شیعہ مسلک | shia maslak | khilafat o malookiat
اس ساری تفصیل کے بعد شیعہ مشلک کی توضیح کی حاجت باقی نہیں رہتی ۔چونکہ جناب رسالت مآب دنیاوی قائد اور دینی پیشروبھی تھے لہٰذا نبی صاحب شریعت اور سلطان وقت صاحبِ اقتدار بیک وقت تھے لہٰذا ان کے بعد ان کی جانشینی کا صحیح حقدار وہی ہے جو ان دونوں مرحلوں میں ان کی نیابت کے تمام فضائل ادا کرسکنے کا اہل ہو اور ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآہو نے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حضرت علی علیہ السلام نے اب قتیبہ دنیوری کی نقل کے مطابق دو ۲ مرحلوں میں اپنے احق ہونے کا دعویٰ کیا جیسا کہ سابق میں بیان ہوچکا ہے اور حکمران پارٹی کے وکیل ابو عبیدہ و جراح نے حضرت علی کی ردیدنہ کی بلکہ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ابوبکر کی تجربہ کاری کہن سالی اور بزرگی کا واسطہ دے کر حضرت علی سے دست برداری کی جس کو حضرت علی نے قبول نہ کیا اور اپنے مطالبہ پر ڈٹے رہے لیکن اقتدار ِ حکومت کے سامنے خاموش رہے۔ اور حضرت علی کی خاموشی بعینہ اسی طعح تھی جس طرح مودودی صاحب نے لکھا ہے ۔ دوسرا املوکیت کا طریقہ اگر جائز ہے تو قابل برداشت ہونے کی حیثیت سے ہے نہ کہ پسندیدہ اور مطلووب ہونے کی حیثیت سے ۰۶۱
مذہب شیعہ کی انفرادی حیثیت کی ابتداء اسی دن سے ہوئی جس دن سے حضرت علی نے اقتدار کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا اور ان کی حکومت کی شرعی حیثیت کو چلینج کیا تھا اور ہر حیثیت سے اپنے استحقاق پر ناقابل تردید دلائل پیش کئے تھے یہ الگ بات ہے کہ حکومت وقت دلائل کا جواب ن دے سکنے کے باوجود اپنی روش کو بدلنے کی جرأت نہ کی ۔مودودی صاحب فرماتے ہیں " حامیانِ علی کا گردہ ابتدا میں شیعان علی کہا جاتا تھا بعد میں اصطلاحاً انہیں صرف شیعہ کہا جانے لگا"۰۱۲ ۔
حضرت علی اور شیعان علی ابتداسے ہی حکومت وقت سے رواداری اور ملک وملت کی فلاحُ بقا کے لئے ان سے بھرپور تعاون ان کا شیوہ تھا اور کسی بھی ملک میں بسنے والے شیوہ ملک کے بقا واستحکاماور فلاح وار تقاء میں حکومت وقت کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے اعلیٰ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کبھی بخل نہیں کیا کرتے جس طرح کہ حضرت علی اور ان کی جماعت نے اپنے دور کے سلاطین وخلفاء ثلثہ کے ساتھ اس کی بلند مثال فرمائی ۔ جس سے بعض کم سمجھ لوگوں نے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ آپ نے خلفء کی بیعت کی تھی ۔ بے شک آپ نے ان کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک میں مثالی کردار ادا کیا جو آپ کے شایانِ شان تھا اور نہایت بلند نظری اور اعلیٰ حوصلگی سے ملک وملت کی فلاح وبہبود کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے زرین مشوروں سے بھی بخل نہ فرمایا اور مشکلات علمیہ اور معضلاتِ فقیہیہ میں آپ کا حلالِ مشکلات ہونا تو اظہر من الشمس ہے حتیٰ کہ شہنشاہ وقت (خلیفہ دوم حضرت عمر نے بھی اس کا اعتراف کیا چناچہ (لَولاَ عَلِیٌ لَھَلَکَ عُمَر) اگر علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا علامہ سبط بن جوزی نے امام حنبل سے نقل کیا اور کتب نحویہ میں نحویوں کو لَوْلاَ کے استعمال کے لئے اس کے علاوہ اور مثال ہی اچھی نہیں لگتی گویا یہ فقرہ ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیر کرچکا ہے بہرحال مقام علم میں قیادت اور مسائل دینیہ ومطالبِ فقیہیہ میں رہنمائی آپ ہی کا حصہ تھا اور اس بارے میں آپ مقامِ نبوت کے صحیح جانشین تھے اور مسلمانانِ عالم کے لئے اسلامیات میں مرکزی حیثیت آپ ہی کو حاصل رہی اور تمام صحابہ علمی خیرات حاصل کرنے میں ان کے دست ِ نگررہے۔
شیعانِ علی حکومت وقت کے ماتحت پُرامن شہریوں کی حیثیت سے خاموش زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک ہ وفات عثمان کے بعد حضرت علی کی ظاہری حکومت کا دور آیاتو آپ کو اگرچہ پُرامن خدمت دین و مذہب کا موقعہ نہ دیا گیا اور آپ کا پورا پنچسالہ دور جمل صفین و نہروان کی جنگوں کی نذر ہوگیا تاہم جب کبھی موقعہ ملا آپ نے سابق حکومتوں کی شرعی اورجمہوری حیثیت پر سخت تنقید کی لیکن باوجود اس کے اپنے دورِ اقتدار میں کبھی اپنی مذہبی انفرادیت کوبروزِحکومت منوانے کی کوشش نہ فرمائی ۔البتہ اولّہ وبراہین کے سایہ میں ملت کی ان خُصوصیات کو جزومذہب اصولاً یافردعًا ہیں بیان کرنے سے دریغ نہ فرمایا اورجو چیز یں سابق حکومتوں کے دور ِاقتدار میں غلط طور پر رائج ہوگئی تھیں ان کی بھی نشاندہی کی ۔ معاویہ کے حکم سے اموی منبروں پر اگر چہ بَرملا آپ پر سب وشتم کا دروازہ کھل چکا تھا لیکن آپ نے کبھی جوابی کاروائی کی طرف قدم نہ اٹھایا اور نہ اٹھانے دیا اور ایک دفعہ کسی کی بدکلامی سن ک بعض آپ کے ہمنشینوں کے جذبات میں جوش پیدا ہواتو اُن کے چہروں کی کیفیات کو بھانپ کر ان کی زبان کھلنے سے پہلے ارشاد فرمایا ۔ برتن سے وہی چیز نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے اُس کے اندر جو کچھ تھا وہ برآمد ہوا۔ اور تمہارے اندر جو کچھ ہے اُسے برآمد ہونا چاہیے وہ جاہل تھا اور اس کی زبان جہالت کی ترجمان تھی تم اگر عارف ہوتو تمہاری زبان علم عرفان کی ترجمان ہونی چاہیے کیونکہ وہ معاویہ کا مصاحب ہے اور تم علی کے شاگد ہو۔ (ومعہ ساکہہ) مروج الذہب ج۲ ۴۰۳۔
مذہب شیعہ کی انفرادی حیثیت کی ابتداء اسی دن سے ہوئی جس دن سے حضرت علی نے اقتدار کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا اور ان کی حکومت کی شرعی حیثیت کو چلینج کیا تھا اور ہر حیثیت سے اپنے استحقاق پر ناقابل تردید دلائل پیش کئے تھے یہ الگ بات ہے کہ حکومت وقت دلائل کا جواب ن دے سکنے کے باوجود اپنی روش کو بدلنے کی جرأت نہ کی ۔مودودی صاحب فرماتے ہیں " حامیانِ علی کا گردہ ابتدا میں شیعان علی کہا جاتا تھا بعد میں اصطلاحاً انہیں صرف شیعہ کہا جانے لگا"۰۱۲ ۔
حضرت علی اور شیعان علی ابتداسے ہی حکومت وقت سے رواداری اور ملک وملت کی فلاحُ بقا کے لئے ان سے بھرپور تعاون ان کا شیوہ تھا اور کسی بھی ملک میں بسنے والے شیوہ ملک کے بقا واستحکاماور فلاح وار تقاء میں حکومت وقت کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے اعلیٰ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کبھی بخل نہیں کیا کرتے جس طرح کہ حضرت علی اور ان کی جماعت نے اپنے دور کے سلاطین وخلفاء ثلثہ کے ساتھ اس کی بلند مثال فرمائی ۔ جس سے بعض کم سمجھ لوگوں نے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ آپ نے خلفء کی بیعت کی تھی ۔ بے شک آپ نے ان کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک میں مثالی کردار ادا کیا جو آپ کے شایانِ شان تھا اور نہایت بلند نظری اور اعلیٰ حوصلگی سے ملک وملت کی فلاح وبہبود کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے زرین مشوروں سے بھی بخل نہ فرمایا اور مشکلات علمیہ اور معضلاتِ فقیہیہ میں آپ کا حلالِ مشکلات ہونا تو اظہر من الشمس ہے حتیٰ کہ شہنشاہ وقت (خلیفہ دوم حضرت عمر نے بھی اس کا اعتراف کیا چناچہ (لَولاَ عَلِیٌ لَھَلَکَ عُمَر) اگر علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا علامہ سبط بن جوزی نے امام حنبل سے نقل کیا اور کتب نحویہ میں نحویوں کو لَوْلاَ کے استعمال کے لئے اس کے علاوہ اور مثال ہی اچھی نہیں لگتی گویا یہ فقرہ ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیر کرچکا ہے بہرحال مقام علم میں قیادت اور مسائل دینیہ ومطالبِ فقیہیہ میں رہنمائی آپ ہی کا حصہ تھا اور اس بارے میں آپ مقامِ نبوت کے صحیح جانشین تھے اور مسلمانانِ عالم کے لئے اسلامیات میں مرکزی حیثیت آپ ہی کو حاصل رہی اور تمام صحابہ علمی خیرات حاصل کرنے میں ان کے دست ِ نگررہے۔
شیعانِ علی حکومت وقت کے ماتحت پُرامن شہریوں کی حیثیت سے خاموش زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک ہ وفات عثمان کے بعد حضرت علی کی ظاہری حکومت کا دور آیاتو آپ کو اگرچہ پُرامن خدمت دین و مذہب کا موقعہ نہ دیا گیا اور آپ کا پورا پنچسالہ دور جمل صفین و نہروان کی جنگوں کی نذر ہوگیا تاہم جب کبھی موقعہ ملا آپ نے سابق حکومتوں کی شرعی اورجمہوری حیثیت پر سخت تنقید کی لیکن باوجود اس کے اپنے دورِ اقتدار میں کبھی اپنی مذہبی انفرادیت کوبروزِحکومت منوانے کی کوشش نہ فرمائی ۔البتہ اولّہ وبراہین کے سایہ میں ملت کی ان خُصوصیات کو جزومذہب اصولاً یافردعًا ہیں بیان کرنے سے دریغ نہ فرمایا اورجو چیز یں سابق حکومتوں کے دور ِاقتدار میں غلط طور پر رائج ہوگئی تھیں ان کی بھی نشاندہی کی ۔ معاویہ کے حکم سے اموی منبروں پر اگر چہ بَرملا آپ پر سب وشتم کا دروازہ کھل چکا تھا لیکن آپ نے کبھی جوابی کاروائی کی طرف قدم نہ اٹھایا اور نہ اٹھانے دیا اور ایک دفعہ کسی کی بدکلامی سن ک بعض آپ کے ہمنشینوں کے جذبات میں جوش پیدا ہواتو اُن کے چہروں کی کیفیات کو بھانپ کر ان کی زبان کھلنے سے پہلے ارشاد فرمایا ۔ برتن سے وہی چیز نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے اُس کے اندر جو کچھ تھا وہ برآمد ہوا۔ اور تمہارے اندر جو کچھ ہے اُسے برآمد ہونا چاہیے وہ جاہل تھا اور اس کی زبان جہالت کی ترجمان تھی تم اگر عارف ہوتو تمہاری زبان علم عرفان کی ترجمان ہونی چاہیے کیونکہ وہ معاویہ کا مصاحب ہے اور تم علی کے شاگد ہو۔ (ومعہ ساکہہ) مروج الذہب ج۲ ۴۰۳۔