چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام | chaty imam hazrat jafar bin muhammad alsadiq alih alsalam | khilafat o malookiat
آپ کی ولادت 17 ربیع الادل سنہ 83 ھ مدین منورہ میں ہوئی آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیَ ۔ آپ سن و سال میں ابوحنیفہ سے اڑھائی تین برس چھوٹے تھے۔
آپ کا زمانہ دینی وسیاسی ہر دو لحاظ سے انقلابات کی آماجگاہ تھا۔ ہشام بن عبدالملک کی دعوت پر جب آپ کے والد امام محمدباقرعلیہ السلام دمشق تشریف لے گئے تو آپ ان کے ہمراہ تھے۔ ہشام بن عبدالملک کے بعد اس کا بھتیجا ولید بن یزید بن عبد الملک تخت نشین ہوا اور اس کے بعد مروان الحمار وارث تخت ہوا اوریہ شخص بنی امیہ کا آخری تاجدار تھا۔
بنوالعباس کی تحریک ہشام کے زمانہ ہی سے چل رہی تھی اور بنو امیہ کے مظالم لوگوں کبنو العباس کی تحریک انقلاب کے ساتھ متفق ہونے کی دعوت دے رہے تھے اور لوگ دن بدن بنو امیہ سے متنفر ہوکر بنوالعباس کے حامی ہوتے جا رہے تھے اور آخر کار بنوامیہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
بنو عباس کی تحریک کی کامیابی کا راز آل محمد کی مظلومیت کی داستانیں تھیں اور انہی کی نیابت کا دعوی کر کے عوام سے ہمدردیاں حاصل کی گئی تھیں۔
ربیع الاول سنہ 132 ھ میں جب ابوالعباس سفاح کے ہاتھ پر کوفہ میں خلافت کی بیعت ہوئی، تو اس کے چچا داؤ دبن علی نے اپنی تقریر میں اس امرکا اظہاربھی کیا چنانچہ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں نکلے ہیں کہ اپنے لئے سیم وزر جمع کریں یا محلات بنوائیں اور ان میں نہریں کھود کر لائیں بلکہ ہمیں جس چیز نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا حق چھین لیا گیا تھا اور ہمارے نبی عم (آل ابیطالب)پر ظلم کیا جا راہا تھا اور بنی امیہ تمہارے درمیان برے طریقے سے چل رہے تھے انہوں نے تم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔ سنہ 192۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام اپنے زمانہ میں علوم ومعارف کا بحر موجزن اور عزم و استقلال کا پہاڑ تھے۔ آپ کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔ اطراف مملکت اسلامیہ سے تشنگان علوم کھچ کھچ کر آتے تھے اور چشمہ فیض سے سیراب ہوکر اپنے اپنے وطن کو پلٹتے تھے تقر یاً چار ہزار یا اس سے کچھ زیادہ تعداد ہے ان فقہاء و محدثین کی جو حوزہ علمیہ میں شریک درس ہو کر آپ کے شجرہ علم سے خوشہ چینی کردے اور خوان معرفت سے ریزہ چینی کر کے آنے والی نسلوں کے لئے منبع فیض بن کر پلیٹے ۔
آپ نے سفیان ثوری سے فرمایا : اگرنعمت کی بقا چاہتے ہو تو شکر پروردگار ادا کرو کیونکہ خدا فرماتا ہے
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اگر رزق میں وسعت چاہتے ہو تواستغفار کرو
استغفرواربكم لله اور اگر سلطان جائر کا خوف ہوتو «لا حول ولا قوه الا بالله العلی العظیم» پڑھا کرو۔ حلیۃ الاولیا سے منقول ہے آپ نے اپنی بعض اولاد کو وصیت فرمائی ۔
(۱) جواپنے تقسیم شدہ رزق پرقناعت کرے گا وہ مستغنی رہے گا ۔
(2) جو غیر کے مال پر للچائی ہوئی نظر ڈالے گا وہ فقیر مرے گا۔
(3) جو اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہوا گویا قضا و قدر میں اللہ پر اس کا گمان اچھا نہیں۔
(4) جو اپنی غلطیوں کو حقیر سمجھے وہ بڑی سے بڑی غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔
(5) جو دوسروں کے عیوب کی پردہ دری کرے اس کے اپنے عیوب کی پردہ دری ہوتی ہے۔
(6) جو بغاوت کی تلوار اٹھاۓ وہ اسی ہی تلوار سے خود قتل ہو تا ہے۔
(7) جواپنے مومن بھائی کے لئے کنواں کھودے وہ پہلے خود ہی اس میں گرتا ہے۔
(8) جو جاہلوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے وہ جلدی ذلیل ہوتا ہے ۔
(9) جس کا علماء سے میل جول ہو وہ عزت پاتا ہے۔
(10) جو برے معاشرہ میں قدم رکھتا ہے وہ جلد متسم ہوتا ہے۔
(11) حق بات کہو خواہ تلخ ہی ہو اور اس میں تمہارے لئے ذاتی فائدہ ہو یا نقصان۔
(12)چغل خوری سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے دلوں میں بغض کا بیچ بوتی ہے۔
(13) سخاوت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔
( تذكرة الاولیا علامہ سبط ابن جوزی )
آپ کا زمانہ بنوامیہ کے زوال اور بنو العباس کے عروج کا زمانہ تھا نوامیہ کے آخری تاجدار بوالعباس سے ترساں و ہراساں رہے اور ان کے خطرہ کو اپنے سرسے ٹالنے کی تدابیر میں مصروف رہے اس لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی آزادانہ مذہبی تبلیغ و ترویج میں خلل انداز نہ ہوسے پس نہ درپے ایذء ہونے کا ان کو وقت ملا اور نہ 'اپ ی اشاعت مذہت پر پابندی عائد کرنا ان کے بس میں رہا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عباسیوان کی تحریک میں مزید تقویت پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ پس آپ نے علوم آل محمد کو خوب نشر کیا اور دین اسلام کی قیادت کی ذمہ داری جو آپ کے سپرد تھی اسے خوب نبھایا اور حضرت رسالتمابﷺ نے اسلام کو جن خطوط پر پیش کیا تھا اور نا اہل قیادت کی وجہ سے وہ دھند لاچکے تھے آپ نے انہی خطوط کو اجاگر کیا اور سلاطین وقت کی ہر دور کی بدعات کا پردہ چاک کیا جس کو جمہور اہل اسلام نے مذہب کا حصہ سمجھ رکھا تھا۔ اور علانیہ طور پر حکومت کے دخل و اثر سے بے نیاز ہوکر چونکہ آپ ہی نے اصول و فروع مذہب کی تفصیلات کو منظر عام پر پیش کیا اس لئے شیعانِ آل محمد ﷺ کے مسلک کو جعفری اور ملت کو ملت جعفریہ امامیہ کہا جا تا ہے۔ اس کے مقابلے میں جمہور اہل اسلام کا مسلک بھی اس وقت تک سلاطین دور کی مسلسل سرپرستی میں تربیت پا تا رہا اور صحابہ وتابعین وتبع تابعین خواہشات اقتدار کے خلاف زبان کھولنے کو چونکہ موت کا پیغام سمجھتے تھے اس لئے ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ان کا مذیب تھا اور ہر ایک کو اچھا کہنا ہر ایک کا احترام کرنا اور کسی صحابی و تابعی کے کسی فعل یا قول پر تنقید نہ کرنا تھی کہ ان سے صادر ہونے والے فعل حرام تک کو حرام کہنے کی جراُت نہ کرنا ان کیبغاوت کو بغاوت نہ کہنا دوگروہ لڑ پڑیں تو ایک کو حق ماننے کے باوجود دوسرے کو جہنمی نہ کہنا اور دونو پر حسن ظن رکھنا اور دونو کی بربر عزت کرنا وغیرہ منافی عقل ادین باتیں ان کا مذہب بن چکی تھیں اور یہی عقیدہ ان کو راسخ کرایا گیا تھا اور اسی کو وہ حقیقی اسلام سمجھتے تھے بلکہ حضرت رسالت مآب ﷺ تک اس مطلب کی حیثیں بناکر منسوب کردی تھیں جو حضور ﷺ کی ذات پر افترا محض تھیں کیونکہ دین خدا میں متضاد امور کے عقیدہ کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ وہ حق کو حق اور باطل لو علانیہ باطل کہتا ہے دو میں سے جو سچاہے اس کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہتا ہے اور یہی اس کی تعلیم ہے جھوٹے اور سچے کو نیز حق اور باطل کو براطر قابل احترام سمجھو اور کسی صحابی پر تنقید نہ کرو اقتدار کے بنائے ہوئے اصول تھے، جو نبی علیہ السلام تک منسوب کئے گئے۔
بنی امیہ کے جور وستم اور اسلام دشمنی کے ان گنت آثار اور شعائر اللہ کی اعلانیہ توہین کے واقعات نے اگرچہ اہل اسلام کو جھنجھوڑ کر جگایا اور انہیں دینی و سیاسی قیادت کے راستوں میں امتیاز پیدا کرنے کی دعوت دی لیکن بنو امیہ کی سر پر چمکنے والی تلواروں نے کسی کو اس دعوت فکر پر کان دھرنے کی مہلت نہ دی بس ایک شیعانِ علی ہی تھے جنہوں نے پہلے دن سے قیادت دینیہ سے وابستگی کے صلہ میں جور مسلسل اور ظلم پہیم کا مقابلہ کرتے ہوئے سیاست کو مذہب نہ بنانے کا عہد کر رکھا تھا اور دامنِ امامت سے وابستہ چلے آرے تھے۔
جمہور اہل اسلام کے دلوں پر بنی امیہ کی حکومت کے طویل و عریض عرصہ میں حضرت علی وآل علی و شیعان علی پرہونے والے سب وشتم کی وجہ سے شیعان علی سے حسدو کدورت کا زنگ تو بیٹھ ہی چکا تھا وہ آئمہ آل محمد ﷺ کو علم وفضل اور کردار وافعال میں اگرچہ یکتائے روز گار تسلیم کرتے تھے لیکن سابق آبائی تقلید کے پیش نظر ان کی دینی قیادت تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھے۔
نیز بنی امیہ کےمسلسل نظام او اسلام دشمن پالیسی کی بدولت وہ الگ دینی قیادت کی تلاش میں تھے جو آل محمد کی سربراہی میں نہ ہو تاکہ شیعانِ علی کے متعلق اموی دور کے ہوش ربا وحیا سوز بے حقیقت پروپیگنڈہ کی زد سے بچ جائیں اب جو نہی عباسی تحریک کے زور پڑنے سے امومی حکومت کی چولیں ڈہیلی ہوئیں اور فقہائے جمہور اہل اسلام کی زبانوں سے قفل کھلے نیز اظہار خیالات کے لئے آزادی کا وقفہ ملا تو جمہور اہل اسلام کے لئے شیعان علی کے مسلک کے مقابلہ میں دینی قیادت کی تشکیل کرتے ہوئے الگ مذہب کی طرح ڈالی گئی اور یہ کام حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام کے ہی زمانہ میں حضرت ابو حنیفہ نے انجام دیا اس نے نہایت ہی محتاط اندازہ سے خلافت کے متعلق اپنے عقیدے کی وضاحت کی اور سابق جمہوری عقائد منتشرہ کو یکجا کرکے خوب لیپ پوت کی راہیں ہموار کیں اور صحابہ و تابعین کی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنا اور لیپ پوت سے ان کے احترام کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا خواہ اس میں اجتماع ضدین کو بھی برداشت کرنا بڑے شعار مذہب قرار دیا اور شیعان علی سے نفرت اور ان کی بات تک نہ سننا مذہب و صحابہ کی محبت کا تقاضا قرار دیا گیا اور بعد میں آنے والے فقہائے عزاداری کو بھی اس وجہ سے حرام کہ دیا کہ اس سے یزید اور اس کے باپ اور باقی اکابر صحابہ کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے اور یزید پر باوجود اس کو
برا کہنے اور سمجھنے کے لعنت کرنا ممنوع قرار دے دیا تاکہ یہ لعنت اوپر نہ چلی جائے جیسا کہ مودودی صاھب نے بعض علمائے اہل سنت کے امتناعی قول کی اجہ بیان کی ہے سنہ 183 سچ ہے (چور کی داڑھی ٓمیں تنکا۔) اور دونکہ حضرت ابو حنیفہ نے ہی مذہب جمہورکی داغ بیل ڈالی تھی اس لئے مذہب بھی ان ہی کی طرف منسوب ہوا اور وہ حنفی کہلانے لگے۔
پس یہ زمانہ جس طرح سیاسی انقلاب میں ایک بڑی اہمیت کا حامل تھا اسی طرح مذہبی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ بنی امیہ کو اپنے اقتدار کے بچانے کی فکر تھی اور بنو عباس کو اس کے حاصل کرنے کا طمع تھا اور جب انقلاب آچکا تو بنی عباس کو اس کے مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ پس اس زمانہ مین کتب تفسیر وحدیث وتاریخ کی تدوین بھی شروع ہوئی اور فقہی مسائل کی بشرواشاعت بھی دل کھول کر کی گئی اور لوگوں نے آزادانہ طور پر مذہبیات میں حصہ لیا۔
ابو العباس سفاح کے بعد منصور عباسی سنہ ھ 123 میں بنو العباس کے سلاطین اپنی طبائع پر زور دے کر فقہائے اسلام کے فیصلوں کو سہ لیتے تھے اگرچہ ان کے مزاج سے متصادم ہی ہوتے تھے کیونکہ ایک طرف انہوں نے بنی امیہ کا قلع قمع کرنا تھا اور ان کے معتقدین کو نیست و نابود کرنا ان کے لئے ضروری تھا اور دوسرے طرف ہر طرف سے سر اٹھابے والی بغاوتوں کو دبانا اقتدار کی بحالی و مضبوطی کے لئے ان کے فرائض میں سے تھا اس لئے علماء وفقہاکی کھری کھری باتوں کو وہ خندہ بیشانی سے یا طبیعت پر زور دے کر برداشت کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے خلاف یہ ایک نیا فتنہ نہ کھڑا ہوجائے۔
حلیہء ابو نعیم میں ہے ایک مرتبہ ابو جعفر منصور دوانیقی کے منہ پر مکھی بعٹھی وہ اسے بار بار اٹھاتا تھا اور وہ بار بار واپس آجاتی تھی آخر کار تنگ آکر امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس نے پوچھا کہ خدا نے مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جبار لوگوں کے تکبر کو توڑنے کے لئے یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوا لیکن غصہ کو ضبط کرکے چپ ہوگیا۔ (تذکرۃ الخواص)
جب عباسیوں کے خلاف اٹھنے والی بغاوتیں فرہ ہوگئیں اور ان کا اقتدار پوری طرح قائم ہو گیا تو انہوں نے ظلم واستبداوہیں بنوامیہ سے بھی قدم بڑھا رکھا اور شیعانِ علی کو پھر انہوں نے ظلم کی زنجیروں میں جکڑنا شروع کیا اور سادات علویہ کی دشمنی ان کے دلوں میں گھر کر گئی انہی کے پر آشوب دور میں سادات نے رفتہ رفتہ مدینہ کو چھوڑ کر جنگلوں کی خاک چھاننا شروع کی اور دور دراز کے سفر طے کرکے ترکستان ایران اور ہندستان وغیرہ مملک میں منتشر ہوتے گئے حتیٰ کہ آج دنیا اسلام میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سادات آباد نہ ہوں۔
منصور دوانیقی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شیعانِ علی کی دینی قیادت کی سربراہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اور وہ ان سے کسی حد تک خوفزدہ بھی رہتا تھا کہ کہیں ان کا اجتماع بڑھتے بڑھتے خروج تک نوبت نہ پہنچ جائے اور کئی دفعہ اس نے آپ کو اپنے پاس بلاکر قتل کی دھمکیاں بھی دیں لیکن جرات نہ کرسکا۔ آخر کار مدینہ کے عامل کے ذریعے سے زہر دلواکر آپ کو شہید کرکے رہا۔ آپ کی تاریخ شہادت 15 شوال سنہ 148 ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں اپنے باپ دادا کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کے دوبرس بعد سنہ 150ھ میں ابو حنیفہ کی وفات ہوئی۔ (سنہ 245 خلافت وملوکیت)
آپ کی ولادت 17 ربیع الادل سنہ 83 ھ مدین منورہ میں ہوئی آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیَ ۔ آپ سن و سال میں ابوحنیفہ سے اڑھائی تین برس چھوٹے تھے۔
آپ کا زمانہ دینی وسیاسی ہر دو لحاظ سے انقلابات کی آماجگاہ تھا۔ ہشام بن عبدالملک کی دعوت پر جب آپ کے والد امام محمدباقرعلیہ السلام دمشق تشریف لے گئے تو آپ ان کے ہمراہ تھے۔ ہشام بن عبدالملک کے بعد اس کا بھتیجا ولید بن یزید بن عبد الملک تخت نشین ہوا اور اس کے بعد مروان الحمار وارث تخت ہوا اوریہ شخص بنی امیہ کا آخری تاجدار تھا۔
بنوالعباس کی تحریک ہشام کے زمانہ ہی سے چل رہی تھی اور بنو امیہ کے مظالم لوگوں کبنو العباس کی تحریک انقلاب کے ساتھ متفق ہونے کی دعوت دے رہے تھے اور لوگ دن بدن بنو امیہ سے متنفر ہوکر بنوالعباس کے حامی ہوتے جا رہے تھے اور آخر کار بنوامیہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
بنو عباس کی تحریک کی کامیابی کا راز آل محمد کی مظلومیت کی داستانیں تھیں اور انہی کی نیابت کا دعوی کر کے عوام سے ہمدردیاں حاصل کی گئی تھیں۔
ربیع الاول سنہ 132 ھ میں جب ابوالعباس سفاح کے ہاتھ پر کوفہ میں خلافت کی بیعت ہوئی، تو اس کے چچا داؤ دبن علی نے اپنی تقریر میں اس امرکا اظہاربھی کیا چنانچہ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں نکلے ہیں کہ اپنے لئے سیم وزر جمع کریں یا محلات بنوائیں اور ان میں نہریں کھود کر لائیں بلکہ ہمیں جس چیز نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا حق چھین لیا گیا تھا اور ہمارے نبی عم (آل ابیطالب)پر ظلم کیا جا راہا تھا اور بنی امیہ تمہارے درمیان برے طریقے سے چل رہے تھے انہوں نے تم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔ سنہ 192۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام اپنے زمانہ میں علوم ومعارف کا بحر موجزن اور عزم و استقلال کا پہاڑ تھے۔ آپ کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔ اطراف مملکت اسلامیہ سے تشنگان علوم کھچ کھچ کر آتے تھے اور چشمہ فیض سے سیراب ہوکر اپنے اپنے وطن کو پلٹتے تھے تقر یاً چار ہزار یا اس سے کچھ زیادہ تعداد ہے ان فقہاء و محدثین کی جو حوزہ علمیہ میں شریک درس ہو کر آپ کے شجرہ علم سے خوشہ چینی کردے اور خوان معرفت سے ریزہ چینی کر کے آنے والی نسلوں کے لئے منبع فیض بن کر پلیٹے ۔
آپ نے سفیان ثوری سے فرمایا : اگرنعمت کی بقا چاہتے ہو تو شکر پروردگار ادا کرو کیونکہ خدا فرماتا ہے
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
اگر رزق میں وسعت چاہتے ہو تواستغفار کرو
استغفرواربكم لله اور اگر سلطان جائر کا خوف ہوتو «لا حول ولا قوه الا بالله العلی العظیم» پڑھا کرو۔ حلیۃ الاولیا سے منقول ہے آپ نے اپنی بعض اولاد کو وصیت فرمائی ۔
(۱) جواپنے تقسیم شدہ رزق پرقناعت کرے گا وہ مستغنی رہے گا ۔
(2) جو غیر کے مال پر للچائی ہوئی نظر ڈالے گا وہ فقیر مرے گا۔
(3) جو اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہوا گویا قضا و قدر میں اللہ پر اس کا گمان اچھا نہیں۔
(4) جو اپنی غلطیوں کو حقیر سمجھے وہ بڑی سے بڑی غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔
(5) جو دوسروں کے عیوب کی پردہ دری کرے اس کے اپنے عیوب کی پردہ دری ہوتی ہے۔
(6) جو بغاوت کی تلوار اٹھاۓ وہ اسی ہی تلوار سے خود قتل ہو تا ہے۔
(7) جواپنے مومن بھائی کے لئے کنواں کھودے وہ پہلے خود ہی اس میں گرتا ہے۔
(8) جو جاہلوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے وہ جلدی ذلیل ہوتا ہے ۔
(9) جس کا علماء سے میل جول ہو وہ عزت پاتا ہے۔
(10) جو برے معاشرہ میں قدم رکھتا ہے وہ جلد متسم ہوتا ہے۔
(11) حق بات کہو خواہ تلخ ہی ہو اور اس میں تمہارے لئے ذاتی فائدہ ہو یا نقصان۔
(12)چغل خوری سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے دلوں میں بغض کا بیچ بوتی ہے۔
(13) سخاوت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔
( تذكرة الاولیا علامہ سبط ابن جوزی )
آپ کا زمانہ بنوامیہ کے زوال اور بنو العباس کے عروج کا زمانہ تھا نوامیہ کے آخری تاجدار بوالعباس سے ترساں و ہراساں رہے اور ان کے خطرہ کو اپنے سرسے ٹالنے کی تدابیر میں مصروف رہے اس لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی آزادانہ مذہبی تبلیغ و ترویج میں خلل انداز نہ ہوسے پس نہ درپے ایذء ہونے کا ان کو وقت ملا اور نہ 'اپ ی اشاعت مذہت پر پابندی عائد کرنا ان کے بس میں رہا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عباسیوان کی تحریک میں مزید تقویت پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ پس آپ نے علوم آل محمد کو خوب نشر کیا اور دین اسلام کی قیادت کی ذمہ داری جو آپ کے سپرد تھی اسے خوب نبھایا اور حضرت رسالتمابﷺ نے اسلام کو جن خطوط پر پیش کیا تھا اور نا اہل قیادت کی وجہ سے وہ دھند لاچکے تھے آپ نے انہی خطوط کو اجاگر کیا اور سلاطین وقت کی ہر دور کی بدعات کا پردہ چاک کیا جس کو جمہور اہل اسلام نے مذہب کا حصہ سمجھ رکھا تھا۔ اور علانیہ طور پر حکومت کے دخل و اثر سے بے نیاز ہوکر چونکہ آپ ہی نے اصول و فروع مذہب کی تفصیلات کو منظر عام پر پیش کیا اس لئے شیعانِ آل محمد ﷺ کے مسلک کو جعفری اور ملت کو ملت جعفریہ امامیہ کہا جا تا ہے۔ اس کے مقابلے میں جمہور اہل اسلام کا مسلک بھی اس وقت تک سلاطین دور کی مسلسل سرپرستی میں تربیت پا تا رہا اور صحابہ وتابعین وتبع تابعین خواہشات اقتدار کے خلاف زبان کھولنے کو چونکہ موت کا پیغام سمجھتے تھے اس لئے ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ان کا مذیب تھا اور ہر ایک کو اچھا کہنا ہر ایک کا احترام کرنا اور کسی صحابی و تابعی کے کسی فعل یا قول پر تنقید نہ کرنا تھی کہ ان سے صادر ہونے والے فعل حرام تک کو حرام کہنے کی جراُت نہ کرنا ان کیبغاوت کو بغاوت نہ کہنا دوگروہ لڑ پڑیں تو ایک کو حق ماننے کے باوجود دوسرے کو جہنمی نہ کہنا اور دونو پر حسن ظن رکھنا اور دونو کی بربر عزت کرنا وغیرہ منافی عقل ادین باتیں ان کا مذہب بن چکی تھیں اور یہی عقیدہ ان کو راسخ کرایا گیا تھا اور اسی کو وہ حقیقی اسلام سمجھتے تھے بلکہ حضرت رسالت مآب ﷺ تک اس مطلب کی حیثیں بناکر منسوب کردی تھیں جو حضور ﷺ کی ذات پر افترا محض تھیں کیونکہ دین خدا میں متضاد امور کے عقیدہ کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ وہ حق کو حق اور باطل لو علانیہ باطل کہتا ہے دو میں سے جو سچاہے اس کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہتا ہے اور یہی اس کی تعلیم ہے جھوٹے اور سچے کو نیز حق اور باطل کو براطر قابل احترام سمجھو اور کسی صحابی پر تنقید نہ کرو اقتدار کے بنائے ہوئے اصول تھے، جو نبی علیہ السلام تک منسوب کئے گئے۔
بنی امیہ کے جور وستم اور اسلام دشمنی کے ان گنت آثار اور شعائر اللہ کی اعلانیہ توہین کے واقعات نے اگرچہ اہل اسلام کو جھنجھوڑ کر جگایا اور انہیں دینی و سیاسی قیادت کے راستوں میں امتیاز پیدا کرنے کی دعوت دی لیکن بنو امیہ کی سر پر چمکنے والی تلواروں نے کسی کو اس دعوت فکر پر کان دھرنے کی مہلت نہ دی بس ایک شیعانِ علی ہی تھے جنہوں نے پہلے دن سے قیادت دینیہ سے وابستگی کے صلہ میں جور مسلسل اور ظلم پہیم کا مقابلہ کرتے ہوئے سیاست کو مذہب نہ بنانے کا عہد کر رکھا تھا اور دامنِ امامت سے وابستہ چلے آرے تھے۔
جمہور اہل اسلام کے دلوں پر بنی امیہ کی حکومت کے طویل و عریض عرصہ میں حضرت علی وآل علی و شیعان علی پرہونے والے سب وشتم کی وجہ سے شیعان علی سے حسدو کدورت کا زنگ تو بیٹھ ہی چکا تھا وہ آئمہ آل محمد ﷺ کو علم وفضل اور کردار وافعال میں اگرچہ یکتائے روز گار تسلیم کرتے تھے لیکن سابق آبائی تقلید کے پیش نظر ان کی دینی قیادت تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھے۔
نیز بنی امیہ کےمسلسل نظام او اسلام دشمن پالیسی کی بدولت وہ الگ دینی قیادت کی تلاش میں تھے جو آل محمد کی سربراہی میں نہ ہو تاکہ شیعانِ علی کے متعلق اموی دور کے ہوش ربا وحیا سوز بے حقیقت پروپیگنڈہ کی زد سے بچ جائیں اب جو نہی عباسی تحریک کے زور پڑنے سے امومی حکومت کی چولیں ڈہیلی ہوئیں اور فقہائے جمہور اہل اسلام کی زبانوں سے قفل کھلے نیز اظہار خیالات کے لئے آزادی کا وقفہ ملا تو جمہور اہل اسلام کے لئے شیعان علی کے مسلک کے مقابلہ میں دینی قیادت کی تشکیل کرتے ہوئے الگ مذہب کی طرح ڈالی گئی اور یہ کام حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام کے ہی زمانہ میں حضرت ابو حنیفہ نے انجام دیا اس نے نہایت ہی محتاط اندازہ سے خلافت کے متعلق اپنے عقیدے کی وضاحت کی اور سابق جمہوری عقائد منتشرہ کو یکجا کرکے خوب لیپ پوت کی راہیں ہموار کیں اور صحابہ و تابعین کی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنا اور لیپ پوت سے ان کے احترام کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا خواہ اس میں اجتماع ضدین کو بھی برداشت کرنا بڑے شعار مذہب قرار دیا اور شیعان علی سے نفرت اور ان کی بات تک نہ سننا مذہب و صحابہ کی محبت کا تقاضا قرار دیا گیا اور بعد میں آنے والے فقہائے عزاداری کو بھی اس وجہ سے حرام کہ دیا کہ اس سے یزید اور اس کے باپ اور باقی اکابر صحابہ کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے اور یزید پر باوجود اس کو
برا کہنے اور سمجھنے کے لعنت کرنا ممنوع قرار دے دیا تاکہ یہ لعنت اوپر نہ چلی جائے جیسا کہ مودودی صاھب نے بعض علمائے اہل سنت کے امتناعی قول کی اجہ بیان کی ہے سنہ 183 سچ ہے (چور کی داڑھی ٓمیں تنکا۔) اور دونکہ حضرت ابو حنیفہ نے ہی مذہب جمہورکی داغ بیل ڈالی تھی اس لئے مذہب بھی ان ہی کی طرف منسوب ہوا اور وہ حنفی کہلانے لگے۔
پس یہ زمانہ جس طرح سیاسی انقلاب میں ایک بڑی اہمیت کا حامل تھا اسی طرح مذہبی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ بنی امیہ کو اپنے اقتدار کے بچانے کی فکر تھی اور بنو عباس کو اس کے حاصل کرنے کا طمع تھا اور جب انقلاب آچکا تو بنی عباس کو اس کے مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ پس اس زمانہ مین کتب تفسیر وحدیث وتاریخ کی تدوین بھی شروع ہوئی اور فقہی مسائل کی بشرواشاعت بھی دل کھول کر کی گئی اور لوگوں نے آزادانہ طور پر مذہبیات میں حصہ لیا۔
ابو العباس سفاح کے بعد منصور عباسی سنہ ھ 123 میں بنو العباس کے سلاطین اپنی طبائع پر زور دے کر فقہائے اسلام کے فیصلوں کو سہ لیتے تھے اگرچہ ان کے مزاج سے متصادم ہی ہوتے تھے کیونکہ ایک طرف انہوں نے بنی امیہ کا قلع قمع کرنا تھا اور ان کے معتقدین کو نیست و نابود کرنا ان کے لئے ضروری تھا اور دوسرے طرف ہر طرف سے سر اٹھابے والی بغاوتوں کو دبانا اقتدار کی بحالی و مضبوطی کے لئے ان کے فرائض میں سے تھا اس لئے علماء وفقہاکی کھری کھری باتوں کو وہ خندہ بیشانی سے یا طبیعت پر زور دے کر برداشت کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ان کے خلاف یہ ایک نیا فتنہ نہ کھڑا ہوجائے۔
حلیہء ابو نعیم میں ہے ایک مرتبہ ابو جعفر منصور دوانیقی کے منہ پر مکھی بعٹھی وہ اسے بار بار اٹھاتا تھا اور وہ بار بار واپس آجاتی تھی آخر کار تنگ آکر امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس نے پوچھا کہ خدا نے مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جبار لوگوں کے تکبر کو توڑنے کے لئے یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوا لیکن غصہ کو ضبط کرکے چپ ہوگیا۔ (تذکرۃ الخواص)
جب عباسیوں کے خلاف اٹھنے والی بغاوتیں فرہ ہوگئیں اور ان کا اقتدار پوری طرح قائم ہو گیا تو انہوں نے ظلم واستبداوہیں بنوامیہ سے بھی قدم بڑھا رکھا اور شیعانِ علی کو پھر انہوں نے ظلم کی زنجیروں میں جکڑنا شروع کیا اور سادات علویہ کی دشمنی ان کے دلوں میں گھر کر گئی انہی کے پر آشوب دور میں سادات نے رفتہ رفتہ مدینہ کو چھوڑ کر جنگلوں کی خاک چھاننا شروع کی اور دور دراز کے سفر طے کرکے ترکستان ایران اور ہندستان وغیرہ مملک میں منتشر ہوتے گئے حتیٰ کہ آج دنیا اسلام میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سادات آباد نہ ہوں۔
منصور دوانیقی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شیعانِ علی کی دینی قیادت کی سربراہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اور وہ ان سے کسی حد تک خوفزدہ بھی رہتا تھا کہ کہیں ان کا اجتماع بڑھتے بڑھتے خروج تک نوبت نہ پہنچ جائے اور کئی دفعہ اس نے آپ کو اپنے پاس بلاکر قتل کی دھمکیاں بھی دیں لیکن جرات نہ کرسکا۔ آخر کار مدینہ کے عامل کے ذریعے سے زہر دلواکر آپ کو شہید کرکے رہا۔ آپ کی تاریخ شہادت 15 شوال سنہ 148 ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں اپنے باپ دادا کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کے دوبرس بعد سنہ 150ھ میں ابو حنیفہ کی وفات ہوئی۔ (سنہ 245 خلافت وملوکیت)