جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا تک رسائی حاصل کر نے کے
لیے ہمیںخداکے فرستادہ پیغمبر معصوم کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے نقش قدم پر چلنا
ضروری ہے۔۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو نبی وہ اپنی طرف سے ہماری راہنمائی کے لیے
بھیجے اس کو اس قسم کے معجز ے بھی عطاکرے جس سے اس کی من جانب اللہ مبعوث بعہدہ ٔ
نبوت ہونے کا اطمینان ہو سکے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خدا وندکریم جس
کو عہدہ ٔ نبوت کرامت فرماکر ہماری راہنمائی پر مامور فرمائے اس کو معجزات کے
علاوہ ہماری اصلاحات کے لیے ایک ایسا ضابطہ قوانین بھی اپنی جانب سے عطافرمائے جو
ہمارے لیے لائحہ عمل کی حیثیت سے ہو اور جس کو وضع کر نے سے ہمارے عقول قاصر ہوں۔
گذشتہ انبیا ٔ کو معجزات بھی عطاہوئے اور ضابطہ
قانون (کتاب یاصحیفہ ) بھی عنایت ہو ا اور ہر دوجداجدایعنی معجزہ ا لگ اور کتاب
یاصحیفہ الگ۔۔۔۔۔ معجزہ ہر نبی کو اس قسم کا دیاگیا جو زبانِ حاضر کے ترقی یافتہ
طبقہ کے نزدیک ایک ناشدنی امرتھا۔۔۔ اور غیر شعوری طور پر ان کی طبائع کا مطمع
نظرتھا۔۔۔ اور اس کے علاوہ ان کے موجوہ خیالات و جذبات کے اس طرف رجحان کا اور
کوئی موثر۔۔ کار گر ذریعہ نہ تھا۔۔۔ اور نہ ان کی جاذبیت کا اس سے زیادہ مفید تر
کوئی اور اقدام تھا۔
حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں جادو کا چرچا تھا اور اس
زمانہ کا ماحول اس کو انتہائی کمال انسانی خیال کرتا تھا اور غیر شعوری طور پر اس
سے بالا طاقت کے منتظر تھے کہ جو اس سے قدم آگے بڑھنا ان کے نزدیک ایک ناشدنی
جیسا امر تھا، پس حضرت موسیٰؑ کو اس نوعیت سے جداگانہ رنگ کا کوئی معجزہ عطا ہوتا
تو وہ اتنا جاذب و موثر نہ ہوتا جتنا کہ عصا کا سانپ بن کر دوسرے جادو گروں کے
مفروضہ سانپوں کو کھا کر ہضم کر کے پھر اصلی حالت میں پلٹ کر عصابن جانا موثر و
کار اگر ثابت ہوا۔۔۔ اور جس کی بدولت تمام صاحبانِ کمال جادو گر مسلمان ہو گئے،
کیونکہ ان لوگوں کے دماغ اس دور کے جادوگروں کے موجودہ کمال کے ارد گرد چکر لگا
رہے تھے اور وہ اس کو آخری کمال سمجھتے تھے۔
پس اس سے بڑھ کر اسی جنس کا خارقِ عادت اقدام ہی
ان کا جاذب بن سکتا تھا۔۔۔ دوسرا کسی نوعیت کا معجزہ ان کی نظر التفات سے اجنبی
رہتا، لہذا مقبولیتِ عامہ میں اس کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکتا جو اس کو حاصل ہوا
کیونکہ اس کو غیرشعوری طور پر وہ خود تلاش کر رہے تھے۔۔۔ پس منظر عام پر آجانے کے
بعد وہ ان پر اثر انداز کیونکر نہ ہوتا؟
حضرت عیسیٰؑ کے دور میں اُفتاد طبع فن طب پر تھی،
اہل زمانہ کے اذہان افلاطون۔۔ ارسطو۔۔ جالینوس وغیرہ کے طبّی کمالات کے
شیفتہ و شیدائی تھے اور غیر شعوری طور پر اس سے مافوق کمال کے طالب تھے، لہذا
خدائی عہدہ دارِ نبوت کے لیے ضروری تھا کہ ان کے موجودہ رجحانات کے پیش نظر ان کے
سامنے ایسی چیز پیش کرے جس کو موجودہ طب و حکمت کا کمال ادراک نہ کر سکے، ماہرین
زمانہ ہر مرض کا علاج کر سکتے تھے اپاہج کو تندرست کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی
نسخہ نہ تھا مردہ کو زندہ کرنا ان کے بس سے باہر تھا وہ معجونیں اور کشتے تیار کر
سکتے تھے لیکن مٹی کا بوتہ بناکر اس میں روح پھونک کر جاندار نہ بناسکتے تھے۔
پس حضرت عیسیٰؑ کو ایسامعجزہ عطاہوا کہ موجودہ دور
کے کمالات اس کے سامنے ماند پڑ گے وعلیٰ ہذالقیاس ہر زمانے کے انبیا ٔکو اس قسم کا
معجزہ عطاہوا جو دورحاضرکے صاحبانِ کمال کی گردنیں جھکادے بنا بریں تصدیق نبوت کے
بعد قوانین شریعت کی کتاب انہیں علیحدہ عطا کی گئی لہذا اُن کی کتابیں اور صحیفے
اعجازی حیثیت کے حامل نہ تھے۔
لیکن جناب رسالتمآبؐ کے دور پر آشوب میں اس
زمانہ کا موجودہ ترقی یافتہ گروہ فصاحت و بلاغت کا دلدادہ تھا یہاں تک کہ عرب اپنے
خطباتِ فصیحہ اور اشعارِ بلیغہ پر اس قدر نازاں تھے کہ اپنے مقابلہ میں باقی
اقوامِ عالم کو (عجم) گنگ۔۔ بے زبان کے الفاظ سے تعبیر کرتے تھے۔۔۔ دریں صورت اگر
خدائی پیغامات سے روشناس کر انے کا طریقہ عام گفتگو قراردے کر معجزہ اس سے الگ
نوعیت میں عطا کیا جاتا ہے تو ہر گز اس میں کا میابی کی کوئی صورت نہ ہوتی، کیونکہ
وہ عام گفتگو اگر دیگر فصحائے عرب اور بلغائے زمانہ کے معیار کلام سے پست ہوتی تو
ادّعائے نبوت محل تمسخرومزاج کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا۔۔۔ اور اگر عام فصحا و بلغا
کے کلام کے برابر ہوتی تو پھر دوسرے اس جیسی کلام کرنے والے ہزاروں خم ٹھوک کر اس
میدان میں کو د پڑتے اور جناب رسالتمآب کو امتیاری حیثیت قطعاً حاصل نہ ہو سکتی
کیونکہ باقی معجزات کو جادو کے لفظ سے تعبیر کرنا کو ئی بڑی بات نہ تھی۔
پس اتمامِ حجت اور تبلیغ رسالت کے لئے اس ماحول
میں اس سے زیادہ موثر اور کامیاب کوئی طریقہ نہ تھا کہ جس گفتگو کو دعوت توحید کا
ذریعہ قرار دیا جائے، وہ عام انسانی طاقت سے بلند ترین معیار پر فائز ہو جس کے
سامنے فصحا و بلغائے زمانہ اپنی گردنیں جھکادیں اور اس کو خدا کی کلام تسلیم کرنے
کے علاوہ ان کے لئے کوئی اور راہ نہ نکل سکے۔۔ پس وہ کلام۔۔۔ معجزہ بھی ہو اور
ضابطہ قوانین شرعیہ بھی قرار پائے۔
تاریخ عرب سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس دور میں
انتہائی مشکل سے مشکل کا م نکالنے کے لیے فصیح وبلیغ کلام جس قدر مفید وکارگر تھی
مال وزر یاقوت وزور کو وہ مقام حاصل نہ تھا۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ عرب
کا ایک مشہور شاعر ایک دفعہ ایک بادیہ نشین عرب کے ہاںمہمان ہو ا اس نے اس کی بڑی
تواضع کی۔۔۔ اس شاعر نے رخصت ہوتے ہوے بطورِ صلہ کے اس کے سامنے اپنی خدمات پیش
کیں وہ بادیہ نشین تین لڑکیوں کا باپ تھا اور باوجہ (گمنامی) غربت کے اس کے ساتھ
رشتہ ناطہ کے لیے کوئی خاندانی آدمی تیار نہ تھا پس اس نے اس شاعر کے سامنے اپنی
حالت زار کا تذکرہ کیا او راس تکالیف کے رفع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔۔ اس شاعرنے
وعدہ کیا کہ عرب کے مشہور اجتماع (میلہ عکاظ) میں تیری اس مشکل کو حل کردوں گا،
چنانچہ وہ وقت آیا تو اس نے شرفائے عرب کے بھرے مجمع میں اس بادیہ نشین عرب کی
شان میں قصیدہ پڑھا اور بڑھ چڑھ کر اس کے فضائل واوصاف کا تذکرہ کیا۔۔۔ پس قصیدہ
کیا تھا ایک جادوکی لہر مجمع میں دوڑگئی قصیدہ سنتے ہی اس بادیہ نشین کو شرفائے
عرب عزت وحرمت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔۔ اس کی شرافت وبرتری کا پورے مجمع میں غل
پڑ گیا لوگ اس کو دیکھنے کے لیے اوراس سے تعارف کے لیے اس کے مکان پرحاضر ہوئے۔۔
آخر کا راس سے رشتہ کی درخواستیں کی گئیں، چنانچہ اس کے نتیجہ میں چند دنوں کے
اندر اس کی تینوں لڑکیاںشرفا کے گھروں میں بیاہی گئیں۔
اور یہ وجہ تھی کہ امرا ٔ اور روسا اپنی شہرت
وبلندی کی خاطر مشاہیرشعرا ٔ کی بڑی خد مت کرتے تھے۔۔۔ اور کسی قیمت پر ان کی دل
شکنی گوارانہ کرتے تھے اور ان کے مطالبات کوتسلیم کرنے میں ذرّہ بھر پس وپیش کرنے
کی ان میں جرأت نہ تھی، بنابریں دعوتِ توحید جو اس دَورِباطل میں بت پرستی اورخود
ستائی کے موجودہ وقتی رحجانات کے لیے کھلاہوچیلنج تھی عام کلام سے اسکا کوئی اثرنہ
ہوتا۔۔۔ خواہ حضرت رسالتمآبؐ اپنی تصدیق کے لیے اس کے علاوہ دوسرے ہزاروں قسم کے
معجزات ہی کیوں نہ پیش کرتے ان کی نگاہوں میں انسانی کمالات سے مافوق کمال صرف
معیار کلام کی ایسی بلند ی میں مضمرتھا جوموجودہ صاحبانِ کمال کی دسترس سے بالاتر
ہو جس کو سن کر مشاہیر فصحا ٔ و بلغائے عرب اپنے عجز کا اعترف کرتے ہوئے اس کے
سامنے گردن خم کرنے پر مجبور ہوجائیں، وہ گویا غیر شعوری طور پر اس کمال کے
منتظرتھے جس کو قرآن مجید نے آکر طشت ازبام کردیا۔۔۔ جس کی ضَوئے ارتقا ٔ کے
سامنے مشاہیرِدَور کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور جس کے اَوجِ کمال کے مقابلہ میں ان
کا موجودہ کمال بالکل ہیچ پوچ معلوم ہونے لگا۔
اور اس کا کمال با لا ئے کمال یہ کہ یہ کلام ایسی
ذات کی زبانِ حق تر جمان پر جا ری ہوا جو مو جودہ فصحا ٔ و بلغائے عرب سے
راہ و رسم کا دُور سے بھی واسطہ نہ رکھتا تھا جس کو رسمی تعلیم و تعلّم کے طریقوں
سے قطعا ً کوئی وابستگی حاصل نہ تھی۔۔۔۔۔ با یں ہمہ اس کلام نے آتے ہی عرب عُربا
ٔ کو اپنے خا لق کی کلا م ہو نے کے ثبوت کے لئے مقابلہ کی عام دعوت دے دی اور با ر
بار پکار پکا ر کر صدا بلند کی۔۔۔ آئو اگر یہ اللہ کا کلام نہیں تو تم بھی اس
جیسا بنا لا ئو۔۔ چلو پورا قرآن نہ سہی اسکے ایک سورہ کی مثل بنا لائو۔۔ یہ بھی
نہ سہی تو اس کی آیک آیت کا مقابلہ کر کے دیکھو۔۔ صرف ایک ایک سے تنہا نہیں ہو
سکتا تو پورے ملک عرب کے فصحا ٔ و بلغا ٔ وخطبا ٔ و شعرا ٔ مل کر ایک دوسرے کی امدادو
تعاون سے مجموع طاقت و استعدادسے اس کا مقا بلہ کر لیں۔۔۔۔۔ بلکہ جن ّ و انسان مل
کر اس کلام کے مثل ایک چھوٹا ٹکرا ہی پیش کردیں اور اس تحدی با لائے تحدی۔۔۔ چیلنج
در چیلنج کے بعد ان کے عجز کا بھی کھلے لفظوں میں اعلان فر ما دیا کہ خواہ کتنا ہی
زور لگائیں تنہا کر یں یا مل جل کر کر نا چا ہیں اس کی مثل ہر گز لا سکتے ہی
نہیں۔۔۔ یہ سب کچھ سنتے رہے اور مبہوت و ششدر سے ہو کر ایک دوسرے کا منہ ہی تکتے
رہے اور دنگ کے دنگ ہی رہ گئے۔۔۔ اس کے مقا بلہ کیلئے ان کی زبا نیں گنگ یا شل
ہوگئیں صرف حیرت سے انگشت بد نداں ہو نے کے سوا ا ن کے پاس اور چا رہ ہی نہ تھا،
کہتے ہیں کہ عکاظ کے میلہ کے موقعہ پر سورہ کوثر کی تین آیتیں لکھ کر دیوارِ کعبہ
سے لٹکادی گئی تھیں۔۔۔ فصحائے عرب دیکھتے ہی محو حیرت ہو ئے اور مقا بلہ میں کچھ
کہنے کی جرائت نہ کر سکے آخر کا ر ایک شاعر نے با ربار پڑھ کر کچھ اضافہ کی جرأت
کی تو وہ صرف اس قدر کہ آخر میں لکھ دیا: مَا ھٰذَا کلامُ الْبَشَر
(یعنی یہ انسان کا کلام نہیں ہے)
اب ان کے ذہن و دماغ میں یہ بات پوری طرح بیٹھ گئی
کہ انسانی طاقتوں کے مافوق ایک ایسی طاقت ضرورموجودہے جسکے سامنے انسان کی ذہنی
کاوشیں ایک افسانہ ٔ باطل کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ انسانی افکارِ رسا کی روشن
قندیلوں کے مافوق ایک ایسانور یکتا موجودہے جس کی ہماگیرضیاپاشیوں کے مقابلہ میں
چراغِ سحری ہیں بلکہ بالکل مدہم و خاموش ہیں۔
یہ تصورجب بیدارہوگیاتوکلامُ اللہ قرآن مجیدکی
ہمہ گیرجاذبیت نے معیاری کلام سننے کے دیوانوں کو اپناپروانہ بنالیا۔۔۔ جب سننے تک
نوبت آگئی توساتھ ساتھ کلام مقدس نے ادلہ توحیدکے وہ ناقابل تردیدبراہین سامنے
رکھ لیے جس کو فطرتِ سلیمہ بلاپس وپیش قبول کیے بغیر دم نہ لے سکے۔۔۔ بس سنتے گئے
اورپرکھتے گئے اورہمنوا ہوتے گئے۔۔۔ اور تھوڑے ہی عرصے کے اندرشرک وکفرکے مظبوط
آہنی جال ظلم وباطل کے محکم فولادی پھندے سے تارِ عنکبوت بن کر معمولی یداللّٰہی
جنبشوںسے ٹوٹنے لگ گے۔۔۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے مستقبل میں سب کا خاتمہ ہوگیا۔
جب عرب اذہان نے اس کلام کے مقابلہ میں ہارتسلیم
کرلی۔۔۔ اس کے متعلق اللہ کاکلام ہوناتسلیم کرلیا۔۔۔تودیگر اقوامِ عالم جواُن کے
مقابلہ میں عجم(گنگ)کی حیثیت سے تھیں کس طرح اس کی صداقت کے تسلیم کرنے سے اعراض
کرسکتے تھے؟ پس دین خدا کاتھوڑی مدت کے اندرچاردانگ عالم میں ڈنکابج گیا اور فوج
فوج ہو کر اطراف و نواح سے حضورؐ رسالتمآب کی بارگاہِ فیض میں آکر لوگ اسلامی
تعلیمات سے دامنِ مراد پُر کر کے جا نے لگے۔۔۔ اور قرآنی فیوض و برکات سے تشنگانِ
معرفت نے وہ استفاد ہ کیا کہ پھر اور لوگ اُن سے سیکھ کر دُور دُور تک اسلام کے
حلقہ بگوش ہو گئے۔
چونکہ اس کلامِ مقدس کی فصا حت و بلا غت کا معیار
انسانی دماغی صلاحیتوں سے بلند و با لا تر ہے تو ما ننا پڑے گا کہ اس کی فصاحت و
بلاغت کے لئے جن لطائف و رموز اوراصول و نکات کو ملحوظ قرار دیا گیا ہے ان کا
استکشاف بھی انسانی اوہام و ظنون یا افکار و عقول کی انتہا ئی بلند پروازی اور نا
زک خیا لی سے ہو سکنا نا ممکن اور محال قطعی ہے، کیونکہ قاعدہ ہے :
اَلتَّحْلِیْلُ اِنَّمَا یَکُوْنُ اِلٰی مَا مِنْہُ التَّرْکِیْبکسی شئے کی
تحلیل انہی اجزا کی طرف ہی ہو سکتی ہے جن سے ابتدا ء ً تر کیب
واقع ہو ئی، یعنی جن جن لطائف و نکات اور دقائق و اسرار کو ابتداء ً ملحوظ قرار دے کر خا لق کلام نے ان کے مطابق
کلام مقدس (قرآن مجید) کی تر کیب و تشکیل فر ما ئی ہے) نا ممکن ہے کہ انسانی فہم
صا ئب اور ذہن ثاقب اپنی انتہائی اور انتھک جدوجہد سے اپنی معمولی نکتہ سنجی و
دقائق رسی کی بنا ٔپر ان کا ادراک کر سکے کیونکہ اگر ایسا ہو نا ممکن ہو تا تو
ابتدأ سے اس قسم کے لطائف و نکات کا لحا ظ رکھ کر ان کی مطابقت سے کلام کر نا اور
مرکب کر نا کیوں محا ل ہو تا؟ اور اگر ابتداء ً ا ُن کے دماغوں سے یہ با ت اوجھل
تھی تو اس پاک کلام کے مطالعہ یا سماعت کے بعد تووہ سب نکات و رموز سامنے آچکے
تھے پھر تحدی و چیلنج کے با وجود خا موش کیوں رہتے؟ یا اس کے ما فوق ُ البشر ہو نے
کا اعتراف کیوں کر تے؟
پس معلوم ہوا کہ نہ ابتدا ء ً اُن کی رسائی مافوق
ُالبشر لطائف تک تھی تاکہ اپنے کلام کو اس معیار پر لے جا سکتے اور نہ قرآن
آجانے کے بعد اس کا بار بار مطالعہ و مذاکرہ کرنے کے بعد ان لطائف تک ان کا پہنچ
سکنا ممکن ہے تاکہ اس کلام لاجواب کا جواب پیدا کرنے کی جرأت کریں۔
تو جس طرح جناب رسالتمآبؐ قدرت کے انتخابِ
لا جواب سے اس کلام کے لانے کے اہل تھے بس وہ ہی اس کلام کے سمجھنے اور سمجھانے کے
اہل بھی تھے اور باقی تمام لو گوں نے اس کے معانی واسرار کو جناب رسالتمآبؐ سے
اپنی اپنی استعداد و قابلیت سے حا صل کیا بعض صرف سر سر ی تر جمہ سمجھنے کے اہل
تھے بعضو ں نے کچھ تفسیر و تا ویل سیکھ لی گو یا جس قدر استعداد اسی قدر استفادہ
یہانتک کہ بعض لوگ تو لفظی تر جمہ سے ذرّہ بھر آگے دم نہ رکھ سکے اور آسان سے
آسان اشارہ تک پہنچنے کیلئے بھی ان کے دما غ وقت محسوس کر تا تھا چہ جائیکہ مزید
دقائق کی طرف قدم بڑھا تے!!
چنا نچہ صحیح بخاری کتابُ الصوم میں ہے کہ جب ما
ہِ مبارکِ رمضان میں روزہ کے سحری کے وقت کی تعین کیلئے یہ آیت اُتری:
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ
الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَد کھائو اور پیو یہاں تک کہ سفید تاگاسیاہ
تاگے سے متمیز ہو جائے۔۔۔ تو بعض صحابہ نے یہ دستور بنا لیا کہ اپنے پائوں میں دو
تاگے ایک سیاہ اور دوسرا سفید باندھ لیا کر تے تھے اور کھانے میں مشغول رہتے تھے،
پس جب وہ دونوں تا گے اپنے اپنے رنگ میں دکھائی دینے لگتے تھے تو کھانا وغیرہ بند
کر دیتے تھے، پس جب (مِنَ الْفَجْر) کی لفظ اُتری تو معلوم ہوا کہ اس سے تو صبح
صادق مراد تھی۔
اور بعض صحابہ تو پورے قرآن مجید کا لفظی تر جمہ
ہی نہ سیکھ سکے۔۔ جیسا کہ علامہ سیوطی نے تاریخ الخلفا میں بعض اکابرِ صحابہ کے
متعلق ذکر کیا ہے کہ ان کو فَاکِھَۃً وَّاَبـًّا کا معنی نہیں آتا تھا۔۔۔ تفصیل کے سا تھ ص ۱۹۳
پر ملا حظہ فر مائیں حالانکہ انہی کو ’’الاتقان‘‘ میں علامہ مو صوف نے مشہور
مفسرین قرآن کی فہرست میں پہلے نمبر پر جگہ دی ہے۔
علاوہ اِن رموزواسرارکے جومعیارفصاحت و بلاغت
قراردئیے جائیں۔۔۔ قرآن کے ظاہروباطن اورباطن در باطن حتی کے سات باطن تک موجود
ہونے کی روایات بھی ہیں، پھر اس میں خاص وعام۔۔۔ مطلق ومقید۔۔۔ مجمل و مبیّن۔۔۔
ناسخ ومنسوخ۔۔۔ محکم ومتشابہ بھی ہیں، تو اگر جناب رسالتمآبؐ کے بعدیہ تمام چیزیں
پردہ ٔ خفامیں رہ جائیں اور ان کے سمجھنے سمجھانے والاکوئی نہیں توقرآن مجید
کاقیامت تک انسانوں کے لیے باعث ہدایت ہونے کاکیا مطلب رہ جائے گا؟ بلکہ پھر تو
منہ پر قرآن قرآن کے لفظی رٹ ہی رہ جائے گی اور بس۔
لہذا عقل کی روشنی میں اس نتیجہ تک پہنچنا ضروری
ہو گا کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ قیامت تک کیلئے اُمت میں حضرت رسالتمآبؐ کا ایک
جانشین موجود ہو جو قرآن مجید کی جملہ باریک گتھیوں کو سلجھانے کی اہلیتِ تامہ
اور اس میں بصیرتِ صادقہ رکھتا ہو۔۔۔ اور وہ سوائے عترتِ طاہرہ کے اور کوئی ہو ہی
نہیں سکتا، جس طرح کہ ــ’’ثقلین۔۔۔ معجزنما‘‘اور دیگر متفرق عنوانات کے تحت قدرے
تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔
اس وقت حضرت رسالتمآبؐ کا جانشین موجود ہے جس کے
وجودِمسعود سے زمانہ قائم ہے۔۔۔ جب پردہ ٔ غیبت اُٹھے گا وہ عالمِ ظہور میں تشریف
فرماہوکر قرآن مجید کی صحیح تعلیمات سے دنیاوالوں کو روشناس کرائیں گے۔۔۔ باطل
کادَور یکسر ختم ہوجائے گا اور دین خدامقبول عام ہوگا ظلم وجور کاقلع قمع ہوجائے
گا۔۔ عدل و انصا ف کا دَوردورہ ہوگا۔
اَللّٰھُمَّ عَجِّلْ لَنَا ظَھُوْرَہُ فَاِنَّھُمْ
یَرَوْنَہُ بَعِیْدًا وَنَرَاہُ قَرِیْبًا بِجَاہِ مُحَمَّدٍ وَّعَلِیّ
وَآلِھِمَا عَلَیْھِمُ السَّلام آمِیْن رَبَّ الْعَالَمِیْن۔