کہتے ہیں
دروغ گو را حافظہ نباشد اب ذرا کوئی پوچھے کہ جب حضرت علی ؑ کے جمع کرنے سے
مراد حفظ کرنا ہی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت علی ؑ پہلے حافظ قرآن تھے، پس اس صورت
میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے حافظ قرآن (حضرت علی ؑ) کو چھوڑ کر غیر حافظ
(زید بن ثابت) کو جمع قرآن پر کیوں مجبور کیا؟ حالانکہ بروایت بخاری اس نے بہت
معذرت خواہی بھی کی، اور بروایت موطا ٔ بن وہب اس نے صاف انکار کر دیا، اور حَتّٰی
اسْتَعَانَ عَلَیْہِ بِعُمَر کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ حضرت عمر نے سختی سے اُسے جمع
کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ قانونِ عربیت کے اعتبار سے لفظ ’’ عَلٰی ‘‘ضرر کے
لئے ہوا کرتا ہے۔۔۔ قطعاً منت و مشورہ کے معنی میں نہیں ہوا کرتا۔
ترجمہ بخاری از مرزا حیرت دہلوی ج ۲
حدیث ۲۰۸۸ ملاحظہ فرمائیے، زید نے کہا کہ اس کے بعد حضرت
ابوبکر نے مجھ سے کہا کہ تم عقلمند جوان آدمی ہو۔۔۔ تم پرہم بھول یا جھوٹ کا
الزام نہیں لگا سکتے اور تم نبی صلعم کی وحی بھی لکھا کرتے تھے۔۔۔لہذا۔۔۔ تم ہی
قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو، زید کہتے ہیں کی واللہ اگر مجھے پہاڑ کے اُٹھانے کا
حکم حضرت ابوبکر فرماتے تو وہ مجھے اس جمع قرآن کے کام سے آسان معلوم ہوتا۔
بالفرض اگر زید پر سختی نہ بھی ہوئی ہو تاہم ان کو
یہ کام پہاڑ کے سر پر اٹھانے سے بھی مشکل معلوم ہوتا تھا تو ان کو تلاش کر کے جمع
کرنے کی تکلیف دینے کی بجائے حافظِ قرآن (حضرت علی ؑ) سے جمع کیوں نہ کروا لیا
گیا؟ کیوں کہ زید بن ثابت خود حافظ نہ تھا۔۔۔۔۔وہ اس کام کو پہاڑ سے سنگین تر نہ
سمجھتا بلکہ کارِ خیر سمجھ کر خود ہی خواہش کر تا اور نہ ہی خلیفہ تلاش کر کے جمع
کرنے کا اُسے حکم دیتے!!
علاوہ ازیں دیگر مسائل مشکلہ میںتو حضرت علی ؑ کی
طرف وقتاً فوقتاً رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوا کرتی تھی اور حضرت علی ؑ کی مشکل
کشائی کے بعد لَوْلا عَلِیٌّ لَہَلَکَ عُمَر یا اس قسم کے دیگر اعترافی کلمات زبان
سے نکل جایا کرتے تھے۔۔۔ جس سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی ؑ کی سبقت علمی کا اعتراف
کرتے تھے، تفصیل کیلئے ص۱۰۲ پر ملاحظہ ہو، نیز جناب
رسالتمآبؐ کا فرمان: عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِی (علی ؑ
قرآن کے ساتھ اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے) بھی زیر نظر تھا، ص ۱۵۵
پر ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔ اور حدیث متواتر ثقلین جو تمام صحابہ کے گوش گزار ہو چکی تھی،
ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی تھی کہ کسی کو اس کا خیال نہ رہا ہو ہم اسے گذشتہ
عنوانات میں بالعموم اور ایک علیحدہ عنوان میں بالخصوص متعدد طرق سے بیان کر چکے
ہیں۔۔۔ اور ان سب کے علاوہ ابن حجر کی سابق تاویل کے پیشِ نظر حضرت علی ؑ اوّل
حافظِ قرآن تو تھے ہی، بایں ہمہ زید بن ثابت کے سر پر پہاڑ سے گراں تر بھار رکھنے
کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور حضرت علی ؑ پر جمع کرنے کا اعتماد کیوں نہ کیا گیا؟
نیز خود علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفا ٔ میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی
ؑ نے عہدِ رسالت میں قرآن جمع کر کے جناب رسالتمآب کو پیش بھی کیا تھا، چنانچہ
ان کے حضرت علی ؑ کی تعریف میں اصل الفاظ یہ ہیں وَاحِدٌ مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ
وَعَرَضَہُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ِ یعنی علی ؑ ایک شخص ہے جس نے قرآن کو جمع کیا
اور حضرت رسالتمآب کو پیش بھی کیا۔۔۔۔۔ اب انصاف فرمائیے کہ جب حضرت علی ؑ کے پاس
حضرت رسالتمآبؐ کا مصدِّقہ قرآن موجود تھا تو اُسے چھوڑ کر اِدھر اُدھر دوڑ دھوپ
کرنے کی کیا ضرورت تھی؟کیا ان کے نزدیک جناب رسالتمآب کی فرمائشات حدیث ثقلین یا
دیگر اس قسم کی احادیث جنہیں تواتر سے نقل کیا گیا ہے قابل اعتماد اور مبنی بر صحت
نہیں تھیں؟ یا آنحضرتؐ کا مصدِّقہ جمع شدہ قرآن جو علی ؑ کے پاس تھا وہ ناکافی
تھا؟ جمع قرآن جیسے اہم دینی معاملے میں حضرت علی ؑ جیسی اہم شخصیت کو نظر انداز
کرنا حالانکہ علم قرآن سب سے زیادہ علی ؑ کو تھا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس کا پس
منظر کیا ہے؟ دانا خود سوچیں اور منصفانہ طور پر خود اس کا جائز لیں کہیں دال میں
کالا نہ ہو۔
لطیفہ
جمع قرآن کے متعلق وارد شدہ اور دیگر متعلقہ
روایات سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ مذکورین میں سے سوائے علی ؑ بن ابی طالب
کے ایک بھی حافظِ قرآن نہ تھا، کیونکہ حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کے پاس سے صحف
منگوا کر زید کو ایک مصحف میں جمع کرنے کا حکم دیا اور متعدد نسخے لکھوائے اور کہا
کہ اختلافی مقامات پر قریش کی لغت کو ترجیح دینا کیونکہ قرآن اسی لغت میں اُترا
ہے، اگر خود حافظ ہوتے تو حضرت حفصہ سے صحیفے منگوانے یا اختلافِ قرأت کا خطرہ
محسوس کر کے علاجِ معین کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اپنے حفظ سے ہی سب کچھ ہو سکتا تھا،
اسی طرح حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی اگر حافظ ہو تے تو زید کو تلاش کر کے جمع کر
نے کی تکلیف نہ دیتے اپنے حفظ سے ہی لکھو ا دیتے یا کم از کم امداد ضرور کرتے تا
کہ اس کا بھار ہلکا ہو جا تا!؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ زید خود بھی حا فظ نہیں تھا
ورنہ جمع قرآن جیسی اہم دینی خدمت سے ہر گز جی نہ چراتا۔۔۔اور معذرت پیش کر کے
پہلو تہی کی کوشش نہ کر تا۔۔۔ اور نہ اسے پہاڑ سے گران تر سمجھتا۔۔۔ اور نہ اس کو
تلاش کر نے کی فرمائش ہوتی۔۔۔ بلکہ وہ اپنے حفظ سے سب کچھ کر لیتا۔
پس اس ساری فہرست میں سے ایک بھی حافظِ قرآن
نہیں، ابن حجر بیچارے کو یہ خیال تک نہیں آیا ورنہ وہ حضرت علی ؑ کو کیوں حافظِ
قرآن کہتا؟ روایت متعلقہ کی کوئی اور توجیہ نکال لیتا۔۔ تاکہ حضرت علی ؑ صحابہ کے
مقابلہ میں ذرا نیچے معلوم ہوتے! اس میں شک نہیں کہ شیعہ قوم میں حافظ کم ہیں لیکن
الحمدللہ بتصدیق ابن حجر شیعوں کا امام تو حافظِ قرآن ہے، مقتدی حافظ نہ سہی
مقتدا تو حافظ ہے۔۔۔ مقتدی بوقت ِ ضرورت ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، رونا تو ان
لوگوں کی حالت پر آنا چاہیے کہ مقتدی حافظ اور مقتدا سب کے سب بے بہرہ!!
ابن حجر نے حضرت علی ؑ کے جامع قرآن ہونے پر حرف
گیری کرتے ہوئے جمع کی تأویل حفظ سے کر کے حضرت علی ؑ کے حافظ ہونے کا اعتراف کر
لیا لیکن اس بات کا خیال نہ رہا اگر کوئی سوال کرے کہ اگر قرآن پہلے جمع نہ تھا
تو حضرت علی ؑ حافظ کس چیز کے تھے؟ اور حضرت علی ؑ نے اگر حفظ کیا ہے تب بھی گھر
پر!؟ کیونکہ متعلقہ روایت کے الفاظ ہیں کہ دوش پر عبا نہ ڈالوں گا جب تک کہ قرآن
جمع نہ کر لوں یعنی گھر سے باہر قدم نہ رکھوں گا جب تک کہ جمع نہ کر لوں گا یہاں
تک کہ میں نے جمع کر لیا، اور بقول ابن حجر معنی یہ ہوا کہ دوش پر عبا نہ ڈالوں گا
جب تک حفظ نہ کر لوں گا یہاں تک کہ میں اُسے حفظ کر لیا۔
سوچنے کے قابل ہے کہ اگر قرآن علی ؑ نے جمع نہیں
کیا تو پھر گھر بیٹھ کر حفظ کس چیز سے دیکھ کر کرتے رہے؟ پس اپنے ہاں جمع تھا تو
حفظ کیا۔۔۔ اور پہلے حفظ تھا تو جمع کیا کیونکہ نہ باہر گئے اور نہ کسی سے دریافت
کیا، اور کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی نہیں ملتی کہ حضرت علی ؑ نے کبھی کسی سے
کوئی آیت دریافت کی ہو، پس یہی معلوم ہوتا ہے کہ علی ؑ کا حفظ رسالتمآبؐ سے تھا
اور جمع حفظ سے تھی، اور بروایت سابقۂ تاریخ الخلفا۔۔۔ حضرت علی ؑ عہد رسالت سے
جامع بھی تھے اور حافظ بھی، لسانِ وحی ٔ ترجمان سے سن سن کر حفظ بھی کرتے رہتے اور
جمع بھی ہوتا رہا۔۔۔ اور ان کے متعلق جمع کی وہ روایت جس کی ابن حجر نے حفظ سے
تأویل کی ہے اُس سے مراد صرف ترتیب اجزا ٔ ہے اور بس۔
نتیجہ
جامع قرآن حضرت سالم نہیں بلکہ وہ تو ایسی
کسمپرسی کے عالم میں ہیں کہ اس سلسلہ میں ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا، حضرت علی
ؑ کے جامع قرآن تسلیم کرنے سے طبیعت گھبراتی ہے۔۔۔ حتی کہ لفظِ جمع کو حفظ سے
مووّل کر لیا جاتا ہے، گو حفظ خود بخود جمع کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ اگر تاویل کرنے
والا سوچتا تو قطعاً یہ تاویل نہ کرتا، کیونکہ جمع میں صرف ایک ہی فضیلت تھی اور
حفظ میں دو فضیلتوں کا اظہار ہوتا ہے جمع بھی اور حفظ بھی، پہلے جمع نہ ہو تو حفظ
لغو ہے۔
حضرت عثمان بھی جامع نہیں۔۔۔۔۔ کیونکہ بروایت حارث
محاسبی اور بتائید روایت بخاری تووہ تو صرف لوگوں کو ایک قرأت پر جمع کرنے والے
ہیں۔۔۔ قرآن اُن سے پہلے جمع تھا انہوںنے نقل کرا کے اور قرأت ایک کر کے اطراف
میں بھیج دئیے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی خود جامع نہیں بلکہ وہ تو صرف حکم
دینے والے ہیں۔۔۔ حکم دینا اور بات ہے اور عمل کرنا اور شئے ہے۔
اب رہا
زید۔۔۔ تو اس کے متعلق مستدرکِ حاکم کی روایت سنیے۔۔ جسے سیوطی نے الاتقان میں ذکر
کیا ہے:
٭ اَخْرَجَ
بِسَنَدٍ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ کُنَّا
عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ نُؤلّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرّقَاعِ۔
ترجمہ: حاکم نے ایسی سند سے روایت کی ہے کہ شرطِ
شیخین (بخاری و مسلم) کے موافق ہے، زید بن ثابت کہتا ہے کہ ہم جناب رسالتمآبؐ کے
پاس رہ کر قرآن شریف کو مختلف (چمڑے یا کاغذ)کے ٹکڑوں سے جمع کر لیا کرتے تھے۔
مطلب صاف یہی نکلا کہ قرآن مجید عہد رسالت میں
جمع ہو چکا تھا اور زید نے دوبارہ خلفائے وقت کے حکم سے انہیں نقل کر کے دے دیا،
گو بیہقی نے جامع قرآن کی اہمیت بڑھانے کے لئے اس روایت کی تأویل کر لی جو پہلے
ذکر ہو چکی ہے۔۔۔ لیکن واقعات اس تأویل کو قبول نہیں کرتے، اور جناب رسالتمآبؐ
کے دَور میں جمع کرنے والوں میں سے ایک حضرت علی ؑ بھی ہیں جسے تاریخ الخلفأ میں
ذکر کیا گیا ہے اور ان کے جمع شدہ قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ جمع کے بعد
حضورؐ نے اس کا ملاحظہ فرما لیا تھا، گویا آنحضرتؐ کا مصدِّقہ جمع شدہ قرآن تھا،
لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا ٔ پر حکومت نے اس کی ترویج مناسب نہ سمجھی اور نہ اس
معاملے میں حضرت علی ؑ کو شامل کرنا مناسب سمجھا!؟ اس تفصیل سے ایک طرف تو صحابہ
کا باہمی شِیر و شکر ہونا بھی ظاہر ہو گیا اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ ان سب میں سے
سوائے حضرت علی ؑ کے نہ کوئی حافظ قرآن تھا نہ کوئی جامع قرآن۔۔۔ بلکہ قرآن عہد
رسالت میں جمع شدہ تھا، حضرت علی ؑ اس کے حافظ بھی تھے اور جامع بھی تھے، پس جناب
رسالتمآبؐ کے فرمان کی تصدیق ہو گئی:
عَلِیٌّ
مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِی۔