التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حکومت اور رعایا کے لئے دستور العمل | hakomat aur riaya kay liye dastoor ul amal | khilafat o malookiat

حکومت اور رعایا کے لئے دستور العمل | hakomat aur riaya kay liye dastoor ul amal | khilafat o malookiat
حکومت اور رعایا کے لئے دستور العمل | hakomat aur riaya kay liye dastoor ul amal | khilafat o malookiat
حکومت اور رعایا کے لئے دستور العمل | hakomat aur riaya kay liye dastoor ul amal | khilafat o malookiat
مودودی صاحب خلافت و ملوکیت ص 93 پر رقمطراز ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد کو مصر کا گورنر مقرر کر کے جو فرمان اہل مصر کے نام بھیجا تھا اس میں وہ فرماتے ہیں۔

خبردار ہو! تمہارا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کے مطابق عمل کریں اور تمہارے معاملات کو اللہ کے مقرر کردہ حق کے مطابق چلائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نافذ کریں اور تمہارے در پردہ بھی تمہارے ساتھ خیر خواہی کریں۔

اس فرمان کو مجمع عام میں سنانے کے بعد قیس بن سعد نے اعلان کیا کہ اگر ہم اس طریقہ پر تمہارے ساتھ برتاؤ نہ کریں تو ہماری کوئی بیعت تم پر نہیں ہے ۔ حوالہ الطبری ج 3 ص 550

ایک گورنر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھا

اپنے اور رعیت کے درمیان لمبے چوڑے پردے حائل نہ کرو حکام کا رعیت سے پردہ کرنا نظر کی تنگی اور علم کی کمی کا ایک شاخسانہ ہے اس پردے کی وجہ سے ان کو صحیح حالات معلوم نہیں ہوتے چھوٹی باتیں ان کےلئے بڑی بن جاتی ہیں اور بڑی باتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں اچھائی ان کے سامنے برائی بن کر آتی ہے اور برائی اچھائی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور حق باطل کے ساتھ غلط ملط ہو جاتا ہے ۔ حوالہ ابن کثیر ج 8 ص 8

یہ حضرت علی کا محض قول ہی نہ تھا بلکہ ان کا عمل بھی اس کے مطابق تھا کوفہ کے بازاروں میں خود درہ لے کر نکلتے لوگوں کو برائیوں سے روکتے بھلائیوں کی تلقین کرتے اور تاجروں کی ایک ایک منڈی کا چکر لگا کر یہ دیکھتے تھے کہ وہ کاروبار میں بد دیانتی تو نہیں کر رہے ہیں اس روز مرہ کی گشت میں کوئی اجنبی آدمی ان کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ بلاد اسلام کا خلیفہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے کیونکہ نہ ان کےلباس میں بادشاہی کی شان ظاہر ہوتی تھی اور نہ ان کے آگے کوئی چوبدار ہٹو بچو کہتا پھرتا تھا۔ حوالہ ابن کثیر ج 8 ص 4،5۔

اس مقام پر نہایت مناسب ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کیا جائے جس میں آپ نے سلطان و رعایا کے حقوق کے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

امابعد ۔ مجھے خدا تعالٰی نے تمہارے اور حق ولایت عطا فرمایا ہے تمہارا میرے اوپر ویسے ہی حق ہے جیسے میرا حق تمہارے اوپر ہے مقام بیان میں تو حق کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن مقام عمل میں بہت تنگ اور مشکل ۔ اگر ایک مقام پر اس کا فیصلہ کسی کے حق میں ہے تو دوسرے مقام پر اسی کے خلاف ہونا بھی متوقع ہے اگر ایسی ذات تلاش کریں کہ ہر حق فیصلہ اس کے ہی حق میں ہو اور اس کے خلاف کبھی نہ ہو تو وہ صرف ذات حق سبحانہ ہی ہے کیونکہ بندوں پر اس کو قدرت تامہ حاصل ہے اور قضا کے پیش نظر اس کا عمل عدل سے ہے لیکن بندوں پر اطاعت کو اپنا حق قرار دے کر اپنے فضل و سعت رحمت سے اس کا بدلہ چند در چند مقرر فرمایا ہے اور وہ عطائے مزید کا اہل ہے اس نے اپنے حقوق میں سے بعض حقوق بندوں کی بہبود کے لئے انہی میں سے ایک دوسرے پر عائد کر دئیے ہیں جو اپنے مقام پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں اور اس طرح لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ایک حق کی ادائیگی دوسرے حق کے وجوب کی باعث بنتی ہے اور ان تمام حقوق میں سے نہایت اہم بادشاہ اور رعایا کے حقوق ہیں جن کو دینی وقار اور باہمی انس کے کلی نظام کو قائم رکھنے کے لئے خدا نے کل افراد پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ رعایا کی اصلاح حکام کی اصلاح کے بغیر نا ممکن ہے اور حکام کی فلاح رعایا کی استقامت کے بغیر ناشدنی ہے اور جب رعایا کے دلوں میں حکام کے حقوق کا احساس ہو اور حکام رعایا کے حقوق کی پاسداری کو اپنا فریضہ سمجھیں تو حق کا بول بالا ہو گا دین کی راہیں ہموار ہوں گی اور عدل و انصاف کے جھنڈے بلند ہوں گے پس وہ دور بہترین دور ہو گا اور وہ حکومت بہترین حکومت ہوتے ہوئے دوام پذیر ہوگی دریں حالت مملکت کے بدخواہوں کی نظریں اور ان کے اوچھے ارادے قعر مایس و مذلت میں دب کر رہ جائیں گے ۔

اور بخلاف اس کے کہ اگر رعایا حکام سے دل برداشتہ ہو اور حکام رعایا کو کچلنے کے در پے ہوں تو اس کا نتیجہ سوائے باہم آویزی کے اور کچھ نہ ہو گا پس ظلم و جور کا علم بلند ہو گا دین کمزور اور سنت متروک ہو گی خود غرضی منظر عام پر آ جائے گی احکام معطل ہوں گے قلوب ناصاف ہوں گے بڑی سے بڑی حق تلفی یا بڑی سے بڑی باطل کوشی کا ذرہ بھر بھی احساس نہ رہے گا شرفاء ذلیل ہوں گے اور کمینوں کا وقار بڑھے گا۔

سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا انصاف پسند طبقہ کے نزدیک حکمرانوں کی فخر شعار اور تکبر مزاجی ان کا انتہائی گھٹیا پن ہے اور میں قطعاً نہیں پسند کرتا کہ تم مجھے ثنا پسند اور اپنی تعریف کا دلدادہ خیال کرو اور بحمدللہ میں ایسا نہیں ہوں بالفرض اگر مجھے اپنی تعریف پسند بھی ہوتی تب بھی میں اللہ کے لئے تواضع کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیتا کیونکہ عظمت اور کبریائی صرف ذات اقدس الہیہ کے لئے مناسب ہے اور بعض لوگ اپنی تعریف سن کر لذت محسوس کرتے ہیں لیکن تم میرے سامنے میری تعریفیں نہ کیا کرو تا کہ اللہ کی جانب سے تمہاری طرف سے جو حقوق میرے اوپر عائد ہوتے ہیں ان سے صحیح طور پر عہدا برا ہو سکوں لہذا میرے ساتھ تمہارا انداز گفتگو ایسا نہ ہو جیسا جابر حکمرانوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور مجھ سے ایسی چیزوں کی بابت خوف زدہ نہ ہو کر جو جلد باز سے خوف و ہراس کی موجب ہوا کرتی ہیں نہ میری بے جا خوشامد کیا کرو اور یہ نہ خیال کرو کہ مجھے حق بات کہنے سے میری طبعیت پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ میں اپنی بڑائی کا خواہشمند ہوں کیونکہ جو شکص کلمہ حق کو سن نہیں سکتا اس کےلئے عمل کرنا تو زیادہ بار خاطر ہوتا ہے لہذا تم لوگ حق کہنے مین کبھی مجھ سے جھجھک محسوس نہ کیا کرو اور نہ نیک مشورے دینے میں کوئی باک کرو میں بذات خود قول یا فعلی خطا سے اپنی ذات کو مستثناء نہیں کرتا جب تک اللہ ہی کی جانب سے کفایت (عصمت) نہ ہو (یعنی عصمت اس کی ذات کا عطیہ ہے ، میری عین ذات نہیں) میں اور تم اس رب کے عبد و مملوک ہیں جس کے علاوہ کوئی دوسرا رب نہیں ہے ہمارے نفوس کی ملکیت جس طرح اس کو حاصل ہے ہمیں حاصل نہیں اس نے ہی ہمیں ایک ناموزوں حالت سے نکال کر مناسب اور سزاوار حالت تک پہنچایا ہے اسی نے ہی راہ گم کرنے کے بعد ہدایت اور بصیرت کے راستہ پر کھڑا کیا ہے ۔ انتہی بقدر الضرورۃ ۔ دین و اسلام ص 173، ص174

آپ کے ان کلمات میں غور کیجئے ۔ کیسے اچھوتے انداز اور نرالے طرز بیان کے ذریعے سے بعد میں آنے والے حکمرانوں کےلئے ایک بہترین دستور العمل پیش فرما رہے ہیں تا کہ وہ فخر و تکبر، خواہش نفس و حب مال جاہ پرستی و خودستائی اور عظمت وںخوت کے پیش نظر اپنے تئیں بھول چوک سے بلند نہ قرار دیں اور اقتدار کے نشہ میں اپنی ہر رائے درست و صائب اور ہر تصرف کو بجاور محل نہ سمجھیں لہذا مملکت کی خوشحالی و بحالی اور بقا و ارتقاء کے لئے ہر جوڑ توڑ اور ہر حل و عقد کے وقت انہیں ایسی مجلس مشاورت کی طرف رجوع کرنا چاہیے جن کے ممبر ارباب عقل و دانش بلند حوصلہ، عالی ہمت دین میں مضبوط خیر خواہی کے علمبردار ملک و ملت کے وفادار اور اغراض صحیحہ کے حامل ہوں یہ بعینہ اس طرح ہے جس طرح خداوند کریم نے اپنے نبی کو ارشاد فرمایا شاور ھم فی الامر (معاملات میں ان سے مشورہ لیا کرو) حالانکہ ان کی ذات گرامی اپنی قوم و اصحاب کے مشوروں سے بے نیاز تھی آپ حامل وحی تھے اور روح الامین کی آمد و شد کا مقدس آستان آپ کی بارگاہ فیض انتساب تھی اور آپ کے مصاحبین میں اکثریت ایسے بدوی لوگوں کی تھی جو علوم و معارف سے بالکل کورے بلکہ آداب مجلس تک نہ جانتے تھے بایں ہمہ آپ کو ان سے مشورہ لینے کا حکم آنے والے حکمرانوں کے لئے مہمیز عبرت اور تازیانہ نصحیت ہے لیکن نہ ہر بادشاہ و سلطان اس مکان رفیع پر فائز ہو سکتا ہے اور نہ ہر خلیفہ مثل علی ہو سکتا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں