تفسیر برہان میں بعض کتب امامیہ سے بروایت
عبدالرحمن بن سمرہ منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے ارشاد فرمایا جو لوگ اللہ کے
دین میں مجادلہ (جھگڑا) کرتے ہیں ان پر خدا نے ستر نبیوں کی زبان سے لعنت بھیجی ہے
اور جو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں وہ کافر ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ اِلَّا
الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُھُمْ فِی الْبِلاد۔
آیات خدا میں صرف کافر لوگ ہی جھگڑا کرتے ہیں ان
کا شہروں میں آمد و رفت کرنا تمہیں دھوکا نہ دے۔
اور جو شخص قرآن مجید کی تفسیر اپنی ذاتی رائے سے
کرے اس نے اللہ پر افترا بندی کی اور جو شخص بغیر علم کے فتویٰ دے اس پر آسمان
اور زمین کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کا
راستہ ہے۔
عبدالرحمن بن سمرہ کہتا ہے میں نے عرض کیا یا رسول
اللہ ! مجھے نجات کا رستہ بتلائیے آپؐ ے فرمایا:
اے ابن سمرہ۔۔۔۔۔ جب لوگوں کی خواہشات میں اختلاف
پیدا ہوجائے اور راہیں جدا جدا ہو جائیں تو علی ؑ بن ابیطالب ؑ کا دامن پکڑو
کیونکہ وہی میری امت کا امام اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے او روہی حق و باطل کے
درمیان تمیز کرنے والا ہے، جو ان سے (احکام دین ) دریافت کرے گا وہ اس کو بتلائیں
گے اور جو ان ہدایت طلب کرے گا وہ اس کو ہدایت کریں گے اور جو ان سے طالب حق ہو گا
تو وہ ان کے پاس حق کو پائے گا اور جو ان کے پاس ہدایت ڈھونڈے گا وہ پائے اور جو
ان سے پناہ چاہے گا امن میں رہے گا اور جو ان سے تمسک رکھے گا وہ اس کو نجات دیں
گے اور جو ان کی اقتدأ کرے گا وہ اس کی رہبری فرمائیں گے۔
اے ابن سمرہ۔۔۔۔۔ صلح کا خواہاں وہ شخص ہے جو اس
سے صلح رکھے اور اس کے ساتھ دوستی رکھے اور ہلاک ہو گا وہ شخص جو اس کو ردّ کرے
اور اس سے دشمنی رکھے۔
اے ابن سمرہ۔۔۔۔۔ تحقیق علی ؑ مجھ سے ہے اس کی روح
میری روح ہے اور اس کی طینت میری طینت ہے، وہ میرا بھائی اور میں اس کا بھائی ہوں،
وہ میرے پارۂ جگر فاطمہ سیدۃ نسائِ العالمین کا شوہر ہے، اس سے میرے دو شہزادے
میری امت کے دو امام جوانانِ جنت کے سردار حسن ؑ و حسین ؑ ہیں، نیز اسی سے (حسین ؑ
کی اولاد سے) نو امام ہوں گے ان کا نواں میری امت کا قائم ہے جو روئے زمین کو س
طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔
بروایت کلینی حضرت امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ
جو بات جانو وہ کہو اور جو نہ جانو صاف کہہ دو کہ اللہ بہتر جانتا ہے، کیونکہ بعض
اوقات انسان ایک آیت کو لے کر اس پر کچھ کہہ بیٹھتا ہے (اورحق سے )آسمان و زمین
کے فاصلہ سے بھی دُور جا پڑتا ہے۔
نیز بروایت ابن بابویہ حضرت امام علی رضا ؑ بسلسلہ
اسناد آبائو اجدادِ طاہرین علیہم السلام حضرت امیر المومنین ؑ سے مروی ہے کہ
(حدیث قدسی ) میں ذاتِ احدیت کا ارشاد ہے:
٭ وہ
مومن نہیں جو میرے کلام کی تفسیر اپنی رائے سے کرے۔
٭ اس
کو میری معرفت نہیں جو مجھے میری مخلوق سے تشبیہ دے۔
٭ وہ
شخص میرے دین پر نہیں جو میرے دین میں اپنے قیاس کو استعمال کرے۔
بہر کیف قرآن مجید کی تفسیر بالرائے کی حرمت کے
متعلق احادیثِ منقولہ کتب عامہ و خاصہ سے بہت زیادہ بلکہ حدِّ تواتر تک پہنچی ہوئی
ہیں، حتیٰ کہ وارد ہے کہ اگر تفسیر بالرائے واقع میں درست بھی ہو تب بھی اس کا
کوئی ثواب نہیں! آیاتِ محکمات میں جہاں نہ اجمال ہو اور نہ کثرت معانی کا احتمال
ہو تفسیر بالرائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن جہاں اجمال ہو اور کثرت معانی
کا احتمال ہو وہاں اپنی جانب سے اس اجمال کا بیان بطورِ یقین کے یا ایک قول کی
ترجیح بجز قول معصوم ؑ کے تفسیر بالرائے ہو گی جو حرام ہے۔
علامہ شیخ مرتضیٰ انصاری قدس سرہ نے رسائل میں
تفسیر بالرائے کی دو قسمیں ہیں:
۱-
اپنی نظر قاصر اور عقل فاطر سے لفظ کو
خلاف ظاہر پر محمول کرنا یا دو چند احتمالوں میں سے ایک کو ترجیح دینا، چنانچہ اسی
کے متعلق حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: لوگ متشابہات میں ہلاک ہو گئے کیونکہ
وہ معنی کی حقیقت پر اطلاع نہیں رکھتے پس اپنی رائے سے اس کی تاویل وضع کرتے ہیں
اور اوصیا ؑ سے سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تاکہ وہ ان کی اس معاملہ
میں صحیح رہنمائی فرماویں۔
۲-
دلائل عقیلہ، قرآئن نقلیہ اور احادیث
صحیحہ کی طرف رجوع کئے بغیر بادی الرائے میں جو معانی لغویہ یا مطالب عرفیہ نظر
آئیں اسی پر معنی کو حمل کر لینا۔
عقل بھی اسی چیز کا مؤید ہے کہ قرآن مجید کی
تفسیر میں اپنی رائے سے فیصلہ کرنا ممنوع ہے، کیونکہ قرآن مجید کی حیثیت مثل عام
مکتوبات کے نہیں کہ جو بھی اُٹھا کر پڑھ لے مطلب سمجھ لے، بلکہ عام مکتوبات میں
بھی تمام مندرجہ اُمور کا احاطہ سوائے مکتوب الیہ کے اور کسی کو نہیں ہو سکتا،
کیونکہ بعض اوقات بعض باہمی اصطلاحات یا رُموز و اشارات و کنایات وغیرہ کا اندرج
ہوتا ہے جن کو بغیر مکتوب الیہ کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا پھر خالق کا کلام ہر
شخص کیسے سمجھ سکتا ہے؟
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن
مجید جب ہماری ہدایت کیلئے بھیجا گیا ہے اور اس کے خطابات اوامر و نواہی کا تعلق بھی
ہم سے ہی ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کو وہ سمجھ نہ آئے؟ اور ہماری ہدایت کیلئے
ایسی کتاب بھیجی کیوں گئی جس کو ہم سمجھ نہ سکیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک قرآن مجید ہماری ہدایت
کے واسطے ہے اور ا س میں مندرجہ اوامر و نواہی کا تعلق بھی ہم سے ہے لیکن چونکہ ہمارے
موادِ کثیفہ میں اس قدر اہلیت نہیں کہ فیوضِ انوارِ قدسیۂ الٰہیہ سے براہ راست
استفادہ کر سکیں اور اس کے خطابات کے مفاہیم کا از خود ادراک صحیح کر سکیں لہذا اس
نے اپنے کمالِ لطف سے اس کے سمجھانے والے بھی بھیج دئیے، اس کی حکمت عملی پر
اعتراض تو تب ہوتا کہ اس نے اپنے خطابات کی توضیح و تشریح کرنے والاکوئی نہ بھیجا
ہوتا! جب اس نے اپنی پاک کلام کے مدرّس خود منتخب فرما کر بھیج دئیے تو ہم کیوں نہ
مطالب قرآنیہ کا استفادہ ان سے کریں؟ اگر ہم میں اس کے خطابات سے صحیح استفادہ
کرنے کی صلاحیت تھی تو جناب رسالتمآب کو خصوصی عہدہ نبوت دے کر خدا کو بھیجنے کی
کیا ضرورت تھی؟ پھر تو ہم بھی ان جیسے ہوتے اور یکساں طور پر قرآن کی فرمائشات کو
سمجھ کر عمل کرتے، مثال کے طور پر ظاہری حکومتوں کے ضوابط و قوانین کی طرف نگاہ
کیجئے۔۔۔ صدرِ مملکت یا بادشاہ کی طرف سے نافذ شدہ احکام و ضوابط تمام رعایا کیلئے
یکساں ہوتے ہیں لیکن ضلع دار یا صوبہ دار۔۔۔ عہدہ دارانِ حکومت کی طرف بھیجے جاتے
ہیں اور وہ عہدہ دار اپنے ماتحت عملہ ٔ ملازمین کے ذریعہ تمام افرادِ رعایا تک
پہنچا دیا کرتے ہیں، اگرچہ قوانین و ضوابط شائع کر دئیے جاتے ہیں۔۔۔ کتاب میں چھپ
کر عام ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہر شخص خرید کر مطالعہ بھی کر سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں
کہ رعایا کا ہر فرد ہر قانونی نکتہ کو سمجھ سکے! یا اس کے ہر ضابطہ کی اصطلاح کو
جان سکے!
بہر کیف
اس کی مخصوص اصطلاحات اور مہم نکات کے سمجھنے اور جاننے کیلئے حکومت کے مقرر کردہ
حکومتی قانونی مدارس کے سند یافتہ اشخاص کے دروازہ پر دستک دینی پڑے گی، ورنہ صرف
قانونی کتاب کا اُٹھا کر بغل میں دبا لینا کافی نہیں اور جو لوگ یہ کہیں کہ ہمیں
صرف کتاب کافی ہے اُنہیں دنیا والے بیوقوف سمجھتے ہیں!؟ جب انسانوں کی لکھی ہوئی
اور انسانوں کی بنی ہوئی کتاب بغیر سرکاری کتاب دان کے ہمارے لئے سودمند نہیں تو
خدا کا کلام بغیر خدائی کالج کے سند یافتہ افراد کے یا بغیر عہدہ دارانِ حکومت
الہٰیہ کے ہمارے لئے کیونکر کافی ہو سکتا ہے؟
نیز حکومت ِظاہر یہ میں قانون دان اور کتابِ قانون
کا عالم وہ نہیں ہوا کرتا جس پر رعایا کے چند افراد مل کر قانون دان یا عالم کتاب
کا اطلاق کرنے لگ جائیں۔۔۔ یا۔۔۔ اس کو کسی سرکاری عہدہ سے پکارنے لگ جائیں۔۔۔ اور
ایسا کرنے والے سب مجرم قرار دئیے جاتے ہیں، بلکہ قانون دان وہ ہے جس کو حکومت کی
طرف سے یہ اعزاز حاصل ہو اور عہدہ دار بھی وہ ہے جس پر حکومت کی طرف سے نص ہو، پس
خدا کی کتاب کا عالم اور اس کی جانب سے مبلّغِ کتاب وہی ہوگا جسے وہ خود انتخاب
فرمائے، قرآن مجید میں خداوندکریم نے جو صریحی طور پر ارشاد فرما یا ہے: اس میں
محکمات بھی ہیں لیکن دل جن لوگوں کے کج ہیں وہ فتنہ کی غرض اور تاویل کی خواہش سے
متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں حالانکہ ان کی تاویل کو سوائے اللہ کے اور
رَاسِخِیْن فِی الْعِلْم کے کوئی جانتا ہی نہیں۔۔۔ اور صاف ارشاد فرمایا:
فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ
لاتَعْلَمُوْن جو تم خود نہیں جانتے اہل ذکر سے دریافت کر لیاکرو۔
عبدالرحمن بن کثیر سے روایت ہے کہ امام جعفر صادقؑ
نے فرما یا: حضرت علی ؑ اور آئمہ ؑ ہی رَاسِخِیْن فِی الْعِلْم ہیں۔
ابو الصبا ح کنانی سے مروی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا
ہم ہی رَاسِخُِوْن فِی الْعِلْمہیں۔
ابو بصیرسے روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
ہم رَاسِخُِوْنَ فِی الْعِلْم ہیں
پس ہم ہی اسکی تاویل جانتے ہیں۔
ان کے علاوہ آل محمد کے علم کے متعلق پہلے
عنوانات میں کافی احادیث نقل کی جا چکی ہیں اور آئندہ عنوانات کے تحت بھی بہت کچھ
ذکر ہو ں گی، پس تاویل قرآن میں آلِ محمد کی رہبری کے بغیر چلنا قرآن کی حقیقت
سے دُوری کا موجب ہے اور خدا و رسول کی ناراضگی کا پیش خیمہ ہے۔
ہمارے مجالس خواں بعض حضرات اس معاملہ میں نہایت
لا پرواہی سے کام لیتے ہیں! بلکہ دنیا وی چند روزہ عارضی نفع کی خاطر بعض لوگ تو
اس امر کے انتہائی طور پر دلدادہ ہیں کہ اُنہیں عالمِ قرآن کہا جائے چنانچہ ہر
دَور میں ایسے افراد کی بہتات رہی ہے، بلکہ قرآن مجید کے دعویٰ ’’لا رَطْبٍ وَلا
یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُبِیْن‘‘ کو دیکھ کر تو ہر ایک کے دماغ میں یہ جنوں
سما یا ہے کہ ہر متنازعٌ فیہ امر کو قرآن ہی سے حل کیا جائے۔۔۔ اور جو ملّا نما
شخص ان کے سامنے اپنی طرف سے اِدھر اُدھر کی رَطب و یابس ملا کر تاویل قرآن اُن
کے مطلب کے موافق کر دے تو دادوتحسین اور واہ واہ کے شور سے فضا گونجی اٹھتی ہے
اور ایسا شخص واقعی عالم قرآن سمجھا جاتا ہے اور کبھی عوام کے سامنے یہ بات کہنے
کی جرأت نہیں کرتا کہ میں فلاں بات نہیں جانتا کیونکہ وہ اس بات میں اپنی توہین
سمجھتا ہے، اپنی بے علمی سے قرآن کی توہین کرتا رہے تو پرواہ نہیں لیکن بے علم
کہلوانے میں اپنی توہین ملحوظ ہوتی ہے جو قابل براداشت نہیں ہوتی!
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر ایک عالم بعض
مطالب ِقرآنیہ میں صحیح نظریہ پر نہ پہنچ سکے یا کسی دقیق مقام میں اُلجھ جائے
اور تامل کا اظہار کرے تو عوام بجائے محتاط کہنے کے اُسے جاہل اور بے علم کہنے پر
آمادہ ہو جائے گی اور بخلاف اس کے اگر ایک جاہل ناخدا ترس بغیر سوچے سمجھے کوئی
بات اختراع کرکے بیان کر دے تو عوام اُس کوسر پر اُٹھالیں گے، قرآن کی تفسیر
بالرائے کی ذرّہ بھر پرواہ نہیں صرف تسکینِ جذبات ہو جائے!
اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید میں تمام چیزوں کا
علم موجود ہے لیکن یہ بھی خیال ہونا چاہے کہ تمام مطالب کا صحیح استکشاف قرآن
مجید سے صرف حاملینِ علوم قرآنیہ یعنی محمد ؐ و آل محمد ہی کر سکتے ہیں۔۔۔ جس
طرح قرآن کا دعویٰ ہے:
لا رَطْبٍ
وَ لا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُبِیْن ہر تر وخشک کا علم قرآن میں ہے۔
اسی طرح قرآن کا دعویٰ ہے: سُیِّرَتْ بِہٖ
الْجِبَالُ وَ قُطِّعَتْ بِہٖ الْاَرْضُ وَ کُلِّمَ بِہٖ الْمَوْتٰی اس کے
ذریعہ سے پہاڑ چل سکتے ہیں، زمین کا فاصلہ طے ہو سکتا ہے اور مُردوں سے کلام کی جا
سکتی ہے۔
جس طرح قرآن مجید کا دوسرا دعویٰ حاملین قرآن ہی
سے کما حقہٗ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اسی طرح اس کا پہلا دعویٰ بھی اُنہی سے
پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے۔
خود کو عالم کہلوانے کے شیدائی پہلے دعویٰ کو دیکھ
کر اپنی جہالت کا اظہار باعث ِخجالت سمجھتے ہیں کیونکہ اِدھر اُدھر کی باتوں اور
کج مج بیانوں کے ذریعہ عوام کے قلوب کی تسکین کی جا سکتی ہے اور انکے سیدھے سادے
دماغوں کو دھوکا دیا جاسکتا ہے۔۔۔ لیکن قرآن کے دوسرے دعویٰ پر جب نظر پڑتی ہے تو
اس آیت کے سامنے سر خم کر کے اپنی جہالت کو فخر جانتے ہیں اور علم قرآن کو اہل
بیت کی میراث قرار دیتے ہیں، اگر یہاں بھی عوام کے قلوب کی تسکین کا کوئی پہلو نظر
آتا تو یقینا اس کسرِ نفسی سے بھی گریز کیا جاتا۔۔۔۔۔ کیونکہ آیت ِاولیٰ کے
متعلق تو یہ ہو سکتا ہے کہ تاویلات سے کام چلا کر عوام کو مطمئن کر لیا جائے لیکن
دوسری آیت میں صرف تاویلات سے کام نہیں بنتا بلکہ عملی تطبیق کی ضرورت ہے، لہذا
صرف پہلے مقام پر اپنی کم مائیگی کا اعتراف اور اَلرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم
کا حوالہ خلافِ شان شمار کرتے ہیں اور بے دریغ تفسیر بالرائے کر کے عوام کو
دھوکا دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام انکی اس دماغی غلطی کی گرفت نہیں کر
سکتے!؟ اُنہیں کیا معلوم کہ واقع میں معنی اس کے خلاف ہے تاکہ اسے جھوٹا کہیں!
لیکن دوسری آیت میں چونکہ عملی تطبیق کا مقام ہے دماغی چوری نہیں کہ عوام متوجہ
نہ ہو سکیں۔۔۔ پہاڑوں کا چلنا۔۔۔ مُردوںکا بولنا اور زمینوں کی مسافت کا طے ہو
جانا یہ سب حسِ ظاہری سے تعلق رکھنے والی چیز یں ہیںلہذا چار و ناچار اَلرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم کا حوالہ دے کر
جان چھڑا لیتے ہیں، خدا وند کریم اس قسم کے فریب کاروں سے تمام مومنین کو محفوظ
رکھے ( آمین)