التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ملُوکیت ہی ملُوکیت | malokiat hi malokiat | khilafat o malookiat

ملُوکیت ہی ملُوکیت | malokiat hi malokiat | khilafat o malookiat

ملُوکیت ہی ملُوکیت | malokiat hi malokiat | khilafat o malookiat

ملُوکیت ہی ملُوکیت | malokiat hi malokiat | khilafat o malookiat
آبائی کو رانہ تقلید کی بدالت مذہب کا جو راستہ ملا ہے مودودی صاحب نے اُس کی تصحیح کے لئے جن جن تکلفات کا ارتکاب کیا ہے وہ ناقد بصیر پر واضع و عیان ہیں۔ اُنہوں نے کتب سیر و تاریخ کا مطالعہ کیا اور ہر کتاب سے مطلب کا فقرہ لیتے ہوئے اپنے زور قلم سے اُسے اپنے متعین راستے کی تائید و تصیح کے لئے خوب نمک مسالہ لگا کہ پیش کردیا اور بعض اوقات ا،سی کوشش کے نتیجہ میں انہیں متضاد نظریوں کو یا ایسے نظریوں کو جن کا لازمہ تجاد ہے اپنا نے میں کوئی باک نہ رہا۔ چناچہ آپ کتاب خلافت و ملوکیت کا نظر گائر سے مطالعہ فرمائیں گے تو جہاں ایک طرف ان کی جدت پسند و سیع النظری مطلب فہمی جودت طبعی وقت مزاجی اور سلاست بیانی کے ساتھ شانِ اجتمادی کی داد دینی ہوگی وہاں دوسری طرف ان کے ذہنی تشوش نطریاتی اویز ش مقلدانہ روش اور متضاد نگارش کو دیکھ کر آپ دریائے حیرت میں گوطہ لگائے بغیر نہ رہ سکیں گے جس کا مشنے نمونہ از کرواریا قطرہ از بحر ذخاروذرہ ازریگزار آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔

خلافت و ملاکیت کے ؃۹۴۲پر امام ابوحنیفہ کی رائی یہ لکھی ہے"پہلے بزور اقتدار پر قبضہ کرنا اور بعد میں دباؤ کے تحت بیعت لینا اُس کے انعقاد کی کوئی جائز صورت نہیں ہے۔ صحیح خلافت وہ ہے بعد جو اہل الرائے لوگوں کے اجتماع اور مشورے سے قائم ہو۔ ابن ابی ذنب کا قول یہ نقل کیا ہے۔ " حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہل تقویٰ کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے اور جو شخص خواس پر قبضہ کرے اس کے لئے کوئی تقویٰ نہیں ہے۔



؃۹۵۱پر دورِ ملوکیت کی حیری بیعت کا رونا روتے ہوئے فرماتے ہیں لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسر آتے رہے بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل ہونے لگی۔"

آبائی تقلید ی عقیدہ سے غض بصر کرتے ہُوئے بنظر انصاف خلیفہ اول حضرت ابوبکر کی انعقادخلافت کی تفصیلی تاریخی رپورٹ کا وقت ِ فکر اور معانِ نظر سے مطالعہ کریں کیا دَور ِ ملوکیت کی دھاندلی سے اس مین کچھ کمی تھی تاریکی مآکذ میں کانٹ چھانٹ اور کتر ہو نیت سے مطلب براری کرنے کے بجائے اَزادانہ غیر جانبداری سے فیصلہ کریں حضرت ابوبکر کی بیعت سقیفائی مجلس میں اہل رائے لوگوںکے اجتماع و مشورے سے قائم ہوئی تھی ؟ یا بقول ابن ابی ذئب اہل تقوےٰ کے اجتماع سے قائم ہوئی تھی ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بعد والی ملوکیت میں کیا فرق ہے یہ خلاف کیوں ہے اور وہ ملوکیت کیعں ؟ اور اگر جواب اثبات میں ہے تو سعد بن عباد ہ انصاری اور اس کی جماعت حضرت علی۔ حضرت زبیر۔ عبداللہ بن عباس ۔ مقدار اسوداور حضرت سلمان وغیرہ جیسے مقتدار اور معزز اصحاب پیغمبرؐ کو اہل رائے اور اہل تقویٰ کیوں نہ قرار دیا گیا؟ اور یہ اجتماع مسجد نبوی کے بجائے سقیفہ ساعدہ میں کیوں کیا گیا؟

؃۰۶۱پر فرماتے ہیں "بڑا ظلم کرے گا وہ شخص جو ان دونوں کو ایک درجے میں رکھ دے ۔ اور دعویٰ کرے کہ اسلام میں یہ دو نو طریقے یکسان جائز ہیں ایک محض جائز نہیں بلکہ عین مطلوب ہے اور دوسرا اگر جائز ہے تو قابل بعداشت ہونے کی حیثیت سے ہے نہ کہ پسندیدہ و مطلوب ہونے کی حیثیت سے۔

کیا حضرت ابوبکر کے اقتدار پر قبضہ کمالینے کے بعد حضرت علی و جملہ بنی ہاشم ( جو ان کے گھر میں جمع تھے) جلا دینے کی دھمکی دے کر بیعت پر مجبُور نہیں کیا گیا تھا ؟کیا حضرت علی کو بیعت نہ کرنے پر قتل کی دھمکی حضرت عمر نے نہیں دی تھی؟ (جیسا کہ سابقاً حوالہ دیا جا چکا ہے) پس بڑا ظالم ہے وہ شخص جو اس قسم کی حاصل شدہ خلافت اور ملاکیت میں فرق کرلے۔

خود حضرت عمر کا یہ کہنا کہ ابوبکر کی خلافت کے انعقاد کا جو طریقہ ہم نے ایجاد کیا تھا وہ آیندہ کے لئے ناجائز ہے جیسا کہ مودودی صاحب کے حوالہ سے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ بعد میں اِس طریق کار سے جو حکومت برسر اقتدار ہوگی اور اِسی طریق کار سے جو ہم نے حکومت بنائی ہے وہ خلافت ہے ۔ مودودی صاحب کا فرمان ہے کہ نصب خلافت کا صحیح طریقہ وہ ہے جو خلافت راشدہ کے انعقاد کے لئے اختیار کیا گیا اَور اس کے مقابلہ میں وہ طریقہ ہے جس کو معاویہ اور ااس کے بعد والے لوگوں نے اختیار کیا پہلے طریقے کی اسلام نے ہمیں ہدایت کی ہے جس کو داسرا طریقہ مجبُور اً صرف قابل برداشت ہے نہ کہ پسندیدہ ۔ اور ہم نے قاضع کردیا کہ پہلے طریقے اور دُوسرے طریقے میں دھاندلی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ پہلا طریقہ جو حضرت عمر نے اختیار کیا چونکہ بعد والوں نے اختیار کیا لہذا غلط ہے اسی فرق کی بنا پر پہلا موجب خلافت ہے۔ اور داسرا اساس ملاکیت پہلے طریقہ میں ھضرت عمر نے تحریک کی بغیر کسی مشورہ کے اچانک ۔پھر بیعت کرلی اور چند آدمیوں نے اس کی تائید کر دی پھر باقیوں کو اقتدار کے زور سے تابع کرلیا گیا اور یہی طریقہ معاویہ اور بعد والے لوگوں کا بھی رہا۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے اکابر صحابہ کے مشورہ کے بغیر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی تجویز کی اور باقیوں سے منوالی گئی پھر کسی سے مشورہ لئے بغیر حضرت عمر نے پوری اُمت کے اختیارات چھ آدیوں میں بند کردے اور خلیفہ کا انتخاب ہوگیا۔ اِسی طرح دوسرے طریقے کا رد عمل ہے ۔ قضیہ دومۃ الجذل مین تحکیم کے موقعہ پر عمر وعاص نے معاویہ کا نام تجویز کرلیا ۔ معاویہ کے طرفداروں نے لی گئی اور دُوسرے خلیفے کی طرح معاویہ نے قبل ازمرگ یزید کو نامزد کردیا اور ہوا خواہوں نے تائید کردی ۔ پھر باقی اُمت بزور شمشیر تابع کرلی گئی۔ اور یزید کے بعد اموی شورائی کمیٹی نے مروان کو منتخب کرلیا ۔ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان ہر دوسورتوں میں طریق کار ایک ہی ہے پس منصف مزاج آزادئی فکر ورائے رکھنے والے انسان پر مخفی نہیں رہتا کہ رسالت مآب کے بعد سے ہی ملوکیت کا دَور شروع ہوگیا تھا اَور آزادی ضمیر کو کچلنے والی حکومتوں کے لئے راستہ یہیں سے ہموار کر لیا گیا تھا جو رفتہ رفتہ تدریجاً صحبت پیغمبرؐ کے اثرات سے دُور ہوتے ہوتے افسوسناک حالات تک جا پہنچا ۔ شروع شروع میں چونکہ لوگوں کی اکثریت اخلاق نبوی اور کردارِ اسلامی سے مانوس تھی پس حکمرانوں نے بھی نظام ِ اسلامی اور کردار نبوی کو امکانی حدود تک رائج رکھا اَور خود بھی ظاہری طور پر اسی کے پابند رہے اور برسر اقتدار پارٹی کے ہوا خواہ پُورے زور شور سے ان حکومتوں کو خلافتوں کا نام دیتے رہے اور خلفاسے زد ہونے والی غلطیوں کو دامن تاویل مین چھپاتے رہے اور اختلاف کا نام اختلاف رائے رکھنے والے اکابرین کو ہدفِ تنقید بناتے رہے اور ان کے اختلاف کو سیاسی اختلاف کہہ کر حکومت کو اسلامی حکومت ے نام سے پکارتے رہے لیکن جُوں جُوں وقت گذرتا گیا اور صحبت نبوی کا زمانہ پُرانا ہوتا گیا اسلامی نقوش دلوں سے محو ہوتے گئے حکومتی مشینری کے پُرزے اقتدار کی ہوا اور دالت کی نمی سے زنگ آلوہوتے گئے حتی کہ کرسئی اقتدار سے ہونے والی غلطیوں کی تاویل حامیانِ اقتدار کے بس سے بھی باہر ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ،کہ حکومت کے بہی خواہ بھی حکومت کو خلاف کا نام دیتے ہُوئے شرمانے لگے پس مجبُوراً اس کو ملاکیت کا نام دے دیا حالانکہ ملاکیت کی ابتداء سقیفائی کمیٹی کے فیصلے سے ہی ہوگئی تھی ۔ حضرت علی علیہ السلام نے پہلے دن سے حاکمِ وقت کے لئے نہ خلیفہ رسول کا لقب جائز قرار دیا اور نہ امیر المومنین کہلانا جائز سمجھا جیسا کہ ابن قتیبہ دینوری کی کتاب الامۃوالسیاسۃ سے حوالہ دیا جا چکا ہے اَور حضرت علی علیہ السلام نے جب اپنے متعلق

اپنے ذاتی کمالات اور علم و فضل وفھم وجملہ اوصاف کی بنا پر استحقاق خلافت کا دعویٰ کیا تو حکمران پارٹی میں سے کسی نے آپ کے استحقاق کی تردید نہ کی اور نہ آپ کے دلائل کا کسی کے پاس جواب تھا بلکہ سرکاری وکیل حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اتنا ہی کہا کہ یہ لوگ سن رسیدہ بزرگوں میں آپ ان کے خلاف قدم نہ اٹھائیں اگر زندگی باقی رہی تو اوصاف ِ ذاتیہ و کمالات نفسیہ اور قرابت نبویہ کے پیش نظر آپ کا زیادہ حقدار ہونا مسلم ہے۔ ابو عبیدہ کے اس قول میں دبی زبان سے انتخاب کی غلطی اور حضرت علی کے دعویٰ کی صداقت کا اعتراف موجود ہے۔ اور بقول ابن قتیبہ حضرت عمر کا یہ کہنا کہ اگر آپ نے بیعت نہ کی تو سر قلم کردیا جائے گا حضرت علی کے استدلال کا اپنے پاس جواب نہ رکھنے کا کھلا اعتراف ہے۔

علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفیہ ( مطبع مجتبائی ؃۰۱۱) میں وجوب نصب امام کی تین دلیلیں بیان کی ہیں (1) حضور کافرمان ہےمَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَانِہ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃُکو شخص امام زمان کی معرفت کے بغیر مَرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے (۲) اُمت کا اجماع ہے ،کہ وفات پیغمبرکے بعد سب واجبات میں سے اہم نصب امام ہے چناچہ صحابہ نے دفن ِ پیغمبرؐ پر بھی نصب امام کو مقدم کیا (۳)بہت سے واجبات شرعیہ کی ادائیگی کا دارومدار چونکہ امام ہے اس کا نصب کرنا ضروری ہے اورمتن عقائدین میں ہے کہ مسلمانوں پر امام کا متعین کرنا واجب ہے تاکہ وہ ان میں احکام نافذ کرلے اور حدیں قائم کرے وغیرہ باالعلوم جنازہ رسوؐل کو پس پشت ڈال کر نصب خلیفہ کی جلدی کا عذر یہی بیان کیا جاتا ہے لیکن مودودی صاحب نے ؃۰۵۲ پر امام ابوحنیفہ کی جلدی کا عذع یہی بیان کیا جاتا ہے لیکن مودودی صاحب نے ؃۰۵۲ پر امام ابوحنیفہ کا قول نقل کیا ہے جب انہوں نے منصور خلیفہ عباسی کے انتخاب کو چیلنج کیا تھا۔

"آپ پر اہل فتویٰ لوگوں میں سے دو آدمیوں کا اجتماع بھی نہیں ہوا حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھئے ابوبکر صدیق ؓ چھ مہینے تک فیصلے کرنے سے رکے رہے جب تک کہ اہل عین کی بیعت نہ آگئی"

امام ابوحنیفہ کے اسا قوقل سے نصب امام میں جلدی کرنے کے اس بہانے کی قلعی بھی کھل گئی ۔ کہ خلافت ابوبکر کو قائم کرنے کی جلدی اس لئے کی گئی کہ نظام اُمت درہم برہم نہ ہو۔ ان کے مقدمات واحکام میں نفاذ کی تاخیر نہ ہو پس بقول امام ابوحنیفہ اگر ایسا ہوتا تو یمنیوں کی بیعت کی اطلاع پہنچنے تک حضرت ابوبکر پُورے چھ ماہ تک خلافت کے کاموں کو معطل کس لئے رکھناتھا؟ پس خلافت میں جلدی کی وجہ وہی ہے جو مودودی صاحب نے حضرت عمر کی زبانی بیان کی ہے کہ ہم ایسا نہ کرتے تو اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں چلاجاتا جس کو ہم نہ ردکرسکتے اور نہ قبول ۔ پس مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ہم نے یہ کام کردیا ہے لیکن اگر کوئی اور کرے گا تو ناجائز ہوگا اور بایں ہمہ یہ دعویٰ بھی ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے بنی آدم کے تمام افراد کو اظہار کا حق حاص؛ ہئ۔ العجب۔


ایک تبصرہ شائع کریں