کتب ِسماویہ میں سے قرآن مجید کا آخری کتاب ہونا
مسلّماتِ اسلامیہ میں سے ہے لیکن یہ کیوں؟
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ہر فرد انسانی کا
تدریجی ارتقأ اور ہر مرتبہ میں اس کی دماغی و ذہنی صلاحیتوں کا معتد بہ تفاوت اس
امر کا مقتضی ہے کہ اسے ہر مرتبہ میں اسی ہی مرتبہ کی مناسبت سے تعلیم و فرائض و
احکام کا حامل قرار دیا جائے کیونکہ وہ اسی کا ہی اہل ہے۔
جس طرح ترقی کے تدریجی مدارج میں بچپنے، جوانی اور
بڑھاپے کا فرق ہے۔۔۔ کہ بچپنے کے انتہائی دانشمندانہ افعال دورِ جوانی میں طفلانہ
حرکات شمار کئے جاتے ہیں، گو بچے کے لئے اس دور میں وہی زیبا اور اس کی کامیابی و
کامرانی و ہردل عزیزی کا وہی معیار ہوتے ہیں، بچے کے لئے ابتدائی درجہ میں حروف
تہجی کا سمجھ لینا اور یاد کرنا ویسا ہی مشکل ہوتا ہے جیسا کہ منتہی طلبہ کے لئے
اپنا کورس، تاہم کامیابی ہر دور میں اپنے مناسب نصاب و معیار کے ماتحت ہوا کرتی ہے
لیکن دل و دماغ پر نتائج کے اثرات یکسانیت سے ہوتے ہیں، کامیابی کی خوشی جس طرح
منتہی کو ہوتی ہے اس طرح مبتدی کو بھی ہوتی ہے اور ایسا ہی ناکامی کا درد و افسوس
بھی دونوں کو ہوتا ہے لیکن خوشی و غمی کی مقدار میں مراتب ِذہن کے تفاوت کے لحاظ
سے اختلاف ضرور ہوا کرتا ہے، پس مدارج و مراتب کا اختلاف جب روزِ روشن کی طرح واضح
ہے تو قطعاً معقول نہیں کہ ہر مرتبہ کا مدرّس ایک ہی قابلیت و اہلیت کا حامل ہو،
بلکہ ہر مرتبہ میں اسی مرتبہ کے نصاب کے پیش نظر اسی معیار کا انتخاب عین دانائی
ہے اور اس کے خلاف کرنا عقلی طور پر قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔
یہ اختلاف انسانوں کی صرف شخصی زندگی تک محدود
نہیں بلکہ اقوام کی اجتماعی زندگیاں بھی اسی طرح کے نشیب و فراز سے دوچار ہیں،
تاریخی مطالعہ سے اس نتیجہ پر بخوبی پہنچا جا سکتا ہے کہ اقوام کی ابتدا ۔۔۔
وسط۔۔۔ انتہا میں واضح طور پر بچپنے جوانی اور بڑھاپے کا سا فرق رونما ہوتا ہے۔
بلکہ پوری نوع انسانی کے تدریجی ارتقأ کا بعینہٖ
یہی حال ہے انسان کا ابتدائی دور نوع انسانی کے بچپنے کا دور تھا رفتہ رفتہ ترقی
کی منازل عبور کرنے کے بعد اس منزل کی نوبت آپہنچی جسے نوع انسانی کی جوانی کا
آغاز کہا جا سکتا ہے تو چونکہ ہر مرتبہ انسان اسی ہی مرتبہ کی تعلیم و تربیت کا
اہل اور اسی موزونیت سے فرائض و احکام کا حامل ہوا کرتا ہے، لہذا اسی ہی مرتبہ کا
معلّم خدا کی طرف سے منتخب کیا جانا ضروری تھا، پس خالق علیم و حکیم نے اسی ترتیب
سے انتخاب فرمایا۔
صحائف ِآدم ؑ جس درجہ کا نصاب تھے حضرت آدم اسی
درجہ کے معلّم تھے اسی طرح صحائف ِ نوحؑ ۔۔۔ صحائف ابراہیم ؑ ۔۔۔ توراتِ موسیٰؑ۔۔۔
زبورِ دائود ؑ اور انجیلِ عیسیٰؑ جن جن انسانی مدارج کا نصاب تھیں یہ انبیا ٔ
علیہم السلام انہی درجات کے لئے باختلافِ مدارج معلّم و مبلّغ بن کر تشریف لاتے
رہے۔
اب نوعِ انسانی میں پوری صلاحیتیں موجود ہو گئیں
تھیں اور اس کا دور۔۔۔ شباب سے ہم آغوش ہو گیا تھا تو حکیم مطلق نے اس کی فلاح و
بہبود اور عمل و کردار کے لئے وہ آخری نصاب تجویز فرمایا جو نوع انسانی کی آخری
سانس تک اس کے لئے مشعل راہ بن سکے اور قطعاً کسی وقت تبدیل نہ کیا جائے اور
فرمایا: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (تحقیق یہ
قرآن انتہائی سیدھے اور مضبوط رستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے) ملاحظہ فرمائیے جس
کو خود علیم و حکیم ’’اَقْوَمُ‘‘ (انتہائی سیدھا و مضبوط) کی لفظ سے تعبیر فرمائے
تو اس میں تغیر و تبدل کا امکان ہی کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اس کے علاوہ جو بھی ہو
گا اس سے کم ہو گا کیونکہ اس کے برابر اگر ہو تو اس کو یَھْدِیْ لِلَّتِیْ
ھِیَ اَقْوَمُ نہیں کہا جا سکتا۔
پس جب قرآن مجید تکمیلِ تعلیمِ نفوسِ انسانیہ کا
آخری کورس ہوا تو اس کا (لانے والا) نبی کمالاتِ انسانیہ میں آخری حدِ ّامکان پر
فائز ہو کر نوعِ انسانی کی آخری صف تک باوجود ِتفاوتِ استعدادات و اختلافاتِ
اذہان کے قابل پذیرائی ہو۔۔۔ ورنہ دامنِ انتخابِ علیم و قدیر پر جہل یا عجز کا
بدنما داغ لگ جائے گا جو شانِ اقدسِ الٰہیہ کے سراسر خلاف ہے۔۔۔ اور وہ حضرت محمد
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ با برکات ہے جو دارائے ہمہ صفات کمالات
ہے جس کو’’ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم‘‘اور ’’وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّا
رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن‘‘اور ’’خَاتَمُ النَّبِـیِّـیْن‘‘ کے مقدس القاب سے
سرفراز فرما کر اللہ نے مبعوث فرمایا۔
پس معلوم ہوا کہ اس نبی کی نبوت وجود عالم امکان
کی آخری حد تک ہے جس کے بعد قیامت ہے، لہذا اس نبی کے بعد کسی نبی کی آمد کا
امکان ہی نہیں، کیونکہ نہ نوع انسانی میں مزید ایسی صلاحیتیں پیدا ہو سکتی ہیں جو
معیار قرآن سے بالاتر ہوں۔۔۔ اور نہ تعلیمات قرآنیہ میں ردّ و بدل یا نسخ کا
کوئی امکان باقی ہے ورنہ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ کے منافی ہو گا۔۔۔ اور نہ مراتب کمالاتِ
انسانیہ میں کوئی ایسا گوشہ خالی ہے جس تک جناب رسالتمآب کی رسائی نہ ہوئی ہو۔
لہذا جنابِ رسالتمآبؐ نوعِ انسانی کے آخری نصاب
کے آخری مدرّس ہیں، ان کے بعد نہ کسی کی گنجائش ہے اور نہ کوئی آسکتا ہے، کہا
جاتا ہے کہ مستقل نبی گو نہیں آسکتا لیکن آنحضرتؐ کے بعد کسی ظلّی بروزی یا امتی
نبی کے آجانے میں کیا حرج ہے؟ کیونکہ یہ نئی شریعت نہیں لاتے بلکہ ان کا کام اسی
نبی کی تعلیمات کی توضیح و ترویج ہی ہوتا ہے اور بس۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی
کی شریعت کی توضیح و ترویج یا تشریح و تبلیغ کا فریضہ اس کے اوصیأ و خلفائے
طاہرین کے بعد تمام علمأ پر عائد ہوتا ہے تاہم وہ نبوت کے مقدس اور خصوصی لقب سے
ملقب نہیں کئے جاسکتے، علاوہ ازیں جناب رسالتمآبؐ کا ارشاد گرامی لانَبِیَّ
بَعْدِی اور اس کا ناقابل تخصیص عموم کسی مدعی نبوت کو (خواہ امتی یا جزوی یا ظلّی
و بروزی نبی کہلوانے کے ہزاروں بہانے بناتا پھرے) صف انبیا ٔ میں قدم دھرنے کی
قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
نیز کسی جزوی نبی کی بعثت۔۔۔ نوعِ انسانی کی
تدریجی طرزِ تعلیم کے بھی منافی ہے جسے کوئی صاحب ہوش و ذی شعور قبول نہیں کرسکتا
مثلاً کسی کالج کے پرنسپل کے چلے جانے کے بعد کسی طالب علم کو (گوپورے کالج میں
ممتاز ہی کیوں نہ ہو) کالج کا پرنسپل نہیں بنایا جاسکتا خواہ اس کی کارکردگی کالج
بھر میں افادی حیثیت کی حامل بھی ہو ویسے وہ اپنی بلند استعداد اور افادیت کے پیش
نظر انعام و اکرام کا مستحق بھی ضرور ہو گا لیکن اگر اس نے اس خطاب مخصوص کو چرانے
کی کوشش کی تو اس کی محنت اکارت جائے گی اور اس کی سب حسن کارکردگی افسران بالا کی
نگاہوں میں محض بد نیّتی پر محمول ہو گی اور کالج سے نکال دینے کے علاوہ اس کو
عبرتناک سزا دینا بھی عین انصاف ہوگا، بلکہ طالب علم تو درکنار کالج کا ممتاز ترین
پروفیسر بھی اس خطاب کا اہل نہیں ہوا کرتا اگر وہ بھی ایسا کرے تو ویسی سزا بلکہ
اس سے بھی زیادہ کا مستحق قرار دیا جائے گا۔۔۔ پس اس مقام پر کسی بھی شخص کا
ادّعائے نبوت نوعِ انسانی کو دھوکا دینے اور سادہ لوح انسانوں کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کے مترادف ہے۔
پھر اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی تشریف
آوری کیسے ہوگی؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ فرائض نبوت کی انجام
دہی کے لئے تشریف نہ لائیں گے بلکہ حضرت رسالتمآبؐ کے آخری قائم مقام حضرت مہدی
ؑ امامِ آخر الزمان عَلَیْہِ السّلام عَجَّلَ اللّٰہ فَرَجَہٗ کے مقتدی اور مویّد
بن کر آئیں گے تاکہ اطراف عالم میں پھیلی ہوئی قوم نصاریٰ کے دل و دماغ میں جناب
رسالتمآب کی عظمت اور ان کے دین کا سکّہ بیٹھ جائے اور ان کے لئے دائرہ اسلام میں
داخل ہونے کا رستہ ہموار ہو جائے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس جرم کی پاداش میں ان
سے عہدۂ نبوت سلب کیا جائے گا؟ اگر ان کا جرم ثابت ہوتو ان کی نبوت ہی ساقط ہے
اور اگر ان کا کوئی جرم نہیں تو پھر بلاوجہ ان سے عہد ۂ نبوت چھین کر صف امت میں
کھڑا کرکے دوسرے کا مقتدی بنانا عدلِ خدا وندی سے دُور بلکہ منافی عدل ہے۔
(۱)
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا حضرت مہدی ؑ کی اقتدا میں ہونا نہ
ان کی توہین ہے اور نہ منافی نبوت ہے تاکہ منافی عدلِ خداوندی ہو۔۔۔۔۔ جس طرح حضرت
موسیٰؑ کا حضرت خضر ؑ کی شاگردی میں داخل ہونا نہ ان کی توہین تھا اور نہ منافی
نبوت، چھوٹے مدرسے کا مدرّسِ اعلیٰ ۔۔۔اگر کسی کالج کے پرنسپل یا اس کے قائم مقام
یا ماتحت پروفیسر کے شاگردوں کی صف میں داخل ہو کر کچھ استفادہ کرلے تو یہ چیز نہ
اس کی منقصت و توہین کی موجب ہے اور نہ اس کی ملازمت کے منافی۔۔۔ بلکہ وہ اپنے
سکول میں ویسے کا ویسا معلّم و استاد ہے لیکن کالج کے پرنسپل کے سامنے یا اس کے
قائم مقام یا ماتحت پروفیسروں کے سامنے شاگرد کی حیثیت سے ہے، اس کے چھوٹے سکول کے
مدرّس ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوا کرتا کہ وہ کالج میں بھی اسی مدرّس کی حیثیت
سے جائے ورنہ اس کی توہین ہو گی اور اس کی معلمی کے منافی ہوگی بلکہ کالج کے
پرنسپل سے کچھ استفادہ کرلینے کے بعد وہ اپنی پہلی ڈگری سے ترقی کر کے بلند درجہ کی
تدریس کے قابل ہو جائے گا۔
(۲)
نیز یہ جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو وہ عالمین
کے نبی تو تھے ہی نہیں لہذا عالمین کے ہادی کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی قومِ نصاریٰ
کو پیغامِ خدا سنائیں گے اور جناب رسالتمآبؐ کے دین پر آنے کی دعوت دیں گے اور
عمل سے حضرت حجت علیہ السلام کی اقتدا ٔ میں نماز پڑھ کر اپنی قوم کے سامنے ان کا
واجب ُالا تباع اور امام برحق ہونا ثابت کریں گے، لہذا اُن کا عہدہ اُن سے چھینا
نہیں جائے گا بلکہ وہ اپنے عہدۂ نبوت کے ماتحت اپنا تبلیغی فریضہ ادا کریں گے(ان
کا اس فریضہ تبلیغ کا ادا کرنا بحیثیت نبی کے نہیں ہوگا، بلکہ حضرت مہدی ؑ کے ایک
مقتدی و سپاہی کی حیثیت سے ہو گا، لہذا اس کی ختم نبوت سے کوئی منافات نہیں، گویا
حضرت عیسیٰؑ دین اسلام کے مبلّغ ہوں گے اور حضرت مہدی ؑ کے ماتحت کام کریں گے)
(۳)
نیز یہ جواب بھی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا
کہا۔۔۔ حضرت مہدی ؑ کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کے عقائد ِفاسدہ کو عملی طور پر باطل
کریں گے۔۔۔ کہ اگر خدا یا خدا کا بیٹا ہوتا تو کسی مخلوق کی اقتدا میں کیوں ہوتا؟
اور یہ بات ان کے عہدۂ نبوت سے کیامنافات رکھتی ہے بلکہ بمطابق عہدہ فریضۂ تبلیغ
کی ادائیگی ہے، اور اس سے پہلی فصل میں ثابت ہو چکا ہے کہ گذشتہ انبیا ٔ اپنی
امتوں کے نبی اور سردار تھے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ کی عالمی نبوت کے مقابلہ میںوہ
بحیثیتِ رعایا اور امت کے ہیں اور اسی طرح حضرت کے برحق جانشینوں کے سامنے بھی وہ
رعایا کی حیثیت سے ہیں۔۔۔ پس حضرت عیسیٰؑ اپنی امت کیلئے فرائضِ نبوت کی ادائیگی
کریں گے اور حضرت محمد مصطفیٰ کے آخری جانشین کی اقتدا میں کھڑے ہو کر دنیائے
اسلام کے سامنے ایک عملِ وعظ و نصیحت بھی فرمائیں گے اور وہ یہ کہ: اے
انتخاب سے محمد مصطفیٰ کے جانشینوں کا تعیّن کرنے والو۔۔۔ دیکھ لو۔۔۔ محمد مصطفیٰ
کا جانشین وہ ہو سکتاہے جو گذشتہ تمام نبیوں پر حکومت کر سکتاہو اور وہ انبیا ٔ
چونکہ معصوم ہو ا کرتے ہیں لہذا اسکومعصوم ہونا چاہیے، پس غیر معصوم قطعا ًحضرت
محمد مصطفیٰ کا جانشین نہیں ہوسکتا۔
میرے اس
پورے بیان کا ماحصل یہ ہے:
ض چونکہ
قرآن مجید تکمیل نفوسِ انسانیہ کا آخری کورس ہے لہذا اس کا معلّم و مدرّس نبی
بھی آخری ہے۔
ض چونکہ
قرآن مجید شریعت کی آخری کتاب ہے لہذا اسے لانے والے نبی کی نبوت بھی آخری نبوت
ہے۔
ض قرآن
آخری کتاب اور شریعت آخری شریعت ہے پس محمد مصطفیٰ آخری نبی اور اسلام آخری
دین ہے۔
قرآن کے بعد کسی دوسری کتاب کے نازل ہونے کا
دعویٰ جھوٹا ہے اور وہ کتاب بھی جھوٹی ہوگی اور اس کتاب والا بھی جھوٹا ہوگا، اسی
طرح دین اسلام کے بعد کسی اور دین کے پیش کرنے والا بھی جھوٹا اور اس کا دین بھی
جھوٹا ہوگا، پس محمد مصطفیٰ کے بعد اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے تو اس کی
نبوت جھوٹی اور وہ بھی جھوٹا ہوگا۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن