التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جامع قرآن کا حقیقی مفہوم اور مصداق



جامع قرآن کے دو معانی ہو سکتے ہیں:
  ۱-   ظاہری اوراق و اجزأ کو اکٹھا کرنے والا۔
۲-     پورے مطالب قرآنیہ کو جاننے سمجھنے والا۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔۔۔ علوم قرآنیہ کا جامع۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دونوں متذکرہ بالا معنوں میں کوئی تلازم نہیں ہے کیونکہ جو ظاہری اوراق کا جامع ہو ضروری نہیں کہ وہ اس کے مطالب کا عالم بھی ہو یا جو اس کا عالم ہو ضروری نہیں کہ وہ اس کا جامع اوراق بھی ہو، صاحبان مطابع ہزاروں کتابیں شائع کرا دیا کرتے ہیں لیکن سوائے شاذ و نادر کے اکثر مطبوعہ کتب کے مطالب نہیں جان سکتے، بلکہ مالک مطبع اگر ان پڑھ ہو تو تمام مطبوعات کے مندرجات سے براہ ِراست قاصر الفہم ہوتا ہے اسی طرح کاتب متفرق اور مختلف قسم کے مسوّدات کو خوشخط یکجا لکھ کر بہت علمی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن وہ بھی عموماً لفظی جمع ہی گو جانتے ہیں۔
قرآن مجید کو جمع کرنے والے یعنی اجزأ و اوراق کو یکجا کر کے کتاب کی شکل میں لانے والے نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اگر یہ کلام کیا تو اس کو اللہ کی جانب سے بڑا اجر ملے گا کیونکہ جب تک اس کی خدمت کے آثار دنیا میں رہیں گے۔۔۔ قرآن پڑھا جاتا رہے گا۔۔۔ اس پر عمل ہو گا تو اس کے نامہ اعمال میں اضافہ ہوتا رہے گا، بلکہ اس کا یہ عمل اس کے نامہ اعمال میں سب سے بڑی نیکی ہے کیونکہ یہ اسلام کا سرمایہ حیات ہے اور شریعت کی اصل و اساس ہے اور یہ نہ صرف صدقہ جاریہ ہے بلکہ دنیا بھر کے تمام امور خیر کا تا قیامت منبع ہے۔
اور اگر جمع کرنے والے نے رضائے خدا ملحوظ نہ رکھی ہو بلکہ محض ناموری یا اغراض دنیاوی ہی ملحوظ خاطر ہوں تاہم قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر ناشر قرآن ہونے کی حیثیت سے اس کا احسان عظیم ہے عامۃُ المسلمین کو ہر دو صورتوں میں اس کا ممنون احسان ہونا چاہیے، ہمیں اس بحث میں دور تک جانے کی ضرورت ہی نہیں ’’اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ‘‘ بلکہ قابل غور امر تو یہ ہے کہ قرآن فہمی یا اس پر عمل کرنے کیلئے بھی آیا جامع قرآن کے دروازہ پر جبہ سائی کی ضرورت ہے؟
عام کتب میں تو یہ صورت ہوا کرتی ہے کہ کتاب حاصل کرنے کیلئے تو مطبع یا کاتب یا جامع کتب کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن کتاب فہمی کیلئے ان سے ربط قائم کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس غرض کی تکمیل کیلئے کتاب کے عالم و معلّم کے ساتھ تعلقات کا قائم کرنا لازمی ہوا کرتا ہے بلکہ کتاب حاصل کرنے سے پہلے اس بات خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو پڑھائے گا کون؟ نیز کاتب و ناشر کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نہ سہی کوئی اور مل جائے گا۔۔۔ لیکن۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کتاب دان نہ سہی تو اور کوئی طریقہ نکل آئے گا۔
پس اس مقام پر بھی ہم کہنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری ہے اور فرض عینی ہے لہذا اس کا حاصل کرنا بھی لازمی امر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے سیکھنے اور سمجھنے کے لئے اس کے عالمین اور معلّمین سے تمسک پکڑنا اور پھر ان کے دروازہ پر دستک دینا بھی ضروری ہے۔
اگر جامعِ قرآن عالمِ قرآن بھی ہو تو دونوں مطلب ایک ہی جگہ سے پورے ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ ان ہر دو معنوں میں کوئی تلازم نہیں لہذا ضروری نہیں کہ جس کو جامعِ اجزائے قرآن مانا جائے اس کو عالم قرآن بھی تسلیم کیا جائے، پس ناشرِ قرآن ہونے کی وجہ سے اس کی احتیاج ہے لیکن نہ اس کا عالم ہو نا ضروری ہے اور نہ اس کو عالم جاننا اور نہ اس کے واجبُ الاطاعت ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ کتاب کے کاتب۔۔۔ ناشر۔۔۔ جلد ساز یا کتب فروش وغیرہ کو عالم یا معلّم کتاب تسلیم کرنا کوئی ضرور ی نہیں ہوا کرتا۔
قرآن پر ایمان لانا اور بات ہے اور اس کے جامع کو عالم یا تاجدارِ رسالت کا صحیح قائم مقام تسلیم کرنا اور بات ہے، لہذا یہ کہنا قطعاً غلط۔۔۔ بے جا اور خلافِ اصول ہے کہ جو جامعِ قرآن کی خلافت پر ایمان نہ لائے اس کا قرآن پر ایمان نہیں بلکہ علمِ قرآن یا خلافت تو درکنار۔۔۔ اگر منصفانہ طور پر غور کیا جائے توجمعِ قرآن اور اسلام میں بھی کوئی تلازم نہیں، بہت سے غیر مسلم بھی ناشر قرآن ہواکرتے ہیں جس طرح کہ مشاہدہ بتارہا ہے، ہاں تمسک کیلئے قرآن اور عالم قرآن میں تلازم ضرور ی ہے، ان دونوں میں قطعاً افتراق محال ہے اگر قرآن کی ضرورت ہے تو عالم قرآن کی ضرورت بھی ساتھ ساتھ ہے اگر قرآن کے ساتھ تمسک ضروری ہے تو اس کے عالم کے ساتھ تمسک بھی ضروری ہے، پس ایمان لانا بھی ضروری ہے۔
 یہ کہنا بجا ہے جس کا جامعِ قرآن پر ایمان نہیں درحقیقت اس کا قرآن پر ایمان نہیں کیونکہ اس صورت میں ان دونوں میں لازم و ملزوم کی حیثیت ہے اس کے حقیقی مصداق سوائے اہل بیت عصمت کے کوئی بھی نہیں لہذا قرآن حاصل کرنے اس کے سیکھنے۔۔۔ سمجھنے کیلئے ان ہی کے دروازہ پر دستک دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے، نہ وہ قرآن سے جدا ہیں اور نہ قرآن ان سے جدا ہے۔
 گذشتہ فصول میں اس مطلب پر کافی روشنی ڈالی جاچکی ہے مزید توضیح کیلئے اس مقام پر بھی چند احادیث کا ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا:
٭      عَنْ رَبِیْعِ الْاَبْرَارِ  لِلزّ مَخْشَرِیْ اِسْتَأذَنَ اَبُوْ ثَابِت مَوْلٰی عَلِیّ عَلٰی اُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا فَقَالَتْ مَرْحَبًا بِکَ یَا اَبَا ثَابِت اَیْنَ طَارَ قَلْبُکَ حِیْنَ طَارَتِ الْقُلُوْبُ مَطَارَہَا؟قَالَ تَبِعَ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ قَالَتْ وُفِّقْتَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْقُرْآنِ وَالْحَقُّ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ وَ لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔(الغدیر ج۲طبع۲ص۱۷۸)
ترجمہ: زمخشری کی ربیع الابرار میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؑ کے غلام ابو ثابت نے امّ المومنین حضرت امّ سلمہ ؑ سے اجازت لی اور اندر داخل ہوا پس (امّ سلمہ ؑ نے ) کہا مرحبا تجھے اے ابو ثابت! بتا تیرا دل کہاں پرواز کر گیا تھا جبکہ لوگوں کے دل اِدھر اُدھر پرواز کر چکے تھے ؟ ابو ثابت نے جواب دیا کہ (میرا دل ) علی ؑ ابیطالب کے نقش قدم پر رہا تو (امّ سلمہ ؑ نے) کہا خدا تجھے موفق رکھے، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے رسول اللہ سے سنا ہے فرماتے تھے علی ؑ حق اور قرآن کے ساتھ ہے اور حق و قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاںتک کہ حوض کوثر پر میرے پاس اکٹھے وارد ہوںگے۔
٭      عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ  قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَہٗ لا یَفْتَرِقَانِ حَتّٰی یَرِدَا عَلَیّ الْحَوْضَ۔(الغدیرج۳طبع ۲ص۱۷۸،مستدرک،صواعق، تاریخ الخلفا، اسنی المطالب وغیرہ)
ترجمہ: امّ سلمہ ؑ سے روایت ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا کہ علی ؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے یہ دونوں آپس سے جدا نہ ہوںگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر اکھٹے پہنچیں گے۔
اس مضمون کی احادیث کتب فریقین میں تواتر سے وارد ہیں جن کا مطلب یہی ہے کہ قرآن اور علی ؑ میں لازم و ملزوم کی سی حیثیت ہے، بعض روایات میں قرآن وعلی ؑ کی لفظیں ہیں اور بعض میں حق و علی ؑ کا ذکر ہے اور بعض میں قرآن وعترت اہل بیت کا تذکرہ ہے مطلب سب کا ایک ہے اور حدیث۔۔۔ حدیث ثقلین کے نام سے زبان زدعام ہے،  اس کی رُو سے علی ؑ کا منکر قرآن کا منکر اور قرآن کا منکر علی ؑ کا منکر ہے۔۔۔ یا اہل بیت کا دشمن قرآن کا دشمن اور قرآن کا دشمن اہل بیت کا دشمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ علی ؑ کے ساتھ دشمنی رکھنا اور بغض وکینہ رکھنا نفاق ہے!چنانچہ اکابرِ صحابہ نے (ترمذی، استیعاب، اسنی مطالب، مجمع الزوائد) میں خود اسکا اعتراف کیاہے:
ابوذرغفاری:  قَالَ کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ بِثَلاثٍ بِتَکْذِیْبِھِمُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَالتَّخَلُّفِ عَنِ الصَّلٰوۃِ وَ بُغْضِھِمْ لِعَلِیّ ابْن اَبِیْ طَالِبٍ۔
ترجمہ: حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ عہدِ رسالت میں ہم منافقین کو تین چیزوں سے پہچان لیا کرتے ہیں:   (۱)خدااور رسول کی تکذیب (۲)نماز سے پیچھے رہ جانا (۳)علی ؑ کے ساتھ بغض رکھنا۔
ابوسعید خُدری:  قَالَ کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ بِبُغْضِھِمْ عَلِیًّا۔
ترجمہـ: حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم گروہِ انصار۔۔۔ منافقین کو بغضِ علی ؑ سے پہچان لیا کرتے تھے۔
جابرابن عبداللہ انصاری:   قَالَ مَا کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ اِلا بِبُغْضٍ اَوْ بِبُغْضِھِمْ عَلِیّ ابْن اَبِیْ طَالِبٍ (لفْظَۃ اَوْلاخْتِلافِ اَلْفَاظِ الرِّوَایَۃِ)
ترجمہ: حضرت جابر ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم۔۔۔ منافقین کو صرف حضرت علی ؑ ابن ابیطالب کے بغض سے پہچان لیتے تھے۔
ابوسعید محمد ابن ہشیم :  قَالَ اِنِّا کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ بِبُغْضِھِمْ عَلِیّ ابْن اَبِیطَالِبٍ۔
ترجمہ: ابو سعید محمد ابن ہشیم فرماتے ہیں کہ ہم گروہِ انصار۔۔۔ منافقین کو البتہ صرف حضرت علی ؑ ابن ابیطالب کے بغض سے ہی پہچان لیتے ہیں۔
 ابودردائ:   قَالَ اِنَّا کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ مَعْشَرَالْاَنْصَارِ بِبُغْضِھِمْ عَلِیّ بْن اَبِیْطَالِبٍ۔
ترجمہ: ابو دراء  فرماتے ہیں کہ ہم گروہِ انصار۔۔۔ منافقین کو صرف علی ؑ کے بغض سے پہچان لیا کرتے ہیں۔
امّ سلمہ ؑ :   قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَقُوْلُ لا یُحِبُّ عَلِیًّا مُنَافِقٌ وَلا یُبْغِضُہٗ مُوْمِنٌ۔
ترجمہ: حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ جناب رسالتمآبؐ فرمایا کرتے تھے کہ منافق۔۔۔ علی ؑ سے محبت نہ کرے گا اور مومن علی ؑ سے بغض نہ کرے گا۔
ابن عباس :  قَالَ نَظَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلٰی عَلِیٍّ فَقَالَ لایُحِبُّکَ اِلَّا مُوْمِنٌ وَلا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ۔
ترجمہ: ابن عباس فرماتے ہیں کہ جناب رسالتمآبؐ نے علی ؑ کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھ نہ محبت کرے گا مگر مومن او ر تیرے ساتھ بغض نہ رکھے گا مگر منافق۔
 علی ؑابن ابیطالب:  لَعَھَدَ النَّبِیُّ الْاُمِّیْ اِلَیَّ اَنَّہُ لا یُحِبُّنِیْ اِلَّامُوْمِنٌ وَلا یُبْغِضُنِیْ اِلاَّ مُنَافِقٌ۔۔۔۔ اَوْلَعَھَدَ النَّبِیّ اِلَیّ لایُحِبُّکَ اِلَّامُوْمِنٌ وَلا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ۔۔۔۔اَوْ یَاعَلِیّ لا یُبْغِضُکَ مُوْمِنٌ وَلا یُحِبُّکَ مُنَافِقٌ۔۔۔۔اَوْ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَخَذَ مِیْثَاق کُلّ مُوْمِنٍ عَلٰی حُبِّیْ وَ مِیْثَاق کُلّ مُنَافِقٍ عَلٰی بُغْضِیْ۔
ترجمہ: حضرت علی ؑ فرماتے ہیں نبی اُمّی کا مجھ سے عہد ہے کہ میرے ساتھ مومن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی صرف میرے ساتھ بغض رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب رسالتمآبؐ کا مجھ سے عہد ہے کہ (یاعلی ؑ) تیرے ساتھ مومن ہی محبت کرے گا اور تیرے ساتھ منافق ہی بغض رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاعلی ؑ تیرے ساتھ مومن بغض نہ کرے گا اور منافق محبت نہ کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔روز میثاق سے مومن نے میری محبت کا اور منافق نے میرے بغض کا اللہ کے سامنے عہد کیا ہے (ترمذی، مسند احمد، سنن ماجہ، سنن نسائی، شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید)
ان کے علاوہ حدیث غدیر جس کا متواتر ہونا مسلّم ہے ایک سو سے زائد صحابہ کرام نے اس کا قولِ رسول ہونا تسلیم کیا ہے اور علامہ امینی ؒمد ظلہ نے بترتیب حروف تہجی ان تمام صحابہ کرام کے نام مع الفاظِ روایت ذکر کیے ہیں اور تاعہد حاضر اس حدیث کا تواتر کے ساتھ نقل ہونا ثابت فرمایا ہے (الغدیر ج۱)
ان احادیث کے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ( علی ؑ ہی چونکہ عالم قرآن ہیں) لہذا قرآن کے ساتھ ساتھ علی ؑ کی محبت کے بغیر قطعاً انسان مومن نہیں بن سکتا۔۔۔ اور گذشتہ فصول میں اس امر پر کافی روشنی ڈالی جاچکی ہے کہ جناب امیرالمومنین ؑ ہی عالم قرآن اور معلّم قرآن ہیں اور ان کے بعد ان کی عترت طاہرہ کو یہ شر ف تاقیامت حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید قیامت تک کے لیے ہے اب اس سلسلہ میں کتب امامیہ میں سے بعض اور احادیث ذکر کی جاتی ہیں تاکہ روحِ ایمان کے لیے صیقل کا کام دیں، چنانچہ مقدمہ تفسیر مرا ٔۃ الانوار میں بصائر الدرجات سے بسندِ صحیح منقول ہے کہ حضرت صادقِ آل محمد۔۔۔ امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایاکہ:
۱-  اِنَّ اللّٰہَ عَلَّمَ نَبِیّہُ التَّاوِیْلَ وَالتَّنْزِیْلَ قَالَ فَعَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلِیًّا قَالَ وَ عَلَّمَنَا وَاللّٰہِ۔
ترجمہ: تحقیق اللہ نے اپنے نبی کو تنزیل اور تاویل کا علم عطا فرمایا پس جناب رسالتمآبؐ نے علی ؑ کو تعلیم فرمایاپھر فرمایا کہ خدا کی قسم ہم اس کو جانتے ہیں ( الخبر)
۲-  قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَاعَلِیْ اَنْتَ تُعَلِّمُ النَّاسَ تَاوِیْلَ الْقُرْآنِ بِمَا لایَعْلَمُوْنَ فَقَالَ عَلِیّ مَا اُبَلِّغُ رِسَالَتَکَ بَعْدَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ؟ قَالَ تُخْبِر النَّاسَ بِمَا اُشْکِلَ عَلَیْھِمْ مِنْ تَاوِیْلِ الْقُرْآنِ وَمَافِیْہِ۔
ترجمہ: جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: اے علی ؑ تو لوگوں کو تاویل قرآن کی تعلیم دے گا کہ وہ نہیں جانتے ہوں گے، حضرت علی ؑ نے عرض کیا مولا میں آپ کی رسالت کی تبلیغ آپ کے بعد کس طرح کروں ؟ تو آپ نے فرمایا تاویل قرآن یا اس کے جملہ مطالب جو لوگوں پر حل نہ ہو سکیں توان کو ان سے خبردار کرنا۔
۳-  رَوٰی الصَّفّارُ مِنْ ثِقَاتِ اَصْحَابِ الصَّادِقِ اَنَّہُ قَالَ بَعْدَ مَا اَوْمَیئَ اِلٰی صَدْرِہٖ عِلْمُ الْکِتَابِ کُلّہُ وَاللّٰہِ عِنْدَنَا ثَلاثاً۔
ترجمہ: صفار نے حضرت امام جعفر صادقؑ کے ثقہ اصحاب سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایاکہ خدا کی قسم پوری کتاب خدا کا علم ہمارے پاس موجودہے۔
۴-  عَنْہُ بِاَسْنَادِہٖ عَنْ یَعْقُوْب بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ کُنْتُ مَعَ اَبِی الْحُسَنِ بِمَکَّۃَ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ اِنَّکَ لَتُفَسّرُ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَالَمْ نَسْمَع بِہٖ ؟ فَقَالَ اَبُو الْحَسَنِ عَلَیْنَا نَزَلَ قَبْلَ النَّاسِ وَ لَنَا فُسِّرَ قَبْلَ اَنْ یُفَسَّرَ فِی النَّاسِ فَنَحْنُ نَعِرُفُ حَلالَہُ وَحَرَامَہُ وَ نَاسِخَہُ وَ مَنْسُوْخَہُ وَ سَفَرِیَّہُ  وَ حَضَرِیَّہُ وَ فِیْ اَیٍّ لَیْلَۃٍ نَزَلَتْ وَ فِیْ مَنْ نَزَلَتْ وَفِیْ مَا اَنْزَلَتْ۔(الخبر)
ترجمہ: یعقوب ابن جعفر سے روایت ہے کہ مکہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم ؑکے ہمراہ موجود تھا کہ آپ کی خدمت میں آکر ایک شخص کہنے لگاآپ قرآن کی ایسی تفسیر بیان فرماتے ہیں جو ہم نے سنی نہ ہو!  تو آپ نے فرمایا کہ قرآن لوگوں سے پہلے ہم پر نازل ہو ا اور لوگوں سے پہلے ہم پر اس کی تفسیر کھلی پس ہم ہی اس کے حلال و حرام۔۔۔ ناسخ و منسوخ۔۔۔ سفری و حضری کو جانتے ہیں اور ہم ہی جانتے ہیں کہ کون سی آیت کس رات میں کسی شخص کے بارے میں اور کس باب میں اتری ہے۔
۵-   فِی الْکَافِیْ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ قَالَ مَا یَسْتَطِیْعُ اَحَدٌ اَنْ یَّدَّعٰی اَنَّ عِنْدَہُ عِلْمُ جَمِیْعِ الْقُرْآنِ کُلّہُ ظَاہِرُہُ وَ بَاطِنُہُ غَیْرَالْاَوْصِیَائِ۔
ترجمہ: کافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا کہ سوائے اوصیأ کے کسی کو جرأت نہیں کہ یہ دعویٰ کرے کہ میں پورے قرآن کے ظاہر و باطن کا علم رکھتاہوں۔
۶-   وَ فِیْ رِوَایَۃٍ اُخْرٰی عَنْہُ قَالَ مَا ادّعٰی اَحَدٌ اَنَّہُ جَمَعَ الْقُرْآنَ کُلّہُ کَمَا اَنْزَلَ اِلَّا کَذَّابٌ وَ مَا جَمَعَہُ وَحَفِظَہُ کَمَا اَنْزَلَ اِلَّا عَلِیّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَالْاَئِمَّۃ مِنْ بَعْدِہٖ۔
ترجمہ: ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے جو بھی جامع قرآن ہونے کا دعویٰ کرے جس طرح اُترا ہے وہ جھوٹا ہے، کیوںکہ جس طرح اُترا ہے اس طرح اس کے جمع اور حفظ کرنے والا سوائے علی ابن ابیطالب اور اس کے قائم مقام آئمہ کے اور کوئی بھی نہیں۔
۷-  عَنْ تَفْسِیْرِ الْعَیّاشِیْ قَالَ اِنَّا اَھْلَ بَیْت لَمْ یَزَلِ اللّٰہُ یُبْعَثُ فِیْنَا مَنْ یَّعْلَمُ کِتَابَہُ مِنْ اَوَّلِہٖ اِلٰی آخِرِہٖ۔
ترجمہ: بروایت تفسیر عیاشی حضرت امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ ہم اہل بیت میں سے خدا ہمیشہ ایک ایسا شخص بھیجتا رہا ہے جو قرآن کا اوّل سے لے کر آخر تک عالم ہواکرتا ہے۔
۸-   وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِنَّ مِنْ عُلُوْمٍ مَا اُوْتِیْنَا تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ وَ اَحْکَامُہُ لَوْ وَجَدْنَا اَوْعِیَۃً اَوْ مُسْتَرَاحًا لَقُلْنَا۔۔۔وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔
ترجمہ: ایک روایت میں ہے فرمایا ہمارے علوم وہبیہ میں سے قرآن کی تفسیربھی ہے اور اس کے احکام کا علم بھی، اے کاش۔۔۔ ہمیں اس کے ظرف اور حامل ملتے تو ہم بیان کرتے۔
۹-  عَنْ قُوَّۃِ الْقُلُوْبِ قَالَ عَلِیٌّ لَوْشِئْتُ لَاَوْقَرْتُ سَبْعِیْنَ بَعِیْراً مِنْ تَفْسِیْرِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ۔
ترجمہ: امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں اگر میں چاہوں تو صرف سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بار کر سکتا ہوں۔
۱۰-  ابو خالدواسطی روایت کرتا ہے کہ زید ابن علی سے مروی ہے حضرت امیرالمومنین فرمایا کرتے تھے کہ عہد رسالت میں کبھی میرے سر میں اونگھ یا نیند نے جگہ نہیں لی جب تک کہ میں نے حضرت رسالتمآبؐ سے اس دن میں جبرائیل کی لائی ہوئی آیات کے متعلق حلا ل و حرام۔۔۔ سنت اور امر و نہی اور مقصد نزول اور شان نزول دریافت نہ کر لیا ہو۔
راوی کہتا ہے کہ باہر جا کر ہم نے معتزلیوں سے ملاقات کے موقعہ پر اس چیز کو پیش کیا تو انہوں نے اس پر فوراً اعتراض کر دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ بعض اوقات وہ دونوں (جناب رسالتمآبؐ اور حضرت علی ؑ) ایک دوسرے سے بہت دور ہوا کرتے تھے پس وہ کس طرح جناب رسالتمآبؐ سے سب باتیں دریافت کر سکتے تھے؟
معتزلیوں کا یہ اعتراض واپس آکر ہم نے زید سے بیان کیا تو زید نے جواب دیا کہ وہ تاریخیں نوٹ کر لی جاتی تھیں اور پھر جب بھی ملاقات ہوتی تھی تو جناب رسالتمآبؐ تاریخ وار آیات سنا دیا کرتے تھے اور ان کے گوشوں کے متعلق ارشاد فرما دیا کرتے تھے اور اس طریقہ سے ملاقات کے روز تک کی کمی پوری ہو جایا کرتی تھی۔
بس۔۔۔ اس قدر روایات۱؎ اس بارہ میں کافی قرار دیتا ہوں اور ضمنی طور پر اس مضمون کی دوسری روایات اپنے اپنے مقام مناسب پر ذکر ہوتی رہیں گی۔۔۔اِنْشَائَ اللّٰہُ الْعَزِیْز
میں شروع میں ذکر کر چکا ہوں کہ جامعِ اوراق اور عالم مطالب مندرجہ میں فرق ہے، اصل کتاب اور جامع ظاہری میں کوئی تلازم نہیں لیکن تمسک کے لئے کتاب اور عالم کتاب میں تلازم ہے۔۔۔ لہذا عالم قرآن کی معرفت اور مودّت کے بغیر صرف قرآن یا اس کے جامع اجزائے ظاہریہ کے ساتھ تمسک پکڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، گذشتہ احادیث نے ثابت کر دیا کہ علی ؑ کا منکر قرآن کا منکر ہے کیونکہ علی ؑہی قرآن کے جملہ علوم کے عالم و معلّم ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اگر جامع قرآن سے مراد جامع اوراق اور صرف ناشر ہے تو قرآن کی محبت کے ساتھ اس کی محبت کے وجود کا کوئی تلازم نہیں۔۔۔ لہذا۔۔۔۔ اس پر ایمان نہ لانے سے ایمان بالقرآن میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی اور اگر جامع قرآن سے مراد جامع علوم قرآنیہ ہو تو قرآن کی محبت اور جامع علوم قرآنیہ کی محبت میں قطعی طور پر تلازم ہے ان میں سے ایک کا منکر دوسرے کا منکر ہو گا اور جامع علوم قرآنیہ علی ؑ اور ان کی اولاد طاہرین کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں، پس قرآن اور ان کی مودّت میں یقیناً تلازم ہے ان دونوں میں سے ایک سے نفرت کر کے دوسرے کے ساتھ ایمان کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
________________________________________________
۱-  فی ثالث البحار عن علیّ اوتیت فھم الکتاب و فصل الخطاب و علم القرون والاسباب واستودعت الف مفتاح یفتح کل مفتاح الف باب یفضی کل باب الی الف الف عھد (الخبر)