التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انعقاد خلافت میں جلدبازی | ineqad khilafat main jald bazi | khilafat o malookiat

انعقاد خلافت میں جلدبازی | ineqad khilafat main jald bazi | khilafat o malookiat

انعقاد خلافت میں جلدبازی  | ineqad khilafat main jald bazi | khilafat o malookiat

انعقاد خلافت میں جلدبازی  | ineqad khilafat main jald bazi | khilafat o malookiat
وفات پیغمبرؐ سے قبل عامتہ الناس کوہونے والے الیکشن کی کوئی خبر نہ تھی اور نہ اس راز کوافشاء کیا گیا تھا ۔سرف چند آدمیوں کے ذہن میں یہ بات راسخ تھی جو وفات پیغمبر ؐ کی خبر کے نشر ہوتے ہی فعری طورو پر عملی جامہ پہن کر منظر عام پر آگئی ورنہ اگر یہ تحریک حیات پیغمبرؐ کے زمانہ میں چلائی جاتی تو اس افسوس ناک نتیجہ تک نہ پہنچتی جو بعد میں ظاہر ہوا۔اسقیفائی الیکشن بورڈ کے سوچے سمجھے منصوبے کے ماتحت جب حاظر ممبروں میں تحریک انعقاد خلافت پیش ہوئی تو انصار سے سعد بن عبادہ اُمید وار کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے استحقاق کے لئے دلائل بھی پیش کئے پس اگر رائے عام کو حکم بنایا جاتا اور صحیح الیکشن لڑا جاتا تو یقینا انصار جیت جاتے کیونکہ ووٹوں میں ان کا پلہ بھاری تھا۔

جن لوگوں نے سوچ سمجھ کر جنازہ رسول کی اہمیت کو نظر انداز کرکے یہ قدم اٹھایا تھا رائے عامہ سے انتخاب کا ہونا یقینا ان کے مفاد کے خلاف تھا پس انہوں نے انصاری اُمید وار مقابلہ سےدست بردار ہونے کا مشورہ دیا اور اپنی قرابت رسول کو پیش کرکے ان سے اپنا استحقاق منوانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہ مانے تو منظم پارٹی کے ایک رکن یعنی حضرت عمر نے ابو بکر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرلی اور پارٹی کے دوسرے اراکین نے بلا تاخیر یکے بعد دیگر سے بیعت کرکے مبارکباد مبارکباد کا غل مچادیا اور عوام کو دھکیل دکھیل کر بیعت کروالی گئی اور انصاری اُمید کو انتشار پسند کہہ کر اپنی من مانی کاروائی کے راستہ سے ہٹادیا گیااور اس جلدی کی۔

ایک بڑی وجہ یہ تھی قرابت رسول کے جس بہانہ سے انصار کو اپنے راستہ سے ہٹایا جارہا تھا انہیں معلوم تھا کہ اگر کچھ دیر ہوگئی تو ممکن ہے حضرت علی یا کوئی دوسرا ہاشمی فرد پہنچ کر ہمارے اس استحقاق کو ختم کرکے ہمارے سوچے سمجھے منصوبے کو خاک میں ملادے پس گلی کوچوں میں پھرنے والے بدوی لوگوں کو ادھر اُدھر سےلاکر بیعت سے لاکر بیعت کی کاروائی پختہ کرلیاگیا۔۔۔ اور پھر مسجد نبوی میں باقاعدہ اعلان کردیاگیااگر پہلےسےلوگوں کو تحریک ِ

ا ) بقیہ حاشیہ۔۔۔کی کتابوں میں منقول ہے اس کی رو سے حضرت مشابہ ھارون ٹھرے اور خلافتِ مذکورہ کے پرستاروں کی مثال گوسالہ پرستوں کی سی ہوگئی-حوالہ کتاب ہذا ص 123، ص 134 پر ملاحظہ ہو۔

انتخاب کا علم ہوتا تو انصاری اُمیدوار اپنی پوُری قوم کے ساتھ کچھ سوچ کر میدان میں قدم رکھتے تاکہ نتیجہ کی رسوائی سے بچ جائیں نیز مقام انتخاب سقیفہ بنی سا عدہ نہ ہوتا بلکہ یہ فیصلہ مسجدنبوی کی چاردیواری کے اندر ہوتا اور حضرت علی اور دیگر افراد بنی ہاشم اس میں باقاعدہ حصہ لیتے۔

مودودی صاحب کی دیدہ دلیری بلکہ واقعات وحقائق سے اعلانیہ رودگرانی ہے ۔جو اس نے لم کی جانشینی کے لئے ۔

"خلافت و ملوکیت" کے ۔۔۔پر انتخابی خلافت کے عنوان سے تحریر کیا ہے (نبی صلی اللہ علیہ وس رت ابو بکر حضرت عمر نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام لوگوں ن(جو در حقیقت اس وقت پورے ملک میں نمایندہ حیثیت رکھتے تھے ) کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر اپنی رضاورغبت سے انہیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔

کس قدر غلط بیانی ہے کہ مدینے کے تمام لوگوں نے بیعت کی حالانکہ جناب فاطمہ بنت رسول ؐ

( جس کو بقول بخاری حضور ؐ نے اپنا ٹکڑا بَضعَہُ مِنِی فرمایا) نے تازیست نہ بیعت کی اور نہ خلیفہ تسلیم کیا اور بقول ابن قتیبہ دنیوری تازلیست ہر نماز کے بعد ان پر نفرین کرتی رہی۔ اِسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے بیعت سے صاف انکار کردیا اور خلیفہ کہلا نے والے کو غاصب خلافت قراردیا اور خلیفہ رسول یا امیر المومنین کے خطابات بھی ان کے لئے ناجائز قرادیئے جیسا کہ الامامۃ والسیاستہ کے حوالہ چنانچہ مذکورہ ہوچکا۔

نیز یہ کہتا کہ مدینے کے لوگ عملاً تمام ملک میں نمایندہ حیثیت رکھتے تھے۔ دعویٰ بلا دلیل ہے امر خلافت کو اگر جمہوری نہج پر طے کرنا ہے تو مشرق و مغرب اور شمال جنوب کے گوشوں میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں اور ان میں معاملہ فہمی کی استعداد موجُود ہے ان تمام کو رائے زنی کا حق حاصل ہے۔ خواہ مکی ہوں یا مدنی بلکہ عربی ہوں یا عجمی البتہ اگر پیغمبر ؐ نے کہیں نص کی ہوکہ مدینوں کی رائے تمام عالم اسلام پر حاوی ہے تو تسلیم کرنے سے کوئی عذر نہیں لیکن پیغمبر نے ایسا کبھی نہیں فرمایا اور نہ اس فیصلہ کو عقل قبول کرتی ہے بلکہ خود مودودی حب ضابھی دوسرے مقام پر اس کو قبول نہین کرتے چناچہ کتاب ِ مذکورہ کو ۔۔۔۔سورہ نور کی آیۃ استخلاف سے استشہاد کرتے ہُوئے رقمطراز ہیں ( اس فقرہ کی رد سے اہل ایمان کی جماعت کا ہر فرد خلافت میں برابر کا حصہ دار ہے کسی شخص یا طبقہ کو عام مومنین کے اختیار خلافت سلب کرکے انہیں اپنے اندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے ) بنا ۔۔۔تمام افراد ملت سے اختیارِ خلافت چھین کہ صرف بعض اہل مدینے کے اندر مرکوز کرنا کسب جائز ہوسکتا ہے ۔( مودودی صاحب اپنے فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں ) ( اب یہ رہی بات کہ مدینہ والوں نے کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضا ورغبت سے انہیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کی) یہ فقرہ عامۃ الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے تاریخ کا منہ چڑانے کے متراوف ہے اگر رضا ورغبت سے اور بغیر کسی دباؤ کے بیعت کا انعقاد تھا تو حضرت علی کے گھر میں جمع ہونے والوں کو نذر آتش کرنے کی دھمکی کس لئے دی گئی اور حضرت علی کو بر سر عام قتل سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کیوں کی گئی ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ عامۃ الناس کو منظم الیکشنی کمیٹی کے ارکان نے بیعت کے لئے بُلایا تو وہ ہاؤ ہوسے متاثر ہوکر اور انجام سے بے نیاز ہوکر ہاتھ پر ہاتھ رکھتے گئے اور ہمیشہ ایسے لوگوں کی کثرت ہواکرتی ہے جنہیں اپنی رائے کی قدر قیمت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ البتہ معاملہ فہم اور خواص کا طبقہ پہلے دن سے اس انتخاب کے مخالف تھا اور آخر تک رہا اور بے سوچے سمجھے جلد بازی سے کام لیتے ہُوتے جنہوں نے بیعت کرلی ان میں سے بھی سنجیدہ طبقہ اس دھاندلی کی حقیقت کھلنے کے بعد اپنے کئے پر نادم ہوا چناچہ حضرت علی کا احتجاج اور دلائل سننے کے بعد بشیر بن سعد انصاری کا نظریہ مذکورہ ہوچکاہے۔

۔34اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی نے بروقت خلافت کے لئے اپنا نام پیش کیوں نہ کیا اس کا جواب ۔۔۔تو یہ ہے کہ انتخاب کی کاروائی ایک منظم سازش کے ماتحت اچانک طور پر عمل میں لائی گئی اور کاروائی مکمل ہونے کے بعد مسجد نبوی میں اس کا اعلان کیا گیا اور ثانیا یہ کہ یہی سوال انصار کی طرف سے حضرت علی کے احتجاج کے فوراً بعد بھی کیا گیا جس کا جواب حضرت علی نے خود سے دیا تھا چناچہ الامامۃ والسیاسۃ مطبوعہ مصر ۔۔۔پر ابن قتیبہ دینوری رقمطراز ہے۔

رات کے وقت حضرت علی جناب فاطمہ کو سواری ہر سوار کرکے انصاری کی مجالس میں نصرت طلبی کے لئے جاتے تھے تو وہ لوگ یہی جواب دیا کرتے تھے۔ اے بنت رسولؐ اب تو ہم اس شخص کی بیعت کرچکے ہیں اگر تیرا شوہر اور ابن عم پہلے آواز بلند کرتا تو ہم یقیناً اس سے عدول نہ کرتے تو حضرت علی ان کا سوال سُن کر یہ جواب دیتے تھے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میت کو دفن کئے بغیر اپنے گھر میں چھوڑ کر نکل پڑتا ۔ اور لوگوں سے حکومت و سلطنت کے لئے جھگڑتا ؟ اور جناب فاطمہ ان کی تائید میں یہی فرماتی تھیں کہ ابوالحسن نے جو کچھ کیا ہے انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا البتہ جو کچھ ان لوگوں نے کیا ہے اللہ اُن سے حساب لے گا۔

اس سوال و جواب سے اس حقیقت کی قلعی بھی کھل گئی کہ حضرت علی اور جناب فاطمہ کے نزدیک خلافت کا انعقاد غلط تھا اِسی لئے تو انصار سے تعاون کی اپیل کی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ انصار نے بھی اندھا دھند بیعت کرلی تھی اور معاملہ فھمی کے بعد وہ اپنے کئے پر نالان تھے جیسا کہ ان کے جواب سے صاف ظاہر ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح واضع ہوچکی ہے کہ حضرت علی ؑ نے دعویٰ خلافت کے ثبوت کے لئے صرف قرابتداری کو ہی پیش نہیں کیا تھا بلکہ وہ ان کا اقناعی و الزامی جواب تھا کہ تم نے جس دلیل کی بنا پر انصار کو پیچھے ہٹایا ہے کہ ہم رسول کے قرابتداری ہیں میں اسی دلیل کو تم پر پیش کرتا ہوں کہ تمہاری بہ نسبت ہم رسول کے زیادہ قرابتداری ہیں لہذا خلافت ہمارا حق ہے بلکہ آپ نے ہر لحاظ سے اپنا ہونا ثابت کیا جیسا کہ گذر چکا ہے۔

سیاست ملکیہ کا مسلم قانون اور ہر دَور کا رائج الوقت اٹل اور ناقابل انکار دستُور ہے کہ کرسئی اقتدار جس طریقہ سے حاصل ہوجائے اُسے صحیح اقتدار مانا جاتا ہے اور تمام بر سِر اقتدار افراد اُسے صحیح حکومت تسلیم کرلیا کرتے ہیں اور کرسئی اقتدار کے ہوا خواہ ہر ممکن طریقہ سے اُسے جائز اور آئینی ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتے ہیں دھونس دھاندلی اَور ناجائز ذرائع کا استعمال اس وقت تک قابل ِ اعتراف ہوتا ہے جب اس کا تعلق کسی دوسرے سے ہو نہ کامیابی حاصل کرنے والا اُمید وار خواہ کسی طریق کا ر سے کامیاب ہو ا ہو وہ کبھی اپنے طریق انتخاب کو غلط نہیں کہتا ۔ اور نہ اس کی مخصوص پارٹی اس کو غیر آئینی اقتدار دیتی ہے۔

سقیفائی انتخابی فیصلہ کے بعد سرکاری ہی وکیل ابو عبیدہ بن جراح نے جب حضرت علی کا الزامی جوب سُنا تو اس نے پنیتر اہد لا اور دلیل کا رُخ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا کہ آپ نوجوان ہیں اور یہ بوڑھے تجربہ کا ر ہیں فی الحال آپ خاموش ہوجائیں اور اگر موت نے مہلت دی اور وقت نے ساتھ دیا تو فضل ، دین، علم، فھم سبقت اسلامی ،رشتہ داری اور دامادئی رسول کے شرف کی بنا پر آپ ہی خلافت کے حقدار و سزا دار ہیں ۔ اب اس بیان سے صاف واضع ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح بلکہ پُورے ایوان اقتدار پر یہ بات روز روشن کی طرح عیان تھی کہ رشتہ داری معیار خلافت نہیں اور نہ بڑھاپا موجبِ ترجیح ہے بلکہ خلیفہ رسول کو ذاتی اور صاف و کمالات کی بنا پر منصبِ خلافت کے لئے اہل و موزوں ہونا چاہیئے اور وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ابو بکر بلکہ جملہ صحابہ اس بارے میں حضرت علی کا مقابلہ نہیں کر سکتے پس حضرت ابو بکر کی خلافت کے جواد کیلئے اور حضرت علی کو خاموش کرنے کے لئے یہی عذر باد پیش کردیا کہ وہ بزرگ تجربہ کار ہیں بس ان کو اب رہنے دیجئے ور نہ در حقیقت دینی لحاظاور اوصاف و کمالات ذاتیہ کے اعتبار سے آپ ہی موزوں ترہیں۔ گویا دبے لفظوں میں اپنی دھاندلی کا اعتراف کرتے ہُوئے اس پر سن رسیدگی کے عذربار وکا غلاف ڈال کر اپنے غلط اقدام کو چھپانا چاہا تا کہ عوام الناس پر اس انتخاب کے ناجائز ہونے کی حقیقت نہ کھل سکے اور یہ بھی واضع کردیا کہ ان کا اقتدار دنیاوی سلطنت تک محدود ہے کیونکہ ان کی سوجھ بوجھ کا تعلق سیاستِ ملکیہ سے ہے نہ کہ دینی معاملات سے ،پس دینی لحاظ سے تو آپ کا ہم پلہ کوئی نہیں اور وہ اقتدار آپ کے لئے ہی مخصوص ہے البتہ وقت نے مہلت دی تو دنیا وی سلطنت میں بھی آپ کا نمبر آہی جائے گا۔ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی جوابی تقریر میں مہاجرین کے سامنے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ رشتہ داری کے لحاظ سے بھی ہم باقی تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم اہل بیت ہیں اور خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے بھی موزوں تر ہیں کیونکہ قارئقرآن دین اللہ کے فقیہ سنتِ رسول کے عالم ہم ہی ہیں نیز اُمور رعایا میں معاملہ فھم ان کی مشکلات میں ان کے ہمدرد اور تقسیم حقوق میں مساوات کے علمبدار بھی ہم ہیں۔ تم لوگ خواہشات کے پیچھے نہ پڑو ور نہ گمراہ ہوگے اور راہ حق سے دُور ہوتے چلے جاؤ گے۔

اس بیان میں آپ نے اپنا استحقاقخلاف اوصاف و کمالات ذاتیہ کے لحاظ سے بیان کیا جس کا رویا انکار کرنے کی جرأت حکومتی جماعت میں نہ تھی آپ نے اُمور شرعیہ اور معاملات سیاسیہ دونوں میں اپنا ماہر ترین اُمت ہونے کا دعویٰ کیا جس پر کسی لب کشائی کی جرأت نہ کی اور آخر میں آپ نے سقیفائی انتخاب کو ناجائز قراردیتے ہُوئے صاف طور پر فرمایا کہ اس انتخاب کے طریقہ کار کی داعی صرف خواہش نفسانی ہے لہذا بطور نصیحت فرمایا کہ خواہش نفس کے پیچھے نہ جاؤ ور نہ گمراہ ہوگے۔ اور راہِ حق سے دُور ہوتے جاؤ گے اور حاضر مین میں سے آپ کے اس فقرہ کی تردید بھی کسی نے نہ کی۔

بنا بریں مودودی صاحب کا حضرت علی متعلق یہ نظر یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے "کہ وہ اپنے آپ کو خلافت کے لئے احق سمجھتے تھے لیکن کسی قابل اعتبار تاریخی روایت سے ان کے متعلق یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ انہوں نے خلافت حاصل کرنے کے لئے کبھی کسی درجہ میں کوئی ادنیٰ سی کوشش بھی کی 1؎" البتہ حکومتِ عثمان کے دُور میں کنبہ پروری اور اقربانوازی کی بدولت جب ہر طرف سے بغاوت کا دھواں بلند ہونے لگا اور قلادہ حکومت کانٹوں کا ہار بن گیا تو وفاتِ کے بعد حضرت علی نے اقتدار ِ حکومت کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا تھا بالآخر لوگوں کے پرزور اصرار سے بدلِ ناخواستہ سے قبول کرلیا۔

1؎خلافت ملاکیت ؃۸۵۱

مودادی صاحب نے حضرت سعد بن عبادہ انصاری کے اختلاف رائے کو قبائلی عصبیت پر محمول کرنے کی جرأت کرکے آزاد محقق ہونے کے دعوے کے باوجود کرسئی اقتدار کی جانبداری اور تقلید کا تقاضا پورا کیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اختلاف رائے کو ظاہر کرنا تو آبائی تقلید کے منافی سمجھتے ہوئے مناسب ہی نہ سمجھا اسی طرح ان اشخاص کے اختلاف رائے کو بھی ہضم کرگئے جنہوں نے حضرت عمر کی جلانے کی دھمکی سے متاثر ہوکر رسمی بیعت کرلی اور یہ سب اس لئے تا کہ کرسئی اقتدار پر قابو ہونے والی جماعت کو حق بجانب کہنے میں آسانی ہوا ور ہم پہلے سے کہہ چکے ہیں کہ اقتدار جس طریقہ سے بھی حاصل ہوجائے برسر اقتدار پارٹی اسے حق جانب اور جائز و مبنی برانصاف ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتی ہے اور خاشامدی لوگوں کی کسی دُور میں کمی نہیں ہوتی ۔ وہ حزبِ اختلاف کی ہر تنقید کو غلط رنگ میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں جس طرح سعد بن عباد ہ انصاری کے اختلاف کو مودودی صاحب نے قبائلی عصیبت سے تعمیر کیا اَور ہر دَور میں تاریخ نویس لوگ حکمران طبقہ کی خوشامد کے لئے حزبِ اختلاف اختلاف کی سربر آور وہ شخصیتوں کو بھی نظر انداز کردیا کرتے ہیں تا کہ یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ وہ ہر طبقہ قوم اور ہر فرد ملت کے ہر دلعزیز حکمران تھے اور ساری رعایا کے لئے وہ مقبول قائد تھے۔ چناچہ اسی نظریہ کے ماتحت مودودی صاحب بلکہ اس گروہ کے اکثر و بشیتر مصنفین نے حضرت علی کے اختلاف رائے کو ذکر تک نہیں کیا حالانکہ الامامۃ والسیاسۃ کی پیش کردہ روایت بہانگ دھل حضرت علی و فاطمہ کے بیعت نہ کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔

مودودی صاحب انتخابی خلافت کے زیر عنوان حضرت عمر کی خلافت کے انعقاد کے متعلق یوں رقمطراز ہیں ۔۸۴؎

حضرت ابوبکر نے اپنی وفات کے وقت حضرت عمر کے حق میں وصیت لکھوائی اور پھر مسجد نبوی میں لوگوں کو جمع کرکے اس کی نامزدگی کا اعلان کردیا پس لوگوں نے اسے قبول کیا۔

(بحوالہ طبری تاریخ الامم والملوک)

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے جب ابوبکر کے انتخاب کو چیلینج کیا تھا اور عمر نے آپ سے ابوبکر کی بیعت کا تقاضا کیا تھا بقول ابن قتیبہ دینوری آپ نے فرمایا تھا( کی خلافت کی اونٹنی کا دودھ اچھی طرح نکال لو کیونکہ اس میں تیرا حصہ ہے آج اس کی حکومت کو پختہ کرلو کیونکہ کل اِس کو وہ تیری طرف پلٹائے گا) پس آپ کا فرمان من و عن صحیح ثابت ہوا اور خلافت کی کھٹچری گھر ہی گھر میں پکالی گئی اس نے اُس کا نام تجویز کیا تھا اُس کو نامزد کردیا ۔ اور لطف یہ کہ انعقاد ِ خلافت کے اس

طریق کارکو اپنے لئے جائز قراردے کر باقی تمام اُمت کے لوگوں کے لئے ناجائز قرار دے دیا اور ہم نے ابھی ذکر کیا ہے کہ سیاست ِ ملکیہ کا ہر دَور میں یہی دستور چلا آیا ہے کہ جس دھاندلی کو دوسروں کے لئے ناجائز سمجھا جاتا ہے اپنے حق میں اُسے جائز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامی مساوات کا تقاضا یہ ہے کہ ایک طریقِ کار اگر بعض کے لئے درست اور مبنی برانصاف ہے تو اس کے لئے درست قرار دینا چاہئے ۔ مودودی صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں۔۸۴؎

"حضرت عمر کی زندگی کے آخری سال حج کے موقعہ پر ایک شخص نے کہا کہ " اگر عمر کا اتقال ہوا تو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا کیونکہ ابوبکر کی بیعت بھی اچانک ہی ہوئی تھی اور آخر وہ کامیاب ہوگئی ۔" اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ حضرت عمر نے سقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس میں اچانک اُٹھ کر حضرت ابوبکر کا نام تجویز کیا تھا اور ہاتھ بڑھا کر فوراً ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی ان کو خلیفہ بنانے کے معاملے میں پہلے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔"

(اس اچانک تجویز کا پس منظر مختصر طور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں )

حضرت عمر کو اس ( شخصکے قول ) کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہا میں اس معاملہ پر ایک تقریر کروں گا اور "عوام کو اُن لوگوں سے خبردار کروں گا جو اُن کے معاملات پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ارادے کررہے ہیں"چناچہ مدینے پہنچ کر انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں اس قصے کا ذکر کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی سرگزشت بیان کرکے یہ بتایا کہ اس وقت مخصوص حالات تھے جن میں اچانک ابوبکر کا نام تجویز کرکے میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا اگر میں ایسا نہ کرتا اور خلافت کا تصفیہ کئے بغیر ہم لوگ مجلس سے اٹھ جاتے تو اندیشہ تھا کہ راتوں رات لوگ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لئے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہو اور بدلنا بھی مشکل یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو اسے آئیندہ کے لئے نظیر نہیں بنایا جاسکتا ۔ تم میں ابوبکر جیسی بلند و بالا اور مقبول شخصیت کا اور آدمی کون ہے؟ اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی دونواپنے آپ کو قتل کے لئے پیش کریں گے۔

تاریخ کے صفحات پر وہ مخصوص حالات طشت ازبام کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں ایسی کوئی پیچیدگی نہیں کہ مودودی صاحب جیسا محقق اس کی تہ تک نہ پہنچ سکے۔ واقعات کا نظر غار ُسے جائزہ لے کر ایک عام انسان بھی حقیقت کے چہرہ سے نقاب الٹ سکتا یے۔ پیغمبرؐ کی خبر وفات سن کر منظم سازشی جماعت جب سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچی اور تحریک خلافت کی قرارداد پیش ہُوئی تو سعد بن عبادہانصاری نے انصار کا استحقاق جتلاتے ہوئے انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا انہوں نے جب دیکھا کہ عام انتخابات کے ذریعے ہماری کامیابی کاکوئی امکان نہیں ہے اور سعد بن عبادہ بھی دست بردار ہونے پر کسی طرح راضی نہیں اور تاریخ اسلام میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا لہٰذا لوگ اس امر سے غافل تھے کہ ایسے حالات میں کن کن ہتھکنڈوں سے کامیابی کی جاسکتی ہے اور کون کون سے ذرائع ایسے مواقعقع پر بروئے کار لائے جاسکتے ہیں پس اس معاملہ میں تاخیر ہونے سے ایک طرف انصاری اُمیدوارِ خلافت کا مقابلہ مشکل تر ہوجانے کا خطرہ تھا اور دوسری طرف بنی ہاشم کے پہنچ جانے سے قرابتِ رسول کا بہانہ خودبخود بے کار ہوجاتا اور عام الیکشن میں کامیابی قطعاً ناممکن ہوجاتی پس عوام کی ناتجربہ کاری اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیا حربہ نکالا وہ یہ کہ رائے شماری اور جمہوری انتخاب کے طریقہ کو بالائے طاق رکھ کر اچانک حضرت ابوبکر کا نام پیش کردیا اور سب سے پہلے خود کھڑے ہوکر اس کی بیعت کرلی اس کے بعد پارٹی کے جملہ ارکان یکے بعد دیگر بیعت کرتے چلے گئے ۔ پس عوام الناس اور غیر جانبدار لوگوں نے بھی انجام سے بے نیاز ہوکر دیکھا دیکھی بیعت کرلی اس معاملہ میں کسی صاحب رائے کو سوچنے کا موقع نہ دیا گیا کہ کون حقدار ہے اور کون نہیں ۔ پس بیعت بیعت کا شور بلند کوگیا اور مسجد نبوی میں جا کہ اعلان کردیا گیا۔ پھر بچے کچھے لوگوں کو اکادکالالا کر بیعت کو قانون حیثیت دے دی گئی اور اب بھی جو لوگ انکار پر ڈٹ گئے جنہوں نے تنقید پر لب کشائی کی انہیں دھونس دوھاندلی سے شریک بیعت کرلیا گیا جس طرح ہمارے ملک پاکستان میں سابق صدر ایوب نے مارشل لا لگاکر بنیادی جمہورویتوں کی داغ بیل ڈال دی اور پھر تمام ممبروں سے اپنے حق میں ووٹ لے لئے ۔اقتدار کے ذریعے نہ کسی کو مزید سوچنے کا موقعہ دیا اورنہ مقابل اُمیداربننے کی کسی کو اجازت دی پس متفقہ طور پر اس کا انتخاب ہوگیا اوعع وہ بلامقابلہ کامیاب صدر بن گیا۔

یہ تھے وہ مخصوص حالات جن کی بنا پر حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کا نام فوری طور پر تجویز کرکے بیعتت میں جلدی سے کام لیا اور اگلے لفظوں میں اسی خطرہ کا اظہار بھی موجود ہے کہ اگر میں ایسا نہ کرتا اور خلافت کے تصفیہ کئے بغیر ہم لوگ مجلس سے اُٹھ جاتے تو اندیشہ تھاکہ راتوں رات لوگ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لئے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہوا اور بدلنا بھی مشکل سیاست ملکہ کا قدیمی دستور ہے کہ کرسی اقتدار پر قابض ہونے والا ہمیشہ اپنی اہلیت کا اععلان کیا کرتا ہے اور مقابل کے ناکام اُمیدواروں کو اس کو اسا کے لئے اَن فِٹ قراردیا کرتا ہے اور یہی فقرہ دہراتا ہے۔ کہ ہم لوگ اقتدار پر قاابض نہ ہوتے تو کوئی دوسرا نااہل اور غلط کار اس پر قابض ہوجاتا پس ہم نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملک قملت کے ناموس کو بچالیا ہے۔ حضرت عمر کے الفاظ بعینہ اسی سیاسی چال کی ترجمانی کررہے ہیں کہ ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو راتوں رات کوئی غلط فیصلہ ہوجاتا یعنی یاتو سعدبن عباد اپنی جمبعیت بڑھا کر اقتدار سنبھال لیتا اور یا حضرت علی اپنی صفات ذاتیہ وکمالاتِ نفسیہ اور وصیت نبویہ کی بناپر اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتے ۔ اس کے علاوہ اور کوی تیسری شق نہ تھی اور چونکہ اقتدار کے یہ دونور استے حضرت عمر کے لئے مفید نہ تھے اس لئے ان کو غلط فیصلہ قراردے دیا جس طرح سعد بن عبادہ اور حضرت علی کی نظروں میں ان کا فیصلہ غلط اور ناجائز تھا اور حضرت عمر کے لئے انصاریا بنی ہاشم کی خلافت پر راضی ہونا بھی مشکل تھا اور اس کا بدلنا بھی مشکل جس طرح کہ انصار اور بنی ہاشم کے لئے موجود صورت میں حضرت ابوبکر کے انتخاب پر راضی ہونا بھی مشکل ہوگیا اور بدلنا بھی مشکل۔ حضرت عمر کا یہ کہنا کہ" یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو اسے آیندہ کے لئے نظیر نہیں بنایا جاسکتا"غور طلب بلکہ انصاف طلب ہے کیونکہ اگر اس فعل کی کامیابی کو شرعی حیثیت حاصل ہے تو اسے آیندہ کے لئے بھی نظریہ بناکر اُسے شرعی حیثیت دی جاسکتی ہے اور اگر اس فعل کی کامیابی کو شرعی حیثیت حاصل نہیں بلکہ صرف دھاندلی ہے تو بے شک اُسے آیندہ کے لئے نظیر خلافت کہا جاسکتا ہے؟

اس کے بعد حضرت ابوبکر کی شخصیت کی مقبولیت کا اعلان اِس لئے بجاہے کہ برسر اقتدار پارٹی کا یہی قدیمی دستور ہے اور اسی طریقہ سے اپنی کامیابی کو جواز کی حیثیت دی جایا کرتی ہے کہ جس کو ہم نے چُنا ہے اسا جیسا کوئی اور انسان نظرہی نہیں آتا۔

حضرت عمر نے انتخاب کے اس طریقے کارا کو بعد میں اپنا نے والوں پر فتوائے قتل بھی صادر فرمایا۔ اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس ہاتھ پر بیعت کی جائے گی۔ دونوں اپنے آپ کو قتل کے لئے پیش کریں گے اور مودودی صاحب نے مسند احمد سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں "جس شخص نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت کی اس کی کوئی بیعت نہیں اور نہ اس شخص کی کوئی بیعت ہے جس سے اس نے بیعت کی اور فتح الباری سے ان کا یہ قوقل بھی نقل کیا ہے کہ جس شخص کے بغیر امارت دی جائے اسا کے لئے اس کا قبول کرنا حلال نہیں ہے۔؃۵۸

مصنف مزاج لوگ اگر حضرت عمر کے ان فرامین میں غور کریں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کا ذاتی فعل ان کے قول کا دشمن ہے اس ان کے ذاتی فعل کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے کیونکہ ان کے نظریہ میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت درست نہیں پس نہ اس قسم کی بیعت بیعتع ہے اور نہ اس قسم کا امیر امیر ہے۔ بس ان کے اپنے فتوے کی روسے چونکہ انہوں نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اچانک حضرت ابوبکر کی بیعت کی تھی لہٰذا نہ ان کی بیعت بیعتعت رہی اور نہ ان کی بیعت سے بننے والا خلیفہ شرعی خلیفہ رہا اور اگر مخصوص حالات کا غداران کے ذاتی فعل کو صحیح قراردے سکتا ہے تو ان کے بعد اسی طریقہ کار سے منتخب ہونے والا ہر حکمران ان جیسے مخصوص حالات کا بہانہ پیش کرسکتا ہے مودودی صاحب نے اپنی تحقیق کے پیش نظر حضرت عثمان کی غلط پالیسی پر جرأت مندانہ تنقید کرتے ہوئے جس طرح ؃۶۱۱ پر صاف لکھ دیا ہے کہ غلط کام بہرحال غلط ہے خواہ وہ کسی نے کیا ہو کاش وہ انعقاد خلافت کی غلط روش پر پردہ نہ ڈالتے بلکہ جرأت سے کہہ دیتے حضرت ابوبکر کا طریق انتخاب غلط اور غیرمشروط تھا اور تاقیامت اس قسم کا انتخاب ہر ایک کے لئے ناجائز اور غلط ہے پس اس قسم کی بیعت بھی غلط ہے اور اس قسم کا امیر بھی غلط کارہے (اور غلط کام ہر حال غلط ہے خواہ وہ کسی نے کیا ہو)۔

ایک تبصرہ شائع کریں