گذشہ
صفحات میں چونکہ وعدہ کر چکا ہو ں لہذا اس حقیقت کو صرف اہل سنت کے مشہو ر علامہ
ابن قتیبہ دینوری کے الفاظ سے پیش کرتا ہو ں تا کہ مسئلہ انعقادِ خلافت کے ساتھ
صحا بہ کا اہل بیت سے بر تائو ذرا زیادہ واضع ہو جائے اور معلو م ہو جائے کہ جنا ب
رسالتمآب کی بے حد سفارش کے بعد صحابہ نے عترتِ رسول کی حر مت کا کس حد تک لحا ظ
رکھا؟ چنا نچہ علا مہ موصوف نے کتا ب ’’الامامہ والسیاسۃ‘‘ مطبو عہ مصرکی جز اوّل
ص۱۲ سے بیا ن کوشرع کیا جارہاہے:
کَیْفَ کَانَتْ بَیْعَۃَ عَلِیّ بْنِ اَبِیْ
طَالِبٍ کَرّمَ اللّٰہ وَجْھَہٗ
٭
وَ اِنَّ اَبَابَکْرٍ تَفْقُدُ قَوْمًا تَخَلَّفُوْا عَنْ بَیْعتِہٖ عِنْدَ عَلِیّ
کَرّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ فَبَعَثَ اِلَیْھِمْ عُمَر فَجَائَ فَنَادَاھُمْ وَ ھُمْ
فِیْ دَارِ عَلِیّ فَأبَوْا اَنْ یَخْرُجُوْا فَدَعَا بِالْحَطَبِ وَ قَالَ
وَالَّذِیْ نَفْسُ عُمَر بِیَدِہٖ لَتُخْرِجَنَّ اَوْ لَاَحْرِقَنَّھَا عَلٰی مَنْ
فِیْھَا فَقِیْلَ لَہٗ یَا اَبَاحَفْصٍ اِنَّ فِیْھَا فَاطِمَۃَ قَالَ وَاِنْ۔۔۔
فَخَرَجُوْا فَبَایَعُوْ اِلَّا عَلِیًّا فَاِنَّہُ زَعَمَ انَّہُ قَالَ حَلَفْتُ
اَنْ لا اَخْرُجَ وَلا اَصْنَع ثَوْبِیْ عَلٰی مَا تقی حَتّی اَجْمَعَ
الْقُرْآنَ۔
ترجمہ: تحقیق حضرت ابو بکر نے ایک قو م کو نہ پا
یا جو ان کی بیعت سے کنا رہ کش ہو کر حضرت علی ؑ کے پا س جمع تھے، پس ان کی طر ف
عمر کو بھیجا۔۔۔ چنا نچہ وہ آیا اور ان کو آواز دی در حالانکہ وہ حضرت علی ؑ کے
گھر میں تھے، پس با ہر آنے سے انھو ں نے انکار کر دیا۔۔۔ پس عمر نے لکڑیا ں
منگوائیں اور کہا مجھے قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جا ن ہے نکلو ورنہ میں اس
گھر کو جلا دوں گا ان آدمیوں سمیت جو اس کے اندر ہیں، پس کہا گیا اے ابو حفص
(عمر) اگر اس میں فاطمہ بنت رسو ل ہو تو بھی؟ عمر نے جو اب دیا ۱؎
اگرچہ وہ بھی ہو۔۔۔ پس سب نکلے ۲؎
اور انھو ں نے بیعت کی سو ائے علی ؑ کے، کیو نکہ انھو ں نے فر ما یا کہ میں نے قسم
کھائی
_____________________________________________________
۱- آل رسو ل کی عزت وحر مت اسی کا نا م ہے اور
رسا لتمآب کی فر ما ئشا ت کی قدر دانی کا یہی طریقہ ہے؟ اور ثقلین کے ساتھ تمسک
پکڑنے کا یہی کا میا ب پہلو ہے اور یہ ہے آپس میں شیر و شکر ہو نے کا مطلب(
اَلْفَاطِمَۃُ بَضْعَۃُ مِنِّیْ مَنْ اَذَاھَا فَقَدْ اَذَانِیْ) کو ملاحظہ فر ما
یئے؟
۲-
یہ تھا اسلا م کا پہلاجمہو ری طو ر سے ووٹوں سے حا صل شدہ منصفا نہ
طرزِ عمل۔۔۔ ڈرا دھمکا کر گھرو ں کو جلا دینے کی قسمیں کھاکر مسندِ رسا لت پر اسلا
می تاجد ار اور مقتدائے اُمت کی حیثیت سنبھالنے کی عادلا نہ روش ؟ مر تے وقت حضرت
ابو بکر اس با ت کا افسوس کر رہے ہیں کہ کا ش حضرت علی ؑ کے گھر کی بے اد بی نہ کی
ہو تی۔۔۔چند صفحات قبل ملا حظہ فرمائیے۔
ہے کہ باہر نہ آئوں گا اور اپنے کا ندھے پر
چا در نہ ڈالو ں گاجب تک قر آن شریف کو جمع نہ کر لوں گا۔
فَوَقَفَتْ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا
عَلٰی بَابِھَا فَقَالَتْ لا عَھْدَ لِیْ بَقَوْمٍ حَجَرُوْا اسؤ محْضَرٍ
مِنْکُمْ تَرَکْتُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمْ
جَنَازَۃُ بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَقَطَعْتُمْ اَمْرَکُمْ بَیْنَکُمْ لَمْ
تسْتأمرُوْنَا وَلَمْ تردّ اِلَیْنَا حَقًّا۔۔ فَأتٰی عُمَر اَبَابَکْر فَقَالَ
لَہُ اَلَّا تُأخُذَ ھَذَا الْمُتَخَلّف عَنْکَ بِالْبَیْعَۃِ فَقَالَ
اَبُوْبَکْرٍ لِقُنْفُذْ وَھُوَ مَولٰی لَہُ اِذْھَبْ فَادْعُ لِیْ عَلِیًّا قَالَ
فَذَھَبَ اِلٰی عَلِیّ فَقَالَ مَا حَاجَتُکَ؟ فَقَالَ یَدْعُوْکَ خَلِیْفَۃُ
رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ عَلِیّ لَسَرِیْعٌ مَا کَذبْتُمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ
فَرَجَعَ فَأبْلَغَ الرِّسَالَۃَ قَالَ فَبَکٰی اَبُوْبَکْرٍ طَوِیْلا فَقَالَ
عُمَر الثَّانِیَۃَ اَلَّا تُمْھِلْ ھٰذَا الْمُتَخَلّف عَنْکَ بِالْبَیْعَۃِ۔
اس دوران
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھادروازہ پر کھڑے ہو کر فر ما رہی تھیں کہ ہما رے دروازہ
پر آنے والوں میں سے تم سے زیا دہ بد ترین انسا ن آج تک کوئی نہیں آیا۔۔۔ تم نے
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جنا زہ ۱؎
ہمارے پاس چھو ڑ دیا اور اپنے درمیا ن معا ملہ خلا فت طے کر لیا۔۔۔ نہ ہم سے مشورہ
لیا اور نہ ہمیں اپنا حق دیا، پس عمر ابو بکر کے پاس آیا اور کہا کہ اس پیچھے رہے
(علی ؑ) سے تو بیعت کیو ں نہیں لیتا؟ پس ابوبکر نے اپنے غلام قنفذکو حکم دیا کہ جا
اور علی ؑ کو بلا لا، پس اس کا غلام قنفذ۔۔ علی ؑ کے پاس آیا تو آپ ؑ نے پوچھا
کہ کیوں آیا ہے؟ تو کہا کہ آپ کو رسول اللہ کا خلیفہ بلاتا ہے؟ پس حضرت علی ؑ نے
فرمایا کہ بہت جلد تم نے رسول اللہ پر جھوٹا الزام ۲؎لگایا
ہے؟ پس اس نے واپس جا کر حضرت علی ؑ کا پیغام پہنچایا، تو ابوبکر بہت دیر تک روتا
رہا پھر عمر نے دوبارہ کہا کہ اس بیعت سے پیچھے رہے ہوئے (علی ؑ) کو مہلت نہ دو۔
فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
لِقُنْفُذْ عُدَّ اِلَیْہِ فَقُلْ لَـہُ اَمِیْرالْمُوْمِنِیْنَ یَدْعُوْکَ
لِتُبَایِع فَجَائَ قُنْفُذْ فَادّیٰ مَا اُمِرَ بِہٖ فَرَفَعَ عَلٰی صَوْتِہٖ
فَقَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ؟ لَقَدِ ادَّعیٰ مَا لَیْسَ لَہُ فَرَجَعَ قُنْفُذْ
فَأبْلَغَ الرِّسَالَۃَ فَبَکٰی اَبُوْبَکْرٍ طَوِیْلاً ثُمَّ قَامَ فَدَقُّوْا
الْبَابَ فَلَمَّا سَمِعَتْ اَصْوَا تَھُمْ نَادَتْ بِأعْلٰی صَوْتِھَا یَا
اَبَتِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ذَا لَقِیْنَا بَعْدَکَ مِنْ ابْنِ الْخَطّابِ
وَابْنِ اَبِیْ قُحَافَۃَ فَلَمَّا سَمِعَ الْقَوْمُ صَوْتَھَا وَ بُکائَ
ھَا انْصَرَفُوْ بَاکِیْنَ وَکَادَتْ قُلُوْبُھُمْ تَنْصَدِعُ وَاَکْبَادھم
تَنْفَطِرُ وَبَقِیَ عُمَر وَ مَعَہُ قَوْمٌ۔
_____________________________________________________
۱- جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ان الفاظ سے
معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنارہ ٔ رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
۲- حضرت علی ؑ کے نزدیک ان کا خلیفہ ٔ رسول
کہلانا رسول پر بہتان تھا۔
پس
ابو بکر نے قنفذ کو کہا کہ ان کے پا س دوبا رہ جا ئو اور کہو کہ آپ کو امیر المو
منین بلا رہے ہیں ۱؎پس قنفذ واپس آیا اور علی ؑ کو پیغا م پہنچا یا
پھر ابو بکر بہت دیر رتک روتا رہا۔۔۔ پھر عمر ا ُٹھا اور ایک جما عت کو ہمراہ لے
کر حضرت فا طمہ ؑ کے دروازہ پر پہنچے پس انھو ں نے دروا زہ کھٹکھٹایا، جب بی بی نے
ان کی آواز سنی تو بلند آوازسے ندا دی: اے ابا جا ن۔۔ اے رسو ل اللہ !
تیرے بعد عمر ابن خطا ب اور ابو بکر ابی قحا فہ سے کیا کیا تکالیفیں پہنچی ہیں!!
جب لو گو ں نے بی بی کی آوازاور رونا سنا تو رو تے ہوئے واپس چلے گئے اور قریب
تھا کہ ان کے دل پھٹ جائیں اور جگر شگافتہ ہو جائیں اور عمر اور اس کے سا تھ چند
آدمی کھڑ ے رہے۔
فَأخْرَجُوْا عَلِیًّا فَمَضَوْا بِہٖ اِلٰی
اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالُوْا بَایِعْ۔۔۔ فَقَالَ وِ اِنْ اَنَا لَمْ اَفْعَلْ فَمَہ؟
قَالُوْا اذًا وَ اللّٰہِ الَّذِیْ لا اِلٰـہَ اِلَّاھُوَ نَضْرِبُ عُنُقِکْ قَالَ
أ تَقْتُلُوْنَ عَبْدَاللّٰہِ وَ اَخُو رَسُوْلِـہٖ؟ قَالَ عُمَر اَمَّا
عَبْدَاللّٰہِ فَنَعَمْ وَاَمَّا اَخُو رَسُوْلِہٖ فَلا ۔۔وَاَبُوْبَکْرٍ
سَاکِتٌ لا یَتَکَلَّمُ فَقَالَ لَـہُ عُمَر اَلاَّ تَاْمُرُ فِیْہِ فَقَالَ لا
اُکْرِھُہُ عَلٰی شَیْئٍ مَاکَانَتْ فَاطِمَۃَ اِلٰی جَنْبِہٖ فَلَحَقَ عَلِیّ
بِقَبْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یَصِیْحُ وَ
یَبْکِیْ یُنَادِیْ یَابْنَ اُمّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتُضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا
یَقْتُلُوْنِیْ۔
پس علی ؑ کو اُنہو ں نے با ہر بلا یا اور اپنے
ہمراہ ابو بکر کے پا س لے گئے! پس ان سے کہا کہ بیعت کرو آپ ؑ نے فرمایا اگر میں
نہ کر وں تو کیا کرو گے؟ کہنے لگے کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی خدا نہیں
تیر ی گردن اُڑادیں گے! آپ نے فر ما یا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے بندے اور اللہ
تعالیٰ کے رسول کے بھا ئی کو قتل کرو گے؟ تو عمر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ تو
ہم ما نتے ہیں لیکن اس کے رسو ل کا بھا ئی نہیں ما نتے!؟ اور ابوبکر یہ چپکے سے یہ
با تیں سن رہا تھا اس کو عمر ۲؎نے
کہا کہ تم اس کے متعلق کو ئی حکم کیو ں نہیں دیتے؟ پس اس نے کہا کہ جب تک اس کے
پہلو میں فا طمہ ؑ زندہ ہے میں اس کو کسی با ت پر مجبو ر نہیں کر تا پس حضرت علی ؑ
روتے ہوئے اور نا لہ وزاری کرتے ہوئے جنا ب رسالتمآب کی قبر پر تشریف لے گے اور
قبر کو سینے
_____________________________________________________
۱- حضرت علی ؑ کے نزدیک ان کا امیرالمومنین
کہلانا ناجائز تھا۔
۲- پہلے
اسلا می راج یا اجما عِ امت کا حال دیکھے۔۔۔ اور انصا ف کیجیے غالباً اس کا یہی
مطلب ہو گا کہ وہ قتل کا حکم دے دے اور ہم اس پر عمل کر یں ۔
سے لگا کر عرض کرنے لگے۔۔۔ اے بھا ئی جا ن۔۔۔ قوم
نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کے مجھے قتل کر دیں ۱؎
حضرت علی ؑ نے جنا ب رسالتمآبؐ کے ساتھ اخوت کا
دعوی کیا جس کو عمر نے ردّ کر دیا اورکہا کہ ہم تم کو رسول کا بھائی نہیں
مانتے۔۔۔۔۔ اب ذراکتب اہل سنت میں سے اس کا جائز لیجیے؟ اور جنا ب رسالتمآب کی
فرمائشا ت کے مقابلہ میں حضرت عمر کے قو ل کا حق بجا نب ہو نا مبنی پر تعصب وعناد
ہو نا خود سمجھئے:
٭ عَنْ
مُسْنَدِ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ مِنْ عِدَّۃِ طُرُقٍ اَنَّ النَّبِیّ آخی بَیْنَ
النَّاسِ وَتَرَکَ عَلِیّاًا حَتّٰی بَقِیَ آخِرَھُمْ لا یرٰی لَہُ اَخٌ
فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ آخَیْتَ بَیْنَ اَصْحَابِکَ تَرَکْتَنِیْ فَقَالَ
اِنَّمَا تَرَکْتُکَ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ وَاَنَا اَخُوْکَ فَاِنْ ذَکَرََک
اَحَدٌ فَقُلْ اَنَا عَبْدُاللّٰہِ وَاَخُوْ رَسُوْلِہٖ لا یدّعِیْھَا بَعْدَکَ
اِلَّا کَذَّابٌ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مَا اخرْتُکَ اِلَّا لِنَفْسِیْ
وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لا نَبِیَّ
بَعْدِیْ وَاَنْتَ اَخِیْ وَ وَارِثِیْ۔
ترجمہ: مسند احمد بن حنبل سے متعدد طرق سے منقول
ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے لوگوں کے درمیان مواخات (بھائی چارہ)قائم کیا اور حضرت
علی ؑ کو چھوڑ دیا۔۔۔ یہاں تک کہ یہ سب سے آخر تنہا رہ گئے اور کوئی باقی نہ تھا
جن کے ساتھ ان کا بھائی چارہ قائم فرماتے، توحضرت علی ؑ نے عرض کیا یا رسول اللہ
آپؐ نے تمام صحابہ کے درمیان صیغۂ اخوت جاری کیا اور مجھے چھوڑ دیا؟ تو حضوؐر نے
فرمایا کہ تجھے میں نے اپنے لئے باقی چھوڑا ہے تو میرا بھائی ہے اور میں تیرابھائی
ہوں، اگر کوئی تیرے ساتھ بات کرے تو کہہ اُسے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس
کے رسول کا بھائی ہوں اور اس چیز کا دعویٰ تیرے علاوہ جو بھی کرے وہ جھوٹا ہے۔۔۔
مجھے بر حق نبی مبعوث کرنے والے خدا کی قسم تجھے میں نے صرف اپنے لئے ہی باقی رکھا
ہے اور تیری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون ؑ کی موسیٰؑ سے تھی صرف فرق یہ ہے کہ
میرے بعد نبی اور کوئی نہ ہوگا۔۔۔ اور تو میرا بھائی بھی ہے اور وارث بھی ہے۔
٭ وَفِیْ
حَدِ ْیثٍ قَالَ مَکْتُوْبٌ عَلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ
عَلِیّ اَخُوْ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ اللّٰہُ السَّمٰوَات
بِألْفَی عَام۔
ترجمہ: ایک اور حد یث میں آپ نے فر ما یا: کہ
خلقت آسما ن سے دوہزار بر س پہلے جنت کے دروازے پر لکھا ہو ا ہے: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَعَلِیّ اَخُوْ
رَسُوْلِ اللّٰہِ (نقلا ً از دلائل الصدق)
_____________________________________________________
۱- یہ
وہی الفا ظ ہیں جو حضرت ہارون ؑ نے اپنی قو م کی گو سا لہ پرستی اور مر تد ہو جا
نے کے بعد حضرت مو سیٰؑ کے سامنے کہے تھے۔۔۔ قرآنی الفاظ ہیں ان الفاظ میں اس با
ت کا کہنا یہ کہ حضرت علی ؑ ان کو مرتد سمجھتے تھے۔
نو ٹ:
حدیث مواخات۔۔۔ ترمذی، مستدرک ودیگر کتب صحا ح سے بھی منقول ہے۔
یہاں پر پہنچ کر بخا ری شریف کے گذشتہ نو ٹ پر
تطبیق دیجیے:
٭
وَکَانَ لِعَلِیّ مِنَ النَّاسِ وَجْہٌ حَیَاتُ فَاطِمَۃَ فَلَمَّا تُوُفِیَتْ
اِسْتَنْکَرَ عَلِیّ وُجُوْہُ النَّاسِ۔
ترجمہ: فا طمہ ؑ کی مو جودگی میںلو گو ں کے درمیا
ن کچھ نہ کچھ علی ؑ کی عزت تھی، جب اُن کا انتقا ل ہوا تو لوگوں کے چہرے علی ؑ سے
پھِر گئے!؟
حضرت ابو بکر بھی یہی کہے رہے ہیں کہ فاطمہ ؑ کے
حینِ حیا ت علی ؑ کو ہم مجبور نہیں کرتے۔۔۔ (پھر دیکھا جائے گا) نتیجہ خود سمجھ
لیں؟
اس کے بعد ابن قتیبہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر
کا حضرت فاطمہ ؑ سے معافی طلب کرنے کے لئے جانے کا تذکرہ کیا ہے:
٭ فَلَمَّا
قَعَدَ ا عِنْدَ ھَا حَوَلَتْ وَجْھَھَا اِلٰی الْحَائِطِ فَلَمَّا سَلَّمَا
عَلَیْھَا فَلَمْ تَردّ عَلَیْھِمَا السَّلام۔
ترجمہ: جب یہ دونوںقریب جا کر بیٹھے تو بی بی نے
دیوار کی طرف منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے سلام کیا تو بی بی نے ان کو سلام کا جواب
تک نہ دیا ۱؎
پھر بی بی نے اپنی میراث کے متعلق احتجاج کیا اور
فرمایا:
٭ مَا
بَالکَ یَرِثُکَ وَلا نَرِثُ مُحَمَّدًا۔
ترجمہ: کیا تیرے اہل تیرے وارث ہوں اور ہم محمدؐ
کے وارث نہ ہوں؟
اس کا جواب اس فرضی حدیث سے دیا گیا ہے کہ حضوؐر
کا فرمان ہے ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا‘‘ پس بی بی پاک نے فرمایا:
٭ اَرَأیْتُکُمَا
اِنْ حَدّثْتُکُمَا حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ تَعَرّفَانِہٖ وَتَفْعَلانِ
بِہٖ؟ قَالا نَعَمْ فَقَالَتْ نَشدتُکُمَا اللّٰہَ اَمَا تَسْمَعَا رَسُوْلَ
اللّٰہِ یَقُوْلُ رِضَا فَاطِمَۃَ مِنْ رِضَایْ وَسَخَطُ فَاطِمَۃَ مِنْ سَخَطِیْ
فَمَنْ اَحَبَّ فَاطِمَۃَ ابْنَتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَرْضٰی فَاطِمَۃَ
فَقَدْ اَرْضَانِیْ وَمَنْ اَسْخَطَ فَاطِمَۃَ فَقَدْ اَسْخَطَنِیْ قَالَا نَعَمْ
سَمِعْنَاہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَالَتْ فَاِنِّیْ اُشْہِدُ اللّٰہَ وَ
مَلائِکَتَہُ اَنَّکُمَا اَسْخَطَانِیْ وَمَا اَرْضَیْتُمَانِیْ وَلَئِنْ لَقِیْتُ
النَّبِیّ لَاَشْکُوْنَ کُمَا اِلَیْہِ۔
_____________________________________________________
۱- حالانکہ مسلمان کے سلام کا جواب واجب ہوا
کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی بیؑ کے نزدیک وہ اس قابل نہ تھے۔
ترجمہ: کیا میں اگر تم کو جناب رسالتمآب کی حدیث
سنائوں تو اس پر عمل کرو گے؟ ان دونوں نے کہا۔۔ہاں۔۔ پس آپ نے فرمایا کہ میں تم
کو اللہ کی قسم دے کر سوال کرتی ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا
تھا کہ فاطمہ کی رضا میری رضا سے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی سے ہے، جس نے
فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے فاطمہ کو راضی کیا اس نے مجھے راضی
کیا اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا، دونوں نے کہا۔۔ہاں۔۔ ہم
نے رسول اللہ سے ایسا ہی سنا ہے، پس فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ
کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور رضا مند نہیں کیا اور
جب میں نبی سے ملاقات کروں گی تو تم دونوں کی ان کو شکایت کروں گی۔
یہ سن کر حضرت ابوبکر رونے لگ گئے اور سخت روئے
اور بی بی آخر تک یہی فرماتی رہیں کہ: وَاللّٰہِ لَاَدْعُوَنَّ
اللّٰہَ عَلَیْکَ فِیْ کُلِّ صَلٰواۃٍ اُصَلِّیْھَا ثُمَّ خَرَجَ بَاکِیًا۔۔خدا کی
قسم میں ہر نماز میں تجھ پر بدعا کرتی رہوں گی اور وہ روتا ہوا باہر چلا گیا
(الخبر)
اَلآنْ حَصْحَصَ الْحَقّ فَمَنْ شَائَ اتَّخَذَ
اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً