اللہ کا رسول | allah ka rasool | | khilafat o malookiat
ہمارے نزدیک رسول اللہ کی حیثیت صرف مذہبیات میں راہنمائی تک محدود نہیں بلکہ وہ انسانیت کے مصلح اعظم تھے وہ اصلاح نفس ۔تدبیر منزل اور سیاست ِ مدینہ کے جملہ شعبوں میں انسان کے لئے رہبر کامل تھے وہ جہاں اخلاق و کردار میں انسان کو حیوانیت کی سطح سے اٹھا کر اوجِ رفعت کے بلند ترین کنگروں پر لے جانے کا پروگرام لے کر آئے تھے۔ وہاں اصلاح وفلاح معاشرے تمدنی اُصول اور سیاسی تنظیم کے ذریعے سے انسانوں کیلئے پُرامن و سکون زندگی بسر کرنے کی دعوت بھی لے کر آئے تھے وہ جس طرح مسلمانوں کے اندورنی معاملات میں قاعدہ پیشواتھے اِسی طرح خارجی وسیاسی اُمور میں بھی وہ بادی ومرشد تھے پس دینی و دنیاوی ہر دو اقتدار کی مسند کے مالک تھے اور ان کا فیصلہ ہر حیثیت سے واجب الادُعان اور واجب الاتباع تھا۔ لہذا ان کے بعد مملکت اسلامیہ کا سربراہ وہی ہوسکتا ہے جو ہر دو لحاظ سے موزونیت تامہ رکھتا ہو۔ پس جہاں وہ سلطنت ملکیہ اور سیاست مدینہ پر کنٹرول کرنے کا اہل ہو۔ وہاں اپنے نفس کے جذبات و خواہشات پر بھی پوری طرح قابو پاسکتا ہو تا کہ اس کا کوئی فیصلہ اور کوئی اقدام جذبات ذاتیہ کا ترجمان نہ ہو اور اس کا ہر سانس ملک و ملت کی فلاح و بہبود کا غمازو عکاس ہو۔ نیز وہ قرآنی عُلوم کا ماہر ترین فرد ہوتاکہ مسند اقتدار کے ساتھ ساتھ وہ مسند علم کا بھی مالک ہو اور جس طرح رسول کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پوری امت سے اعلم وافضل و اکمل ہو۔ اِسی طرح اس کے بعد اُمت کے سربراہ میں ان اوصاف کا ہونا ضروری ہے تا کہ رعایات صرف اس کے اقتدار کے خوف سے سمہی ہوئی نہ ہو بلکہ اس کے علمی و عملی تفوق کے پیش نظر بدل و جان اس کی قدر وان بھی ہو۔ اور وہ اس کو اپنا دینی و اسلامی ہاوی بھی سمجھتی ہو۔ پس اس کی اطاعت خدا رسول کی اطاعت سمجھی جائے اور اس کی نافرمانی خدا و رسول کی نافرمانی قرار دی جائے۔
مسلک شبیعہ کی رد سے جناب رسالت مآب کے بعد پُوری اُمت میں حضرت علی علیہ السلام ہی وہ شخصیت ہے جس کہ دینی و سیاسی ہر لحاظ سے اُمت کے لئے رہبر کامل اور مصلح اعظم قراردیا جا سکتا ہے پس وہی رسول کی مسند کا صحیح وارث اور اُمت اسلام کا حقیقی قائد اور حکومت الٰہیہ میں خداو رسول کی جانب سے صحیح نمایندہ ہے اور اس کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت اور اس کی نافرمانی خدا و رسول کی نافرمانی ہے اور حجۃ الوداع سے واپسی پر جناب رسول کریم نے باذن ِ خدا ان کی نامزدگی کا اعلان فرمادیا تھا اور بالتواتریہ روایت کتب اہل سنت سے ثابت ہے حتی کہ بعض متعصب مزاج سُنی علماء بھی حدیث غدیر کا اعتراف کیا ہے اور اس کے بعد ہر پہلا امام بعد والے کو نامزد کرتا رہا شیعی اصطلاح میں نیا بت رسول کے عہدہ کو امامت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آئمہ کی تعداد بارہ ہے اور اسی بنا پر شمعوں کو اثنا عشر بھی کہا جاتا ہے۔
مسلک شیعہ کی رُو سے جناب رسالت مآبؐ کی وفات سے ہی اقتدار بٹ گیا دینی اقتدار حضرت علی علیہ السلام کے پاس رہا اور دنیا وی اقتدار پر خلافت کے نام سے ملاکیت نے قبضہ کرلیا پس امامت و ملوکیت کے دونو راستے اسی وقت سے الگ الگ ہوگئے حالانکہ دور رسالت میں قیادت ایک تھی اور رسُول کریم اس کے سربراہ تھے۔