التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مودودی صاحب کی محققانہ روش | mododi sahib ki muhaqqana rosh | khilafat o malookiat

مودودی صاحب کی محققانہ روش | mododi sahib ki muhaqqana rosh | khilafat o malookiat

مودودی صاحب کی محققانہ روش| mododi sahib ki muhaqqana rosh | khilafat o malookiat

مودودی صاحب کی محققانہ روش| mododi sahib ki muhaqqana rosh | khilafat o malookiat

مودودی صاحب جہاں ایک طرف بعض مقامات پہ بے لاگ تبصرہ کرنے کے بعد آوازانہ اپنی رائے بلاخوف لومتہ لائم پیش کرنے میں ذرا بھر جھجک محسوس نہیں کرتے وہاں دوسری طرف آبائی تقلید میں اندھا دھند مقامِ تحقیق سے بہت دور چلے جاتے ہیں اور پیچھے مڑکر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ میرے نظریات میں باہمی تصادم ہورہا ہے جس طرح حضرت عمر کا نظریہ اپنے عمل سے متصادم تھا۔

بعینہ مودودی صاحب بھی اسی قسم کے چکر میں پھنسے ہیں ان کی کورانہ آبائی تقلید کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر وعمر وعثمان کو صحیح خلیفہ رسول تسلیم کرلیا جائے اور ان کے چناؤ پر کوئی تنقید نہ کی جائے اور اسی بنا پر انہوں نے تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے تینوں خلیفوں کو صحیح اجماعی اور اسلامی جمہوری خلیفے تسلیم کرلیا حتیٰ کہ حضرت علی اور جناب فاطمہؑ کے اختلاف رائے کا تزکرہ تک نہ کیا حالانکہ کتُبِ صحیح میں واضح الفاظ سے اس کاذکر موجود ہے اور سعد بن عبادہ انصاریکے اختلاف کو قبائلی عصیبت کا نتیجہ قرار دے دیا ص 97ن لیکن اسلامی جمہوریہ کے دستور و اصول بیان کرتے ہوئے یہ خیال تک نہ رہا کہ ان سے آبائی تقلید سے حاصل شُدہ عقیدہ خلافت کے خوشنما محل کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائی گی چنانچہ آیہ استخلافہ کے ذیل میں ۳۵ پر فرماتے ہیں اس فقرے کی روسے اہل ایمان کی جماعت کا ہر فرد خلافت میں برابر کا حصہ دار ہے کسی شخص یا طبقہ کو عام مومنین کے اختیارات خلافت سلب کرکے انہیں اپنےاندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خداکی خصوصی خلافت کا دعویٰ کرسکتا ہے یہی چیز اسلامی خلافت کو ملوکیت ، طبقاتی حکومت اور مذہبی پیشواؤں کی حکومت سے الگ کرکے اسے جمہوریت کے رُخ پر موڑتی ہے "اس قاعدہ کی رُو سے اہل مدینہ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ عام مومنین کے اختیارات خلافت سلب کرکے زپنے اندر مرکوز کرلیں اور جسے چاہیں خلیفہ منتخب کرکے تمام مومنین کے لئے اس کو واجب الاطاعت حکمران مقرر کردیں اور نہ حضرت عمر کو حق پہنچتا ہے کہ اپنی تجویز سے حضرت ابوبکر کو آگے بڑھادیں اور اس کی بیعت کرکے لوگوں کو ایسا کرنے کی دعوت دی ۔ اور اس کے بعد قاعدہ مذکورہ کی روسے حضرت ابوبکر کو حق نہیں نپہنچتا کہ اپنے بعد کے لئے حضرت عمر کو نامزد کرکے تمام اُمت کے لئے اس کو واجب الاطاعت فرماندامقرر کردیں اسی طرح حضرت عمر کو قطعاً حق نہیں پہنچتا کہ تمام رُوئے زمین پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کے اختیاراتِ خلافت چھین کر صرف اہل مدینہ میں سے چھ آدمیوں کے حوالہ کےکے سب کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑدیں۔ آیت استخلاف سے استنباط کردہ قاعدہ کی روسے اور ان کو کسی طرح بھی شرعی جواز کی حیثیت نہیں دی جاسکتی اور نہ شرعی طورپر واجب الاطاعت دینی حکمران قرادئے جاسکتے ہیں خدا جانے مودودی صاحب کو یہ قاعدہ بہت جلد کیوں فراموش ہوگیا کہ۸۳ پر انتخابی خلافت کے ذیل میں لکھ دیا حضرت ابوبکر حضرت عمر نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام لوگوں نے ( جودرحقیقت اس وقت پورے ملک میں عملاً نمایندہ حیثیت رکھتے تھے ) کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضا ورغبت سے انہیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کی سچ ہے حب الشی یعمی ویُصم ۔ یعنی انسان کو کسی شے کی محبت اس کے عیوب دیکھنے سے اندھا اور نقائص سُننے سے بہرہ کردیا کرتی ہے۔

ص 55 پرتھیاکریسی (مذہبی پیشواؤں کی حکومت اور اسلامی ریاست کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں وہ اسلامی ریاست) حاکمیت کو خداکے لئے خالص کرنے کی حد تک تھیاکریسی کے بنیادی نظریہ سے متفق ہے مگر اس نظریہ پر عمل دآمد کرنے میں اُس کا راستہ تھیاکریسی سے ایگ ہوجاتا ہے مذہبی پیشواؤں کے کسی خاص طبقے کو خداکی خصوصی خلافت کا حامل ٹھرانے اور حل وعقد کے سارے اختیارات اس طبقے کے حوالے کردینے کے بجائے وہ حدود ریاست میں رہنے والے تمام اہل ایمان کو(جنہوں نے رب العالمین کے آگے سر تسلیم کرنے کا مشورے عہد کیا ہے) خدا کی خلافت کا حامل قرار دیتی ہے اور حل و عقد کے آخری اختیارات مجموعی طور پر ان کے حوالے کرتی ہے" ۔
ص 56 پر فرماتے ہیں۔ وہ (اسلامی ریاست ) ایک ایسی ریاست ہے جو رنگ ،نسل زبان یاجعفرافیہ کی عصبیتوں کے بجائے صرف اُصول کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے زمین کے ہر گوشے میں نسل انسان کے جو افراد بھی چاہیں ان اُصول کو قبول کرسکتے ہیں اور کسی امتیازو تعصب کے بغیر بالکل مساوی حقوق کے ساتھ اس نظام میں شامل ہوسکتے ہیں دنیا میں جہاں بھی ان اُصول پر کوئی حکومت قائم ہوگی وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی ۔الخ"

اب ان میں ہر دو نظریوں کو ملحوظ رکھتے ہُوئے حضرت ابو بکر و عمر و عثمان کے انتخاب پر بھی ذرا طائرا نہ نظر ڈالئے یقیناً مودودی صاحب کے یہ نظر آبائی تقلید کے تحت تسلیم کر وہ خلافت کے انتخاب کو اسلامی جُھموریت قطعاً نہیں بننے دیتے ایک طرف یہ کہہ دیا کہ " مذہبی پیشواؤں کے کسی خاص طبقے کو خدا کی خصوصی خلافت کا حامل ٹھرانے اور حل و عقد کے سارے اختیارات اس طبقے کے حوالے کردینے کے بجائے وہ (اسلامیریاست) حدود ریاست میں رہنے والے تمام اہل ایمان کو خدا کی خلافت کا حامل قراردیتی ہے اور حل و عقد کے آخری اختیارات مجموعی طور پر ان کے حوالے کرتی ہے " اُور دوسری طرف لاکھ فرزندان اسلام کے اختیارات خلافت سلب کرکے اور ان سے حل و عقد کے سارے اختیارات چھین کر اہل مدینہ کے حوالے کردئے ۔ ایک طرف یہ کہہ دیا کہ نسل انسانی کے سب افراد زمین کے ہر گوشے میں کسی امتیازو تعصب کے بغیر بالکل مساوی حقوق کے ساتھ اس نظام میں شامل ہوسکتے ہیں اَور دُوسری طرف یہ کہنے میں ذرہ بھر ہچکچاہٹ محسوس نہ کی کہ صرف اہل مدینہ کو حق حاصل ہے کہ کسی شخص کو ساری اُمت کی گردنوں پر سوار کردیں کیونکہ حل و عقد کے پورے اختیارات ان ہی میں محدود تھے۔ ایک طرف کہہ دیا خدا کی خصوصی خلافت کا کوئی فرد حامل نہیں ٹھرایا جاتا۔ اور دوسری طرف حضرت ابوبکر کا عمر کو نامزد کرکے خلیفہ مقرر کردینا اور اسے واجب الاطاعت سمجھنا بھی ذکر کردیا۔ یہ سب اندھی تقلید کے افسوسناک نتائج ہیں کہ عقل دلائل و براہین کے ذریعے سے جو نظریات متعین کرتی ہے کہ رانہ تقلید مقام عمل میں ان کو نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں