اس باب میں۔۔۔۔ میں علامہ عبد الحسین امینی مدظلہ
کی عبارت کے اُردوترجمہ پراکتفاکرنا مناسب سمجھتاہوں، بعض مقامات پر حسب ضرورت اصل
عبارت کو نقل کردیا گیا ہے، بہر کیف ان کی تمام بیان کردہ تفصیلات کو من و عن نقل
کرنے کی بجائے اختصار کے پیش نظر ضروری حصہ کو ذکر کیا گیا ہے۔
چنانچہ علامہ موصوف نے الغدیر جلد پنجم میں لکھا ہے کہ حضرت امیرالمومنین ؑ، حضرت امام حسین ؑ اور ان کے شہزادے حضرت امام زین العابدین ؑ میں سے ہرایک کے متعلق نقل متضافرسے ثابت ہے کہ ہر شبانہ روزایک ہزاررکعت نمازپڑھا کرتے تھے اوراس پرتمام علمائے اسلام متفق رہے یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا دَور آیا تواس نے معصومین کے اس عمل پر اعتراض کیا اورطعن آور ہوا۔۔۔۔ اس کے اعتراض کے تین پہلو ہیں :
۱ - جو ایک شخص ایک ہزاررکعت کو ان کے لئے فضلیت قرراردے وہ جاہل ہے اس میں قطعاً کوئی فضیلت نہیں کیونکہ جناب رسالتمآبؐ رات کوتیرہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے اوردن کوبھی چند رکعاتِ مخصوصہ سے تجاوزنہیں فرماتے تھے اورتمام شب مصروف عبادت رہتے تھے اورنہ دن کو ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے تو دائمی طور پر ہمیشہ ہر رات کا عبادت میں بسر کرنا کیا فضیلت رکھتاہے؟ یہ چیز مستحب تودرکنار مکروہ ہے بلکہ خلافِ سنت رسول ہے۔
۲ - دن اوررات میں دیگر واجبات کے اداکرنے کے علاوہ خوردونوش کی ضروریات سے فراغت پانے کے بعد ایک ہزار رکعت نماز کا وقت کہا ںرہتا ہے؟ بہت تھوڑے وقت میں ایک ہزار رکعت کا سمانا محال ہے۔
۳ - ا گر بالفرض جلد بازی کے ساتھ وقت کے اندر اتنی نماز کو پورا کر بھی لیا جائے تو وہ نماز صرف ٹھونگے مارنے کے برابر ہو گی اس میں خشوع وخضوع کہاں ہوگا؟ اور بغیر خشوع وخضوع کے کسی عبادت کی کوئی قیمت نہیں۔
اختتام کلام پر کہا ۔۔۔۔ البتہ نماز تہجد کے ساتھ شب بیداری اورایک رکعت میں ختم قرآن حضرت عثمان کے متعلق ثابت ہے لہذا ان کا تہجد اورتلاوت قرآن غیروں سے زیادہ وزنی ہے (منہاج السنتہ لابنِ تیمیہ ج۲ ص ۱۱۹)
علامہ امینی نے متعددجوابات پیش کئے ہیں:
۱- قول رسولِ اکرمؐ
اہل سنت کی معتبر کتب ۔۔۔ حلیۃ الاولیا ٔ ج۱، کشف الخفا ٔ ج۲ ص ۳۰، مستدرک حاکم ج۲ سے منقول ہے:
(۱) اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ فَمَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ یَسْتَکْثِرَ فَلْیَسْتَکْثِرْ۔
ترجمہ: نماز اچھا موضوع ہے جو جس قدر زیادہ پڑھ سکے پڑھے۔
(۲) اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ مَنْ شَائَ اَقَلَّ وَ مَنْ شَائَ اَکْثَرَ۔
ترجمہ: نماز اچھا موضوع ہے جوچاہے تھوڑی پڑھے اور جو چاہے زیادہ پڑھے۔
(۳) یَا اَنس۔۔۔ اَکْثِرِ الصَّلٰوۃَ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَار۔
ترجمہ: اے انس۔۔۔ نماز رات اور دن زیادہ پڑھی کرو۔
(۴) مَنْ اَکْثَرَ صَلٰوتَۃُ بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْھُہُ بِاالنَّھَار۔
ترجمہ: جو شخص رات کو زیادہ نماز پڑھے گا دن کو اس کا چہرہ زیادہ خوبصورت ہوگا۔
۲- فعل رسولِ اکرمؐ
(۱) صَحّ عَنِ الْبُخَارِیْ وَ الْمُسْلِم اِنَّہُ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ حَتّٰی تَنْفَظِرُ قَدَمَاہُ۔
ترجمہ: بخاری مسلم سے صحیح منقول ہے کہ حضورؐ رات کو اس قدر نماز میں قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک پھول جاتے تھے۔
(۲) وَ فِیْ رِوَایَۃٍ لَھُمَا وَالتِّرْمِذِیْ اَنْ کَانَ النَّبِیُّ لَیَقُوْمَ اَوْلَیُصَلِّیْ حَتّٰی تَرِمَ قَدَمَاہُ اَوْسَاقَاہُ۔
ترجمہ: بخاری و مسلم و ترمذی کی روایت میںہے کہ آپ ؐ نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ قدم (پنڈلیاں) ورم زدہ ہو جایا کرتی تھیں۔
۳- فعل اکابرِ اہل سنت
اہل سنت کے امام اعظم کے متعلق شیخ عبد الحی حنفی نے کتا ب اقامۃ الحجہ ص۹ پر لکھا ہے کہ وہ ہر رات تین سو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، پس ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں سنا ایک عورت دوسری سے کہہ رہی تھی کہ یہ شخص ہر رات پانچ سو رکعت نماز پڑھا کرتا ہے امام صاحب نے سن لیا اور اس کے بعد ہر رات پانچ سور رکعت کا پڑھنا شروع کر دیا پھر ایک دفعہ لڑکوں سے ایک دوسرے کو کہتے سنا کہ یہ شخص ہر رات ایک ہزار رکعت پڑھتا ہے اور سوتا نہیں پس اس کے بعد انہوںنے ایک ہزار رکعت کا پڑھنا شروع کر دیا اور راتوں کو سونا چھوڑ دیا۔
اسی طرح روض الاخبار ج۱ص۹ میں رابعہ بصریہ کا ہر شب ایک ہزار رکعت پڑھنا مذکور ہے، روضۃ الناظرین ص۴ میں حسن بصری کے متعلق ہے وہ چالیس برس برابر صبح کی نماز۔۔۔ عشأ کے وضو سے پڑھتے رہے، مناقب ابوحنیفہ۔۔۔ خوازرمی ج۱ص۲۳۲ میں ابوحنیفہ کا چالیس سال تک عشا ٔ کے وضو سے صبح کی نماز پڑھنا مذکور ہے۔
۴- معنی سنت
مستدرک حاکم میں جناب رسالتمآبؐ کا فرمان موجود ہے:
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْن۔
تمہارے اوپر میری اور میرے خلفا کی سنت پر چلنا ضروری ہے۔
نیز ماہِ رمضان میں تراویح کی سنت عمر نے جاری کی ۱۴ ھ میں، (اس سے پہلے ابو بکر اور جناب رسالتمآبؐ کے زمانہ میں نہیں تھیں) اہل سنت کی کتب صحاح میں یہ چیز مسلّم ہے اور سیوطی نے اسے اولیاتِ عمر میں لکھا ہے۔
خلاصۃ الکلام: علامہ امینی نے پہلے اعتراض کا جواب پہلے قول رسولؐ سے دیا کہ حضوؐر کا فرمان بذریعہ تواتر منقول ہے کہ فرمایا کرتے تھے نماز اچھا موضوع ہے جو جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے، پھر خود حضوؐر کا عمل پیش کیا کہ وہ بنفس و نفیس ہر شب اس قدر مصروفِ نماز رہتے تھے کہ پائوںمبارک پرورم آجایاکرتے تھے، اس کے بعداکا برِ اہل سنت مثلاًابو حنیفہ وغیرہ کی لمبی لمبی نمازوں کوپیش کیا اوران بزرگو ں کی ایک لمبی فہرست قائم کردی میں نے اختصار کے پیش نظر ترک کردی ہے ان کے عمل کو کسی نے خلاف سنت قرارنہیں دیا، آخر میں سنت کا معنی کی وضاحت کر دی کہ خلفا ٔ راشدین کی سنت بھی سنت ہے تو حضرت علی ؑ کا فعل کیوں خلافِ سنت قرار پایا؟
اقوال: عام دستور ہے کہ جس سے رشتہ محبت قائم ہوجاتا ہے اس کا ہر قول وفعل محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، چنانچہ مشہور مقولہ ہے ’’ حُبُّ الشَّیْیئِ یُعْمٰی وَیُصَم‘‘ کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا وبہرہ کردیتی ہے اورجس سے نفرت یا عداوت ہو اس کا ہر قول وفعل بھی نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، محبت کی صورت میں محبوب کے صاف وصریح طورپر غلط افعال تاویل کے قابل قراردیے جاتے ہیں اورانکو بہر کیف اچھائی پرہی محمول کیا جاتاہے اور نفرت کی صورت میں جس سے نفرت ہواس کے اچھے کردارمیں جرح وقدح کے راستے تلاش کر کے ہر ممکن طریقے سے اُسے بد نما ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حضرت امیر المومنین ؑ اوران کی اولاد طاہرین کے ساتھ دشمنان اہل بیت کا بعینہٖ یہی رویہ ابتدأسے آج تک چلا آیا ہے، مقام زیر بحث میں نہ حضرت رسالتمآبؐ کے ارشاداتِ عالیہ کی پرواہ ہے اورنہ آنحضرت کا ذاتی کردار پیش نظر ہے یہ صرف اس لئے کہ حضرت علی ؑکی یہ منقبت کسی طریقہ پربدعت کے رنگ میں پیش ہو۔۔۔ تاکہ اُن کی فضیلت کا ڈنکا جو چہار دانگ ِ عالم میں بج رہاہے کسی طرح مدھم پڑجائے۔۔۔ لیکن
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہواکرے وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خداکرے
حیرت یہ کہ صرف حضرت علی ؑ کی تنقیص شان کے لئے جناب رسالتمآب کی عبادتِ شب کو صرف تیرہ رکعت میں منحصر کردیا؟ حالانکہ کتب صحاح میں ان کا بکثرت عبادت کرنا موجود ہے حتی کہ قدم مبارک ورم کرجاتے تھے اورخداوندکریم کی طرف سے بھی عبادت کے کم کرنے کا حکم آ گیا۔۔۔ ارشاد ہوا کہ رات کو قیام تھوڑا کردو میں نے قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑجائو اورپھر اپنے اکا بر کے متعلق جو کچھ کوئی نقل کردے اس پر کوئی اعتراض نہیں اور یہ صرف اس لیے کہ وہ اپنے ہیں اوران سے رشتہ محبت قائم ہے پس نہ ان کا فعل خلاف سنت اوربد عت ہے نہ محال بھی اورمنافی حضوع بھی اگروجہ فرق پرغور کیا جائے تو صرف یہی ہے کہ چونکہ ان سے محبت ہے لہذا اُن کا کوئی فعل قابل جرح نہیں اوران سے چونکہ عداوت ہے لہذاان کا ہر عمل وفعل قابل جرح ہے۔
علاوہ ازیں اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ کا قول وفعل سنت کی حیثیت رکھتاہے خصوصاً خلفائے راشدین کا قول وفعل یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے مقام پر تمام صحابہ کا کردار بطور حجیت کے پیش ہواکرتاہے لیکن حضرت علی ؑ کے فعل کو بدعت کہتے ہوئے نہ ان کی صحابیت کا لحاظ اورنہ خلا فت کا خیال ہے یہ عداوت نہیں توکیا ہے؟ ابن تیمیہ کے اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ایک ہزاررکعت شب وروز میں نا ممکن ہے اس کے متعلق علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ عدم امکان کا دعویٰ صرف طبیعت کی سستی اور عبادت کی طرف عدم رغبت کی وجہ سے ہے کیو نکہ جس نے عمر بھر عبادت سے دلچسپی نہ لی ہو عاملین کے عمل اور عابدین کی عبادت سے دُور تک کا واسطہ بھی نہ ہو وہ ایسی وہ ایسی باتوں کو سن کرناممکن کہہ دیتاہے لیکن جس نے اطاعت خداکی شیرینی کا ذائقہ چکھ لیا ہو اورعبادت کی لذات سے بہرہ اندوز ہوچکا ہو اس کے لیے یہ باتیں عام عادی معلوم ہوتی ہیں نہ ان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ انہیں مشکل محسوس ہوتاہے اس کے بعد علامہ امینی نے اکابراہل سنت کے اَوراد اور وظائف کو شمارکرتے ہوئے ایک طویل فہرست قائم کردی جن سے ایک ایک کے متعینہ وظیفہ اور وِرد کا اگر جائزہ لیا جائے تو حضرت علی ؑ اور ان کی اولادِ امجد کی ایک ہزار رکعت کے اندازہ سے کہیں زیادہ پڑھتا ہے اور با ایں ہمہ ان کے اس فعل کو نہ کسی نے بدعت کہا اور نہ محال اور نہ منافی خشوع!
مثلاً ابوحنیفہ کے متعلق مناقب خوارزمی سے نقل کیا کہ جب وہ نماز جمعہ کے لئے آتے تو قبل از نماز جمعہ بیس رکعت نماز پڑھتے تھے جن میں قرآن ختم کیا کرتے تھے، حلیۃ الاولیا ج اوّل سے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رات کی نماز میں ایک رکعت کے اندر قرآن ختم کیا کرتے تھے، مناقب ابوحنیفہ للقاری سے نقل کیا ہے کہ تیس سال متواتر ہر رات انہوں نے ایک رکعت میں قرآن ختم کیا، ان سے بھی بہت بلند پروازیاں کی گئیں حتی کہ بعض کے متعلق لکھا ہے کہ ایک طواف بیت اللہ یا اس کے بھی ایک ہی چکر میں پورا قرآن ختم کیا کرتے تھے اور بعض کے متعلق شب و روز میں ستر ہزار قرآن ختم کرنا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔۔ علی ہذا القیاس
ان خرافات کے نقل کرنے والے ان کو فیض ربانی اور عنایت رحمانی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آل محمد کیلئے ان کی توجیہات کا دروازہ بالکل بند ہے، علامہ موصوف نے حضرت علی ؑ کی نماز کا اُنکے وظایف سے یوں موازنہ کیا ہے:
فرماتے ہیں کہ ایک ہزار رکعت نماز کے کل کلمات تراسی (۸۳) ہزار بنتے ہیں کیونکہ پہلی رکعت میں بطریق نماز شیعہ تکبیرۃ الاحرام سے لے کر آخری سجدہ تک انہتر (۶۹) کلمات ہیں تو ہزار رکعت میں انہتر (۶۹) ہزار ہوئے، لیکن ہر دوسری رکعت تکبیرۃ الاحرام سے خالی ہوا کرتی ہے لہذا ایک ہزار کلمہ کم ہو گیا تو اڑسٹھ (۶۸) ہزار کلمات ہو گئے اور ہر دوسری رکعت میں تیس کلمات تشہد و سلام کے ملانے سے پندرہ (۱۵) ہزار کلمات کا اضافہ ہو گیا کل تراسی (۸۳) ہزار کلمات ہوئے، اس کے مقابلہ میں قرآن کے کلمات کی تعداد ستتر ہزار نو سو تینتالیس (۷۷۹۴۳) ہے، لہذا ایک ہزار رکعت کے کل کلمات سے پانچ ہزار ستاون (۵۰۵۷) زیادہ ہوئے، اندازہ فرمائیے جن سے محبت ہے ان کی ایک رکعت میں جو بعض حصہ شب یا روز میں ادا ہوں دیگر اذکارِ واجبہ و مستحبہ کے علاوہ ستتر ہزار نو سو تنتالیس (۷۷۹۴۳) کلمات کی گنجائش ہے اور یہ نہ محال ہے اور نہ خلافِ سنت رسول ہے اور نہ منافی خشوع و خضوع ہے اور جن سے عداوت ہے ان کیلئے دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں (۸۳۰۰۰) کلمات کی گنجائش نہیں، اس سے زیادہ کج بحثی اور بے راہ روی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھانکنے کیلئے کہتے ہیں کہ ہمیں اہل بیت ؑ سے بڑی محبت ہے ۔۔۔۔وَاللّٰہُ خَیْرُ الْحَاکِمِیْن
نیز ابن تیمیہ نے اختتام کلام پر جو حضرت عثمان کا نماز تہجد کی ایک رکعت میں ختم قرآن کا دعویٰ کیا ہے اُسے حضرت علی ؑ کی دشمنی نے یہ سوچنے ہی نہیں دیا کہ جو تین اعتراضات حضرت علی ؑ اور ان کی اولاد کی عبادت پر وارد کئے تھے وہی یہاں پر بھی وارد ہیں کیونکہ یہ عمل نہ تو سنت رسول ہے اسلئے کہ انہوں نے کبھی ایک رکعت میں ختم قرآن نہیں کیا تھا اور نہ ممکن ہے کیونکہ یہ رکعت یا تو مغرب و عشا کے درمیان ہو گی اور یا عشا اور صبح کے درمیان ہو گی ہر دو صورت میں نطاق وقت سے عمل زیادہ ہے اور بالفرض وقوع بحالت تیز رفتاری خشوع و خضوع نہ ہوگا لہذا پڑھنا بے فائدہ۔
علاوہ ازایں غزالی نے احیاء ُ العلوم اور نازلی نے خزینۃُ الاسرار میں عثمان کا شمار اُن صحابہ سے کیا ہے جو ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرتے تھے۔
نیز صحیح بخاری و مسلم میں بروایت عبداللہ بن عمر جناب رسالتمآبؐ نے ایک ہفتہ سے زیادہ جلدی قرآن ختم کرنے سے منع فرمایا ہے (جامع قرآن اور جمع قرآن میں اختلاف کی ابحاث میں تفصیلاً ثابت ہو گا کہ حضرت عثمان حافظ قرآن نہیں تھے، پھر جب وہ حافظ ہی نہیں تھے تو ایک رکعت میں ختم قرآن کا دعویٰ کیا معنی رکھتا ہے؟)
چنانچہ علامہ موصوف نے الغدیر جلد پنجم میں لکھا ہے کہ حضرت امیرالمومنین ؑ، حضرت امام حسین ؑ اور ان کے شہزادے حضرت امام زین العابدین ؑ میں سے ہرایک کے متعلق نقل متضافرسے ثابت ہے کہ ہر شبانہ روزایک ہزاررکعت نمازپڑھا کرتے تھے اوراس پرتمام علمائے اسلام متفق رہے یہاں تک کہ ابن تیمیہ کا دَور آیا تواس نے معصومین کے اس عمل پر اعتراض کیا اورطعن آور ہوا۔۔۔۔ اس کے اعتراض کے تین پہلو ہیں :
۱ - جو ایک شخص ایک ہزاررکعت کو ان کے لئے فضلیت قرراردے وہ جاہل ہے اس میں قطعاً کوئی فضیلت نہیں کیونکہ جناب رسالتمآبؐ رات کوتیرہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے اوردن کوبھی چند رکعاتِ مخصوصہ سے تجاوزنہیں فرماتے تھے اورتمام شب مصروف عبادت رہتے تھے اورنہ دن کو ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے تو دائمی طور پر ہمیشہ ہر رات کا عبادت میں بسر کرنا کیا فضیلت رکھتاہے؟ یہ چیز مستحب تودرکنار مکروہ ہے بلکہ خلافِ سنت رسول ہے۔
۲ - دن اوررات میں دیگر واجبات کے اداکرنے کے علاوہ خوردونوش کی ضروریات سے فراغت پانے کے بعد ایک ہزار رکعت نماز کا وقت کہا ںرہتا ہے؟ بہت تھوڑے وقت میں ایک ہزار رکعت کا سمانا محال ہے۔
۳ - ا گر بالفرض جلد بازی کے ساتھ وقت کے اندر اتنی نماز کو پورا کر بھی لیا جائے تو وہ نماز صرف ٹھونگے مارنے کے برابر ہو گی اس میں خشوع وخضوع کہاں ہوگا؟ اور بغیر خشوع وخضوع کے کسی عبادت کی کوئی قیمت نہیں۔
اختتام کلام پر کہا ۔۔۔۔ البتہ نماز تہجد کے ساتھ شب بیداری اورایک رکعت میں ختم قرآن حضرت عثمان کے متعلق ثابت ہے لہذا ان کا تہجد اورتلاوت قرآن غیروں سے زیادہ وزنی ہے (منہاج السنتہ لابنِ تیمیہ ج۲ ص ۱۱۹)
علامہ امینی نے متعددجوابات پیش کئے ہیں:
۱- قول رسولِ اکرمؐ
اہل سنت کی معتبر کتب ۔۔۔ حلیۃ الاولیا ٔ ج۱، کشف الخفا ٔ ج۲ ص ۳۰، مستدرک حاکم ج۲ سے منقول ہے:
(۱) اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ فَمَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ یَسْتَکْثِرَ فَلْیَسْتَکْثِرْ۔
ترجمہ: نماز اچھا موضوع ہے جو جس قدر زیادہ پڑھ سکے پڑھے۔
(۲) اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ مَنْ شَائَ اَقَلَّ وَ مَنْ شَائَ اَکْثَرَ۔
ترجمہ: نماز اچھا موضوع ہے جوچاہے تھوڑی پڑھے اور جو چاہے زیادہ پڑھے۔
(۳) یَا اَنس۔۔۔ اَکْثِرِ الصَّلٰوۃَ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَار۔
ترجمہ: اے انس۔۔۔ نماز رات اور دن زیادہ پڑھی کرو۔
(۴) مَنْ اَکْثَرَ صَلٰوتَۃُ بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْھُہُ بِاالنَّھَار۔
ترجمہ: جو شخص رات کو زیادہ نماز پڑھے گا دن کو اس کا چہرہ زیادہ خوبصورت ہوگا۔
۲- فعل رسولِ اکرمؐ
(۱) صَحّ عَنِ الْبُخَارِیْ وَ الْمُسْلِم اِنَّہُ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ حَتّٰی تَنْفَظِرُ قَدَمَاہُ۔
ترجمہ: بخاری مسلم سے صحیح منقول ہے کہ حضورؐ رات کو اس قدر نماز میں قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک پھول جاتے تھے۔
(۲) وَ فِیْ رِوَایَۃٍ لَھُمَا وَالتِّرْمِذِیْ اَنْ کَانَ النَّبِیُّ لَیَقُوْمَ اَوْلَیُصَلِّیْ حَتّٰی تَرِمَ قَدَمَاہُ اَوْسَاقَاہُ۔
ترجمہ: بخاری و مسلم و ترمذی کی روایت میںہے کہ آپ ؐ نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ قدم (پنڈلیاں) ورم زدہ ہو جایا کرتی تھیں۔
۳- فعل اکابرِ اہل سنت
اہل سنت کے امام اعظم کے متعلق شیخ عبد الحی حنفی نے کتا ب اقامۃ الحجہ ص۹ پر لکھا ہے کہ وہ ہر رات تین سو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، پس ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں سنا ایک عورت دوسری سے کہہ رہی تھی کہ یہ شخص ہر رات پانچ سو رکعت نماز پڑھا کرتا ہے امام صاحب نے سن لیا اور اس کے بعد ہر رات پانچ سور رکعت کا پڑھنا شروع کر دیا پھر ایک دفعہ لڑکوں سے ایک دوسرے کو کہتے سنا کہ یہ شخص ہر رات ایک ہزار رکعت پڑھتا ہے اور سوتا نہیں پس اس کے بعد انہوںنے ایک ہزار رکعت کا پڑھنا شروع کر دیا اور راتوں کو سونا چھوڑ دیا۔
اسی طرح روض الاخبار ج۱ص۹ میں رابعہ بصریہ کا ہر شب ایک ہزار رکعت پڑھنا مذکور ہے، روضۃ الناظرین ص۴ میں حسن بصری کے متعلق ہے وہ چالیس برس برابر صبح کی نماز۔۔۔ عشأ کے وضو سے پڑھتے رہے، مناقب ابوحنیفہ۔۔۔ خوازرمی ج۱ص۲۳۲ میں ابوحنیفہ کا چالیس سال تک عشا ٔ کے وضو سے صبح کی نماز پڑھنا مذکور ہے۔
۴- معنی سنت
مستدرک حاکم میں جناب رسالتمآبؐ کا فرمان موجود ہے:
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْن۔
تمہارے اوپر میری اور میرے خلفا کی سنت پر چلنا ضروری ہے۔
نیز ماہِ رمضان میں تراویح کی سنت عمر نے جاری کی ۱۴ ھ میں، (اس سے پہلے ابو بکر اور جناب رسالتمآبؐ کے زمانہ میں نہیں تھیں) اہل سنت کی کتب صحاح میں یہ چیز مسلّم ہے اور سیوطی نے اسے اولیاتِ عمر میں لکھا ہے۔
خلاصۃ الکلام: علامہ امینی نے پہلے اعتراض کا جواب پہلے قول رسولؐ سے دیا کہ حضوؐر کا فرمان بذریعہ تواتر منقول ہے کہ فرمایا کرتے تھے نماز اچھا موضوع ہے جو جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے، پھر خود حضوؐر کا عمل پیش کیا کہ وہ بنفس و نفیس ہر شب اس قدر مصروفِ نماز رہتے تھے کہ پائوںمبارک پرورم آجایاکرتے تھے، اس کے بعداکا برِ اہل سنت مثلاًابو حنیفہ وغیرہ کی لمبی لمبی نمازوں کوپیش کیا اوران بزرگو ں کی ایک لمبی فہرست قائم کردی میں نے اختصار کے پیش نظر ترک کردی ہے ان کے عمل کو کسی نے خلاف سنت قرارنہیں دیا، آخر میں سنت کا معنی کی وضاحت کر دی کہ خلفا ٔ راشدین کی سنت بھی سنت ہے تو حضرت علی ؑ کا فعل کیوں خلافِ سنت قرار پایا؟
اقوال: عام دستور ہے کہ جس سے رشتہ محبت قائم ہوجاتا ہے اس کا ہر قول وفعل محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، چنانچہ مشہور مقولہ ہے ’’ حُبُّ الشَّیْیئِ یُعْمٰی وَیُصَم‘‘ کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا وبہرہ کردیتی ہے اورجس سے نفرت یا عداوت ہو اس کا ہر قول وفعل بھی نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، محبت کی صورت میں محبوب کے صاف وصریح طورپر غلط افعال تاویل کے قابل قراردیے جاتے ہیں اورانکو بہر کیف اچھائی پرہی محمول کیا جاتاہے اور نفرت کی صورت میں جس سے نفرت ہواس کے اچھے کردارمیں جرح وقدح کے راستے تلاش کر کے ہر ممکن طریقے سے اُسے بد نما ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حضرت امیر المومنین ؑ اوران کی اولاد طاہرین کے ساتھ دشمنان اہل بیت کا بعینہٖ یہی رویہ ابتدأسے آج تک چلا آیا ہے، مقام زیر بحث میں نہ حضرت رسالتمآبؐ کے ارشاداتِ عالیہ کی پرواہ ہے اورنہ آنحضرت کا ذاتی کردار پیش نظر ہے یہ صرف اس لئے کہ حضرت علی ؑکی یہ منقبت کسی طریقہ پربدعت کے رنگ میں پیش ہو۔۔۔ تاکہ اُن کی فضیلت کا ڈنکا جو چہار دانگ ِ عالم میں بج رہاہے کسی طرح مدھم پڑجائے۔۔۔ لیکن
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہواکرے وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خداکرے
حیرت یہ کہ صرف حضرت علی ؑ کی تنقیص شان کے لئے جناب رسالتمآب کی عبادتِ شب کو صرف تیرہ رکعت میں منحصر کردیا؟ حالانکہ کتب صحاح میں ان کا بکثرت عبادت کرنا موجود ہے حتی کہ قدم مبارک ورم کرجاتے تھے اورخداوندکریم کی طرف سے بھی عبادت کے کم کرنے کا حکم آ گیا۔۔۔ ارشاد ہوا کہ رات کو قیام تھوڑا کردو میں نے قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑجائو اورپھر اپنے اکا بر کے متعلق جو کچھ کوئی نقل کردے اس پر کوئی اعتراض نہیں اور یہ صرف اس لیے کہ وہ اپنے ہیں اوران سے رشتہ محبت قائم ہے پس نہ ان کا فعل خلاف سنت اوربد عت ہے نہ محال بھی اورمنافی حضوع بھی اگروجہ فرق پرغور کیا جائے تو صرف یہی ہے کہ چونکہ ان سے محبت ہے لہذا اُن کا کوئی فعل قابل جرح نہیں اوران سے چونکہ عداوت ہے لہذاان کا ہر عمل وفعل قابل جرح ہے۔
علاوہ ازیں اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ کا قول وفعل سنت کی حیثیت رکھتاہے خصوصاً خلفائے راشدین کا قول وفعل یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے مقام پر تمام صحابہ کا کردار بطور حجیت کے پیش ہواکرتاہے لیکن حضرت علی ؑ کے فعل کو بدعت کہتے ہوئے نہ ان کی صحابیت کا لحاظ اورنہ خلا فت کا خیال ہے یہ عداوت نہیں توکیا ہے؟ ابن تیمیہ کے اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ایک ہزاررکعت شب وروز میں نا ممکن ہے اس کے متعلق علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ عدم امکان کا دعویٰ صرف طبیعت کی سستی اور عبادت کی طرف عدم رغبت کی وجہ سے ہے کیو نکہ جس نے عمر بھر عبادت سے دلچسپی نہ لی ہو عاملین کے عمل اور عابدین کی عبادت سے دُور تک کا واسطہ بھی نہ ہو وہ ایسی وہ ایسی باتوں کو سن کرناممکن کہہ دیتاہے لیکن جس نے اطاعت خداکی شیرینی کا ذائقہ چکھ لیا ہو اورعبادت کی لذات سے بہرہ اندوز ہوچکا ہو اس کے لیے یہ باتیں عام عادی معلوم ہوتی ہیں نہ ان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ انہیں مشکل محسوس ہوتاہے اس کے بعد علامہ امینی نے اکابراہل سنت کے اَوراد اور وظائف کو شمارکرتے ہوئے ایک طویل فہرست قائم کردی جن سے ایک ایک کے متعینہ وظیفہ اور وِرد کا اگر جائزہ لیا جائے تو حضرت علی ؑ اور ان کی اولادِ امجد کی ایک ہزار رکعت کے اندازہ سے کہیں زیادہ پڑھتا ہے اور با ایں ہمہ ان کے اس فعل کو نہ کسی نے بدعت کہا اور نہ محال اور نہ منافی خشوع!
مثلاً ابوحنیفہ کے متعلق مناقب خوارزمی سے نقل کیا کہ جب وہ نماز جمعہ کے لئے آتے تو قبل از نماز جمعہ بیس رکعت نماز پڑھتے تھے جن میں قرآن ختم کیا کرتے تھے، حلیۃ الاولیا ج اوّل سے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رات کی نماز میں ایک رکعت کے اندر قرآن ختم کیا کرتے تھے، مناقب ابوحنیفہ للقاری سے نقل کیا ہے کہ تیس سال متواتر ہر رات انہوں نے ایک رکعت میں قرآن ختم کیا، ان سے بھی بہت بلند پروازیاں کی گئیں حتی کہ بعض کے متعلق لکھا ہے کہ ایک طواف بیت اللہ یا اس کے بھی ایک ہی چکر میں پورا قرآن ختم کیا کرتے تھے اور بعض کے متعلق شب و روز میں ستر ہزار قرآن ختم کرنا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔۔ علی ہذا القیاس
ان خرافات کے نقل کرنے والے ان کو فیض ربانی اور عنایت رحمانی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آل محمد کیلئے ان کی توجیہات کا دروازہ بالکل بند ہے، علامہ موصوف نے حضرت علی ؑ کی نماز کا اُنکے وظایف سے یوں موازنہ کیا ہے:
فرماتے ہیں کہ ایک ہزار رکعت نماز کے کل کلمات تراسی (۸۳) ہزار بنتے ہیں کیونکہ پہلی رکعت میں بطریق نماز شیعہ تکبیرۃ الاحرام سے لے کر آخری سجدہ تک انہتر (۶۹) کلمات ہیں تو ہزار رکعت میں انہتر (۶۹) ہزار ہوئے، لیکن ہر دوسری رکعت تکبیرۃ الاحرام سے خالی ہوا کرتی ہے لہذا ایک ہزار کلمہ کم ہو گیا تو اڑسٹھ (۶۸) ہزار کلمات ہو گئے اور ہر دوسری رکعت میں تیس کلمات تشہد و سلام کے ملانے سے پندرہ (۱۵) ہزار کلمات کا اضافہ ہو گیا کل تراسی (۸۳) ہزار کلمات ہوئے، اس کے مقابلہ میں قرآن کے کلمات کی تعداد ستتر ہزار نو سو تینتالیس (۷۷۹۴۳) ہے، لہذا ایک ہزار رکعت کے کل کلمات سے پانچ ہزار ستاون (۵۰۵۷) زیادہ ہوئے، اندازہ فرمائیے جن سے محبت ہے ان کی ایک رکعت میں جو بعض حصہ شب یا روز میں ادا ہوں دیگر اذکارِ واجبہ و مستحبہ کے علاوہ ستتر ہزار نو سو تنتالیس (۷۷۹۴۳) کلمات کی گنجائش ہے اور یہ نہ محال ہے اور نہ خلافِ سنت رسول ہے اور نہ منافی خشوع و خضوع ہے اور جن سے عداوت ہے ان کیلئے دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں (۸۳۰۰۰) کلمات کی گنجائش نہیں، اس سے زیادہ کج بحثی اور بے راہ روی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھانکنے کیلئے کہتے ہیں کہ ہمیں اہل بیت ؑ سے بڑی محبت ہے ۔۔۔۔وَاللّٰہُ خَیْرُ الْحَاکِمِیْن
نیز ابن تیمیہ نے اختتام کلام پر جو حضرت عثمان کا نماز تہجد کی ایک رکعت میں ختم قرآن کا دعویٰ کیا ہے اُسے حضرت علی ؑ کی دشمنی نے یہ سوچنے ہی نہیں دیا کہ جو تین اعتراضات حضرت علی ؑ اور ان کی اولاد کی عبادت پر وارد کئے تھے وہی یہاں پر بھی وارد ہیں کیونکہ یہ عمل نہ تو سنت رسول ہے اسلئے کہ انہوں نے کبھی ایک رکعت میں ختم قرآن نہیں کیا تھا اور نہ ممکن ہے کیونکہ یہ رکعت یا تو مغرب و عشا کے درمیان ہو گی اور یا عشا اور صبح کے درمیان ہو گی ہر دو صورت میں نطاق وقت سے عمل زیادہ ہے اور بالفرض وقوع بحالت تیز رفتاری خشوع و خضوع نہ ہوگا لہذا پڑھنا بے فائدہ۔
علاوہ ازایں غزالی نے احیاء ُ العلوم اور نازلی نے خزینۃُ الاسرار میں عثمان کا شمار اُن صحابہ سے کیا ہے جو ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرتے تھے۔
نیز صحیح بخاری و مسلم میں بروایت عبداللہ بن عمر جناب رسالتمآبؐ نے ایک ہفتہ سے زیادہ جلدی قرآن ختم کرنے سے منع فرمایا ہے (جامع قرآن اور جمع قرآن میں اختلاف کی ابحاث میں تفصیلاً ثابت ہو گا کہ حضرت عثمان حافظ قرآن نہیں تھے، پھر جب وہ حافظ ہی نہیں تھے تو ایک رکعت میں ختم قرآن کا دعویٰ کیا معنی رکھتا ہے؟)