التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ثقلین (قرآن و عترت) سے اُمت کا سلوک



جنابِ رسالتمآبؐ نے ثقلین کے ساتھ تمسک پکڑنے کا انتہائی تاکید کے ساتھ جو حکم فرمایا تھا اہل اسلام نے اس پر خوب عمل کیا؟ قرآن مجید کا جو حشر ہوا اُسے گذشتہ عنوان میں بیان کر دیا گیا ہے اور عترتِ طاہرہ کے ساتھ تمسک کا جو حال ہوا سرکارِ رسالت کی اکلوتی شہزادی۔۔۔ خاتونِ دو جہاں۔۔۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی حالت ِزار سے صاف ظاہر ہے!!
صحیح بخاری کتابِ خمس میں حضرت عائشہ روایت فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت رسولِ اللہ نے رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر سے رسول اللہ کے مال فئے سے بچے ہوئے مال کی وراثت کا سوال کیا تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ کر جائیں وہ صدقہ ہوا کرتا ہے اس کے بعد بخاری شریف کے لفظ بعینہٖ یہ ہیں:
٭      فَغَضَبَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَھَجَرَتْ اَبَابَکْرٍ فَلَمْ تَزَلْ مُھَاجِرَتَہٗ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ سِتَّۃِ اَشْھُرٍ۔
ترجمہ: پس فاطمہ بنت رسول اللہ ناراض ہو گئیں اور ابوبکر سے بائیکاٹ (قطع کلامی یا قطع تعلقی) کر لی اور ہمیشہ اس سے بائیکاٹ میں رہیں یہاں تک کہ وفات پاگئیں اور رسول اللہ کے بعد کل چھ مہینے زندہ رہیں (الحدیث)
مترحم بخار ی نے ’’غَضَبَتْ‘‘ کا معنی کیا ہے(ناخوش ہو گئیں) کیو نکہ نا خو شی کی لفظ عام طور پر بیماری کے معنی میں ہو تی ہے، متر حم نے نا راضگی کو چھپا نے کیلئے یہ لفظ رکھ لی تا کہ اُردو پڑھ سمجھنے ولا یہ سمجھتا رہے کہ اس فیصلہ کے بعد بی بی نا خو ش ہو گئیں (بیما ر ہو گئیں) اور پھر با ہمی مکا لمہ کا مو قعہ ہی نہ رہا اور اس اثنا میں ان کی رحلت ہو گئی، تر جمہ سے عوام کو دھو کا دیا جا سکتا ہے لیکن بخا ری کے اصل ا لفا ظ کو بد لنا قدرے مشکل ہے، ’’غَضَبَتْ‘‘ کا صاف و صر یح لفظ بتلاتا ہے کہ بی بی اتنی سخت نا رض ہوئی کہ مر تے دم تک ان سے کلا م کر نا روا ۔۔۔نہ سمجھا۔
نیز بخاری شریف کے با بِ غزوہ خیبر میں اس سے بھی زیادہ و ضاحت موجو د ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ہی سے روا یت ہے:
٭      فَاَبٰی اَبُوْبَکْرٍ اَنْ یَدْفَعَ اِلٰی فَاطِمَۃَ مِنْھَا شَیْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَۃَ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ فِیْ ذٰلِکَ فَھَجَرَتْہٗ فَلَمْ تُکَلّمْہُ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ وَ عَاشَتْ بَعْدَ النَّبِیّ سِتَّۃَ اَشْھُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّیَتْ  دَفَنَھَا زَوْجُھَا عَلِیٌّ لَیْلاً وَلَمْ یُؤذَنْ بِھَا اَبَابَکْرٍ وَصَلّٰی عَلَیْھَا وَ کَانَ لِعَلِیٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْہٌ حَیَاۃُ فَاطِمَۃَ فَلَمَّا تُوُفِّیَتْ اِسْتَنْکَرَ عَلِیّ وُجُوْہُ النَّاسِ۔
ترجمہ: پس ابو بکر نے فاطمہ ؑ کو اس میں سے کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا، چنانچہ فاطمہ ؑ ابوبکر پر اس بات سے ناراض ہو گئیں، پس ان سے قطعاً کلام کرنا بھی ترک کر دیا اور بائیکاٹ کر لی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی اورکل چھ ماہ نبی علیہ السلام کے بعد زندہ رہیں، جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی ؑ نے ان کو رات کے وقت دفن کیا اور ابو بکر کو شمولیت کی اجازت نہ دی اور نماز جنازہ بھی خود ہی پڑھی اور حضرت فاطمہ ؑ کی زندگی میں لوگوں کے درمیان حضرت علی ؑ کی آبرو تھی جب ان کی وفات ہوئی تو علی ؑ سے لوگوں کے رُخ پھر گئے (حضرت علی ؑ کے سا تھ اُمت کا سلو ک دیکھے اور پھر ان کے شیرو شکر ہو نے کا جا ئزہ لیجیے)
مترجم بخاری اُردو ترجمہ میں حدیث نمبر ۱۳۷۶ حاشیہ پر یوں رقمطراز ہیں:
حضرت فاطمہ ؑ کا دعویٰ بر بنائے وراثت تھا، ان کو یہ حدیث معلوم نہ تھی کہ انبیا ٔ کا قبضہ مالکانہ نہیں ہے نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہو سکتا ہے، اس میںکچھ عجب نہیں ہے کہ فا طمہ ؑ کو اس حد یث سے واقفیت نہ تھی بہت سے امو رِ خا نہ دا ری کے با رے میں جو اَزوا ج کو علم تھا غیر کو نہ تھا، پس جب حضرت فا طمہ ؑ کو اس کا اطمینا ن ہو گیا تو حضرت ابو بکر صد یق سے راضی ہو گئی تھیں اور محض بلا وجہ کا فی نا را ض ہو نا کو ئی مو جب نقصا ن نہیں۔
اب ذرا بخا ری شریف سے جنا ب فا طمہ زہراؑ کی منزلت ملا حظہ ہو،با بِ مناقب قر ابت رسو ل میں ہے:
٭      قَالَ النَّبِیُّ فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃِ نِسَائِ اِھْلِ الْجَنَّۃِ وَ عَنِ الْمَسُوْرِ بْنِ مَخْزَمَۃِ  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاطِمَۃُ بَضْعَۃُ مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ۔
ترجمہ: فا طمہ جنت میں جا نے وا لی عو رتو ں کی سر دا ر ہے، مسو ر بن مخز مہ سے مر وی ہے کہ جنا ب رسالتمآ بؐ نے ارشا د فرما یا: فا طمہ میر ا پا رہ ٔ گو شت ہے جو اسے غصہ دلا ے گا اس نے مجھے غصہ دلا یا۔
با بِ منا قب فا طمہ ؑ میں مرزا حیر ت نے ا سی کا تر جمہ کیا ہے:
فا طمہ ؑ میر ا پا رہ ٔگو شت ہے جس نے اسے رنجیدہ کیا اس نے مجھے رنجیدہ کیا اور ’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃِ نِسَائِ اِھْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ وا لی حد یث کو مر زا حیرت نے اپنے تر جمہ میں بالکل حذف کر دیا ہے!!  نہا یت حیرت و افسو س کا مقا م ہے کہ مسلمانو ں کو۔۔۔ فا طمہ ؑ کو جہا لت کی طر ف منسو ب کرنے میں ذرّہ بھر جھجک محسو س نہیں ہو تی!؟ اور عذر یہ ہے کہ اس میں کچھ عجب نہیں کہ فاطمہ زہر ؑا کو اس حد یث سے واقفیت نہ تھی؟ بہت سے امور خا نہ دا ری کے با رے میں جو اَزواج کو علم نہ تھا غیر کو نہ تھا!!؟
عجیب اُلٹی منطق ہے۔۔۔۔۔ لڑا ئی، مثا ل تو درست دی لیکن نتیجہ اُلٹا اخذ کیا، جن لو گو ں کا بعض خاص اُمو ر سے خاص تعلق ہو ا کر تا ہے ان کے متعلقہ مسا ئل میں ان کو ہی زیاد ہ واقفیت حا صل ہو تی ہے امورِ خا نہ دا ری کا تعلق اَزواج سے ہے لہذ ا آنحضرتؐ نے اَزواج کی ان کے متعلقہ مسا ئل میں ان کی رہبری فر ما ئی نہ ان مسا ئل کا دیگر صحابہ کا تعلق تھا نہ ان کے سا منے بیا ن ہوئے بلکہ بعض شو ہر وبیوی کے درمیا ن خصو صی مسائل کو صر ف بیو ی تک محدود رکھا جاتا ہے پھر دوسری عور تو ں تک پہچا ن ان کا کا م ہو اکر تا ہے۔
اس مقا م پر سو چنے کی کوشش نہیں کی کہ اگر جنا ب رسالتمآ بؐ نے انبیا ٔ کا مالکا نہ قبضہ نہ ہو نے کی بنا پر اپنی لڑکی کو محروم کر تھا تو اس مسئلہ کا تعلق تو حضرت علی ؑ اور حضرت فا طمہ ؑ سے تھا، لہذاپہلے ان دونو ں کو سمجھا دیا ہو تا تا کہ آنے والے اختلافات اور رنجشو ں کا سدّباب ہو جا تا؟ سا بقہ مثا ل عقلمند سے بعید ہے کہ مسئلہ کا تعلق اُمو ر خانہ داری سے ہو اور زوجات کو نہ سمجھایا جائے اسی طر ح بعینہٖ یہا ں بھی بعید از عقل ہے کہ مسئلہ کا تعلق ورا ثت ہو ا اور سمجھایا جائے غیر وارثو ں کو!؟
جس بی بی کو حضور ؐاہل جنت کی عو رتو ں کا سردار فرمارہے تھے یا اپنے پارہ ٔگوشت سے تعبیر فرمارہے تھے اگر آپؐ ان کو فرما دیتے تو یقینا وہ سرتسلیم خم کر لیتیں اور حضرت علی ؑ بھی آنحضرؐت کی وصیت کی ذرّہ بھر خلاف ورزی نہ کرتے، پھر اگر کسی مصلحت کی بنا پر وراثوں کو بتانا مناسب نہ سمجھا اور صحابہ کے بتا دینے پر اکتفا کرلیا تو جس شخص کو (بقول آ پ کے ) رسول ؐ نے صدیق کا لقب دیا ہوا تھا اس کی نقل پر بی بی کو اطمینان ہو جانے کے بعد راضی ہو گئیں یہ فیصلہ خود فرمالیجئے کہ حضرت عائشہ سچ فرماتی ہیں یا آپ سچ فرما رہے ہیں؟ نیز یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آیا خبر واحد آیاتِ قرآنیہ کی ناسخ ہوسکتی ہے؟ قرآن میں وراثت کا اولاد کے لئے ہونا بالعموم ثابت ہے حتی کہ انبیا ٔ کی وراثت کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے۔
وَرِثَ سُلَیْمَانَ دَاؤد حضرت سلیمان ؑ حضرت داود ؑ کے وارث تھے، حضرت ذکریا نے فرزند کے لئے دعا کی تو ’’یَرِثُنِی‘‘ کے لفظ کی تصریح کی، یعنی میرے اللہ مجھے وہ فرزند عطا کر جو میرا وارث ہو، جب قرآن مجید میں وراثت کا قانون بالعموم تمام افراد انسانی پر حاوی ہے تو خبر واحد نے اس حکم کی تردید کیوں کر دی؟
نیز مرزا حیرت فرماتے ہیں کہ ان کا بلاوجہ کافی ناراض ہونا موجب نقصان نہیں!؟ ادھر رسولؐ فرماتے ہیں جس نے فاطمہ ؑ کو رنجیدہ کیا اس نے مجھے رنجیدہ کیا جو اسے غصہ دلائے گا اس نے مجھے غصہ دلایا، لفظیں سب روایات میں  ’’غَضَبَتْ‘‘  کی ہیں خواہ ترجمہ میں رنجیدہ یا غصہ یا ناراضگی جو بھی مراد لیا جائے، تو ان احادیث کی رُو سے معلوم ہوا  کہ بی بی کی ناراضگی رسول اکرؐم کی ناراضگی کی موجب ہے، آپ کا یہ فرمانا کہ بی بی کی کافی ناراضگی نقصان دہ نہیں اس کا یہی مطلب ہوا کہ رسول ؐ کی کافی ناراضگی بھی موجب نقصان نہیں (اَلْعَیَاذُ بِاللّٰہِ)
٭      ایک طرف حضر ت عائشہ کے قول کی تردید۔۔۔۔۔ وہ فرماتی ہیں کہ بی بی مرتے دم تک راضی نہ ہوئیں اور آپ فرماتے ہیں کہ اطمینان ہوجانے پر راضی ہو گئیں!!
٭      دوسری طرف حضرت فاطمہؑ پر اتہام!؟
٭      اور تیسرے (حضرت فاطمہؑ کی ناراضگی جو رسول ؐ کی ناراضگی کو مستلزم ہے) کو غیر موجب نقصان کہہ کر کہاں سے کہاں چلے گئے!!  اپنے گریباں میں نظر ڈالئے۔
بالجملہ:   قرآن کو جلانا اور عترت کو رُلانا۔۔۔۔۔ حدیث ثقلین پر عمل کرنے کا نتیجہ رہا  !؟
شیعوں پر بہت الزام اور اتہام بلکہ بہتانِ عظیم ہے کہ شیعہ صحابہ کرام کو اچھا نہیں مانتے، حالانکہ شیعہ مذہب کی رُو سے صحابہ رسول کی عزت کرنا اور نقش قدم پر چلنا واجب ہے، جس کے دل میں صحابہ کی عز ت نہیں گویا اس کے دل میںجناب رسالتمآب کی فرمائشات کی وُقعت نہیں، لیکن صحابہ وہ جو جناب رسالتمآبؐ کے فرمانبردار اور عترتِ رسول کے قدردان تھے، یعنی جن کا قرآن اور آلِ رسول دونوں سے تمسک تھا ۔۔۔ جن پر خدا و رسول بھی راضی اور عترتِ طاہرہ بھی خوشنود تھی ہم ان کی غلامی کو فخر اور ان کی محبت کو ایمان سمجھتے ہیں،بات یہ ہے کہ آثاروواقعات کی روشنی میں ہم صحابہ رسول میں یکسانیت کے قائل نہیں رسولؐ اور آلِ رسول ؐ کے دوست کو دوست سمجھتے ہیں اور ان کے دشمن سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں اوربس۔
یہ دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے کہ جناب رسولِ خدا ؐ کے تمام صحابی یکساں طور پر مومن اور واجبُ الاتباع تھے، ذرا صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث و سیر کا مطالعہ فرمائیے یہ چیز روز ِروشن کی طرح عیاںہو جائے گی کہ بہت سے صحابہ ایسے تھے جو جناب رسالتمآب کی رحلت کے بعد ثابت قدم نہ رہ سکے۔
بخاری شریف کتاب المغازی بابِ غزوۂ حدیبیہ  (ترجمہ مرزا حیرت دہلوی حدیث ۱۳۱۶)
٭      عَنِ الْعَلا بْنِ الْمُسَیّبْ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ لَقِیْتُ الْبَرّا بْنِ عَازِبْ فَقُلْتُ طُوْبٰی لَکَ صَحِبْتَ النَّبِیّ وَ بَایَعْتَ تَحْتَ الشَّجْرَۃِ فَقَالَ یَابْنَ اَخِیْ اِنَّکَ لا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثْنَا بَعْدَہٗ۔
ترجمہ: علا بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے برّ ا بن عا زب سے مل کر کہا تم کو مبارک ہو کہ تم رسو ل خدا کی صحبت میں رہے اور آنحضرتؐ سے درخت کے نیچے بیعت کی، (از راہ ِ عجزوانکساری) انھوں نے جو اب دیا اے بھتیجے تمہیں نہیں معلو م ہم نے رسولِ خدا کے بعد کیا کیا خرابیاں کی ہیں!!
٭      وَ فِیْ تَفْسِیْرِ سُوْرَۃِ الْمَائِدَۃِ عَنْ اِبْنِ عَبّاسٍ فِیْ حَدِیْثٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِنَّ اَوَّلَ الْخَلائِقِ اِبْرَاھِیْمٌ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَلا وَاِنَّہُ یُجَائُ بِرِجَالٍ مِنْ اُمَّتِیْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَاَقُوْلُ یَا رَبِّ اُصَیْحَابِی۔۔ فَیُقَالُ اِنَّکَ لا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ (اِلٰی اَنْ قَالَ) فَیُقَالُ اِنَّ ھٰؤُلائِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدّیْنَ۔
تر جمہ:        حدیث نمبر ۱۷۲۸۔۔۔۔۔ابن عبا س سے اسی حد یث کے ذیل میں ہے کہ آپؐ نے فر ما یا:
سب سے پہلے ابراہیم کو کپڑے پہنائے جا ئیں گے اور ہو شیا ر ہو کہ چند آدمی میری اُمت کے لائے جائیں گے اور فرشتے ان کو دوزخ کی طر لے جا ئیں گے اس وقت میں کہو ں گا اے رب یہ تو میرے  صحا بی ہیں،اللہ کی جا نب سے ندا آئے گی تو نہیں جا نتا انہوں نے تیرے بعد کیا کیا کیا؟ یہاں تک کہ فرمایا پھر اللہ کی جانب سے ندا ہوگی کہ یہ لوگ تیرے (محمدؐ کے) جدا ہونے کے بعد ہی مرتد ہو گئے تھے۔
٭      وَ فِیْہِ  فِیْ کِتَابِ الْفِتَنِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ قَالَ النَّبِیّ اَنَا فَرْطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ لِیَرْفَعَنَّ اِلَیَّ رِجَالٌ مِنْکُمْ حَتّٰی اِذَا ھُوَیْتُ الْاِنَائَ لَھُمْ اِخْتَلَجُوْ دُوْنِیْ فَاَقُوْلُ اِیْ رَبِّ اَصْحَابِیْ فَیَقُوْلُ لا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ۔
ترجمہ:         بخاری مرزا حیرت ج۳ حدیث ۱۹۳۲۔۔۔۔۔ عبداللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوںگا اور تم میں سے چند لوگ میرے پاس لائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب میں ان کو کوثر کا پیالہ دینا چاہوں گا تو وہ لوگ میرے پاس سے کھینچ لئے جائیں گے میں عرض کروں گا کہ اے میرے پروردگار یہ لوگ تو میرے اصحاب ہیں، خداوند متعال فرمائے گا تم نہیں جانتے ہو کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں کی ہیں۔
پہلی حدیث کے ترجمہ میں تو مترجم نے صحابہ سے بھار ہلکا کرنے کی خاطر بریکٹ دے کر عجز و انکساری کی راہ نکال لی لیکن پچھلی دو حدیثوں میں یہ راہ پیدا نہ ہو سکی، کیونکہ نہ ان کو دوزخ میں لے جانا ان کی انکساری ہے اور نہ ان کے مرتد ہونے میں عجز و انکساری کی راہ پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ان کا حوض کوثر سے کھینچ لیا جانا از راہ انکساری تھا۔
موطا ٔ امام مالک باب الشہدا جناب رسالتمآبؐ نے شہدائے احد کی تعریف کی تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ ہم نے بھی جہاد کیا اور ان لوگوں کے ساتھ شریک رہے تو آپؐ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم میرے بعد کیا کیا بدعتیں کرو گے!!
پس جناب رسالتمآب کی رحلت کے بعد جو صحابہ کرام آنحضرؐت کی تعلیمات پر ثابت قدم رہے ان کی خاکِ پا ہمارے لئے سرمۂ چشم اور احادیث بخاری و سیر و احادیث کی روایات کی پیش نظر جو لوگ ثابت قدم نہ رہ سکے ہم ان سے بیزار ہیں، ہمیں یہ تعین کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون ثابت قدم رہے؟ اور کون بخاری کی سابقہ حدیث کے پیش نظر مرتد ہو گئے!!؟
فرمانِ نبوی موجود۔۔۔ حدیث ثقلین موجود۔۔۔ قرآن و اہل بیت ؑ موجود۔۔۔ کتب حدیث و سیر موجود۔۔۔ تاریخی حقائق و واقعات موجود۔۔۔ صحاحِ ستہ موجود۔۔۔ عقل و دماغ موجود۔۔۔  بشرطیکہ:  تعصب و عناد اور جنبہ داری مفقود ہو اور انصاف موجود ہو تو ہر صاحب دانش سوچ سمجھ کر فیصلہ پر پہنچ سکتا ہے۔۔۔ کسی صاحب اقتدار کے بڑے نام سے مرعوب ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاغْ