کتب فریقین سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت امیر
المومنین ؑ کے علم کا صحابۂ حضرت رسالتمآب ؐ میں سے ہم پلہ کوئی نہیں تھا، بلکہ
آنحضرت ؑکی تمام صحابہ سے اَعلمیت کے متعلق روایات تو اتر سے موجود ہیں اور
واقعاتِ تاریخ پر بھی اگر منصفانہ نظر ڈالی جائے تو حضرت امیر المومنین ؑ کو علمی
اعتبار سے جو نسبت باقی صحابہ سے تھی اسی طرح ان کی اولادِ طاہرین ؑ کو اپنے اپنے
زمانہ کے علمأ و فضلا ٔ سے وہی نسبت حاصل تھی۔
علامہ امینی ؒنے اس سلسلہ میں کتب ِمخالفین سے
کافی آثار نقل کئے ہیں جناب رسالتمآبؐ کا ارشاد ہے:
۱-
اَعْلَمُ اُمَّتِیْ مِنْ بَعْدِیْ
عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ (مناقب خوارزمی، کنز العمال ج۶)
ترجمہ: میرے بعد میری اُمت کا بڑا عالم۔۔۔ علی ابن
ابیطالب ؑ ہے۔
۲-
عَلِیٌّ وِعَائُ عِلْمِیْ وَ وَصِیِّیْ
وَ بَابِیْ الَّذِیْ اُوْتِیَ مِنْہُ (شمس الاخبار )
ترجمہ: علی ؑ میرے علم کا ظرف اور میرا وصی اور
میرے پاس پہنچنے کا دروازہ ہے۔
۳-
عَلِیٌّ بَابُ عِلْمِیْ وَ مُبَیِّنٌ
لِاُمَّتِیْ مَااُرْسِلْتُ بِہٖ مِنْ بَعْدِیْ (کنزالعمال ج۶)
ترجمہ: علی ؑ میرے علم کا دروازہ اور میری اُمت کے
لئے اُن چیزوں کے بیان کرنے والا ہے جن کے لئے میں رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
۴-
عَلِیٌّ خَازِنُ عِلْمِی(شرح ابن ابی الحدید)
ترجمہ: علی ؑ میرے علم کا خازن ہے۔
ان کے علاوہ بہت سی روایات بالفاظِ مختلفہ متعدد
کتب سے اُنہوں نے نقل فرمائی ہیں جو حدِّ تواتر تک پہنچتی ہیں، یہی وجہ تھی کہ
اکابرِصحابہ مسائل مشکلہ میں حضرت امیر المومنین ؑ کے دروازہ پر جبہ سائی کا شرف
حاصل کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتے تھے اور مسائل کے حل ہوجانے کے بعد آنحضرت
ؑ کی علمی سبقت اور اپنی بے مائیگی کا کھلے الفاظ میں اعتراف کر لیا کرتے تھے،
چنانچہ علامہ امینیؒ نے حضرت عمر کا اعتراف مختلف تعبیرات کے ساتھ متعدد کتب
ِمخالفین سے نقل فرمایا ہے:
۱-
لَوْلا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَر (مناقب
خوارزمی، ریاض النضرۃ، مطالب السئول)
ترجمہ: اگر علی ؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
۲-
اَللّٰھُمَّ لا تُبْقِنِیْ لِمُعْضَلَۃٍ
لَیْسَ لَھَا بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ( مناقب خوارزمی)
ترجمہ: اے اللہ مجھے ایسے مشکل مسئلہ کے لئے زندہ
نہ رکھ جس کے حل کے لئے علی ؑ موجود نہ ہوں۔
۳-
اَقْضَانَا عَلِیٌّ ( استیعاب، تاریخ
ابن عساکر، مفتاح السعادۃ ص۴۰۰)
ترجمہ: ہم میں بڑا قاضی علی ؑ ہے۔
انکے علاوہ اور بھی متعدد عبارتیں ہیں جو علامہ
امینیؒ کی کتاب ’’ الغدیر‘‘ کے
مطالعہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
دیگر صحابہ میں سے حضرت عبدا للہ ابن عباس ( حِبرُ
الْاُمّۃ ) کا قول ہے:
٭ مَا
عِلْمِیْ وَعِلْمُ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ فِیْ عِلْمِ عَلِیٍّ اِلَّا کَقَطْرَۃٍ
فِیْ سَبْعَۃِ اَبْحُرٍ۔
ترجمہ: میرا اور جناب رسالتمآبؐ کے تمام صحابہ
کرام کا علم۔۔۔ علی ؑ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسا کہ ایک قطرہ آب سات
سمندروں کے سامنے۔
نیز عبد اللہ ابن مسعود کا قول ہے:
٭ اِنَّ
الْقُرْآنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ مَا مِنْھَا حَرْفٌ اِلَّاوَلَہُ
ظَھْرٌ وَ بَطَنٌ وَاِنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْطَالِبٍ عِنْدَہُ مِنْہُ الظَّاھِرُ
وَالْبَاطِن۔
ترجمہ: تحقیق قرآن مجید سات حرفوں پر نازل ہوا
اوران میں سے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور حضرت علی ابن ابیطالب ؑ کے
پاس اس کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔
یہ روایت سات قرائتوں کے عنوان کے ذیل میں بیان کی
جاچکی ہے، ان کے علاوہ اور کئی اکابرِ صحابہ کا اُنہوں نے ذکر کیا جنہوں نے حضرت
علی ؑ کی اَعلمیت کا اعتراف کیا ہے، اسی طرح بہت بڑی تعداد ہے اُن صحابہ کرام کی
جنہوں نے جناب رسالتمآب کو فرماتے ہوئے سنا:
٭ اَنَا
مَدِیْنَۃ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا وَلا تُوْتَی الْبُیُوْتَ اِلَّا مِنَ
اَبْوَبِھَا۔
ترجمہ: میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ
ہے اور گھروں میں دروازوں سے ہی آیا جاتا ہے۔
٭ وَفِیْ
بَعْضِھَا۔۔۔ مَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَأ تِھَا مِنْ بَابِھَا۔
ترجمہ: بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ جو شہر میں
آنا چاہے اس کو دروازہ سے آنا چاہیے۔
٭ اَوْکَذِبَ
مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یَصِلُ اِلٰی الْمَدِیْنَۃِ اِلَّا مِنْ قِبَلِ
الْبَابِاَوْلَنْ تُوْتی الْمَدِیْنَۃُ اِلَّا مِنْ قِبَلِ الْبَابِ۔
ترجمہ: جو دروازہ کے سوا شہر میں داخل ہو نے کا
وہم و گمان کرے وہ جھوٹا ہے، دروازہ کے بغیر شہر میں داخل ہو نے کی صورت ہی نہیں۔
٭ اَوْفَمَنْ
اَرَادَ الْعِلْمَ فَلْیَأتِ الْبَابَ۔
ترجمہ: جو علم کا خواہش مند ہو پس وہ دروازہ سے ہی
آئے۔
اسی طرح روایات میں مدینۃ ُ العلم ۔۔۔ دارُ
الحکمۃ۔۔۔ دارُالعلم۔۔۔ مدینۃ ُالفقہ کے الفاظ کا اختلاف بھی ہے، علامہ امینیؒ نے
ایک سو تینتالیس (۱۴۳)
علمائے اہل سنت کی فہرست لکھی ہے جنہوں نے باسنادِ
صحیحہ یہ حدیث نقل کی ہے۔