بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا
لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ
أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے (شروع کرتا ہوں )
ہم نے اس کو اتارا شب قد ر میں (1) اور تجھے کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟
(2) شب قدر ہزار مہنے سے بہتر ہے (3) اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں اپنے
پروردگار کے اذن سے (4) سلامتی ہے یہ طلوع فجر تک (5)
سورۃ القدر
· یہ
سورہ مکیہ ہے سورہ عبس کے بعد نازل ہوا۔
· اس
کی آیات بسم اللہ کو ملا کر 6 بنتی ہیں
· حضرت
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جو سورہ قدر کو بآواز بلند پڑھے گویا
اس نے تلوار برہنہ کر کے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جس نے دل میں اس سورہ کو
پڑھا تو وہ اس طرح ہے جیسے اللہ کی راہ میں ذبح ہو کر اپنے خون میں تڑپ رہا ہو اور
جو شخص اس کو دس مرتبہ پڑھے اس کے ایک ہزار گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
· حضرت
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ نئے گھڑے میں پانی ڈال کر شب قدر میں اس
پانی پر سورہ قدر تیس (30) دفعہ پڑھی جائے اور س گھڑے کو لٹکا دیا جائے پس
اس پانی پیا جائے اور وضو بھی کیا جائے اور کم شدہ پانی کا اس مییں اضافہ کا جاتا
رہے تو باعث برکت ہے
· آپ
نے فرمایا جو شخص اس سورہ کو نماز فریضہ میں پڑھے اسے آواز پہنچتی ہے کہ تیرے سابق
گناہ معاف ہو گئے ہیں
· حدیث
نبوی میں ہے جو شخص اس سورہ کو پڑھے تو اس کو ایک دفعہ پڑھنے کا ثواب ماہ رمضان کے
روزوں کے برابر ہے ۔
· اگر
اس کو کسی خزانہ کے دروازہ پر پڑھا جائے تو وہ خزانہ ہر آفت و برائی سے محفوظ رہے
گا یہاں تک کہ مالک خود نکال لے۔
· اس
کی تلاوت کرنے والا خیرالبریہ کا ساتھی ہو گا اور اگر اس سورہ کو نئے برتن پر لکھا
جائے اور صاحب لقوہ اس میں نظرے کرے تو اللہ تعالی اس کو شفا عطا فرمائے گا۔
· امام
محمد تقی علیہ السلام سے اس سورہ کا بکثرت تلاوت کرنا ، ادائے قرض اور وسعت رزق کے
لئے موثر ہونا منقول ہے (فوائد القرآن )
· بادشاہ
حاکم وقت کےسا منے سورۃ القدر کو پڑھ کر جا اس کی مغلوبیت کا باعث ہے۔
· اگر
دشمن کے سامنے جاتے ہوئے اس سورہ کو پڑھا جائے تو پڑھنےوالا ظفریاب ہو گا اور
منقول ہے کہ وسعت رزق کےلئے اس کا زیادہ پرھنا مجربات میں سے ہے ۔
· فقہ
الرضا سے منقول ہے کہ ادائیگی قرض کےلئے استغفار کا زیادہ پڑھنا اور سورہ قدر کی
تالوت زیادہ کرنا بہت فائدہ مند ہے ۔
· فوائد
القرآن میں منقول ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام شب و روز کی تمام نمازوں
میں پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے
بعد سورہ قل ہو اللہ احد پڑھا کرتے تھے ۔
· ایک
روایت میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ خدا اس شخص پر رحم
فرمائے جو سورہ انا انزلنا کی تلاوت کرے اور آپ نے فرمایا ہر چیز کے لئے ثمرہ ہو
تا ہے اور قرآن کا ثمرہ سورہ انا انزلنا ہے ہر چیز کے لئے خزانہ ہو تا ہے
اور فقرا کایابردایتے قرآن کا خزانہ انا انزلنا ہے ۔ ہر چیز کےلئے مدد ہوتی ہے اور
کمزوروں کی مدد انا انزلنا ہے ہر چیز کے لئے کشادگی ہر تی ہے اور تندگدستوں کی
کشادگی سورہ انا انزلنا ہے ہر چیز کے لئے عصمت ہو تی ہے اور مومنوں کی عصمت انا
انزلنا ہے ۔ ہر چیز کے لئے ہدایت ہوتی ہے اور نماز گذاروں کی ہدایت انا انزلنا ہے
ہر چیز کا خیمہ ہو تا ہے اور عباد گزاروں کا خیمہ اناانزلنا ہے اور ہر چیز کے لئے
حجت اور دلیل ہوا کرتی ہے اور حضرت رسالتمابؐ کے بعد حجت انا انزلنا ہے الخ
· حضرت
امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ سورہ اہل فقر و فاقہ کے لئے
خزانہ ہے اور مروی ہے کہ جو شخص اس کو کسی خزانہ پر پڑھے تو وہ محفوظ رہے گا
جو شخص اس کو دھر پی لے تو اس کی بصارت میں نور دل میں یقین پیدا ہو گا اور اللہ
اس کو حکمت نصیب کرے گا اگر اس کو غمزدہ یا مسافر یا مریض یا قیدی پڑھے تو
اس کی مشکل آسان ہو گی ۔ اگر اس کو زراعت پر پڑھا جائے تو اس میں برکت ہو گی اگر
اس کو مٹی کے برتن پر لکھ کر بارش کے پانی سے دھودیا جائے تو اس پانی میں شکر ملا
کر پینا درد دل سے شفایابی کا موجب ہے اگر زوال آفتاب کے وقت اس کو ایک سو مرتبہ
پڑھا جائے تو جناب رسالتمابؐ کی خواب میں زیارت نصب ہو گی ۔
· بروایت
مکام الاخلاق امام علی زین العابدینؑ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جوشخص سواری پر
سوار ہوتے وقت سورہ انا انزلنا کی تلاوت کرلیا کرے تو صحیح و سالم اس سے اترے گا
اور اس کے گناہ بھی بخے جائیں گے اور امام محمد باقر علیہ نے فرمایا اگر
کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو میں کہتا انا انزلنا کے پڑھنے والا تقدیر پر
سبقت کر سکتا ہے پس جو شخص ارادہ سفر کرے اور گھر سے نکلتے وقت سورہ انا انزلنا کی
تلاوت کرے تو صحیح و سالم واپس پلٹے گا ۔
· امام
جعفر صادق علیہ السلام نے منقول ہے اگر کسی شخص کے ہاں اولاد نرینہ نہ ہوتی تو جب
اپنی عورت سے ہمبستری کا ارادہ کرے اپنا دایاں ہاتھ عورت کی ناف کی دائیں طرف رکھے
اور سات مرتبہ انا انزلناپڑھ کر مجامعت کرے تو اس کی مراد پوری ہوگی پس جب حمل
ظاہر تو پھر عورت کی ناف کے دائیں جانب ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ انا انزلنا پڑھے
راوی کہتا ہے کہ میں یہی عمل کیا اور خداوند کریم نے مجھے سات فرزند عطا فرمائے
اور دوسروں نے بھی یہی عمل کیا تو خدا نے ان کو بھی اولاد نرینہ عطا فرمائی (مکارم
الاخلاق)
· اگر
بچہ کی والدت میں تکلیف پیدا ہو جائے تو پانی پر اناانزلنا پڑھ کر عورت کو پلایا
جائے فوراًبچہ پیدا ہو جائے گا۔
· امام
علی رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ مومن کی قبر سات انا انزلنا پڑھنا چاہیے اس سے
صاحب قبر اور پڑھنے والے دونوں کے گناہ بخشے جائیں گے ۔
· مصباح
کفعمی سے نماز وحشت کا طریقہ: حضرت حضرت نبی کریمؐ سے اس طرح منقول ہے کہ کسی مومن
کے دفن کی پہلی رات اس کے لئے دو رکعت نماز پڑھی جائے کہ پہلی رکعت میں نماز فاتحہ
کے بعد ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورہ انا
انزلنا اور سلام کے بعد ان رکعتوں کا ثواب میت کو بخش دے تو خداوند کریم اسی وقت
ایک ہزار فرشتے بھیجے گا کہ ہر فرشتہ کے ہاتھ میں حلہ بہشتی ہو گا اور اس کی قبر
کو وسعت دی جائے گی اور اس کے پڑھنے والے کو بھی اجر عظیم عطا ہو گا آپ نے فرمایا
میت پر پہلی قبر کی رات نہایت اندوہناک ہو تی ہے لہذا اپنے مردوں پر کہ اس رات صدقہ
دیکر رحم کرو اور اگر صدقہ نہ دے دے سکو تو مذکورہ طریقہ سے نماز ہدیہ پڑھا کرو ۔
· اور
منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہر روز اپنے والدین کے لئے (نماز
ہدیہ والدین) اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ انا
انزلنا اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کوثر پڑھتے تھے ۔
· منقول
ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام جب نیا کپڑا پہنچتے تھے تو پانی پر دس مرتبہ سورہ
انا انزلنا دس مرتبہ قل ہو اللہ احد اور دس مرتبہ قل یایھا الکافرون کو پڑھ کر وہ
پانی اس کپڑے پر چھڑک دیتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص یہ عمل کرے تو جب تک کپڑے کی
ایک تار بھی اس کے بدن پر رہے گی وہ امان میں رہے گا ۔
رکوع نمبر 22۔ انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔
اس جگہ چند چیزیں غور طلب ہیں سب سے پہلے نزول قرآن کے
متعلق علمائے تفسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس جگہ شب قرآن کے اتارنے کا کیا
مطلب ہے تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے مروی ہے کہ قرآن مجید پورے کا پورا لوح
محفوظ سے آسمان دنیا تک شب قدر میں اتارا گیا اور اس کے بعد جبریل بحکم جلیل 23
برس کے عرصہ میں حسب مصلحت آیات قرآنیہ کو خدمت نبویہ میں پہنچاتا رہا اور اس میں
دوسرا قول یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کی ابتداء شب قدر میں ہوئی اور تیسرا
قول یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے مؤکلین تک شب قدر میں قرآن مجید کا وہ
حصہ اترتا تھا جو اس شب قدر سے لے کر آئندہ سال کی شب قدر کی جبریل نے وقتاً
فوقتاً حضرت نبی اکرم تک پہچانا ہوتا تھا بہر کیف قرآن مجید کو لوح محفوظ سے نزول
شب قدر میں ہوا اور اس کی تائید قرآن مجید کی دوسری آیت بھی کرتی ہے شھر رمضا ن
الذین انزل فیہ القران یعنی ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اور یوم
مبعث کا رجب میں ہونا اس سے منافات نہیں رکھتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اظہار
رسالت کا حکم ماہ رجب میں دیا گیا ہو اور قرآن کی ابتداء ماہ رمضان سے ہوئی ہو اور
منقول ہے کہ ابتداء چھ ماہ تک آپ پر وحی رویائے صادقہ (خواب) کے ذریعہ سے ہوتی رہی
جو پورے زمانہ رسالت 23 سال کا 46/1 حصہ بنتا ہے اور تفسیر برہان میں حضرت امام
جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ تورات 6 رمضان کو انجیل 12 رمضان کی
رات زبور18 رمضان کی رات کو اور قرآن شب قدر میں نازل ہوا۔
قدر کا معنی : قدر اور قدر دولفظیں ہیں جن کے معانی
الگ الگ ہیں قدر کا معنی ہے اندازہ اور اسی سے تقدیر بنتی ہے اور قضا و قدر کا
مفہوم اسی سے ہے اور قدر کا معنی عزت و منزلت بعض مفسرین نے اس جگہ قدر کو قدر سے
اخذا کیا ہے اور کہا ہے کہ لیلۃ القدر کو اس لئے لیلۃ القدر کہتے ہیں کہ یہ قضا و
قدر کی رات ہے۔ اور کہ اس رات میں سال بھر کے فیصلے کئے جاتے ہیں جو فرشتے خدا
کے اذن سے زمین پر اتر کر نبی قائم مقام نبی تک پہنچائے ہیں بعض نے قدر کا معنی
شرف و عزت کیا ہے اور لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ بیان کی ہے کہ یہ رات شان و منزلت
کے اعتبار سے باقی تمام راتوں سے افضل ہے اور جو شخص پہلے صاحب عزت نہ ہو اس رات کی
بیداری اور عبادت کے بعد وہ اللہ کے نزدیک صاحب عزت بن جاتا ہے اور بعض نے وجہ
تسمیہ میں کہا ہے کہ کتاب زی قدر، رسول ذی قدر کی طرف ، امت ذی قدر کی خاطر
ذی قدر فرشتے کی وساطت سے اسی رات میں اتری لہذا یہ رات بھی لیلۃ القدر کہلانے کی
مستحق ہو گئی ۔
لیلۃ القدر کی تعیین
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ سال بھر ایک غیر معین رات لیلۃ
القدر ہے اور خداوند کریم نے اس کو مخفی رکھا ہے تا کہ لوگ سال بھر عبادت خداوندی
میں دلچپسی محسوس کریں جس طرح نماز سطی کو نمازوں میں مخفی کر دیا تا کہ پوری پانچ
نمازوں میں خشوع و خضوع بحال رہے اسی طرح خدا نے اپنے اسماء مبارکہ میں اسم اعظم
کو مخفی رکھ دیا تا کہ اللہ کے تمام ناموں کو ورد زبان اور حرز جان قرار دینے کی
شوئق قائم رہے اور ساعات جمعہ میں سے ایک ساعت کو قت اتجابت دعا قرار دیا اور اس
کو باقی ساعات میں مخفی رکھا تا کہ جمعہ کی شب و روز میں کسی لمحہ بھی دعا و
مناجات سے غلفت نہ برتی جائے اور عبادت و دعا سے تھکان محسوس نہ ہو۔
بعض نے اول رمضا کی رات کو اور بعض 17 رمضان کی رات کو
شب قدر کہا ہے اسی طرح 21 رمضان اور 23 رمضان ، 27 رمضان 19 رمضان کے اقوال بھی
ہیں اور روایات اہلبیت میں 21 اور 23 رمضان کی راتوں کی شب قدر کہا گیا ہے اور ایک
روایت میں ہے کہ 19 رمضان کی رات کو حاجیوں کے وفد لکھے جاتے ہیں لہذا اس رات کو
جاگ کر اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور مروی ہے کہ شب قدر میں چونکہ سال بھر کے امور
کا فیصلہ ہوتا ہے یعنی اموات و رزاق اور بیمایرون و تنگدستیوں کا فیصلہ لیلۃ القدر
میں ہوتا ہے لہذا معصوم نے فرمایا کہ ان راتوں میں جاگ کے اللہ سے دعا مانگو ایک
سو رکعت نماز پڑھو اور راتوں میں غسل کر کے عبادت میں مشغول ہونا چاہیتے زرارہ
کہتا ہے میں نے سوال کیا کہ کونسی راتوں میں غسل مستحب ہے تو معصوم نے 91،
21، 23 رمضان کی راتوں کے متعلق فرمایا لیلۃ القدر کے اعمال کتب اعمال میں مفصل
درج ہے ۔
لیلۃ القدر کی فضیلت
لیلۃ القدر کے حق میں ارشاد قدرت ہے خیر من الف شھر کہ
یہ ہزار مہینے سے بہتر ہے پس اس کی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے اس کا
صدقہ ہزار مہینے کے اس جیسے صدقات سے افضل ہے اور اس کا روزہ ہزار مہینوں کے روزوں
سے افضؒ ہے ایک مرتبہ حضورؐ کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا نام لیا گیا کہ
اس نے پورے ایک ہزار ماہ سے افضل ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بنی امیہ کی
حکومت کے ایک ہزار مہینہ سے تیری ایک رات (شب قدر) افضل ہے ۔
ولی امر کے پاس ملائکہ کی آمد
ضحضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اللہ
نے ابتدائے آفرنیش سے لیلۃ القدر کو خلق فرمایا اور اس نے فیصلہ کر دیا کہ یہ رات
ہر سال میں ہو گی اور اس میں آئندہ سال اس رات کے آنے تک کے فیصلے جملہ امور اور
ان کا تفصیلی طریق کار لے کر فرشتے نازل ہونگے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ اس کی جانب
سے آنے والے تمام انبیاء و رسل آئمہ محدثوں پر اس اس رات کے فیصلوں کو حجت قرار
دیا جائے گا اور جبرئیل جو احکام لاتا ہے وہ اس رات میں نازل ہونے والے امور کے
علاوہ ہوتے ہیں سائل نے سوال کیا کہ کیا جبرئیل یا دوسرے فرشتے محدثوں پر بھی نازل
ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا انبیاء و رسل پر تو یقناً نازل ہوتے ہیں لیکن
باقیہ پر صرف رات میں نازل ہوتے ہیں چنانچہ بخدا روح اور دیگر ملائکہ لیلۃ القدر
میں حضرت آدمؑ پر اترے اور خدا کی قسم آدمؑ اپنا وصی پر نزول امر رہا اور آدم سے
لیکر خاتم تک ہر نبی کو اسی رات میں یہ امر بھی پہنچتا رہا کہ اپنے بعد کے لئے وصی
کو نامزد کرو اور حضرت محمد مصطفٰی کے اوصیاء کے متعلق قرآن میں فرمایا وعداللہ
الذین الخ یعنی خدا وند کریم نے ان کو نبی
کے بعد اپنے علم دین اور عبادت کے لئے اپنا خلیفہ قرار دیا جس طرح حضرت آدم کے
اوصیاء ان کے بعد اللہ کے خلیفہ تھے اور بعد والے دوسرے نبی کی بعثت تک وہ اوصیاء
تبلیغی امور سر انجام دیتے رہے اور چونکہ حضرت محمد مصطفیٰ کے بعد تو کسی نبی نے
آنا نہیں ہے لہذا محمد مصطفٰی کے بعد تا قیامت ان کے اوصیاء کو علم سپرد کر دیا
گیا اور وہ ہم ہیں لہذا ہمس ے سوال کر لیا کرو لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا جب دین ظاہر
ہو گا اور لوگوں میں اختلاف ختم ہو جائے گا کیونکہ اس کےلئے ایک لمبی مدت کا
انتظار ہے جب وہ وقت آئے گا تو امر ایک ہو گا اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ مومنوں
میں اختلاف کو ختم کر دیا جائے گا اسی لئے تو ان کو شہداء قرار دیا گیا ہے کہ حضرت
محمدؐ مصطفیٰ ہم پر شہید ہیں اور ہم شیعوں پر شہید ہیں اور ہمارے شیعہ لوگوں پر
شہید ہیں اور یہ اللہ کو ناپسند ہے کہ اس میں اختلاف ہو یا اس کے علم میں تناقض
ہو۔
آپ نے فرمایا جو شخص سورہ انا انزلنا اور اس کی تفسیر
پر اجمالی ایمان رکھے اس کی فضیلت ایمان نہ رکھنے والوں اس طرح ہے جس طرح انسانوں
کو حیوانات پر فضیلت حاصل ہے اور خداوند کریم اس پر ایمان لانے والوں کی بدولت
ایمان نہ لانے والوں سے بھی عذاب ٹال دیتا ہے جس طرح مجاہدین کے ذریعہ سے
قاعدین کی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اس زمانہ میں تو حج اور عمرہ کے علاوہ دوسرا کوئی
جہاد ہی نہیں ہے ۔
ایک شخص نے عرض کی اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات میں
عرض کروں آپ نے فرمایا بے شک سوال کرو میں ناراض نہ ہونگا پس اس نے عرض کی ہمیں
معلوم ہے کہ حضرت رسالتمابؐ جب دنیا سے گئے تو حضرت علیؑ کو اپنے تمام علوم کو
وارث بنا کر گئے اور شب قدر میں روح اور فرشتت نئے علوم بھی لے کر آتے ہیں تو اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ کے پاس حضرت رسالتمابؐ کا علم بھی تھا اور اس کے
علاوہ وہ علم بھی تھا جو شب قدر فرشتے لاتے رہے پس ان کا علم تو ان کے علم سے
زیادہ ہو گیا لہذا اس سوال کا حل فرمائیے ؟ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے
سنتے ہی فرمایا تو کون انسان ہے؟ اور میرے پاس تجھے کون لایا ہے؟ اس نے عرض کی
حضورؐ ! میں دین کا طالب ہوں اور اپنی خوش قسمتی مجھے طلب دین کے لئے آپ کے ہاں
لائی ہے ۔ آپ نے فرمایا میں جو کچھ کہوں اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا حضرت نبؐی کریم
جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ نے کان و مایکون کے علوم ان کو عطا فرمائے لیکن
ان میں سے اکثر (قواعد و کلیہ کی حیثیت سے) مجمل و تفصیل سلب تھے جن کی تفصیل
ملائکہ اور روح کے ذریعے سے شب قدر میں بھیجی جاتی ہیں پس تاحین حیات پیغمبر کے
پاس ان کی تفصیل کا علم آتا رہا اور ان کے بعد اوصیاء کے ساتھ یہی سلسلہ جاری رہتا
ہے پس حضرت امیر علیہ السلام تمام علوم کو اجمالاً (قواعد کلیہ کی حیثیت سے )
جانتے تھے لیکن ان کی تفصیل شب قدر میں اللہ کی جانب سے ملائکہ لاتے تھے اور یکے
بعد یگرے آئمہ کی بھی یہی حالت ہے کہ فرشتے اللہ کی طرف سے تفصیل احکام لاتے تھے
کہ مثلاً یہ کرنا یا وہ کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے ایسے امور کے متعلق جن کے
کلیات کا علم ان کو پہلے سے ہوا کرتا تھا سائل نے عرض کی کہ جن علوم کلیات کو وہ
پہلے سے جانتے تھے شب ہائے قدر مٰں ان کے علاوہ ان کے پاس کونسا علم آتا تھا آپ نے
فرمایا یہ وہ چیز ہے جس کو ظاہر کرنے کا آئمہ کو اذن نہیں دیا گیا اور اس کی تفسیر
کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر سائل نے عرض کی کیا یہ ہو سکتا ہے کہ امام کا علم
نبی کے علم سے زیادہ ہو آپ نے فرمایا کہ بلکہ وصی اتنا ہی جانتا ہے جتنا کہ اس کے
نبی نے اس کو بذریعی وصیت پہچایا ہے سائل نے پوچھا کیا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ
اوصیاء میں سے بعض کو وہ علم حاصل ہے جو دوسرے اوصیاء کو حاصل نہ تھا آپ نے فرمایا
کہ نہیں بلکہ جب جب دنیا سے رحلت کرتا ہے تو اس کا تمام علم وصی کے پاس ہوتا ہے
اور اس کے بعد شب قدر میں فرشتے بندوں کے درمیان نافذ کئے جانے والے احکام کی
تفصیل لایا کرتے ہی ںسائل نے پوچھا کیا ان نافذ ہونے والے احکام کا علم آئمہ کو
پہلے نہیں ہوا کرتا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ان کو علم تو ہوتا ہے لیکن اس کو
نافذ نہیں کر سکتے جب تک شب قدر میں اس کا حکم نہ دیا جائے کہ اگلے سال تک کیا
کرنا ہے اورکیا نہیں کرنا پس سائل نے عرض کی کہ میں اس کا نکار نہیں کر سکتا آپ نے
فرمایا جو انکار کرے گا وہ ہمارا نہیں ہو گا سائل نے عرض کی کیا نبی علیہ السلام
کو شب ہائے قدر میں ایسے علوم بھی بتائے جاتے تھے جو پہلے ان کو معلوم نہ ہوں آپ
نے فرمایا ایسا سوال کرنا تیرے لئے جائز نہیں ہے بس اتنا جان لو کہ نبی جب رحلت
کرتا ہے تو اس کا تمام علم اس کے وصی کے پاس ہوتا ہے اور اسی طرح جب وصی رحلت کرتا
ہے تو اس کا علم اس کے بعد والے وصی کے پاس ہوا کرتا ہے سائل نے عرض کی کہ ہمیں
کیسے معلوم ہو کہ شب قدر ہر سال آتی ہے تو آپ نے فرمایا جب ماہ رمضان آئے پس ہر
رات سورہ دخان کو ایک سو بار پڑھا کرو جب 23 رمضاب کی رات آئے گی تو تم پر یہ راز
منکشف ہو جائے گا سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہرشب روز و میں
شیاطین آئمہ ضلالت کے پاس آتے ہیں ۔ اور اتنی ہی مقدار میں فرشتے امام حق کے پاس
آتے ہیں اور شب قدر میں بہت کافی تعداد ملائکہ کی آئمہ حق کے پاس آترتی ہے اور
ایسا ہی شیاطین امام باطل کے پاس جاتے ہیں پس جب امام باطل لوگوں سے بیان کرے کہ
میں یہ دیکھا وہ دیکھا تو امام حق ہی انکشاف کر سکتا ہے کہ تو نے شیاطین کو دیکھا
اور جو کچھ کبریں تجھے معلوم ہیں وہ شیاطین کی بتلائی ہوئی ہیں پس حق کی خبریں
فرشتے صرف امام حق کے پاس لاتے ہیں پس شب قدر ہمارے لئے ہے اور حضورؐ نے حضرت
علیؑ کے متعلق بوقت وفات فرمایا تھا کہ یہ
میرے بعد تمہارا ولی و حاکم ہے اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پر رہو گے اور
خدا وند کریم کی شان سے بعید ہے کہ اپنا امر روح و ملائکہ کے ذریعےکسی کافر کو
بھیجے اور اگر لوگ کہیں کہ کسی پر نہیں اترتا تو یہ جھوٹ اور گمراہی ہے کیونکہ جب
روح اور فرشتے امر کو لاتے ہیں تو یقیناً ایسا فرد زمین پر ہونا چاہیے جس پر وہ
امر کو لائیں (ملحضاً از برہان)
ایک روایت میں ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے
فرمایا اگر لیلۃ القدر اٹھ جائے تو قرآن بھی اٹھ جائےگا۔
آپ نے فرمایا 19 رمضان کو امور جمع کئے جاتے ہیں 21
رمضان کو فیصلہ ہوتا ہے اور 23 رمضان کو نافذ کئے جاتے ہیں ل۔
اقول: شب قدر میں ملائکہ اور روح کا نازل ہونا واضح ہے
اور یہ کہ وہ امر لے کر اترتے ہین لہذا جس کے پاس اترتے ہیں وہ فاسق و فاجر تو ہو
نہیں سکتا لہذاماننا پڑتا ہے کہ معصوم کے پاس اترتے ہیں اور وہ نبی یا نبی کا قائم
مقام اس کا وصی ہی ہو سکتا ہے اور روایت سابقہ کی بناء پر تمام نافذ ہونے والے امور
کی تفصیل کو لے کر ملائکہ اترتے ہیں جن کے کلیات کا علم معصوم کو پہلے سے ہوا کرتا
ہے چنانچہ غالباً اسی طرف حضرت امیر المومنین کے فرمان کا اشارہ ہے کہ علمنی رسول
اللہ الف باب من العم ینفتح لی من کاب باب الف الف باب یعنی مجھے حضورؐ پیغمبر نے
علم کا یک ہزار دروازہ تعلیم فرمایا اور میرے سامنے ہر درازہ سے ہزار ہزار دروازے
خود کھل گئے اور پیغمبر کو رب زدنی علماکا ارشاد پروردگار بھی غالباً اسی نکتہ کی
وضاحت کےلئے ہے بہر کیف بعض علوم وہ ہیں جن کی اطالع آئمہ طاہرین علیہم
السلام لوگوں کو دے دیتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو ان کی ذات تک ہی محدود ہیں اور اس
کو اللہ بہتر جانتا ہے اور شب قدر کے متعلق بعض ضروری بحثیں تفسیر کی جلد 12 میں ص
256 تا 260 ملاحظہ ہوں اور شب ہائے قدر کے اعملا مفاتیح الجنان یا دیگر کتب اعمال
سے معلوم کئے جا سکتے ہیں ۔
کل امر اس جگہ من جرباء کے معنی میں ہے یعنی خیرو برکت
و موت و رزق وغیرہ جملہ امور کا فیصلہ ساتھ لے کر والی امر پر اترتے ہیں خواہ وہ
نبی ہو یا وصی نبی ہو اور اس معنی کے لحاظ سے امر پر وقف تام ہو گا اس کے بعد سلام
خبر مقدم اور ھی کی ضمیر غائب جس کا مرجع لیلۃ القدر ہے یہ مبتداء موخر ہے یعنی یہ
رات شرور و مصائب اور وساوس شیطانیہ سے سلامتی کی باعث ہے چنانچہ سورہ دخان میں
اسی رات لیلۃ مبارکہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعضوں نے معنی یہ کیا ہے کہ اولیاء
اللہ پر ملائکہ اس رات سلام کرتے ہیں اور بعضوں نے باذن ربھم پر وقف کیا ہے اور
معنی یہ کیا ہے کہ شب قدر میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں پروردگار کے اذن سے ۔
ہر اس امر کو ساتھ لے کر جس میں سلامتی اور خیرو برکت ہو اور یہ سلامتی اور خیر و
برکت طلوع فجر تک رہتی ہے لیکن پہلا قوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ امر پر وف ہو
اور معنی وہی ہو جو تحت الفظ موجود ہے ۔