متعدد عناوین کے ذیل میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ
قرآن مجید کے ساتھ ایک ایسے عالمِ قرآن کا ہونا بھی ضروری ہے جو قرآن کے ظاہر و
باطن بلکہ اس کے جملہ علوم پر بھی حاوی ہو۔۔۔۔۔ اب اس مطلب کی تائید کے لئے قرآن
مجید کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں تاکہ اربابِ بصیرت ان کی روشنی میں اپنے نظریات
کا جائزہ لے سکیں:
(۱)
فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُوْن۔
ترجمہ: اہل ذکر سے دریافت کرو جو تم نہیں جانتے
ہو۔
٭ وَعَنْ
ابْنِ عَبّاسٍ ھُمْ مُحَمَّدٌ وَّعَلِیّ وَ فَاطِمَۃ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ
ھُمْ اَھْلُ الذِّکْرِ وَالْعِلْمِ وَالْعَقْلِ وَالْبَیَانِ وَھُمْ اَھْلُ بَیْتِ
النُّبُوَّۃِ وَمَعْدِنُ الرِّسَالَۃِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلائِکَۃِ وَاللّٰہ مَا
سُمِّیَ الْمُوْمِنُ مُوْمِنًا اِلَّا کَرَامَۃً لِاَمِیْرِالْمُوْمِنِیْن۔
ترجمہ: ابن عباس سے مروی ہے اہل ذکر سے مراد حضرت
محمد مصطفیٰؐ۔۔۔ حضرت علی ؑ۔۔۔جناب فاطمہ ؑ۔۔۔ امام حسنؑ اور امام حسین ؑ ہیں، یہی
اہل ذکر۔۔ اہل علم۔۔ اہل عقل۔۔ اہل بیان۔۔ اور اہل بیت النبوۃ ہیں نیز رسالت کی
کان او رملائکہ کا محل نزول ہیں، اللہ کی قسم مومن کو مومن ہی حضرت امیرالمومنین
علیہ السلام کی کرامت کے لئے کہا گیا ہے۔
اور کتاب ’’ینابیع المودۃ‘‘ سے بروایت تفسیر ثعلبی
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے:
٭ قَالَ
عَلِیّ نَحْنُ اَھْلُ الذِّکْرِ۔
ترجمہ: حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ
ہم اہل ذکر ہیں۔
(۲)
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ
عِبَادِنَا۔
ترجمہ: ارشاد قدرت ہے پھر ہم نے وارثِ کتاب بنایا
ان لوگوں کو جن کو اپنے بندوں میں سے چن لیا۔
٭ قَالَ
الْفُضل بْنِ روز بہَان فِیْ اِبْطَالِ النَّھْجِ عَلِیّ مِنْ جُمْلَۃِ وَرْثَۃِ
الْکِتَابِ لِاَنَّہُ عَالِمٌ بِحَقَائِقِ الْکِتَابِ فَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی
عِلْمِہٖ وَوفُوْر تَوغلِہٖ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْکِتَابِ۔۔۔ اِنْتَہٰی۔
ترجمہ: فضل بن روز بہان جو علمائے اہل سنت میں سے
ہے اس نے اپنی کتاب ’’ابطال النہج‘‘ میں لکھا ہے کہ علی ؑ وارثانِ کتاب میں سے ہے
کیونکہ وہ حقائق کتاب کا عالم ہے پس یہ چیز ان کے علم اور معرفت کتاب کے راسخ ہونے
پر دلالت کرتی ہے۔
٭ وَ
یُؤیّدہُ قَوْل النَّبِیّ عَلِیّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِیّ۔
ترجمہ: اور جناب رسالتمآبؐ کا فرمان کہ علی ؑ
قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے اس کا مویّد ہے۔
(۳)
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا
مَعَ الصَّادِقِیْن۔
ترجمہ: ارشاد خداوندی ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو
اور سچوں کے ساتھ ہو جائو۔
٭ عَنِ
السّیُوْطِیْ فِی الدُّرّ الْمَنْثُوْرِ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ وَ کُوْنُوْا مَعَ
عَلِیّ بْنِ اَبِیْطَالِبٍ۔
ترجمہ: سیوطی کی تفسیر درّ منثور سے بروایت ابن
عباس منقول ہے یعنی علی ؑ بن ابیطالب کے ساتھ ہو جائو۔
(۴)
وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ۔
ترجمہ: جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے۔
٭ عَنِ
الثَّعْلَبِیْ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَلام قَالَ ھُوَ عَلِیّ۔
ترجمہ: ثعلبی سے بروایت عبداللہ بن سلام مروی ہے
کہ اس سے مراد حضرت علی ؑ ہیں۔
(۵)
اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلّ قَوْمٍ ھَاد۔
ترجمہ: سوائے اس کے نہیں کہ تو ڈرانے والا ہے اور
ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے۔
٭ رَویٰ
الْعَلَّامَۃ عَنِ الْجُمْہُوْرِ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ
اَنَا الْمُنْذِرُ عَلِیّ الْھَادِیْ وَبِکَ یَاعَلِیّ یَھْتَدِیْ
الْمُھْتَدُوْنَ۔
ترجمہ: علامہ نے بطریق جمہور حضرت ابن عباس سے
روایت کی ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: میں منذر ہوں اور علی ؑ ہادی ہے
اور فرمایا اے علی ؑ ہدایت کے طلبگار تجھ ہی سے ہدایت پائیں گے۔
یہ پانچ آیاتِ مجیدۂ قرآنیہ کے اقتباسات نقل
کئے گئے ہیں جن کے متعلق روایات سے ثابت ہے کہ ان کے مصداق حضرت امیرالمومنین ؑ
ہیں، پس ان سے ثابت ہوا کہ جناب رسالتمآبؐ کے بعد اُمت اسلامیہ پر حضرت علی ؑ کی
اطاعت واجب ہے اور چونکہ قرآن کے خطابات صرف اسی دَور تک محدود نہیں لہذا یہ ماننا
پڑے گا کہ تا قیامت ان آیاتِ قرآنیہ کا مصداق امت میں باقی ہونا واجب ہے جو جناب
رسالتمآب کی تعلیمات کا ذمہ دار قرار دیا جاسکے اور آیاتِ قرآنیہ کی وضاحت کرنے
میں وہ ان کا صحیح قائم مقام ہو۔
(۱)
پہلی آیت کی رُو سے تا قیامت اہل ذکر میں سے ایک فرد کا ہونا ضروری ہے
تاکہ’’فَاسْئَلُوْا‘‘ کا خطاب تا قیامت باقی رہے۔
(۲)
دوسری آیت کے اعتبار سے وارثِ کتاب کا تا قیامت موجود ہونا ضروری ہے
کیونکہ کتاب کی حد قیامت ہے۔
(۳)
تیسری آیت میں چونکہ خطاب قیامت تک کے ایمان والوں سے ہے لہذا ہر
دَور میں تا قیامت ایک صادق کا وجود ضروری ہے جس کے ساتھ تمسک پکڑا جاسکے۔
(۴)
چوتھی آیت کا مصداق (عالمِ کتاب) بھی قیامت تک ہونا لازم ہے کیونکہ
آیت قیامت تک زندہ ہے اور قرآن بھی قیامت تک ہے۔
(۵)
پانچویں آیت کی رُو سے قیامت تک اقوامِ عالم کے لئے ایک ہادی کی بقا
ٔ ضروری ہے۔
(۶)
چونکہ قرآن معجزۂ باقیہ ہے لہذااس کے ساتھ تاقیامت ایک
معجزنماکاوجودضروری ہے جوقرآن کے اعجازکومنظرعام پر لاسکے۔
(۷)
چونکہ قرآن قیامت تک کے لیے ضابطہ قوانین ہے لہذا اسکے نافذکرنے والے
کا وجود بھی تاقیامت لازم ہے۔
(۸)
حدیث متواتر (ثقلین ) سے چونکہ قرآن و اہل بیت رسول میں تلازمِ
وجودثابت ہے جسکی مفصل بحث سابقاً مذکور ہو چکی ہے پس جب تک قرآ ن موجود ہے اہل
بیت رسول کا ایک فردمعصوم بھی ساتھ ساتھ موجود ہے وہی مخلوق خداپرحجت خدا ہے۔
پس جس طرح سورج بادلوں میں روپوش ہوکر دنیاوالوں
کو اپنا فیض پہنچا سکتاہے اسی طرح امام زمانہ بھی غائب رہ کر اپنے فیوض سے خلق خدا
کو بہرہ ور کرسکتا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ
مُحَمَّدٍ وَّعَجِّلْ فَرَجَھُمْ