لیکن بہت کم وقت بارگاہ نبوی کے شرف سے مشرف ہو سکے تھے اور ان کے دلوں سے ابھی زمان جاہلیت کی کافرانہ عادات کا زنگ نہیں اترا تھا ۔ حضرت علی کی حکومت میں انتشار پھیلا کر میدان سیاست میں آ دھمکے اور بالآخر تمام اقتدار ہاتھ میں لے کر امت اسلامیہ کی گردنوں پر سوار ہو گئے ان لوگوں کےلئے حضرت علی کا طرز جہانبانی قطعاً قابل علم تو بجائے خود قابل برداشت بھی نہ تھا پس انہوں نے عوام الناس کے رجحانات کو بدلنے اور اپنے اقتدار کا سکہ جمانے کےلئے یہ حربہ نکالا کہ حضرت علی اور اس کے اشیاع پر سب و شتم عام کیا جائے اور ہر مجلس و محفل میں ان کو بدنام کرنے کی سعی بلیغ کی جائے چنانچہ سرکاری آرڈیننس کے ذریعے اطراف مملکت میں اس حیا سوز تحریک کو قانونی حیثیت دی گئی تا کہ رفتہ رفتہ لوگوں کےلئے دلوں سے علی علیہ السلام کا وقار اٹھ جائے اور ان کے طرف حکومت کی خوبی کو نظر انداز کرنے کے بعد لوگ اموی دور اقتدار کی دھاندلیوں کو اسلامی سیاست کے رنگ میں ڈھال سکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حقیقت بین نگاہیں بناوٹ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا دامن چاک کر کے شمس حقیقت کا سراغ لگا لیتی ہیں اموی استبداء کی گھناؤنی تاریکیوں کی تہوں کو حقیقت رسا نظریں عدل و انصاف کی قندیلوں کے ذریعے چیرتی پھاڑتی اور الٹتی پلٹتی ہوئی قمر امامت کی ضیا پاشیوں سے ہمکنار ہو کے رہیں اور الحاد و زندقہ کے دھند لکوں میں جورو اعتساف کی طوفانی موجوں کا مقابلہ کرنے کے بعد ہمت نہ ہارنے والے محقق آخر منزل مقصود اور ساحل مراد حاصل کر کے رہے اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُوْل کی مصنوعی آر خَیْرُ الْقُرُونِ قَرنَیْ کی فرضی دیوار اور صَحَابِیْ کَالنجوم کا جعلی حصار اگرچہ سطحی آدمیوں کو مرعوب کر کے حقیقت کی تہوں تک جھانکنے سے روک لیتا رہا لیکن جس قلب میں قندیل انصاف روشن ہو جس کاسہ سر میں فانوس عقل منور ہو اور جس ذہن میں تحقیق و تدقیق کا مادہ موجود ہو اور پہلو میں عزم صمیم موجود ہو وہ اپنے نظر و فکر کو تقلید گذشتگان کا قیدی کیوں بنائے؟ اسے حق پہنچتا ہے کہ مصنوعی آڑوں فرضی دیواروں اور جعلی حصاروں کے اندر جھانک کے عادلانہ منصفانہ جائزہ لے۔
چنانچہ اموی اقتدار کا تختہ الٹتے ہی ارباب تحقیق فکر ونظر کے تازی تیز رو پر سوار ہو مہمیز عدل و استقلال کے ساتھ میدان میں نکلے تو مصنوعی حصاریں ان کے پائے تحقیق کی ٹھوکر سے پاش پاش ہوئیں اور حق و باطل کی آمیزش کی خطر ناک اور افسوسناک سازشوں کی قلعی کھل گئی ہر گوش حق نیوش نے سن لیا ہر حق بین نگاہ نے تاڑ لیا اور ہر منصف طبع انسان نے سمجھ لیا کہ رسالت مآبؐ کے بعد ہوس اقتدار کے متوالوں اور کرسی حکومت کے پرستاروں نے اپنی جاہ پرستیوں کو شروع غلاف میں چھپانے اور اپنے باطل طریق کار پر حق کا لیبل لگانے کے لئے فرضی احادیث کی آڑ میں امت اسلامیہ کو گرویدہ بنانے کے لئے یہ پروگرام مرتب کیا تھا اور اموی دور اقتدار میں باطل پرستی کو مقبول کرنے کےلئے قائد حق اور امام عدل کے کردار پر پردہ ڈالنے کے لئے حضرت علی اور شیعان علی علیہ السلام کو سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا تھا اور تاکہ پشت بہ پشت امام حق پر گالی گلوچ کی بوچھاڑ سننے والی امت کبھی بھی ان کے کردار حق سے متاثر نہ ہو سکے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مورخ اسلامی تاریخ کو مرتب کر رہے تھے محدث احادیث نبویہ کو جمع کر رہے تھے مفسر قرآنی تفاسیر کو عام کرنے کے در پے تھے اور فقہا شرعی ضابطہ حیات کو ترتیب دے رہے تھے اگرچہ اکثریت کے اذہان اموی تاریک دور کے تربیت یافتہ تھے جو حضرت علی اور شیعان علیؑ کے متعلق اچھی بات سننے اور باور کرنے کے قطعاً عادی نہ تھے لیکن ہر دور میں منصف مزاج گروہ بھی ہوتا ہے اور خدا حق و صداقت کا خود پاسبان ہے وہ ایسے افراد پیدا کر دیتا ہے جو حقیقت رسا ہوتے ہیں پس اسی دور تالیف و تصنیف میں اگرچہ بعض مصنفین نے اموی ذہنیت کی لاج رکھی اور حضرت علی کی ہر فضیلت کو جرح و قدح کے ناخنوں سے نوچنا اپنا شیوہ بنایا لیکین بعض مصنفین نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو اپناتے ہوئے حضرت علی کے مناقب و محامد کے نقل کرنے میں بخل نہ کیا اور مجموعی طور پر حضرت علی کے فضائل و مناقب باوجود ناسازگار حالت کے اس قدر منظر عام پر آئے کہ جمہوری حکام اور عوامی سلاطین کے مناقب باوجود حالات ساز گار ہونے کے اس قدر نہ آ سکے اور جب پردہ اٹھا تو ہر دیکھنے والے نے دیکھ لیا کہ جن لوگوں کو بڑے طمطراق سے خلافت راشدہ کا مایہ ناز حکمران تسلیم کیا گیا وہ بھی لَوْ لَا عَلِّیٌ لَھَلَکَ عُمر کا نعرہ لگاتا ہوا کرسی اقتدار پر تشریف فرما رہا۔ حضرت علی کی حکومت کا ہر شعبہ بلکہ آپ کی پوری زندگی کا ہر لمحہ اسلامی تعلیمات کا صحیح آئینہ دار ہے۔