بعض جہلا لوگ آئمہ معصو مین علیہم السلام کے کما
لا ت کی تا بِ بر دا شت نہ لا کر ان کے بعض کمالات سے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ان
کو خا لق و را زق کہہ دیتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ شانِ اقد سِ اہل بیت میں افرا ط
وتفریط سے کا م لیا گیا ہے۔۔۔ جن لو گو ں نے اہل بیت عصمت کی خصو صیا ت کو سرے سے
نظر اندا ز کر دیا انہو ں نے ان کو آپ جیسا عا م انسا ن تصو ر کر لیا اور ان کی
جا نب سے ما فو ق العا دہ صادر شد ہ اُمو ر کی تا و یلیں تلا ش کر لیں اور بعض
اوقا ت متعلقہ روایا ت کو ضعف کی طرف منسو ب کر دیا اور جن لو گو ں نے اہل بیت کی
فر مائشات اور ان سے صا در شد ہ کمالات کو تسلیم و رضا کی نگاہ سے دیکھا وہ بعض
اوقات دوسری طر ف اصول مذہب اور دیگر تصریحاتِ قرآن و حد یث سے غا فل ہو گئے پس
تطبیق پر موفق نہ ہو سکنے کی وجہ سے جادۂ مستقیمہ سے ہٹ گئے اور اہل بیت عصمت کو
خالق ورازق کہہ کر دامن توحید سے الگ ہو کر شرک کی وادی میں جا کودے۔
حالانکہ اہل بیت عصمت کے حق میں نہ وہ بات درست
تھی نہ یہ درست ہے وہ تفریط تھی اور یہ افراط ہے، قرآن مجید میں متعدد آیات جن
میں خلق و رزق کا مسئلہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور غیر مبہم الفاظ میں ذاتِ
احدیت نے خالقیت اور رازقیت کا اپنی ذات میں حصر فرمایا ہے جن میں کسی تاویل کی
کوئی گنجائش ہی نہیں۔
اور حضرات محمد وآ ل ِمحمد ہی چونکہ مقصد ِتخلیقِ
کا ئنات ہیں جس طرح گذشتہ صفحات میں مضمون احادیث گزر چکا ہے اور حدیث قدسی مشہور
لَوْلا کَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاک کے حقیقی مصداق بھی یہی ہیں تو گویا
مقصد یہ ہوا کہ اگر یہ نہ ہوتے تو باقی مخلوقات میں سے کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔ لیکن اس
کے ساتھ یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ محمد وآلِ محمد پر خلّاقِ عالم کا یہ سب سے بڑا
احسان ہے کہ اس نے ان کو اس عظیم مرتبہ پر فائز فرمایا اور اپنے اختیار سے ہی ایسا
کیا۔۔ وہ مقصدِ کائنات ہیں اور مصداقِ لولاک ہیں، لیکن خدا کا ہی احسان ہے کہ اس
نے ان کو اس عظمت کا حامل اور اس شان کا اہل قرار دیا۔۔ یہ اس کا ان پر فضل و
احسان ہی ہے ورنہ ایسا کرنا اس پر واجب نہیں تھا کیونکہ اگر نہ کرتا تو اس سے باز
پرس کرنے والا کوئی نہ تھا۔
پس جب وہ مقصد و غایت ِخلقت ِکائنات ہیں تو باقی
تمام مخلوق کا وجود خلق و رزق انہی کے صدقہ سے ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ اگر وہ نہ
ہوتے تو نہ ہم موجود ہوتے۔۔ نہ مخلوق ہوتے۔۔ اورنہ مرزوق ہوتے، خداوندکریم نے اپنے
لطف و کرم سے ان کو اپنے اور باقی مخلوقات کے درمیا ن واسطہ ووسیلہ قرار دیا ہے۔۔۔
ورنہ موجد بھی وہی ہے اور خالق و رازق بھی وہی ہے، جس طرح اس نے ان کو پیدا کیا اس
طرح ہم کو اور ساری مخلوق کو بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے۔۔ وہ ان کا بھی رازق ہے اور
ہمارا بھی رازق ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اگر وہ نہ پیدا ہوتے تو ہم نہ ہوتے
اور ہمارا وجود خلق و رزق سب انہی کی مبینہ وساطت سے ہے پس اگر ان کو خالق و رازق
کہنے سے یہی مطلب ہے کہ وہ چونکہ واسطہ ہیں لہذا نسبت مجازاً ان کی طرف کی گئی ہے
تو یہ کفر نہیں ہے لیکن آئمہ پر ان الفاظ کا اطلاق اِذنِ شارع کا محتاج ہے اور
اگر مطلب یہ ہو کہ وہ حقیقتاً خالق و رازق ہیں یہ عقلاًو نقلا ًباطل ہے اور اس
عقیدہ کا رکھنا کفر ہے۔
پس اگر احادیث آئمہ میں ایسے الفاظ وارد ہوں جن
سے خلق و رزق کا ان کی طرف منسوب ہونا ثابت ہو تو بجاہے اس کے کہ اس کو ردّکیا
جائے اس کو مبنی بر حقیقت قرار دے کر دامنِ توحید سے دست کشی کی جائے۔۔۔۔۔ اس کا
صحیح حل یہی ہے کہ ان کو واسطہ فی الخلق اور واسطہ فی الرزق قرار دے کر نسبت کو
مجازیت پر محمول کر لیا جائے۔
اس کی عام الفہم مثال یوں ہے کہ اگر ایک شریف
انسان اپنے نوکروں کو ہمراہ لے کر کسی دوسرے شریف کا مہمان ہو اور میزبان اس کے
لئے پر تکلف کھانے لائے تو اس کے بعد دستر خوان پرجملہ حاضر ہونے والے مہمانوں کو
کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں میں نے کھلادیا ہے اور اگر اس کے نوکر کہہ دیں کہ
ہمیں اپنے آقا نے یہ کھانے کھلائے ہیں تو یہ بھی بے جا نہیں۔۔۔ حالانکہ حقیقتاً
یہ انتظام و اہتمام ہوتا میزبان کی طرف سے ہی ہے اور وہ شر یف مہما ن چونکہ سب کے
لیے واسطہ ہے لہذا اس کی طر ف منسوب کر دیا جا تا ہے اور اگر میز با ن کے کانوں تک
یہ پہنچ جائے تو وہ بھی اس کو بر ا نہیں مانتا کیونکہ اس نے سب کچھ کیا ہی اسی ایک
مہمان کی خا طر ہوتا ہے۔۔۔ لیکن اگر اس نسبت کو مبنی برحقیت قرار دیا جائے تو
یقینا کذبِ صریح بلکہ بہتانِ عظیم ہے۔
پس بعض جہلا جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا وند کریم
محمد و آل محمد کو پیدا کرنے کے بعد بالکل بے کا راور معطل سا ہو گیا ہے اور یہی
جو چا ہتے ہیں خود کر تے ہیں وہ بحیثیت تما شائی کے دیکھ رہا ہے اور سب کچھ ان کے
حوالہ کر چکا ہے لہذا ان کامعاملات میں اس کو کوئی دخل دینے کا ختیار نہیں۔۔۔۔
خلق۔۔ رزق۔۔زندگی و موت وغیرہ کاانتظام سب انہی کے ہا تھ میں ہے اور ہے بھی
حقیقتاً نہ مجا زاً ! ایسا عقیدہ رکھنا شرک و کفر ہے (خدا وند کریم جملہ مومنین کو
اس سے محفوظ رکھے)
عقلی طو ر پر ان کو خالق و را زق ما ننے پر متعدد
اشکا لا ت وارد ہو تے ہیں:
(۱)
اگر یہ خالق ہو ں تو جملہ مخلو ق میں سے ان کے قا تلین عبد الر حمن بن
ملجم۔۔ شمر وغیر ہ سب ان کی مخلو ق ہوں گے۔۔ تو کو ن سی عقل یہ تسلیم کر سکتی ہے
کہ ادنیٰ تر ین مخلو ق اپنے خالق کو قتل کر دینے پر قا در ہو جائے؟
(۲)
اگر یہ خا لق ورازق ہو ں تو فد ک تھا رزق۔۔ اور اس پر نا جا ئز
قبضہ کر نے والے تھے مخلو ق و مر زوق؟ تو کیا رازق کی شان یہی ہے کہ اپنے ادنیٰ تر
ین مخلو ق و مر زوق سے رزق کا سوا ل کرے؟
(۳ )
اگر یہ خالق ہوں تو ان کی مظلو میت کا رونا قیا مت تک کس لیے ہے؟کیا مخلو ق
خا لق پر ظلم کر سکتی ہے؟
(۴)
کربلا کی سہ روز کی بھو ک و پیا س کا رونا کس لیے ہے؟ کیا مخلو ق نے اپنے
خالق کا تین دن تک رزق بند کر دیا تھا؟
(۵) اگر
حضرت علی ؑ مثلاً خالق ہوں تو ان کے والدین حضرت ابو طالب ؑ اور حضرت فا طمہ بنت
اسد ؑ یا ان سے پہلے تا حضرت آدم ؑو حو ا ؑتما م آبا ٔ واُمہا ت ان کی
مخلو ق ہوں تو کیا مخلو ق کی پشت یا بطن سے خا لق پیدا ہو سکتا ہے؟
(۶)
آئمہ معصو مین ؑ کی اولا دیں بلا و سطہ یابالواسطہ تا قیا مت بھی یقینا
مخلو ق ہیں۔۔ تو کیا خا لق کو مخلو ق کے پیدا کر نے کے لیے شا دی کی ضرو رت ہے؟
بہر کیف اس فا سد عقیدہ سے متعدد اس قسم کی خر ا بیا ں پید ا ہو جا تی ہیں۔
شیخ صدوق قدہ ’’عقا ئد‘‘ میں تحریر فر ما تے ہیں
مفو ّضہ اور غا لیو ں کے متعلق ہما را عقید ہ یہ ہے کہ وہ کا فر ہیں اور یہو د
ونصاریٰ ومجو س سے بھی بد تر ین ہیں۔۔۔۔۔ چنا نچہ حضر ت اما م رضا علیہ السلا م سے
ایک رو ایت نقل فر ما ئی ہے کہ آپ ؑ نے فر ما یا اے اللہ ۔۔میں تیر ی طر ف حو ل۱؎
وقو ت سے بر ا ئت چا ہتا ہو ں کیو نکہ حو ل وقو ت کا ما لک صر ف تو ہی ہے،
میرے اللہ میں تیر ی طر ف ان لو گو ںسے اظہا ر بر ا ئت کر تا ہو ں جو ہما ری طرف
ایسی با تیں منسو ب کر تے ہیں جن کو ہم اپنے وجو د میں نہیں پاتے، اے اللہ خلق و
امر کا مالک صر ف تو ہے ہم تیر ی ہی عبا دت کر تے ہیں اور تجھ سے ہی مد د چاہتے
ہیں، اے اللہ تو ہما را بھی خا لق ہے اور ہمارے آبا ٔو اوّ لین و آخرین کا بھی
خالق ہے، اے اللہ ربو بیت تیری ذا ت کو زیبا ہے اور خدائی تیر ے لیے ہی مو زوں ہے۔
لعنت ہے
ان نصاریٰ پر جنہوں نے تیر ی عظمت کو گھٹا یا۔۔۔ اور لعنت ہے ان لو گو ں پر جو ان
جیسی باتیں کر یں، اے اللہ ہم تیر ے بندے اور تیر ے بند و ں کی او لاد ہیں، ہم
اپنے نفسو ں کے لیے نفع اور نقصان اور مو ت وحیات
_____________________________________________________
۱- یعنی جو لوگ میری طرف منسوب کرتے ہیں ان سے
اور ان کے عقیدہ سے بری ہوں۔
کے مالک
نہیں، اے اللہ جو ہم کو خالق و را زق سمجھے ہم تیر ی طر ف ان سے بری ہیں جس طر ح
کہ حضر ت عیسیٰؑ نصرانیوں سے بر ی ہیں، اے اللہ ہم نے ان لو گو ں کو اس عقید ۂ فا
سدہ کی دعو ت نہیں دی لہذاان کے قو لِ فا سد کی گرفت میں ہم کو نہ لانا۔
نیز زرارہ سے مر و ی ہے کہ میں نے اما م اجعفر صا
دق علیہ السلا م کی خدمت میں عر ض کیا کہ ایک شخص عبد اللہ بن سبا کی اولا د میں
سے آپ ؑ کے متعلق تفو یض کا قائل ہے۔۔۔ آپ ؑ نے فر ما یا تفویض کا کیا مطلب
ہے؟میں نے عر ض کیا وہ کہتا ہے کہ خدا نے محمد مصطفیٰ اور حضرت علی ؑ مر تضی کو
پیدا کیا اور پھر سب کچھ ان کے سپرد کر دیا۔۔ پس با قی سب مخلو ق کو ان دو نو ں نے
پید ا کیا اور یہی ان کو جِلاتے اور ما رتے ہیں اور یہی رزق دیتے ہیں، آپ ؑ نے فر
ما یا اس دشمن خدا نے جھوٹ کہا ہے جب دو با رہ تو اس سے ملے تو یہ آیت اس کے پڑھ
کر سنا نا جو کہ سو رہ رعد میں ہے:
اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکاء خَلَقُوْا
کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ
وَھُوَالْوَاحِدُ الْقَھَّارُط
کیا ان لو گو ں نے اللہ کے شر یک بنا لیے کہ وہ
اسی کی طرح خلق کر سکتے ہیں پس ان پر معا ملہ خلق متشابہ ہو گیا ہے کہہ دو کہ اللہ
ہی ہر شے کا خلق اور وہ واحد وقہا ر ہے ، مقصد یہ تھا کہ اس آیت کی رُو سے خدا کے
سو ا کسی کو ماننا شر ک ہے۔
مقد مہ تفسیر میں احتجا ج طبر سی سے منقو ل ہے کہ
ایک دفعہ تفو یض کے مسئلہ میں شیعو ں کے در میا ن میں اختلاف پید ا ہو گیا تھا۔۔۔۔
ایک گروہ کہتا تھا کہ اللہ نے آئمہ کو طا قت دی ہے کہ یہ پید ا بھی کر تے ہیں اور
رزق بھی دیتے ہیں اور یہ معا ملہ انہی کے سپر د ہے۔۔۔ اور دو سر ا گر وہ اس عقید ہ
کی تر دید کر تا تھا وہ کہتے تھے کہ یہ چیز محالات میں سے ہے کیو نکہ اجسا م سو
ائے اللہ کے کوئی پیدا کر ہی نہیں سکتا، پس ان دونوں گر وہو ں کی را ئے یہ ٹھہری
کہ محمد بن عثما ن نا ئب اما م کی طر ف رجو ع کیا جائے پس ان دو نوں گروہوں نے نا
ئب مذکو رہ کی وسا طت سے حضرت حجت عجل اللہ فرجہ کی خد مت میں عریضہ بھیجا۔۔ پس
حضرت حجت علیہ السلا م کی جا نب سے یہ جوا ب صا در ہو ا:
اِنَّ
اللّٰہَ ھُوَ خَلَقَ الْاَجْسَامَ کُلّھَا وَقَسّمَ الْاَرْزَقَ لِاَنَّہُ لَیْسَ
بِجِسْمٍ وَلا حَالّ فِیْ جَسْمٍ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ
الْبَصِیْر فَأمَّا الْاَئِمَّۃُ فَاِنَّھُمْ یَسْئَلُوْنَ اللّٰہَ فَیَخْلُقُ وَ
یَسْئَلُوْنَہُ فَیَرْزُقُ اِیْجَابًا لِمسْلتَھُمْ وَاِعْظَامًا لِحَقِّھِمْ۔
ترجمہ: تحقیق اللہ تما م اجسا م کا خالق ہے اور ر
زقوں کی تقسیم کر نے وا لا ہے۔۔۔ کیونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمو ں میں حلول کر
نے وا لا ہے، اس کی مثل کوئی شئے نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔۔۔ لیکن آئمہ علیہم
السلا م پس وہ اللہ سے سوال کر تے ہیں اور وہ پیدا کر تا ہے اور یہ سوا ل کر تے
ہیں اور وہ رزق دیتاہے۔۔۔ ان کی دعا و ں کو مستجا ب کر تے ہوئے اور ان کے حق کی
عظمت کو بڑھاتے ہوئے۔
نیز روضۃ الواعظین سے منقول ہے ایک شخص کامل بن
ابراہیم کہتا ہے کہ میں حضرت امام حسن عسکری ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ مسئلہ
تفویض کے متعلق دریافت کروں۔۔ پس میں خدمت اقدس میں پہنچ کر سلام کر کے بیٹھ گیا،
اچانک میں نے دیکھا کہ ایک مہ جبین خورد سال بچہ جس کی عمر چار سال کے لگ بھک تھی
میرے قریب آیا اور پھر فرمایا اے کامل تو ولی اللہ اور حجت خدا کے پاس مفوضہ کے
بارے میں کچھ دریافت کرنے کے لئے آیا ہے؟ وہ تو جھوٹے ہیں بلکہ ہمارے دل اللہ کی
مشیت کے ظرف ہیں۔۔ چنانچہ فرماتا ہے: وَمَا تَشَاؤُنَ اِلَّا اَنْ
یَّشَاء اللّٰہُ۔
پس ان احادیث سے بھی صاف طور پر واضح ہو گیا کہ
خالق۔۔ رازق۔۔ محیی۔۔ ممیت صرف اللہ سبحانہ کی ذات ہی ہے، اور اس کی مخلوق میں سے
کوئی شخص ان صفات میں اس کا شریک نہیں بلکہ اہل بیت اطہار کی طرف ان اوصاف کا
منسوب کرنا شرک وکفر ہے۔۔ اور اس قسم کا عقیدہ رکھنے والے لوگوں سے آئمہ اہل بیت
بری و بیزار ہیں۔
البتہ حضرات محمد وآل محمد مقصود کائنات ہیں اور
اللہ کی طرف رسائی کے لئے مخلوق کا وسیلہ ہیں۔۔ نیز اگر یہ پیدا نہ ہوتے تو نہ خلق
ہوتی اور نہ رزق ہوتا، پس بارگاہ ِربّ العزت میں رسائی انہی کے ذریعہ سے ہے اور
استجابتِ دعا انہی کے توسّل سے ہوتی ہے۔
نیز یہ بھی وا ضح رہے کہ آئمہ اہل بیت کی شا ن و
منز لت جو اللہ کے نزدیک ہے ہما رے نا قص عقو ل اس کے سمجھنے سے قا صر ہیں۔۔۔۔ان
کے مر ا تب کی حقیقت یا خدا جا نے۔۔ یا محمد مصطفیٰ جا نے، ہما را اعتقاد یہ ہے کہ
ہر صفت کما ل میں جہا ں تک امکاناتِ بشر یہ کا تعلق ہے آئمہ طا ہر ین اس کی آخری
حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔۔ پس بے جا نہ ہو گا اگر کہا جائے کہ رضائے خد ا ان کے پیچھے
ہے اور حق ان کے تا بع ہے یعنی ان کے پیچھے چلنے وا لا ہی حق بجانب ہوتا ہے اور
اسی کو ہی رضائے خدا حا صل ہو سکتی اور بس۔
اس کا یہ
مطلب ہر گز نہیں کہ وہ رضائے خدا کے آگے اور حق سے بڑھے ہوئے ہیں یا یہ کہ خد ا
اُن کا محتا ج ہے؟ کیونکہ یہ عقید ہ اسلا م سے خا ر ج کر دیتا ہے۔۔ ہر ایک کو خدا
کی طر ف احتیا ج ہے اور خدا کسی کا محتا ج نہیں، پس آلِ محمد جس طر ف چلتے ہیں حق
ان کے پیش نگاہ ہو تا ہے اور رضا ئے خدا مطمع نظر ہو ا کر تی ہے۔۔ وہ حق کی طر ف
اور رضائے خدا کی جا نب ہی اقدا م کر تے ہیں، پس وہ حق کے تا بع اور رضائے خدا کے
پیچھے ہی ہیں۔
البتہ جب عا م لو گو ں کے سامنے حق و با طل کے در
میا ن اشتبا ہ پڑجائے اور رضا و غضب کے مسلک میں اقتبا س ہو جائے اور چاہیں کہ حق
مل جائے اور رضائے خدا دستیاب ہوتو ان کے لئے اس کے سوا کو ئی چارہ ہی نہیں کہ
محمد وآلِ محمد کی سیرت کا مطا لعہ کریں۔۔ اور ان کے کردار کا جائزہ لیں۔
پس جس طرف ان کا عمل ہوگا ماننا پڑے گا کہ حق اسی
طرف ہے اور رضا ئے خدا بھی اسی جانب ہے۔۔ کیو نکہ آلِ محمد کا عمل حق و رضا کے
پیچھے ہی ہوا کرتا ہے پس آلِ محمدکا حقیقی شیعہ و موالی وہی ہے جس کا کردار آل
محمد کے کر دار کے پیچھے اور عمل آلِ محمد کے تا بع ہو۔
گزشتہ عنوانات میں شیعیان و محبانِ آلِ محمد کے
متعلق جس قدر فضائل گذر چکے ہیں وہ انہی لوگوں کے حق میں ہیں جو ولا یت آل محمد
کے ساتھ ساتھ اطاعت آلِ محمد بھی رکھتے ہوں۔۔۔ جیسا کہ اکثر احادیث کا صریحی
مضمون یہی ہے، ورنہ صرف زبان سے دعوی کر کے عملی طور پر ان کے خلاف کرنا قطعاً فا
ئد ہ مند نہیں ہے ۔۔۔۔۔خدا وند کریم تمام محبا نِ آل محمد کو تو فیقِ عمل عطا فر
مائے۔۔۔ آمین
وَا
لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن وَ صَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ
وَّآلِہٖ الطَّاہِرِیْن