اس میں کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں کہ
دین اسلام کی اصل و اساس قرآن مجید ہی ہے اور جناب رسالتمآبؐ اور آئمہ طاہرین
علیہم افضل الصلاۃ والسلام کی احادیث شریفہ بھی گو شریعت ِ اسلامی میں بنیادی
حیثیت کی حامل ہیں، لیکن وہ اس لئے کہ ان کی زبانِ حق ترجمان قرآن کریم ہی کا
بیان تھی اور یہی وجہ ہے کہ جب کسی معصوم ؑ سے اپنے بیان کی صداقت پیش کرنے کیلئے
دلیل طلب کی جاتی تھی تو آپ ؑ بلا تامّل و تاخیرقرآن مجید کی آیات ِمتعلقہ (جن
کا تعلق معصوم ؑکے بیان سے ہوتا تھا) کو بطورِ استشہاد پڑھ دیا کرتے تھے اور جس
مقام پرسامعین کو معصوم ؑ کے کسی بیان کا مطابق قرآن ہونا معلوم ہوتا تھا تو
خاموشی سے ارشادات ِمعصوم ؑ کی سماعت کرتے تھے۔
اسی بنأ پر تو معصوم ؑ نے خود بارہا ارشاد
فرمایا: ہماری احادیث میں سے جو مطابق قرآن نہ ہو اسے دیوار پر مارو وہ ہماری
نہیں بلکہ ہماری طرف منسوب کر دی گئی ہے اور جو حدیث قرآن کے مطابق ہو وہ لے لو
کیونکہ ہماری ہے، گویا اہل بیت ؑ عصمت سے واردشدہ احادیث میں سے کوئی حدیث بھی
ایسی نہیں جو مضمونِ قرآن کے خلاف ہو، یہ اور بات ہے کہ کسی مقام پر حدیث معصوم ؑ
کے مطابق شاہد ِقرآنی پیش کرنے سے ہم قاصر ہو جائیں کیونکہ یہ ہماری کوتاہ علمی
اور نافہمی کی دلیل ہے اس سے اہل بیت ؑ کے کلام کا خلاف ِقرآن ہونا لازم نہیں
آتا، چنانچہ ان کا قرآن کے ساتھ ہونا اور قرآن کا ان کے ساتھ ہونا حدیث ِثقلین
اور دیگر احادیث ِنبویہ سے ظاہر اور واضح ہے، بہر کیف مطالب دینیہ اور علوم
اسلامیہ کا مدار اور اصل واساس قرآن مجید ہی ہے، تو نہایت حیرت و افسوس کا مقام
ہے کہ دورِ حاضر میں علوم قرآنیہ سے دلچسپی ختم ہو گئی ہے حتی کہ اس دور کے مد
ارسِ دینیہ بھی اس نعمت ِعظمیٰ سے محروم ہیں۔
قرآن کو
سمجھنے کیلئے جن علوم کو مقدمہ قرار دیا گیا ہے مدارس دینیہ میں وہی مقصود با لذات
قرار دیئے گئے، زندگی کا قیمتی اور اہم ترین حصہ مقدمات کی تحصیل میں خرچ کر دیا
جاتا ہے اور علوم قرآنیہ کو مطالعہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس پر کوئی صاحب ِ ہمت
بمشکل ہی موفق ہو سکتا ہے اور سلسلہ تصنیف و تالیف بھی اس گوہر مراد سے خالی و
یکسر بیگانہ ہی ہے۔
حالانکہ خدا وندکریم نے اپنی مقدّس کتاب میں متعدد
مقامات پر انسان کو آیاتِ قرآنیہ میں تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے اور حضرت رسا
لتمآبؐ نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کو اہل بیت ؑ اور قرآن ہر دو کے دامن سے وابستگی
کی تاکید کا حکم فرما کر ان دونوں کی اہمیت کو اور زیادہ اُجاگر کیا ہے، آئمہ
طاہرین ؑ سے بکثرت احادیث وارد ہیں جن میں قرآن میں غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے
لیکن موجودہ دور کی اُفتاد طبع اس سے یکسو ہے، تمام اقوال و فرامین طاق نسیان کی
زینت ہیں اتنی غفلت شعاری اور پہلو تہی کہ توجہ و التفات تک نہیں؟ اور یہی وجہ ہے
کہ مدارسِ دینیہ کے اکثر فارغ التحصیل فضلا بعض آیاتِ قرآنیہ کا صحیح ترجمہ بھی
نہیں کر سکتے!؟ ہمارے کج مج عربی دان حضرات اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں
مولوی یا عالم کہا جائے اور انتہائی خوشی ہوتی ہے جب ان کو نائب ِامام کے مقدّس
لفظ سے نسبت دی جائے اور اگر کوئی اس قسم کے خطابات کو مجلس مکالمہ میں ترک کر دے
تو دل میںخفگی اور کڑھن سی پیدا ہوتی لیکن اپنے گریبان میں قطعا ًدھیان نہیں دیا
جاتا کہ آیا میں ان خطابات کااہل بھی ہوں یا نہیں؟
ہمارے عوام کا نظریہ تو اس قدر پست ہے کہ معمولی
سے معمولی تعلیم یافتہ کو وہ عالم کہہ دیا کرتے ہیں ان بیچاروں کی معرفت ہی اسی
قدر ہے، لیکن جس کو عالم کہا جاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ خجالت محسوس کرتااور
آئندہ کیلئے لوگوں کو اس قسم کے الفاظ کے استعمال سے منع کرتا وہ اُلٹا خوشی
محسوس کرتا اور فخر سمجھتا ہے دل میں پھولے نہیں سماتا اور اسی مقدس خطاب کی آڑ
لے کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتا ہے، بجائے اسکے کہ اپنی بیماری کو دفع کرتا الٹا
باقی لوگوں کے بیمار کرنے کے درپے ہو جاتا ہے اور اس سے اس کی شکم پری بھی خوب
ہوتی ہے۔
ہمارے سامنے کا واقعہ ہے ایک بزرگ اچھے خاصے سمجھ
دار و تعلیم یافتہ ہمارے ایک طالب علم سے در یافت کرنے لگے کہ تو نے کتاب ِصَرف
پڑھی ہے؟ اس نے جواب دیا جی ہاں، بزرگ نے سوال کیا کتابِ نحو پڑھی ہے؟ جواب دیا جی
ہاں، پھر پوچھا کچھ منطق بھی پڑھی ہے؟کہا جی ہا ں، بزرگ یہ جوابات سن کر آخرمیں
فرمانے لگے کہ پھر تو آپ بڑے ہی عا لم ہوئے ان ہی باتوں میں ہمارے علم جُو حضرات
فریب خور دہ ہو کرعلم کو ترک کر بیٹھتے ہیں اور چند مقدمات کی تحصیل کے بعد اپنے
تئیںعالم خیال کرتے ہیں اور علوم قرآنیہ کے قریب تک نہیں آتے، حالانکہ عالم
کہلانے کا اُسے حق حاصل ہے جو قرآنی مطالب پر سیر حاصل نظر رکھتا ہو۔
چنانچہ اصول
کافی میں ایک حدیث وارد ہے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں:
اَلا اُخْبِرُکُمْ بِالْفَقِیْہِ مَنْ لَمْ
یُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ وَلَمْ یُؤَمِّنُھُمْ مِنْ عَذَابِ
اللّٰہِ وَلَمْ یُرَخِّصْ لَھُمْ فِیْ مَعَاصِی اللّٰہِ وَلَمْ یَتْرُکِ
الْقُرْآنَ رَغْبَۃً عَنْہُ اِلٰی غَیْرِہٖ اَلا لا خَیْرَ فِیْ عِلْمٍ لَیْسَ
فِیْہِ تَفَھُّمٌ اَلا لا خَیْرَ فِی قِرْأَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا تَدَبُّرٌ اَلا لا
خَیْرَ فِیْ عِبَادَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا تَفَکُّرٌ۔
ترجمہ: آگاہ رہو میں تمہیں ایسے فقیہ کا پتہ دوں
جو کما حقہٗ فقیہ ہے، وہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور عذاب
ِخدا سے نڈر نہ کرے اور اللہ کی نافر مانی میں ڈھیل نہ دے اور قرآن سے دوسری طرف
اِعرضاً منہ نہ پھیرے، آگا ہ رہو کہ اُس علم میں کوئی خوبی نہیں جس میں سمجھ نہ
ہو، وہ قرآن خوانی بے فائدہ ہے جس میں تدبّرنہ ہو، اور اس عبادت میں بھی کوئی
اچھائی نہیں جس میں تفکّر نہ ہو۔
وَفِیْ الْبُرْھَانِ عَنِ النَّبِیِّ لا یُعَذِّبُ
اللّٰہُ قَلْبًا وَعَی الْقُرْآن۔
ترجمہ: تفسیر برہان میں جناب رسالتمآبؐ سے منقول
ہے کہ آپؐ نے فرمایا : خدا وند اُس دل کو عذاب نہ کرے گا جس میں قرآن محفوظ ہے۔
وَاَیْضًا فِیْہِ عَنْہُ خِیَارُکُمْ مَنْ
تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ وَفِیْہِ عَنْ عَلِیؑ وَعَلَیْکَ بِکِتَابِ
اللّٰہِ فَاِنَّہُ الْحَبْلُ الْمَتِیْنُ وَالنُّوْرُ الْمُبِیْنُ
وَالشِّفَائُ النَّافِعُ وَالْعِصْمَۃُ لِلْمُتَمَسِّکِ وَالنَّجَاۃُ
لِلْمُتَعَلِّقِ لا یَعُوْجُ فَیُقْوَمُ وَلا یَزِیْغُ فَیُسْتَتْعَبُ وَلا
یَخْلُقُہُ کَثْرَۃُ الرَّدِّ وَوَلُوْجُ السَّمْعِ مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ وَمَنْ
عَمِلَ بِہٖ سَبَقَ۔
ترجمہ: تم میں سے نیک ترین انسان وہ ہے جو قرآن
سیکھے اور سکھائے، حضرت امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں: کتاب اللہ کو لازم پکڑو کیونکہ
یہی مضبوط رسی، واضح روشنی، نفع بخش تندرستی، تمسک پکڑنے والے کیلئے بچائو (کا
ذریعہ) اور تعلق رکھنے والے کیلئے نجات (کا راستہ) ہے، یہ کج نہیں کہ محتاجِ اصلاح
ہو، اس میں ٹیڑھا پن نہیں کہ حرف گیری ہوسکے، زیادہ پڑھنے، سننے سے پرانا نہیں
ہوتا، جس کا قول قرآن کے مطابق ہو وہ سچا اور جس کاعمل قرآن کے مطابق ہو وہ سابق
ہے۔
وَ اَیْضاً فِیْہِ عَنْ عَلِیؑ اَلْقُرْآنُ
ظَاہِرُہٗ اَنِیْقٌ وَ بَاطِنُہٗ عَمِیْقٌ لایَفْنٰی عَجَائِبُہٗ وَلا یَنْقَضِیْ
غَرَائِبُہٗ وَلا یُکْشَف الظُّلَمَاتُ اِلَّا بِہٖ۔
ترجمہ: نیز آپ ؑنے فرمایا: قرآن کا ظاہر دلکش
اور باطن دُور رَس ہے اور اس کے عجائب و غرائب غیرفانی اور بے حد و بے پا یا ں ہیں
(جہالت کی) تارکیاں صرف اسی سے دُور ہو سکتی ہیں۔
گویا علم قرآن ہی ایسا علم ہے جس میں دنیا و
آخرت کی خیر و برکت کے رمز و رموز پنہاں ہیں، لہذا تمام علوم کے مقابلہ میں علم
قرآن کا حا صل کرنا زیادہ ضروری ہے اور اس علم کا ترک کرنا دنیووی و اُخروی برکات
سے محرومی کا موجب ہے جو صرف شقاوت ہی کا نتیجہ ہے، خداوند مومنین کو توفیق عطا
فرمائے کہ بچوں کو علوم قرآنیہ کی تعلیم دلوائیں (آمین)