تقوٰی اور حقوق کے متعلق آپ کے جامع کلمات | taqwa aur haqooq kay mutaliq ap kay jamay kalmat| | khilafat o malookiat
مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر مامور فرماتے ہوئے آپ ان کو ایک وصیت نامہ دیا جس میں تحریر فرمایا "اللہ سے تقوٰی کرو ، اس کی اطاعت کو ہامر پر ترجیح دو اور ان فرائض و سنن کی اتباع کرو جو اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمائے کیونکہ اس کے بغیر سعادت ناممکن ہے اور ان کے انکار اور مخالفت میں بد بختی ہے اور دین خدا کی ہاتھ، دل اور زبان سے نصرت کرو ۔ الخ ۔ (دین و اسلام ص 184)حضرت حسن مجتبٰی علیہ السلام کے وصیت نامہ میں آپ نے فرمایا
"اے فرزند میں تجھے اللہ کے تقوٰی ، اس کی اطاعت ، اس کے ذکر سے دل کی تعمیر
اور اس کی توفیق سے تمسک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تیرے اور اللہ کے درمیان کے
باہمی رشتہ اور کوئی رشتہ زیادہ قابل وثوق نہیں ہے بشرطیکہ تم اس کو تھامے رہو
(دین و اسلام ص 185)
آپ نے فرمایا بیٹا اپنے اور غیر کے درمیان اپنے نفس کو
میزان قرار دو پس غیر کےلئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کر اور غیر کےلئے
ایسی چیز ہر گز گوارا نہ کرو جو تمہیں اپنے لئے گوارا نہ ہو طرح تمہیں غیر سے
احسان مطلوب ہے اسی طرح تم خود بھی غیروں پر احسان کیا کرو اور جو چیز غیروں سے
تمہیں بری معلوم ہوتی ہے وہ اپنے نفس سے دور کرو صاحبان خیر یعنی نیک لوگوں سے قرب
اختیار کرو تا کہ تمہارا شمار انہی میں سے ہو اپنی مقبوضہ چیز کی حفاظت غیر کی
مقبوضہ چیز کی طلب سے بہتر ہے یاس و ناامیدی کی تلخی لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے
سے بہتر ہے پاکدامنی کے ساتھ کما کر کھانا اس دولت مندی سے بہتر جو فجور کے ذریعے
حاصل ہو کمزور پر ظلم کرنا بد ترین ظلم ہے ۔ ذلیل مددگار نہ ہونا بہتر ہے بخیل
دوست کے ہونے میں کوئی خوبی نہیں بھائی کی قطمع رحمی کے باوجود بھی اسسے صلہ رحمی
کرنے کا بوجھ اپنے نفس پر ڈالو بھائی کی روگردانی کے بعد بھی اس کے ساتھ پیار و
محبت سے پیش آؤ۔ اس کے بخل کے مقابلہ میں جود، اس کی سختی کے بدلہ میں نرمی اور اس
کے جرم کے بعد قبول عذر کا برتاؤ کرو اور ایسا معلوم ہو کہ وہ تمہارا ولی نعمت ہے
اور تم اس کے غلام رہو لیکن یاد رکھنا ایسا برتاؤ بے محل نہ ہو اور نااہل سے نہ
ہو۔ (ملخص دین و اسلام ص 189، ص190)
علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء مرحوم حضرت امیر
المومنین علیہ السلام کے ان جامع کلمات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں جو شخص غورو
فکر اور تدبر و تفحص کر کے حقائق و معانی تک دسترس حاصل کرے اس کو یقین ہو گا کہ
سوائے انہی کی ذوات مقدسہ کے اس صفت کا خارج میں کوئی مصداق نہیں ہے اگر مکارم
اخلاق میں کس قدر ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس صفت کا لازمہ یہ ہے کہ انسان
حسد، خود پسندی اور تکبر جیسی صفات رذیلہ سے نجات پالے گا بلکہ اس صفت کا وجود
جملہ فضائل کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ انسان اپنی
دولت و ثروت و دیگر مملوکہ اشیاء میں دوسرے مسلمان بھائیوں کو اپنا شریک سمجھے
لیکن جب ہم اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو دور حاضر فضا میں اتنا بھی غنیمت ہے
کہ انسان اپنے شروفساد کو دوسروں سے روک لے (نفع پہنچانا تو درکنار)
ہماری حالت یہ ہے کہ قہر و غلبہ کی خاطر دوسروں کو نوچنے کے
در پے ہوتے ہیں اور اپنے ایمانی بھائیوں کی ہتک عزت کےلئے ہر وقت ان کے عیبوں کی
قبریں کھودتے اور خوش ہوتے ہیں بنابریں ہمیں اس قسم کے فضائل سے کیا واسطہ؟ بلکہ
اس قسم کی باتیں کرنا بھی اس زمانہ والوں کے سامنے سبکی کا موجب ہیں اور لوگ ایسی
باتوں کو خرافات سمجھتے ہیں۔ (خدا ہدایت و اصلاح کا ولی ہے) ۔ دین و اسلام ص
191-192