التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ابتدائے نزولِ قرآن



اس میں اختلاف ہے کہ قرآن مجید کا سب سے پہلے نازل ہونے والا سورہ کونسا ہے؟ چنانچہ اس میں چار اقوال مشہور ہیں:
   ۱   سورہ اقرأ سب سے پہلے نازل ہوا۔
  ۲    بعض مفسرین نے سورہ مدثر کو پہلا نازل ہونے والا سورہ قرار دیا ہے۔
۳      بعض کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ سب سے پہلی اُترا ہے۔
۴      ایک روایت میں ہے کہ قرآن کا سب سے پہلے اُترنے والا حصہ  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم  ہے۔
پہلا قول نقل کرنے والوں نے ایک روایت کو اپنے قول کا مدرک قرار دیا ہے جسے علامہ سیوطی نے الاتقان میں کتب صحاح سے نقل کیا ہے جس کی راویہ حضرت عائشہ ہیں کہ غار حرا میں پہلے پہل جبرائیل کا نزول ہوا تو اس نے حضرت رسالتمآبؐ سے خواہش کی کہ ’’  اِقْرَأ ‘‘ یعنی پڑھو، تو آپؐ نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو جبرائیل نے آپ کو ڈھانپ لیا اور خوب دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھو تو پھر آپؐ نے حسب سابق جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، چنانچہ پھر جبرائیل نے آپ کو ڈھانپ کر خوب دبایا جب چھوڑا تو کہا کہ پڑھو لیکن آپؐ نے پھر بھی وہی جواب دہرایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پس جبرائیل نے تیسری مرتبہ پھر ڈھانپ لیا اور خوب دبایا اور چھوڑنے کے بعد پڑھنے کو کہا آپؐ نے پھر فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اب کی بار جبرائیل نے پڑھا:  اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّک سے  مَا لَمْ یَعْلَم تک اور حضورؐ نے اُسے دہرایا جب کہ آپؐ کے اعضا ٔ پر کپکپی طاری تھی۔
دوسرے قول کا مدرک یہ ہے کہ کتب صحاح سے الاتقان میں بروایت جابر بن عبداللہ انصاری منقول ہے حضورؐ نے فرمایا میں غار حرا سے نکل کر وادی کے درمیان تھا کہ میں نے ہر چہار سو دیکھ کر آسماں کی طرف نظر بلند کی تو جبرائیل دکھائی دیا پس میرے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی چنانچہ گھر پہنچ کر میں نے خدیجہ سے کہا کہ ’’  دَثِّرُوْنِی‘‘ یعنی مجھ پر لحاف ڈال دو، پس اللہ نے فرمایا: یَا اَیُّھَا الْمُدَثِّرُ قُمْ فَاَنْذِر۔
اقول:  شیعہ عقیدہ کی رُو سے حضرت رسالتمآب کا وحی کے وقت جبرائیل سے خوفزدہ ہونا بعید از عقل ہے، اسی طرح ہر وہ روایت جس میں شانِ رسالت میں بے ادبی یا گستاخی کا پہلو ظاہر ہو وہ لائق تأویل یا قابل ردّ ہے، مذکورہ بالا دونوں اقوال میں سے پہلا قول سب سے زیادہ مشہور ہے اور روایات اہل بیت ؑ میں اس کی تائید کی گئی ہے۔
چنانچہ الاتقان میں حضرت امام علی ؑبن الحسین ؑ زین العابدین ؑ سے منقول ہے کہ مکہ میں سب سے پہلے نازل ہونے والا سورہ۔۔ سورۂ اقرأ ہے جبکہ سب سے آخر میں اُترنے والا سورہ۔۔ سورۂ مومنون ہے، بعض نے کہا ہے کہ سورۂ عنکبوت ہے اور مدینہ میںسب سے پہلے اُترنے والا سورہ۔۔ سورۂ مطففین ہے اور آخری سورہ۔۔ سورۂ برائت ہے اور بعض مفسرین نے مدینہ میں پہلا اترنے والا سورہ۔۔ سورۂ بقرہ اور بعض  نے سورۂ قدر کو قرار دیا ہے۔
اکثر قرآن مکہ و مدینہ میں اُترا ہے لیکن چند آیات سماوی ہیں: مثلاً سورۂ زخرف کی آیت’’   وَاسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا ‘‘اور سورہ ٔ صافات کی تین آیات ’’وَمَا مِنَّا اِلَّا ‘‘ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات اور سورۂ مرسلات زمین کے اندر نازل ہوا جبکہ آپ غارثور میں تشریف فرما تھے۔
شیعہ عقیدہ کی رُو سے چونکہ آیت مجیدہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ سورہ برائت کے علاوہ ہر سورہ کا جزو ہے لہذا جو سورہ بھی پہلے اُترا اس کی ابتدأ بسم اللہ سے ہوئی، پس بسم اللہ کا سب سے پہلے نازل ہونا یقینی ہے۔