التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قرآن مجید کی تفسیر و تاویل



فِیْ مَجْمَعُ الْبَیَانِ۔۔۔ اَلتَّفْسِیْرُ کَشْفُ الْمُرَادِ عَنِ اللَّفْظِ الْمُشْکِلِ وَ التَّاوِیْلُ رَدُّ الْمُحْتَمِلَیْنِ اِلٰی مَایُطَابِقُ الظَّاھِرِ۔
تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ تفسیر کا معنی لفظِ مشکل کی مراد کو واضح کرنا ہے، اور تاویل کا معنی ہے دو احتمالوں میں سے ایک کا ظاہر کی مطابقت کی طرف لانا۔
ابن عباس سے تفسیر کی چار قسمیں منقول ہیں :
۱-     وہ تفسیر جس کی جہالت سے کوئی شخص معذور نہیں جیسے توحید کی دلیلیں۔
۲-     وہ تفسیر جس کو اہل لسان اندازِ بیان سے سمجھ سکتے ہیں جیسے حقائق لغویہ اور محاورات عرفیہ۔
۳-     وہ تفسیر جس کو صرف علمأ ہی سمجھ سکتے ہیں جیسے تاویل متشابہات۔
۴-     وہ تفسیر جس کو سوائے ذاتِ علاّم الغیوب کے کوئی نہیں جا سکتا جیسے قیامت کا آنا۔
علامہ طبرسی صاحب تفسیر مجمع البیان نے تفسیر کو چار قسموں میں تقسیم فرمایا ہے:
۱-     یہ کہ نہ الفاظ مجملہ ہوں اور نہ معانی میں ایک سے زیادہ کا احتمال ہو جیسے آیہ قصاص اور ادلہ توحید، اس قسم کی تفسیر کو ہر واقف عربیت جان سکتا ہے۔
۲-     وہ معانی جن میں اجمال پایا جاتا ہے ان کی تفسیر کو صرف معصومین ہی جان سکتے ہیں جیسے طریق نماز و زکوٰۃ وغیرہ۔
۳-     وہ مقام جہاں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال ہو۔۔۔ اب یہاں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صرف ایک احتمال مراد ہو اور باقی احتمالات کی قطعاً نفی ہو اور دوسری یہ کہ سب احتمالات مراد لئے جاسکتے ہوں، پہلی صورت میں اپنی رائے سے ایک معنی کی تعین کرنا بغیر دلیل قطعی حرام و ممنوع ہے اور دوسری صورت میں ایک احتمال کو یقین و قطع کے طور پر لے لینا بغیر نص صریح کے ناجائز ہے اور اس بارہ میں اقوالِ مفسرین پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک اس کی تاویل پر اجماع متحقق نہ ہو۔
پس نتیجہ یہی ہوا کہ معانی لغویہ اور محاواراتِ عرفیہ میں (جہاں اجمال یا معانی کثیرہ کا احتمال نہ ہو) یا محکماتِ قرآن (جہاں کسی تاویل کی گنجائش تک نہ ہو) کے علاوہ پورے قرآن کی تفسیر و تاویل محمد ؐ وآل محمد کی نشاندہی کے بغیر تفسیر بالرائے ہے، اپنے استحسانات و قیاسات کو عمل میں لانا ناجائز ہے اور اپنی ذاتی رائے کی بنا پر قطعی اور یقینی طور پر ایک معنی کی تخصیص یا توجیہ و تاویل ممنوع ہے، البتہ صرف احتمال کے طور پر بیان کرنا حرام نہیں اور نہ اقوالِ مفسرین کو ذکر کرنا حرام ہے، اگر اقوالِ متعددہ اور احتمالاتِ کثیرہ میں سے کسی قول یا احتمال کی تائید فرمانِ امام سے نہ ہو تو اپنی رائے سے ترجیح پیدا کرنا حرام ہے۔