التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قرآن مجید کی سات قرائتیں

اکثر علمأ کے نزدیک قاری قرآن سات تھے اُن میں سے ہر ایک کی قرأت بھی جدا جدا ہے اور وہ یہ ہیں: ابو عمرو، کسائی، حمزہ، ابن عامر، نافع، ابن کثیر۔۔۔

اکثر علمأ کے نزدیک قاری قرآن سات تھے اُن میں سے ہر ایک کی قرأت بھی جدا جدا ہے اور وہ یہ ہیں:
ابو عمرو، کسائی، حمزہ، ابن عامر، نافع، ابن کثیر، عاصم
بعض علمأ نے ابو یعقوب، ابو جعفر طبری اور ابی بن کعب کا اضافہ کر کے کل قاریوں کی تعداد دس بتلائی ہے، ان کی ساتوں قرأتوں کے متعلق بعض علمائے اعلام فرماتے ہیں کہ یہ قرائتیں حضرت رسالتمآبؐ سے بالتواتر منقول ہیں، چنانچہ علمائے محقیقین میں سے شہید ثانی اورمحقق ثانی اور دیگر بعض اکابرِ امامیہ کی طرف یہی قول منسوب ہے اور اکثر علمائے امامیہ تواترِ قرأت کے انکاری ہیں چنانچہ شیخ طوسی، ابن طاوئوس، محدث بحرانی اور سید نعمت اللہ جزائری وغیرہ کی طرف یہی قول منسوب ہے اور ادلہ عقیلہ و نقلیہ دوسرے قول کی مویّد ہیں۔
پہلے قو ل کیلئے متعدد دلیلیں پیش کی گئی ہیں:
۱-     دعویٰ اجماع (تمام امت کا اتفاق ہے) کہ قرائتیں سات ہیں۔
۲-     عادت مقتضی ہے کہ یہ قرائتیں صحیح طور پر منقول ہوئی ہوں کیونکہ قرآن مجید کے حفظ اور ضبط کے متعلق ابتدائے اسلام سے آج تک جو اہتمام رہا ہے اگر یہ قرائتیں ثابت نہ ہوتیں تو بعد میں ان کے پیدا ہونے کا تو امکان ہی نہیں کیونکہ اگر بعد کی ایجاد ہوتی تو پہلے ہی سے تر دید کر دی گئی ہوتی اور ان کے خلاف ایک بڑا ہنگامہ اٹھا ہوتا۔
۳-     حدیث میں ہے  اِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ کُلُّھَا شَافٍ کَافٍ۔
 ترجمہ:        قرآن سات حرفوں پر اُترا ہے جن میں سے ہر ایک کافی و شافی ہے، حرف سے مراد قرأت ہے۔
۴-     بروایت ِخصال رسالتمآبؐ سے مروی ہے کہ :
 اٰتَانِیْ آتٍ مِنَ اللّٰہِ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکَ اَنْ تَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلٰی حَرْفٍ وَاحِدٍ فَقُلْتُ یَا رَبِّ وَسِّعْ عَلٰی اُمَّتِیْ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکَ اَنَّ الْقُرْآنَ عَلٰی سَبْعَۃِ أحْرُفٍ۔
ترجمہ  میری طرف خدا کی جانب سے آنے والا (فرشتہ) آیا اور کہا کہ اللہ فرماتا ہے قرآن کو ایک حرف (قرأت) سے پڑھو میں نے عرض کیا اے اللہ میری امت پر تو سیع کر توفرشتہ نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ قرآن کی سات قرائتیں ہیں۔
ان کے علاوہ اور دلیلیں بھی ذکر کی گئیں لیکن سب سے مضبوط اور محکم یہی ہیں، یہ سب دلیلیں قابل ردّ ہیں اور ان کے جوابات یہ ہیں:
پہلی دلیل کا جواب یہ ہے کہ  دعوائے اجماع ناقابل تسلیم ہے کیونکہ اگر اجماع ہوتا تو علمائے محققین کی ایک بڑی جماعت مخالف نہ ہوتی۔
دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ سب قرائتیں تواتر سے منقول ہوتیں تو ہر قاری دوسرے کی قرأت کی تردید نہ کرتا حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہر قاری اپنی مخصوص قرأت کے ماسوا دوسری قرأتوں کو غلط قرار دیا ہے معلوم ہوا کہ یہ اختلاف قاریوں کی ذاتی رائے کے اختلاف کی وجہ سے ہی ہے۔
تیسری اور چوتھی دلیل کے کئی جوابات دئیے جا سکتے ہیں:
۱-     سند کے اعتبار سے ان دونوں حدیثوں کی صحت ثابت نہیں۔
۲-     اگر تسلیم کر لی جائیں تو حرف سے مراد قرأت نہیں بلکہ لغت ہے یعنی قرآن عرب کی سات لغتوں میں اُترا ہے اور ابن اثیر سے بھی یہی منقول ہے۔
۳-     ممکن ہے حرف سے مراد قسم ہو، چنانچہ حضرت علی ؑ سے مروی ہے کہ قرآن سات قسموں پر اُترا ہے جن میں سے ہر ایک کافی اور شافی ہے اور وہ سات یہ ہیں:
 امر   ،   نہی   ،   زجر   ،   ترغیب   ،   ترہیب   ،   مثل   ،  قصص
۴-     یہ بھی ممکن ہے کہ سات حرفوں سے سات بطن مراد ہوں جیسا کہ روایاتِ کثیرہ میں وارد ہے۔
ان جوابات کے علاوہ حضرات معصومین ؑ کی طرف سے سات قرأتوں کی صریح الفاظ میں نفی موجود ہے، چنانچہ اصول کافی میںہے:
عَنِ الْفُضَیْلِ بْنِ یَسَار قَالَ قُلْتُ لِأبِیْ عَبْدِاللّٰہِ اِنَّ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ فَقَالَ کَذَّبُوْا اَعْدَائُ اللّٰہِ لٰـکِنَّہُ نَزَلَ عَلٰی حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنْ عِنْدِ الْوَاحِدِ
ترجمہ: فضیل بن یسار سے منقول ہے میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے دریافت کیا کہ لوگ کہتے ہیں قرآن سات قرأتوں پر اُتراہے، آپ ؑ نے فرمایا دشمنانِ خدا جھوٹے ہیں بلکہ وہ تو ایک کی طرف سے اُترا ہے اور ایک ہی قرأت پر اُترا ہے۔
وَفِیْہِ عَنْ زُرَارَۃَ عَنْ أبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ اِنَّ الْقُرْآنَ وَاحِدٌ نَزَلَ مِنْ عِنْدِ الْوَاحِدِ وَلٰـکِنَّ اْلاِخْتِلافَ یَجِیْیئُ مِنْ قِبَلِ الرُّوَاۃِ۔
ترجمہ: روایت زرارہ امام محمد باقرؑ سے منقول ہے آپ ؑ نے فرمایا تحقیق قرآن ایک ہے ایک کی طرف سے اُترا ہے لیکن اختلاف راویوں کی طرف سے پیدا ہو جاتا ہے۔
ان دونوں روایتوں میں سے پہلی حسن اور دوسری صحیح ہے، لہذا ان کو پہلی حدیثوں پر سنداً بھی ترجیح حاصل ہے اور توجیہات و قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہیں پس یہی قول زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔
آئمہ طاہرین ؑ سے منقول ہے کہ ان قرآت مختلفہ میں سے ہر قرأت کے مطابق پڑھنا جائز ہے لیکن احتیاط اس میں کہ عربی زبان کے مسلمہ قواعد کے خلاف اگر کوئی قول ہو تو اس سے اجتناب کیا جائے اور نماز میں بھی اسی بات کو ملحوظ رکھے، اسی طرح امالہ، ادغام، اشمام اور وقف وغیرہ میں بھی متابعت ضروری نہیں بلکہ صرف قواعد عربیہ کی رعایت کافی ہے، البتہ ساتوں قاریوں کے اقوال سے جدا قول پیدا کرنا بھی گو قواعد کے موافق ہو خلاف احتیاط ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
x