وہ خدا جو کل کائنات کا خالق اورہرشئے
پرقادرہے۔۔۔۔۔ اس کی ہر صنعت عینِ حکمت۔۔۔ اس کا ہر فعل عینِ عدل۔۔۔ ازلی۔۔۔ ابدی۔۔۔
قدیم۔۔۔ قیّوم۔۔۔ اس کی صفات عینِ ذات، نہ دیکھنے میں۔۔۔ نہ سننے میں۔۔۔ نہ
سونگھنے میں۔۔۔ نہ چکھنے میں آتاہے، ہر جگہ ہے اور ہر جگہ سے بے نیاز ہے، باوجود
انتہائی قریب کے انتہائی بعدبھی رکھتا ہے اورباوجودبعید تر ہونے کے قریب تر بھی
ہے، نہ زبان کا محتاج۔۔۔ نہ مکان کاخواہشمند ہے۔
چنانچہ بحار الانوار جلد۴
میں ہے کہ جب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے بر سرمنبر دعوائے سلونی کیا تو ایک
شخص ذعلب نا می نہایت طرار۔۔۔ بلیغ اللسان اور جر ی القلب حا ضرین میں سے یہ کہتے
ہوئے اُٹھ کھڑاہو ا کہ آج علی ؑ نے بہت اُونچی اور مشکل جگہ پر قدم رکھا ہے، میں
ان کو لاجواب کر کے (مَعَا ذَ اللّٰہ) شرمسارکر تا ہوں، پس عرض کیا!
یاامیرالمومنین ؑ کیاآپ ؑ نے کبھی اپنے ربّ کو دیکھا بھی ہے؟ آپ ؑ نے فرمایااے
ذعلب میں ایسانہیں ہوں کہ اَن دیکھے خد ا کی عبادت کروں،اس نے عرض کیا پھر کیسے
دیکھا ذرا تشریح فرما یئے؟ آپ ؑ نے فرمایا اس کو آنکھیں مشاہدۂ بصارت سے نہیں پا سکتں بلکہ دل بصیرتِ ایمان سے
اس کا مشاہد ہ کرتے ہیں۔
اے ذعلب۔۔۔۔۔میرے ربّ کو نہ بعید۔۔۔ نہ متحرک۔۔۔
نہ ساکن۔۔۔ نہ قائم (کھڑے ہو نے کے کہا جا تا ہے) اور نہ وہ آمد و رفت کی صفت سے
متصف ہے، تمام لطا فتوں سے لطیف تر لیکن اس کو بار یک نہیں کہا جا سکتا۔۔۔۔۔
تمام عظمتوں سے عظیم تر لیکن جسمیت کے اعتبار سے نہیں۔۔۔۔۔ تمام بڑوں سے بڑا لیکن
عمر کے اعتبار سے اُس کو اِس صفت سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔ مقامِ جلا لت میں
جلیل تر نہ جسمانی مو ٹائی کے معنی میں۔۔۔۔۔ مقا ماتِ رحمت میں رحیم تر لیکن نہ
رقت قلبی کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ مومن ہے لیکن نہ اقرارِ لفظی سے۔۔۔۔۔ مدرک ہے لیکن نہ
احساسات سے۔۔۔۔۔ متکلم ہے لیکن بغیر تلفظ زبانی کے۔۔۔۔۔ وہ چیز وں کے اندر ہے لیکن
خلط کے رنگ میں۔۔۔۔۔ اور ہر شئے سے خارج ہے لیکن نہ مغایرت کے طور پر۔۔۔۔۔ اس کے
اوپر کوئی شئے نہیں کہی جا سکتی۔۔۔۔۔ وہ ہر شئے سے پہلے، کوئی شئے اس سے پہلے
نہیں، اشیا میں دا خل لیکن نہ مظر وفیت کے طریق پر۔۔۔ اور اشیا سے با ہر ہے لیکن
نہ اس طرح کہ جیسے ایک شئے سے دوسری شئے با ہر کردی جا تی ہے۔
آپ ؑ اس مقام پر پہنچے تو ذعلب بے ہوش ہو کر زمین
پر گر گیا۔۔۔ ہوش سنبھلنے پر عرض کر نے لگا خدا کی قسم ایسا جواب میں نے کبھی نہیں
سنا تھا۔۔۔ اور خدا کی قسم اس قسم کا سوال آئندہ ہر گز نہ کروں گا۔
علاوہ ازیں مقامِ توحید کو بیان کر نے کے لئے نہج
البلا غہ یا دیگر کتب خا صہ و عامہ میں حضرت امیر المومنین ؑ کی زبانِ درّفشان سے
معرفت کے جو دریا جاری ہو ئے ہیں وہ صرف آپ ؑ ہی کا حصہ تھا، اس جگہ مقام تو حید
کی طرف اشارہ کر نے کے بعد مجھے یہ کہنا ہے کہ پس ایسی ذات تک رسائی حا صل کر نے
کے لئے اور اس کی رضامندی کی تحصیل اور اس کے غضب سے بچا و کے لئے کیا طریقہ اختیا
رکر نا چاہیے؟ اس غرض کے لئے کیا ہم خود اپنا رستہ معین کر سکتے ہیں پس کسی ایسے
واسطہ کی ضرورت ہے جو وہاں سے لا کر یہاں پہنچا ئے؟ جس کا تعلق اس کی ذات سے بھی
ہو اور ہماری پہنچ بھی اس تک ہو سکتی ہو، نہ وہ اس کی مثل کیونکہ لَیْسَ
کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ اور نہ وہ پوری طرح ہمارے مشابہ ہو ورنہ وہ بھی فیوضِ
قدسیۂ الٰہیہ کی تحصیل میں ہماری طرح عا جز و محتاجِ غیر ہو جائے گا پس وہ ایسا
ہو جو خدا سے اِدھر ہو اور ہم سے اُدھر ہو، اُدھر سے لا نے کی اہلیت رکھتا ہو اور
اِدھر پہنچانے میںبصیرتِ تامہ کا حا مل ہو، خدا ارشاد فر ما تا ہے:
٭ وَابْتَغُوْا
اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔
ترجمہ: اللہ کی طرف پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
٭ قُلْ
اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی۔
ترجمہ: کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو
میری (محمدؐ) کی اطاعت کرو۔
٭ مَا
اَتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔
ترجمہ: جو تم کو رسول دے وہ لے لو اور جس سے منع
کر ے اس سے رُک جائو۔
٭ وَمَا
یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُوْحٰی۔
ترجمہ: وہ (رسولؐ) خواہش نفس سے نہیں بولتا وہ تو
وحی خدا ہی ہو تی ہے۔
٭ لَقَدْ
مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِنْ
اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ
الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْ مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن۔
ترجمہ: البتہ اللہ نے ایمان والوں پر احسان
فرمایاہے کہ ان میں انہی کے نفسوں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو اُن پراس
کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اوران کو پا کیزہ کر تا ہے اور ان کو کتاب وحکمت (شریعت
) کی تعلیم دیتا ہے اور تحقیق وہ اس سے پہلے پوری طرح گمراہی میں تھے۔
٭ یَآ
اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ۔
ترجمہ: اے لو گو! میں تمہاری طرف اللہ کا
رسول بھیجا ہوا ہو ں۔
٭ فَاٰمِنُوْا
بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ النَّبِیِّ الْاُمِّی۔
ترجمہ: پس اللہ اور اس کے رسولِ اُمّی کے ساتھ
ایمان لائو۔
٭ یٰـاَیُّھَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَ لا تَوَلَّوْ عَنْہُ
وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْن۔
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول
کی اطاعت کر و اور اس سے رو گردانی نہ کر وحا لا نکہ تم سنتے ہو۔
٭ یٰـاَیُّھَا
الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْک۔
ترجمہ: اے رسول پہنچا دے وہ چیز جو تیری طرف نا زل
کی گئی ہے۔
ان قرآنی اقتبا سات سے معلوم ہوا کہ انسان
خوشنودی خا لق کے حا صل کر نے میں اس کے رسول کا محتاج ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے شعر سابق (جو اس
سے پہلی فصل میں بیان کیا جاچکا ہے) کی تمثیل کی بنا ٔ پر جس طرح بدنِ انسانی میں
عقلِ انسانی رسولِ باطنی ہے اسی طرح وجودِ عالم میں خدا کافر ستادہ مبلّغ عقلِ کل
(رسول ظاہری)ہے اور وہ اعضائے بدن کا ہادی ہے اور یہ افرادِ عالم کا رہبر ہے جس
طرح عقلِ انسانی انسان کے اعتقاد و عمل دونوں پہلوئوںمیں رہبری کے فرائض انجام
دیتی ہے اسی طرح خدا کا رسول افرادِ عالم کی ہر دو پہلو ئوں سے ہدایت کرتا ہے۔
گو گذشتہ
بحث میں اس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے لیکن اس مقام پر اعادہ خالی ازافادہ نہ ہو
گا۔۔۔۔۔ رسول کے دو کا م ہو ا کر تے ہیں ایک اصلاحِ عقیدہ اور دوسرا اصلاحِ عمل،
وہ ایک طرف تو معبو دکے متعلق کج مج اعتقادکومٹا کر روحِ معرفت پیدا کرتے ہیں
اوردوسری طرف فرائض عبدیت کی تعلیم کے ساتھ تمدن ومعاشرہ میں پیداشدہ خرابیوں کا
قلع قمع کرکے اصلاحی طرزِ عمل کا نفاذکر تے ہیں۔
دیکھئے حیوانات میں روح ہے لیکن عقل نہیں۔۔۔۔۔ پس
وہ روح کا احساس رکھتے ہیں لیکن عقل نہ ہو نے کی بنا ٔپر عمل میں صحت و خطاکی
تمیزمیں نا ممکن ہے اوراُنہیں حلال و حرام سے آگاہ کرنا محال ہے۔
پس عقل وجودِ انسانی میں روح اور با قی اعضا ٔ کے
درمیان واسطہ کی حیثیت سے ہے جس کی بدولت انسان کوحیوانات سے امتیازی شان حاصل ہے،
لیکن نہ توروح کے مشابہ ہے بلکہ اس کی مثل ان کے اعضا ٔ میں کوئی ہی ہونہیں سکتی
اور نہ باقی اعضا ٔ سے اسکی مشابہت ہے۔۔۔۔۔ ہاںالبتہ روح کی رعایاہونے میں باقی
اعضا ئے بدن کے ساتھ شریک ضرورہے، روح سے خودبلاوسطہ استفادہ کرتی ہے اورباقی اعضا
ٔ کوفائدہ پہنچاتی ہے اورباقی اعضا ٔ تمام پر اس کوحق حکومت حاصل ہے اور ان کی
اصلاح کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق اس کوکلی اختیارحاصل ہے اگرعقل درمیان میں نہ
ہوتوباقی اعضا ٔ کوعام حیوانات کی طرح روح کااحساس تو ضرورہوگا، لیکن نفع اور نقصان
کا ادراک۔۔۔ مصلحت ومفسدہ کا علم۔۔۔ یاحلال وحرام۔۔۔ اپنی وپرائی میں تمیز ہرگزنہ
ہوسکے گی، پس عقل رو ح اور باقی اعضا ٔ ہر دوکے درمیان واسطہ ہے اورہردو کی حقیقت
سے جداہے اورہر دو کے ساتھ اتصال کلی بھی اس کوحاصل ہے، نہ اس کے مشابہ ہے نہ اُن
کے مشابہ ہے۔۔۔ اُس سے اِدھر ہے اور اُن سے اُدھر ہے۔
اسی طرح رسول۔۔۔ خدااورخُدائی کے درمیان ایک واسطہ
ہے، نہ وہ اُس جیساہوسکتاہے اورنہ اُن جیسااس کو کہاجاسکتا ہے۔۔۔ ہاں اس کی
مخلوق (عبد، رعایا) ہونے میں ان جیسا ضرور ہے، ہردوطرف اس کو اتصال حاصل ہے اُدھر
سے لاتاہے اور اِدھر پہنچاتا ہے اور تمام مخلو ق کی اصلاح کے لیے اختیاراتِ واسعہ
کا حامل ہے مَا اٰتٰـیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰیکُمْ عَنْہُ
فَانْتَھُوْ جو بھی حکم دیں اس کی اطاعت
کرو اور جس سے منع کریں اُس سے رک جائو۔
٭ جس
طرح بدن انسانی میں روح کی پہلی منزل عقل ہے اسی طرح بدن عالم میں معرفت خداکی
پہلی منزل رسول ہے۔
٭ جس
طرح بدن انسان میں عقل انسانی مخلوقِ اوّل ہے اسی طرح جسم عالمِ میں نورِ نبوت
مخلوقِ اوّل ہے۔
٭ جن
انسانوں کو عقل نہیں دی گئی ان سے جزاوسزاساقط ہے (جس طر ح بچے یادیوانے )
٭ فِی
الْکَافِیْ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلام قَالَ لَمَّاخَلَقَ اللّٰہُ
الْعَقْلَ اِسْتَنْطَقَہُ ثُمَّ قَالَ اَقْبِلْ فَاَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَہُ
اَدْبِرْ فَاَدْبَرَ ثُمَّ قَالَ وَ عِزَّتِیْ وَجَلالِیْ مَاخَلَقْتُ خَلْقًا
ھُوَاَحَبُّ اِلَیَّ مِنْکَ وَلا اَکْمَلْتُکَ اِلَّا فِیْ مَنْ اَحَبُّ اما
اِنِّیْ اِیَّاکَ آمُرُ وَ اِیَّاکَ اَنْھٰی وَ اِیَّاکَ اُعَاقِبُ
وَاِیَّاکَ اُثِیْبُ۔
ترجمہ: کا فی میں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام
سے مروی ہے آپ ؑ نے فرمایا کہ جب خدا نے عقل کو پیدا کیا تواس کو گویا کیا۔۔۔
پھرفرمایا آگے بڑھ تووہ بڑھا، پھرفرمایا پیچھے ہٹ تو وہ ہٹا، پھر فرمایا کہ مجھے
اپنی عزت وجلال کی قسم تجھ سے محبوب تر کوئی مخلوق میں نے پیدانہیں کی اور میں نے
محبوب ترین انسان میں ہی تجھے کامل کرکے بھیجا ہے، میرے اَوامرونواہی کا تعلق بھی
تجھ ہی سے ہوگا اور سزاوجزاکا موردبھی توہی ہوگا۔
اسی مضمون کی اوراحادیث بھی وارد ہیں جن کو جمع
کرنا کتاب میں طول کاباعث ہے۔
ذاتِ احدیت کا عقل سے خطاب کر ناغالبا ًامر تکوینی
ہے نہ کہ تشریعی، جس طرح زمین و آسماں کو فرمایا کہ آئو پس وہ اطاعت کرتے ہوئے
آگئے اور انھوں نے کہا (اٰ تَیْنَا طَائِعِیْن ) جس طرح روزِازل تمام ارواح سے
خطاب فرمایا: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ تو سب نے کہا بَلٰی
۔۔۔۔۔غرض اس سے معرفت واطاعت کی استعداد کا حسب ِحیثیت ان میں تفویض
کرناہے۔۔۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔
لیکن حدیث کے الفاظ ہیں (آگے آ۔۔۔ تو وہ آیا،
پیچھے ہٹ تووہ ہٹا ) اس اقبال وادبارکے فرمان کاکیا مطلب ہے؟ تو اس کے متعلق
متعددتوجیہات بیا ن کی گئی ہیں میں اس مقام پر صرف چھ ہی عرض کرتا ہوں:
(۱)
عقل سے مراد عقلِ انسانی ہو تومقصد یہ ہے کہ عقل سے یہ عہد لیاگیا کہ
جب اس کو اپنی حیثیت کے مطابق نفع ونقصان معلوم ہوجائے۔۔۔ پھر: ایک صورت میں
اس کو صاف نفع معلوم ہو گا، اور اسی کام کا دوسرا پہلو اس کی نگاہ میں باعث نقصان
ہو گا ۔۔۔۔۔ تو دریں صورت خدا کا حکم بذریعۂ رسول بھی اسی صورت کے موافق ہو جائے
جس کے نفع مند اور مطابق مصلحت ہونے کا اس نے خود فیصلہ کیا تھا پس اس صورت میں
عقل کی اطاعت کا نام ہے آگے آنا (اقبال) اور اگر خدا کاحکم بذریعہ رسول صورتِ
نفع کے خلاف ہو بلکہ عقل کی نگاہ میں اس کام کاکرناباعث نقصان ہو تو اپنے نظریہ کے
ماتحت ذاتی جذبات کو کچل کر حکم خدا اور رسول کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے
پیچھے ہٹنا( ادبار)
پہلی صورت کی مثال جیسے نکاح کر نا۔۔۔ تجا رت کرنا
وغیرہ عقل کے نزدیک نافع اور مصلحت داربھی اور حکمِ خدا بھی ایسا ہی ہے، پس اس قسم
کے امور میں اطاعت شعاری کا نام ہے (اقبال) اور دوسری صورت کی مثال جیسے
جہاد میں سر کٹوانا۔۔۔ اپنے کمائے ہوئے ذاتی ما ل سے خمس وزکواۃ اداکرنا۔۔۔ حج کر
نا وغیر ہ ظاہری اعتبار سے عقل کے نزدیک جا نی یا مالی نقصان کا موجب اور خلا فِ
مصلحت ہے پس اپنے جذبات کو زیر کر کے خدائی حکم کے سامنے سر جھکادینے کا نام ہے
(ادبار)
پس عقل نے عالم تکوین میں دونوںصورتوں میں اطاعت
کو قبول کیا اور اب عالم تشریع میں اس سے ہر دو صورتوں میں اطاعت مطلوب ہے
وَاللّٰہُ اَعْلَمْ۔
(۲)
عقل سے مراد نورِ نبوت ہو تو ممکن ہے کہ اقبال سے مراد عالمِ علوی
ہے۔۔۔ اپنے تقدیس و تسبیح کے فر یضہ کو اداکر نا اور ادبار سے مرادعالمِ سفلی میں
جا کر تسبیح و تقدیس کے علا وہ فرائض تبلیغ انجام دینا۔
(۳)
اقبال کے معنی امت کی اطاعت کی صورت میں فرائض تبلیغ کا انجام دینا
اور ادبا ر سے مراد مخالفت اور نافرمانی بلکہ ایذا ٔرسانی کے باوجود اپنے
عہد کو نبھاتے رہنا۔
(۴)
سنجید ہ اور دانا طبقہ کو تعلیم دینا اقبال سے مراد اور نااہل
اکھڑمزاج اور کندذہن طبقہ کو حسن سلیقہ ونرمی ولطف کے ساتھ راہِ راست پر لانا
ادبار سے مراد ہو۔
(۵)
تندرستی اور صحت کے زمانہ میں بیماری ودکھ کی حالت میں خوشنودی خالق
کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی اطاعت کو ہر کا م میں ملحوظ رکھنا علیٰ الترتیب اقبال
وادبار سے مطلوب ہوں۔
(۶)
حالت تجردمیں یعنی مادّہ نفسانیہ، غضبیہ وشہویہ کے بغیر بھی اطاعت
خداکو مقدم قرار دینا اور ان موانع نفسانیہ کو اگر ساتھ ملحق کر دیاجائے تب بھی
اطاعت خالق کو ہی مطمع نظررکھنا علیٰ الترتیب اقبال وادبار ہو ں۔
ان کے علاوہ اورتوجیہات بھی بیان کی جاسکتی ہیں
اور ہر دو صورتو ں میں عقل نے اطاعت کا عہد کیا، ورنہ ظاہر کے اعتبار سے اقبال
وادبار کی لفظوں کا کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آسکتا اور ان توجیہات سے معنی صاف
واضح ہے وَاللّٰہُ الْمُوَفّق
بہر کیف میرامقصد حدیث مذکور سے یہ تھا کہ سزاوجز
اعقل سے ہی وابستہ ہے، اگر عقل نہیں تو نہ سزاہے نہ جزا اسی طرح اگرمخلوق میں نبی
نہ ہو یاکہیں دعوت نبوت نہ پہنچی ہو تووہ لوگ بھی معذورہیں اوران سے بھی ثواب و
عقاب ساقط ہے جس طرح بدن انسان میں عقل بلاواسطہ علم کا مورد ہے اور باقی اعضا ٔ
اس کے محتاج ہیں اسی طرح وجود عالم میں نورِ نبوت بلاواسطہ مورد علم ہے اور باقی
لوگ ان سے مستفید و مستفیض ہیں۔
٭ وجودِ
انسانی میں اگر عقل نہ ہو تو انسانیت نہیں رہتی اسی طرح وجود کائنات میں اگر نورِ
نبوت نہ ہو تو کائنات نہ رہے (لَوْلاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاک)
٭ عقل
انسانی وجود انسانی میں سید الاعضا ٔ ہے اسی طرح نورِ محمدؐ جو عالمین کیلئے عقلِ
کُل ہیں سید کائنات ہیں۔
حضرت محمد مصطفیٰؐ سے لے کر حضرت حجت عجل اللہ
فرجہ ٗتک سب اسی ایک ہی نور کے حصے ہیں جس طرح کہ حدیث نور میں صاف تصریحاً موجود
ہے، پس سر کار رسالت کے گزر جانے کے بعد کائنات کی بقا ٔصرف اس لئے ہے کہ
ابھی اس نور کا ایک حصہ دنیا میں باقی ہے ورنہ کائنات ختم ہو جاتی اور قیامت
آجاتی۔
٭ عقل
وجودِ انسانی میں بے لوث بغیر طمع کے اپنا فریضہ منصبی سمجھ کر فرائض تبلیغ انجام
دیتی ہے اسی طرح نبی بھی اپنی رعایا کے لئے بے لوث مبلّغ و مدرّس ہوتا ہے۔
تنبیہ:
عقل وجودِ انسانی میں پردۂ غیبت میں رہ کر اپنی
رعایا (اعضائے جسمانیہ) پر تبلیغ کے فرائض انجام دیتی ہے اس کے رعایا کی مجال نہیں
کہ اس کے وجود کا انکار کر سکیں کیونکہ اس کے آثار و علامات فیوض و برکات قطعاً
اس کے حجود و انکار کی اجازت نہیں دیتے اسی طرح عقلِ کل حضرت محمد مصطفیٰ ؐ
کے آخری جا نشین پردۂ غیبت میں رہ کر خلق خدا کو فیض پہنچا رہے ہیں لہذا کسی ہو
شمند انسان کے لئے ان کے وجودِ مسعو د کے انکار کی بھی گنجائش نہیں۔
جناب محمد مصطفیٰؐ خلقت نوری کے بعد سے لے کر حضرت
عیسیٰؑ کے دورِ نبوت کے اختتام تک گو تمام کائنات میں غائبانہ وجود رکھتے تھے لیکن
گذشتہ انبیا ٔ اوران کی امتو ں پر ان کی تصدیق واجب اور ان کا انتظار لازم اور ان
کی آمد کی صورت میں ان کی نصرت کے لیے تیار رہناضروری تھا اور بجزاس کے سابق
انبیا ٔکی نبوتیں متزلزل تھیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں میثاقِ نبییّن والی آیت اس
امر کا صاف اعلان کر رہی ہے، پس بعینہٖ اسی طر ح ان کے آخری وصی وجانشین کے زمانِ
غیبت میں ان کی امامت کا اقراراور ان کی نصرت کا عہد بھی واجب و لازم ہے اور بغیر
اسکے دعوائے اسلام وایمان بے سود اور لغو ہے۔
سبحا ن اللہ۔۔۔ حضرت امیرالمومنین ؑ کے مختصر جملہ
(وَفِیْکَ انْطَوٰی الْعَالَمُ الْاَکْبَر ) میں معرفت تو حیدونبوت وامامت کے کس
قدر درس ملتے ہیں۔ ’’ کلامُ الْاِمَامِ اِمَامُ الْکلام ‘‘