(۵)
خد ا وند عا لم ارشاد فر ما تا ہے قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ
اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی فر ما دے۔۔ اے رسول کہ میں تم سے اجر ِ رسا لت
سو ائے مودّت فی القر بیٰ کے اور کچھ نہیں ما نگتا۔
وَ ذَکَرَ الْعَلامَۃ نَقْلاً عَنْ مُسْنَدِ
اَحْمَد وَ تَفْسِیْرِ الثَّعْلَبِیْ وَ غَیْر ذَالِکَ مِنَ الصِّحَاحِ عَنِ ابْنِ
عَبّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَ قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا
الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ مَنْ قَرَابَتُکَ
الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُھُمْ؟ قَالَ عَلِیّ وَ فَاطِمَۃَ
وَابْنَاھُمَا۔
ترجمہ: علامہ حلّی قدس سرہ نے مسند احمد ۔۔ تفسیر
ثعلبی اور اہل سنت کی دیگر کتب صحاح سے نقل فرمایا ہے کہ جناب ابن عباس فرماتے ہیں
کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔۔ کہہ دے میں اجر رسالت تم سے سوائے مودۃ فی القربیٰ کے
اور کچھ نہیں مانگتا۔۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ آپ ؐ کے کون قرابت دار
ہیں جن کی مودّت واجب ہے؟ تو حضورؐ نے فرمایا وہ علی ؑ ۔۔ فاطمہ ؑ اور ان کے دونوں
فرزند ہیں۔
پس آل رسول کی مودّت ہے اجر رسالت۔۔۔۔۔ تو جو شخص
اسلام کا دعویٰ کرے اور جناب رسالتمآبؐ کے اِن قرابتداروں سے مودّت نہ رکھے تو اس
نے گویا اجر رسالت کے ادا کرنے میں کوتاہی کی اور اجر کی ادائیگی کے بغیر کوئی عمل
درست ہو نہیں سکتا۔۔۔مثلاً مسجد تعمیر کر ا نے وا لا اگر معما ر یا مزدور وں
کی اُجر ت کو ادا نہ کر ے یا کپڑا سلوا نے والا
درزی کو حق سلائی نہ دے تو اس کا اُس مسجد میں یا اُس لبا س میں نما ز ادا
کر نا صر ف فضو ل ہی نہیں بلکہ وبا لِ اُخر وی کا موجب بھی ہے۔۔۔ پس اسی طر ح کلمہ
تو حیدو رسا لت زبا ن پر جا ری کر نے کے بعد بغیر مودّت آلِ رسو لؐ کے اعمال سب
رائیگا ں ہیں اور ہر گز ہرگز قا بل قبو ل نہیں۔
سوال: یہا
ں ایک سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ باقی تمام انبیا ٔ نے تو کبھی تبلیغ نبوت پر اَجر کا
امت سے مطا لبہ نہیں کیا اور حضرت سید المر سلین نے کیو ں ایسا کیا؟ گو یا ان
نبیوں نے قر بتہً الیٰ اللہ تبلیغ کی اور انہو ں نے اپنی تبلیغ دین کی اُجرت کا
مطا لبہ فر ما یا؟یقینا اس میں تنقیص شا نِ رسالت ہے۔
جواب: تو
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ با ت منا فی شا نِ سید الا نبیا ٔ تب لا زم آتی کہ اُجرت
کا تعلق ان کی ذا تی اغرا ض کی تکمیل سے ہو تا ۔۔۔حا لا نکہ ایسا نہیں، بلکہ یہا ں
اُجرت کا تعلق صر ف اُمت ہی سے ہے اور اس کی منفعت صرف انہی پر عا ئد ہے۔۔چنا نچہ
حدیث ثقلین میں اس امر کی پو ری وضاحت فر ما دی کہ ان کے ساتھ تمسک پکڑنے سے تم ہر
گز گمراہ نہ ہو گے اور یہ اخلا ص تبلیغ کی انتہا ی حد ہے کہ متعد د مصائب جھیل کر
تکالیف اُٹھا اُٹھا کر ان کو قعرِ مزلّت سے نکا لااور اَوجِ رفعت پر پہنچایا اور
پھر انتہا ی محبت سے فرما دیا کہ دیکھو مجھے ذاتی اغرا ض کی تکمیل کے لیے تمہارے
روپوئوں۔۔اشر فیو ں وغیر ہ کی ضرورت نہیں بلکہ میری اُجر ت یہی ہے کہ تم ان اسلا
می نعما ت اور اُخر وی لذات کا را ستہ کھو نہ بیٹھو۔۔۔ پس اس کے لے میری نصیحت ما
نو اور اس پر عمل کر و اور یہی میری اُجر ت ہے کہ میر ی آل کے سا تھ محبت رکھو۔۔
تاکہ حوضِ کو ثر تک میر ے پا س صحیح پہنچ سکو۔
نیز یہ طلب اجر نہیں بلکہ تبلیغ رسا لت کا ایک کا
م ہے جس طرح آپؐ نے نما ز پہنچائی۔۔ روزہ پہنچایا وغیر ہ، یہا ں بھی ارشا دِ ’’
قُلْ‘‘ یعنی پہنچا دو ۔۔اگر اُجر ت طلب کر تے تو آیت میں لفظ ’’ قَال‘‘ ماضی کا صیغہ ہو تا پس یہ آیت منجملہ
تبلیغاتِ رسالت کے ہے اور مقصد صر ف بقائے اسلا م ہے۔