گذشتہ عنوان کے ذیل میں قرآن مجید کے معجز ہونے
اور اس کے اعجازی پہلوؤں کے متعلق بیان کیا گیا ہے، اس مقام پر یہ بیان کرنا ہے
کہ چونکہ معجزہ بغیر معجز نما کے وقوع پذیر اور ظاہر نہیں ہو سکتا لہذا یہاں بھی
اعجازِ قرآن کے اظہار کیلئے ایک معجز نما ضروری ہے، عصا سانپ بن سکتا ہے لیکن
موسیٰؑ کے ہاتھ میں، اونٹنی پتھر سے پیدا ہو سکتی ہے لیکن صالحؑ کے اشارے سے، آگ
گلزار بن سکتی ہے لیکن خلّت کی ضرورت ہے، مٹی سے پرندہ بن کر پرواز کر سکتا ہے
لیکن دمِ عیسیٰؑ کے ساتھ۔۔۔ میر انیسؔ مرحوم نے کیا خوب کہا ہے:
جس ہاتھ عصا ہو اُسے موسیٰؑ نہیں کہتے ہر ہاتھ کو عاقل ید بیضا نہیں کہتے
پس قرآن قرآن ہے لیکن اس کے اعجاز ی کرشمے معجز
نما کے وجود کے محتاج ہیں۔
گذشتہ انبیا ٔ کی نبوّتیں چونکہ محدود اوقات کیلئے
ہوا کرتی تھیں اس لئے ان کے معجزات بھی مختصر اور محدودزندگی رکھتے تھے اور قرآن
چونکہ قیامت تک کیلئے ہے اور شریعت مصطفوی کی آخری حد بھی قیامت ہے لہذا قرآن
مجید کے ساتھ معجز نما کا ہونا بھی قیامت تک ضروری ہے کیونکہ اگر معجز نما کے وجود
کا دائرہ صرف زمانِ رسالت تک ہی محدود کر دیا جائے تو قیامت تک کیلئے اس کے اعجاز
کی رَٹ لگانا صرف لقلقۂ لسانی ہو کر رہ جائے گا اور یہ کہنا پڑے گا کہ معجز ہ
ہائے انبیائے سابقین کی طرح اس کی اعجازیت بھی محدود وقت تک تھی اور بس۔۔۔۔۔
حالانکہ باتفاقِ جمیعِ فرقِ اسلامیہ اعجازیت تا قیامت باقی ہے، اس کے خلاف کہنے
والا منقول و معقول کے خلاف ہونے کے ساتھ دشمن اسلام ہے، پس ثابت ہوا کہ حضرت محمد
مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے لے کر تاقیامِ قیامت ہردَور میں
قرآن کے ساتھ ایک قرآن والا ضرور ہوگا جو جناب رسالتماب کی صحیح جانشینی کے
فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے زمانہ کی ضرورت کے پیش نظر قرآن کے اعجازات سے لوگوں
کو روشناس کراسکتا ہوگا۔
عَنْ عُیُوْن اَخْبَارِالرِّضَا سُئِلَ اَمِیْر
الْمُؤمِنِیْنَ عَنْ مَعْنَی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِنِّیْ مُخْتَلَفٌ
فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن کِتَابُ اللّٰہِ وَ عِتْرَتِیْ مَنِ الْعِتْرَۃُ؟ قَالَ
اَنَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَالْاَئِمَّۃُ التِّسْعَۃُ مِنْ وُلْدِ
الْحُسَیْنِ تَاسِعُھُمْ مَھْدِیُّھُمْ وَقَائِمُھُمْ لایُفَارِقُوْنَ
کِتَابَ اللّٰہِ وَلا یُفَارِقُھُمْ حَتّٰی یَرِدُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ
حَوْضَہٗ۔
حضرت امیر المومنین ؑ سے دریافت کیا گیا کہ حضرت
رسالتماب کا جو فرمان ہے کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں اللہ کی کتاب اور عترت
چھوڑے جاتا ہوں عترت کون ہیں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا میں اور حسن ؑ، حسین ؑ اور نو
حسین ؑ کی اولاد سے ہوں گے جن کا نواں مہدیؑ و قائم ہو گا یہ قرآن سے جدا نہ ہوں
گے اور قرآن ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ جناب رسالتمابؐ کے پاس حوض کوثر پروار
د ہوں۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہمیں صرف قرآن مجید کافی
ہے اور قرآن کے علاوہ اور کسی چیز سے تمسک پکڑنے کی ضرورت نہیں تو اس کی تین
صورتیں ہو سکتی ہیں:
(۱)
قرآن مجید کو کلام معجزنہ جانتا ہو اور اسکی اعجازی حیثیت کا سرے سے
انکار کرتا ہو۔
(۲)
قرآن مجید کے اعجاز کا قائل ہو لیکن خود اپنے آپ کو معجز نما سمجھتا
ہو۔
(۳)
نہ قرآن کے اعجاز کا منکر ہوا ور نہ اپنے آپ کو معجزنما جانتا ہو۔
پہلی صورت میں تو کسی کو اختلاف نہ ہوگا کہ منکرِ
اعجازِ قرآن خارج از ایمان ہے۔
دوسری صورت کہ ہر شخص معجز نما ہو عقل و نقل سے
بعید ہے کیونکہ معجز نما ہونے کا دعویٰ خالہ جی کا گھر نہیں، عصا ہاتھ میں رکھنا
آسان ہے لیکن موسیٰؑ بن کر اُسے سانپ بنانا یا دریا پر مار کر رستے پیدا کرنا یا
پتھر پر مار کر پانی کے چشمے جاری کرنا مشکل ہے، اسی طرح دم کرنا سہل ہے لیکن عیسیٰؑ
بن کر مٹی میں روح پھونک دینا یا مردہ میں جان ڈال دینا ہر شخص کا کام نہیں اور
اسی طرح لوہا اٹھا نا اور بات ہے اور اس میں اثرِ دائودی پیدا کرنا اور شئے ہے۔۔۔
وعلیٰ ھذا القیاس
بلکہ گذشتہ تمام انبیا ٔ کے معجزوں اور قرآن مجید
کے اعجاز میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے کیوں کہ قرآن مجید عصائے موسیٰؑ کی طرح
نہیں کہ زمین پر رکھ دینے سے اعجازی پہلوئوں کو ظاہر کرنے لگ جائے، یا دم عیسیٰؑ
کی طرح نہیں کہ صرف شو کرنے سے کام چل جائے، یہاں تو عیسیٰؑ و موسیٰؑ کو دم مارنے
کی بھی جرأت نہیں بلکہ قرآن مجید کے اعجاز کے سامنے تو وہ خود دم بخود نظر آتے
ہیں اور حضرت عیسیٰؑ کو حضرت حجت ؑ کے انتظار میں رکھنا اور بوقت ظہور ان کا ان کی
اقتدا ٔ میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ طالب اعجاز ہیں اور
یہ صاحب اعجاز ہیں۔
بہر کیف ہر قرآن کو اٹھانے والا معجز نما نہیں ہو
سکتا بلکہ معجز نما کے لیے قرآنی رموز وحقائق پر اطلا ع چاہیے اس کے عمائق اور
دقائق تک رسائی کی ہمت ہو، اسرار فصاحت اورنکاتِ بلاغت میں مہارتِ کا ملہ
اوربصیرتِ صادقہ کے علاوہ جودت طبع اورسلامت فطنہ کا حامل ہو، مقام اطاعت میں شانِ
عبودیت رکھتا ہو اور مقام معرفت میں راز و رُموز خفیہ اوراسرارِلطیفہ کا محرم ہو،
گویا قرآن کے ساتھ جسم وجان اورقلب و روح کا تعلق رکھتا ہو۔
لیکن یہ با تیں ابوابِ مدینہ علوم نبویہ کے بغیر
اورکہیں بھی نہیں مل سکتیں اوریہی وجہ ہے کہ رسول اکرؐم کی رحلت کے بعد جب کبھی
صحابہ کو کو ئی مسئلہ ایسا پیش آتا جس کے حل سے عاجز آجاتے توبابِ مدینہ علم نبی
حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہماالسلام کے دَر کا طواف کرتے نظرآتے
تھے، صرف انہی تک منحصر نہیں بلکہ ہر دَور میں اُمت اسلامیہ مسائل مشکلہ میں آل
محمد کے دروازہ پر جھکتی رہی اوربنی عباس کے فقہی دَور میں فقہائے عالم کی گردنیں
صادق آل محمد کے علمی وقار کے سامنے خم ہوگئیں، اگر تعصب کی عینک اُتار کر تاریخ
اسلام کا صحیح مطالعہ کیا جائے تو صاف طور پر معلوم ہو گا کہ قرآن مجید کے حقیقی
ترجمان خاندانِ رسالت کے وہ افرادِ خاصہ ہیں جنہیں خداوندعالم نے علوم قرآنیہ کا
حامل قرار دیکر منصب خلافت کے لیے منتخب فرمایا، پس اس بیا ن سے ثابت ہوا کہ قرآن
کے ساتھ قرآن والاصرف خاندانِ رسالت کا فردِ معصوم ہی ہوسکتاہے اگر کوئی دوسرا یہ
دعو یٰ کرے تو جھوٹا ہوگا۔
پس اب تیسری صورت باقی رہی تو اس میں ضروری ہے کہ
قرآن کے ساتھ قرآن والے پر بھی ایمان لایا جائے اوروہی امام بالحق ہوا کرتا ہے
جس کا وجود ہر دَور میں ضروری ہے تاکہ قرآنی تعلیمات کے ماتحت ہر زمانہ میں اسلام
کی ترویج و تقویت کا کفیل ہو اورجو لوگ صرف قرآن مجید کے ساتھ تمسک پکڑنا کا فی
سمجھتے ہیں اورقرآن والے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے وہ قرآن کے ساتھ رہنے کے
حقیقی مفہوم سے غافل ہیں بلکہ ان کا قرآن پرایمان رکھنے کا دعویٰ صرف زبانی ہی
زبانی ہے ورنہ در حقیقت نہ ان کا قرآن سے تمسک ہے اورنہ ایمان ہے۔
فِیْ الْبُرْھَانِ عَنِ الدَّیْلَمِیْ
بِاِسْنَادِہٖ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِت قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللّٰہِ وَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ
طَالِبٍ وَ عَلِیٌّ اَفْضَلُ لَکُمْ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ لِأنَّہُ مُتَرْجِمٌ
لَکُمْ عَنْ کِتَابِ اللّٰہِ۔
ترجمہ: برہان میں دیلمی سے بالا سناد زید بن ثابت
سے منقول ہے، وہ کہتا ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: میں تم میں دو گرا
نقدرچیزیں چھوڑے جا تا ہوں (ایک)اللہ کی کتاب اور (دوسرے) علی ؑاور علی ؑ تمہارے
لئے کتاب اللہ سے افضل ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے کتاب اللہ کی ترجمانی کرے گا۔
(علی ؑ ناطق ہے اور قرآن صامت ہے اور ناطق صامت
سے افضل ہوا کرتا ہے )
وَ فِیْہِ عَنْہُ عَنْ سلیْمِ بْنِ قَیْس
الھِلالِیْ عَنْ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ
تَعَالٰی طَھَّرَنَا وَ عَصِمَنَا وَ جَعَلَنَا شُہَدَآئَ عَلٰی خَلْقِہٖ وَ
حُجَجاً فِیْ اَرْضِہٖ وَ جَعَلَنَا مَعَ الْقُرْآنِ وَ جَعَلَ الْقُرْآنَ
مَعَنَا لا نُفَارِقُہٗ وَلا یُفَارِقُنَا۔
ترجمہ: اسی کتاب میں سلیم بن قیس ہلالی سے روایت
ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تحقیق اللہ تبارک و تعالیٰ نے
ہمیں پاک معصوم خلق پر گواہ اور زمین میں اپنی حجت بنایا ہے، ہمیں قرآن کے ساتھ
اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دیا نہ ہم اس سے جدا ہیں اور نہ وہ ہم سے جدا ہے۔
احادیث اس مضمون کی بہت زیادہ ہیں جو حد تواتر سے
بڑھی ہوئی ہیں، انشأ اللہ کسی اور عنوان کے تحت۔۔۔ کچھ حصہ ان کا ذکر کیا جائے
گا، بس اس مقام پر صرف یہی ثابت کرنا تھا کہ قرآن کی اعجازیت کے پیش نظر ہر زمانہ
میں ایک ایسے قرآن والے کا ہونا ضروری ہے جو بحیثیت معجز نما قرآن کے ساتھ ہو
اور عقلی بیان سے بھی ثابت ہو گیا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر صفت حسنہ اور خصلت
حمیدہ اپنے اندر رکھتا ہو، بلکہ ہر وہ کمال جو انسانی امکانی احاطہ سے باہر نہ ہو
اس میں پایا جائے تاکہ قرآن کے ظواہر و بواطن اور دقائق و حقائق پر بصیرت افروز
تبصرہ کر کے ایک طرف ہر دَور کے مہذب و ترقی یافتہ یا جدّت پسند گروہ کو اس کا
گرویدہ بنا سکے اور دوسری طرف اپنے اوصاف و کردار کے سایہ میں ان کی روحانی زندگی
کو تابناک بھی بنا سکے۔
قرآن کریم نے تاویل قرآن کے علم کو
تو’’رَاسِخِیْن فِی الْعِلْم‘‘ میں بند کر دیا لیکن مصداق کی تعین کیسے ہو؟ اس کی
تلاش کیلئے منصف مزاج گروہ اور دانا و بینا طبقہ کیلئے چنداں دقت نہیں تھی لیکن
خواہشات کی رَو میں بہنے والے اور جذباتی رجحانات کے پیچھے چلنے والے عموماً
نظریاتی اختلافات کی آڑ لے کر طرف داری اور جنبہ نوازی کا کھیل کھیلنے لگ جاتے
ہیں اور اس قسم کے خطرات بدوی عربوں کی متعصبانہ روش کے پیش نظر اہم ترین طور پر
مرکز نگاہ التفات رسالت تھے جن کا ازالہ اہم ترین فریضہ تھا، پس حضورؐ نے غیر مبہم
الفاظ میں صحابہ کرام پر وضاحت فرما دی اور زبانِ وحی ترجمان نے صراحت کے ساتھ
ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے قرآن سے علی ؑ بہتر ہے کیونکہ وہ قرآن کا مترجم ہے
نیز’’ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا‘‘ کے صاف اور کھلے لفظوں
میں صحابہ کو سمجھایا ’’عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِی‘‘
علی ؑ قرآن کے ساتھ اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے ’’عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ
الْحَقُّ مَعَ عَلِی‘‘ علی ؑ حق کے ساتھ اور حق علی ؑ کے ساتھ ہے، (یہ حدیثیں
باختلافِ الفاظ تفصیلاً بمعہ حوالۂ کتب بعد میں آئیں گی)
اس قسم کی واضح اور صریح فرمائشات صحابہ کے گوش
گزار فرما کر حقیقت کے چہرہ سے پوری طرح نقاب کشائی کر دی تاکہ اعذارِ فاسدہ کا سد
ّباب ہو جائے اور قرآن کے ساتھ قرینِ قرآن کا ذکر اور ہر دو سے متوازی طور پر
تمسک کا امر فرما کر نص کر دی کہ قرآن کے مفسر اور عالم یہی ہیں اور
رَاسِخِوْنَ فِی الْعِلْم بھی یہی ہیں، ان توضیحات و تصریحات کا مقصد صرف
انتخابات و اجتماعات و شورائی کاروائیوں کی تردید کرنا تھا۔
لیکن باوجود یکہ جناب رسالتمآبؐ نے پوری اُمت
اسلامیہ کو ایک نکتہ پر جمع کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تاہم تما م
فرمائشاتِ سرکارِ رسالت کو پس پشت ڈال کر کہنے والے کہہ اُٹھے کہ ہمیں صرف اللہ کی
کتاب کافی ہے!؟ اور ہر زمانہ میں اس بے بنیاد دعویٰ کو اپنانے والے پیدا ہوئے اور
ہر بغل میں قرآن لٹکانے والے نے کہنا شروع کر دیا کہ میں قرآن کا عالم ہوں اور
ہر شخص نے قرآنی مطالب میں اپنی رائے کو داخل کر دیا، جس کی وجہ سے معانی قرآنیہ
میں اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور استحسانات و قیاسات کی بنا
ٔ پر لوگ جس قدر آل محمد سے دور ہوتے چلے گئے قرآنی حقائق سے اُتنا ہی تہی دست
اور خالی داماں رہے۔