سورہ النساء ۔ رکوع 3 ۔نبیؐ وعلیؑ امت کے باپ ہیں | Surah Al-Nisa - Ruku 3 - Nabiؐ aur Aliؑ Ummat kay Baap Hain
"Surah Al-Nisa, Ruku 3, underscores the profound importance of Prophet Muhammad (peace be upon him) and Imam Ali (peace be upon him) in the context of the Muslim Ummah. They are not only spiritual leaders but also hold a unique and revered status as fathers of the Ummah. This Quranic revelation sheds light on their pivotal roles in Islamic history and their enduring significance for Muslims worldwide."
وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئاً وَبِٱلْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَامَىٰ وَٱلْمَسَاكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلجَنْبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ ٱللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً ﴿٣٦﴾
اور عبادت کرو اللہ کی اور نہ شریک کرو اس کا کسی شے کو اور ماں باپ سے احسان کرو اور قرابت دار سے اور یتیموں اور مسکینوں اور ہمسایہ قرابت دار اور ہمسایہ اجنبی اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلاموں کنیزوں کے ساتھ تحقیق اللہ دوست نہیں رکھتا ہے اترانے والے فخر کرنے والے کو ﴿٣٦﴾
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً ﴿٣٧﴾
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً ﴿٣٧﴾
جو بخل کرتے ہیں اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بخل کا اور چھپاتے ہیں اس کو جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور ہم نے تیار کیا ہے کافروں کے لئے عذاب ذلیل کن ﴿٣٧﴾
وَٱلَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَـآءَ ٱلنَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلاَ بِٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ وَمَن يَكُنِ ٱلشَّيْطَانُ لَهُ قَرِيناً فَسَآءَ قِرِيناً ﴿٣٨﴾
وَٱلَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَـآءَ ٱلنَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلاَ بِٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ وَمَن يَكُنِ ٱلشَّيْطَانُ لَهُ قَرِيناً فَسَآءَ قِرِيناً ﴿٣٨﴾
اور ان کے لئے جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال دکھلاوے لوگوں کے لیے اور نہیں ایمان رکھتے اللہ اور یومِ قیامت پر اور جس کا ہو شیطان ساتھی تو وہ بُرا ساتھی ہے ﴿٣٨﴾
وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُواْ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ وَأَنْفَقُواْ مِمَّا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ وَكَانَ ٱللَّهُ بِهِم عَلِيماً ﴿٣٩﴾
وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُواْ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ وَأَنْفَقُواْ مِمَّا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ وَكَانَ ٱللَّهُ بِهِم عَلِيماً ﴿٣٩﴾
اور کیا نقصان تھا ان کو اگر ایمان لاتے اللہ اور یومِ قیامت پر اور خرچ کرتے اس سے جو رزق دیا ان کو اللہ نے اور اللہ ان کو خوب جانتا ہے ﴿٣٩﴾
إِنَّ ٱللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً ﴿٤٠﴾
إِنَّ ٱللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً ﴿٤٠﴾
تحقیق اللہ نہیں ظلم کرتا ذرّہ برابر اور اگر ہو نیکی تو اس کو چند در چند کرتا ہے اور اپنی جانب سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ﴿٤٠﴾
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلاۤءِ شَهِيداً ﴿٤١﴾
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلاۤءِ شَهِيداً ﴿٤١﴾
پس کیا حال ہوگا جب لائیں گے ہم ہر امت سے گواہ اور آپ کو لائیں گے اوپر ان کے گواہ ﴿٤١﴾
يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ ٱلرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلأَرْضُ وَلاَ يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثاً ﴿٤٢﴾
يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ ٱلرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلأَرْضُ وَلاَ يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثاً ﴿٤٢﴾
اس دن خواہش کریں گے وہ جنہوں نے کفر کیا اور نافرمانی کی رسول کی کاش ان کو برابر کیا جاتا زمین سے اور نہ چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات ﴿٤٢﴾
سورہ النساء ۔ رکوع 3 ۔نبیؐ وعلیؑ امت کے باپ ہیں
وَبِٱلْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً : اس آیت مجیدہ کے ذیل میں تفسیر برہان میں متعدد احادیث خانوادہ عصمت(س) سے مروی ہیں کہ جناب رسالتمابؐ اورحضرت علیؑ تمام امت کے باپ ہیں اورجناب رسالتمابؐ سے بھی مروی ہے کہ أَنَا وَ عَلِيٌّ أَبَوَا هَذِهِ الْأُمَّة اورکتاب مناقب محمد بن جریر سے مروی ہے کہ جناب رسالتمابؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ منادی کرو جو شخص اپنے اجیر پر اجرت کے متعلق ظلم کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اورجو اپنے مولی کے علاوہ کسی اورکی ولارکھے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اورجو اپنے ماں باپ پر سب کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے پس حضرت امیر نے منادی کی تو صحابہ کی ایک جماعت جن میں حضرت عمر بھی تھے بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے اورمنادی کے ان کلمات کی تفسیر دریافت کی آپ نے آیت مودت پڑھ کر فرمایا جو اس بارہ میں ہم پر ظلم کریگا وہ اللہ کی لعنت کا حقدار ہے پھر النبی اولی بالمومنین النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ آیت پڑھ کر حدیث غدیر مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ پڑھی اورفرمایا جو اس کی اوراس کی ذریت کی ولا چھوڑ کر کسی اورکو مولا بنائے گا اس پرلعنت ہے اس کے بعد فرمایا أَنَا وَ عَلِيٌّ أَبَوَالْمُومِنِیْنَ یعنی میںؐ اور علیؑ مومنوں کے باپ ہیں جو ہم میں سے ایک کو سب کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے جب باہر نکلے تو حضرت عمر نے باقی صحابہ سے فرمایا کہ غدیر خم یا دوسرے مقامات کی بہ نسبت ولاعلیؑ کے متعلق حضورؐ کا آج کا تاکیدی فرمان بہت شدید ہے حسان بن ثابت کہتا ہے کہ یہ واقعہ جناب رسالتمابؐ کی وفات سے سترہ روز پہلے کا ہے۔
وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ: تفسیر مجمع البیان میں جناب رسالتمابؐ سے مروی ہے کہ ہمسائے تین قسم کے ہوتے ہیں
- وہ جن کے حقوق تین ہوتے ہیں ہمسائیگی کا حق ، قرابت کا حق اوراسلام کا حق
- وہ جن کے حقوق دوہوتے ہیں ہمسائیگی اوراسلام کا حق
- جن کا حق صرف ایک ہو تا ہے اوروہ ہے حق ہمسائیگی ۔
وَٱلصَّاحِبِ بِٱلجَنْبِ : پہلو کا ساتھی خواہ رفیق سفر ہو خواہ زوجہ ہو خواہ کو ئی دوسرا اجنبی غلام ہو اورخواہ مہمان نودار ہو آیت کے عموم کے لحاظ سے اس میں سب داخل ہیں اوران سے حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔
ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ : یہ آیت عام ہے اوراس کا ربط پچھلی آیت کے ساتھ ہے اگر عالم علم کا بخل کرے یا کوئی صاحب نعمت اس عطاشدہ نعمت کا بخل کرے تو اس آیت کا مصداق ہوگا یعنی ایسوں کا خدادوست نہیں رکھتا۔
وَيَكْتُمُونَ: یہ بھی عام ہے یعنی خداکو نہیں پسند کہ وہ جسے اپنی نعمت عطا کرے وہ اسے پوشیدہ کرے خواہ علم ہو یادولت یا کوئی اورنعمت چنانچہ حدیث میں واردہے کہ جب خداپنے بندے پرکوئی نعمت بھیجتاہے تو وہ اپنے بندے پر اسکا اثر دیکھنا چاہتاہے
وَمَاذَا عَلَيْهِمْ : اس سے عقیدہ جبر کا بطلان ظاہر ہے کہ خدافرماتا ہے انہیں کیا نقصان ہے اگر ایمان لائیں تو معلوم ہو اکہ انسان ایمان لانے اورنہ لانے میں مختار ہے جبھی تو ایمان نہ لانے والوں کی مذمت فرمارہاہے۔
مِثْقَالَ ذَرَّةٍ : مثقال ثقل سے ہے اوراسکا معنی ہے مقدار اورذرہ سرخ رنگ کی چھوٹی چیونٹی کوکہتے ہیں جو بمشکل نظر آتی ہے یایہ کہ مکان میں سورج کی شعاع پڑتے وقت جو اس میں چھوٹے چھوٹے اجزادکھائی دیتے ہیں ان کو ذرہ کہتے ہی یعنی خدااس قدر بھی اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں رکھتا۔
فَكَيْفَ إِذَا: یعنی ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہ ہوگا اورحضرت رسالتمابؐ اپنی امت پر گواہ ہوں گے بلکہ اس وقت ہر انسان کے اپنے اعضاءوجوار ح بھی گواہ ہوں گے اوربمطابق روایات کے زمان ومکان بھی گواہ ہوں گے اورابن مسعود سے روایت ہے کہ جب آپ کے سامنے یہ آیت میں نے پڑھی تو آپ کے آنسوبہہ نکلے پس جب شاہدکی یہ حالت ہے کہ اس مقام کی ہولناکی کو یاد کرکے روتے ہیں تو جن کے خلاف گواہی ہوگی ان کاکیا حال ہو گا مجمع البیان ۔
تفسیر برہان میں بروایت کافی امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہ آیت بالخصو ص امت محمدیہ کے حق میں ہے اورہر زمانہ میں ہم سے ایک امام ہوگا جو اپنےزمانہ والوں پر شاہد ہوگا اورجناب رسالتمابؐ ہم پر شاہد ہوں گے اورحضرت امیر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اوصیا ءسراط پر موجود ہوں گے اورجنت میں ان کا عارف ہی داخل ہوگا اورفرمایا خدانے انہی کے متعلق فرمایا ہے یعرفون کلابسیما ھم یعنی وہ گواہ اپنے دوستوں کو پہچانتے ہوں گے ۔ الحدیث۔
اوربروایت عیاشی امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہر نبی کی امت پر اس نبی کاوصی گواہ ہوگا وراس امت پر حضرت علیؑ گواہ ہوں گے یومیذیود الخ تفسیر برہان میں قمی سے منقول ہے کہ جن لوگوں نے حضرت امیر علیہ السلام کو نارض کیا وہ تمنا کریں گے کاش جس دن ہم نے علیؑ کو نارض کیا تھا اس دن ہمیں زمین نگل گئی ہوتی اورفرمان رسولؐ کو نہ چھپایا ہوتا۔
تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ خواہش کریں کے کہ کاش تمام اہل محشر ہمیں اپنے قدموں سے روندیں جس طرح زمین کو روند اجاتا ہے اوراسکا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہول محشر میں یا اپنی کرتوتو ں کا کا عذاب سامنے دیکھ کر وہ تمنا کریں گے کہ ہمیں زمین کے برابر اورزمین جیسا کردیا جاتا اورنیز مروی ہے کہ چوپاوں کو قیامت کے دن محشور کرکے پھر انہیں موت دیکر مٹی کردیا جائے گا تو یہ لوگ بھی کہیں گے کاش ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا وردائمی عذاب سے بچ جاتے۔ (مجمع البیان)
وَلاَ يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ : اس کے معنی میں کئی قول ہیں
- (۱)ایک معنی تو وہی ہے جو آیت کے نیچے موجود ہے اوروہ اس لئے نہ چھپا سکیں گے کہ ان کے اعضاء وجوارح بھی گواہی دیں گے ۔
- (۲)اس کا عطف لَوْتَسَوّٰی پر ہو یعنی کاش اللہ کے ساتھ معاملہ کھرا کھرا کیا ہوتا اورمنافقت نہ کی ہوں ۔
- (۳) اللہ کا دین نہ چھپایا ہوتا اورجناب رسالتمابM کے فرمان پر پردہ نہ دیاہوتا۔