اس میں شک نہیں قرآن مجید خالق و مخلوق کے درمیان
ایک ایسا گہرا رشتہ اور ناقابل اضمحلال تعلق ہے جو رہتی دنیا تک برقرار رہے گا،
اور یہ ایک ایسا محبت نامہ ہے جس کی دید تجدید ِ محبت بلکہ تمہید ِمعرفت ہے، جس
طرح محب اور محبوب کے درمیان رازو نیاز کے مکتوبات سوزشِ فراق کے ازالہ کا موجب ہو
کر روح پرور اور مسرت افزأ ہوا کرتے ہیں ان مکتوبات کی دید لذتِ وصال کی آئینہ
دار ہوتی ہے جس کی بدولت شوقِ دیدار میں مزید تڑپ پید اہو جاتی ہے اور ان کا
مطالعہ باہمی مکالمہ کا لطف پہنچاتا ہے، بار بار دیکھنا اور پڑھنا بجائے ملول کے
روحانی کیف میں اضافہ کا موجب ہوتا ہے، اسی طرح ذاتِ احدیت واجب ُالوجود کی صحیح
معرفت اور اس کی محبت ِراسخہ کی حقیقی جاذبیت اہل عرفان کو تلاوت ِکلامُ اللہ میں
وہی لطف بخشتی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت سے گویا ہم اپنے خالق سے
ہمکلام ہیں اور بالمشافہ سوال و جواب کے ذریعے پیار و محبت کا نہایت پُر کیف اور
سرور بخش مکالمہ جاری ہے جس سے طبیعت کی سیری ہوتی ہی نہیں، پھر فہم معانی اور
ادراکِ مطالب میں جس قدر ذہن کو رسائی حاصل ہو گی اتنا ہی روحِ ایمان میں انبساط
اور قلبِ ایقان میں سکون و اطمینان ہوگا، کہیں اطاعت و عبادت اور کہیں پُر از
اخلاص محبت بھرے لہجہ میں نازوادا کی پیاری باتیں۔۔۔۔ مثلاً :
تو مجھے یاد کر میں تجھے یاد کروں ، تو میرے فرائض کو نہ بھول میں تجھے نہ بھلائوں
، میں تیرے دشمنوں سے بیزار تو میرے
دشمنوں سے بیزار ، تو میرے محبوب کی
اطاعت کر میں تجھے محبوب بنالوں ،
تو میری نعمت پر شاکر میں تیری اطاعت پر شاکر ، تو
میرے قریب میں تیرے قریب ، جنت تیرے
لئے، حور و قصور تیرے لئے، غلمان و حوریں تیری خاطر ، کوثر
و سلسبیل کی نہریں تیرے لئے۔
صرف یہی نہیں بلکہ تو جو چاہے گا سب کچھ تیرے لئے
حاضر ہوگا، بس میرے مہمانخانہ ٔ جنت میں تیرے پہنچنے کی دیر ہے، میرے اور تیرے
دشمنوں کے لئے جہنم کا گھر ہے وہ اس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔
جب خالق و مخلوق کے درمیاں اس قسم کے پُر لطف
مذاکرے اور رازونیاز کی روح پرور باتیں ہو رہی ہوں تو کون صاحبِ عقل طبیعت میں
ملول کا احساس کر سکتا ہے؟ بلکہ بمقتضائے فطرت اس کا جی اور بڑھنا چاہیے اور انسان
کی ذہنی صلاحیتوں میں کمزوری اور مادّی الجھنوں میں گرفتاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے
حکیم مطلق نے اندازِ کلام میں ایک ہی قسم کی بات اور یک رنگی گفتگو کو روانہ رکھا،
تاکہ ملول آور نہ ہو، پس تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مضامین میں تبدیلی کردی، عنوانِ
کلام کو کبھی سابقہ نبیوں اور اُن کی اُمتوں کے حالات و قصص کی طرف، کبھی امثال،
کبھی معقولات اور بعض اوقات محسوسات وغیرہ مختلف موضوعات کی جانب منتقل فرماتا
رہا، یہ سب کچھ اس حکیم مطلق کی کمالِ رافت وعطوفت کے مظاہر ہیں۔
اگر ایک رعایا کے فرد کو بادشاہِ وقت سے گفتگو کا
شرف ملے یا اسکی جانب سے اسکے پاس کوئی خط یا پیغام آجائے تو یہ ظاہر ہے کہ وہ
شخص اپنے تئیں بہت بڑا آدمی خیال کر تے ہوئے اپنے دل میں پھولے نہ سمائے گا، اسی
طرح کسی آدمی کو قرب ِبادشاہ کا لالچ دیا جائے تو نہ معلوم اس کی تحصیل کیلئے کیا
کیا قربانیاں کرنے لئے تیار ہو جائے گا۔
لیکن ’’چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک‘‘دنیا وی
سلاطین کو خالق کائنات سے نسبت ہی کیا ہے،وہ تو مہربان ہے اور ایسا کہ امیر وغریب،
شاہ و گداسب کو اپنی بارگاہ میں حضوری اور فیض یابی کی خود دعوت دیتا ہے، گو بندہ
اس کے حکم کو ٹھکرا دے تاہم وہ بار بار بلانے سے گریز نہیں فرماتا، اور نہ کسی دیر
سے آنے والے سے روٹھتا ہے، اپنی جانب قُدس سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس غرض
کیلئے بھیجے کہ تمام انسانوں سے اس کا تعارف کرائیں اور پھر اس کی بارگاہ میں فیض
یابی کی دعوت دیں، جن خطابات سے بذریعہ ٔ وحی و الہام انبیا ٔ کو نوازا اُنہی
خطابات سے بذریعہ انبیا ٔ عام انسانوں کو سرفراز فرمایا، ہمارے علائق مادیہ و
عوائق نفسیہ گو ہم کو اس کی بار گاہ سے گریز کراتے رہے لیکن پھر بھی اس کا فیض عام
کبھی ہم سے منطقع نہ ہوا، اب غور فرمائیے۔۔۔۔۔۔ کہ اگر مہربان بادشاہ سے باہم
مکالمہ کا شرف دستیاب ہوجائے تو پھر اس سے بڑھ کراور کونسی نعمت عظمیٰ ہو سکتی ہے؟
(۱)
عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ
قَالَ اَلْقُرْآنُ عَھْدُاللّٰہِ اِلٰی خَلْقِہٖ فَقَدْ یَنْبَغِیْ لِلْمَرْئِ
الْمُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فِیْ عَھْدِہِ وَ اَنْ یَّقْرَأَ مِنْہُ فِیْ کُلِّ
یَوْمٍ خَمْسِیْنَ آیـَۃً۔
ترجمہ: حضرت امام جعفرصادقؑ نے فرمایا: کہ قرآن
مخلوق کی طرح اللہ کا عہد ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے عہد میں نظر کرے اور ہر
روز اس کی پچاس آیات کی تلاوت کرے۔
(۲)
رَوٰی اِسْحٰقِ بْنِ عَمَّارْ عَنِ الصَّادِقِ قَالَ قُلْتُ
لَجُعِلْتُ فِدَاکَ اِنِّی اَحْفُظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَہْرِ قَلْبِیْ
فَأَقْرَأہُ عَنْ ظَھْرِ قَلْبِیْ اَوْ اَنْظُرُ فِی الْمُصْحَفِ؟ قَالَ لا بَلْ
اِقْرَأ وَانْظُرْ فِی الْمُصْحَفِ وَھُوَ اَفْضَلُ۔ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ
النَّظْرَ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃٌ؟
ترجمہ: اسحاق بن عمار کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام
جعفر صادقؑ سے عرض کیا میں آپ پر قربان جائوں، میں قرآن کا حافظ ہوں کیا تلاوت
یاد کرتا رہوں یا قرآن میں دیکھ کر پڑھوں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا: نہیں بلکہ قرآن
میں دیکھ کر تلاوت کرو، کیا تم نہیں جانتے کہ قرآن میں نظر کرنا بھی عبادت ہے؟
(۳)
قَالَ النَّبِیُّ نَوِّرُوْا بُیُوْتَکُمْ بِتِلاوَۃِ الْقُرْآنِ
وَلا تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْرًا کَمَا فَعَلَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی صَلُّوْا
فِی الْـکَنَائِسِ وَالْبِیَعِ وَعَطَّلُوْا بُیُوْتَھُمْ فَاِنَّ الْبَیْتَ اِذَا
کَثُرَ فِیْہِ تِلاوَۃُ الْقُرْآنِ کَثُرَ خَیْرُہٗ وَاتَّسَعَ اَھْلُہٗ وَ
اَضَائَ لِاَھْلِ السَّمَائِ کَمَا تُضِیُٔ نُجُوْمُ السَّمَائِ لِاَھْلِ
الدُّنْیَا۔
ترجمہ: جناب رسالتمابؐ نے ارشاد فرمایا: کہ اپنے
گھروں کو قرآن کی تلاوت سے منور کرو اور یہود و نصاریٰ کی طرح اُن کو قبریں نہ
بنائو کہ اُنہوں نے بھی اپنے گرجوں میں نمازیں پڑھیں اور گھروں کو محروم چھوڑ دیا،
پس جس گھر میں تلاوت ِقرآن زیادہ ہو تو اُس میں برکت زیادہ اور رزق وسیع ہو جاتا
ہے اور وہ گھر اہل آسمان کیلئے ستاروں کی طرح چمکتا ہے۔
(۴)
عَنْہُ قَالَ اَھْلُ الْقُرْآنِ ھُمْ اَھْلُ اللّٰہِ وَ خَاصَّتَہٗ۔
ترجمہ: نیز آپؐ نے فرمایا: کہ قرآن والے اللہ
والے ہیں اور اس کے خاص بندے ہیں۔
(۵)
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ فِی الْمُصْحَفِ
مَتَحَ بِبَصَرِہٖ وَ خُفِّفَ عَلٰی وَالِدَیْہِ وَ اِنْ کانَا کافِرِیْن۔
ترجمہـ حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: کہ جو شخص
قرآن سے دیکھ کر تلاوت کرے اس کی بصارت دیر پا ہوگی اور اس کے والدین سے تخفیف
ِعذاب ہوگی اگر چہ وہ کافر ہوں۔
(۶)
عَنْ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ قَالَ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ سَمِعْتُ
رَسُوْل اللّٰہِ یَقُوْلُ اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتَنٌ قُلْتُ فَمَا الْمَخْرَجُ
مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ کِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ خَبْرُ مَا
قَبْلِکُمْ وَ نَبَأُ مَا بَعْدِکُمْ وَ حُکْمُ مَا بَیْنِکُمْ ھُوَ الْفَصْلُ
لَیْسَ بِالْھَزْلِ ھُوَ الَّذِیْ لا یَزِیْغُ بِہٖ الْاَھْوَائُ وَلا یَشْبَعُ
مِنْہُ الْعُلَمَائُ وَلا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ رَدٍّ وَلا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ
وَ ھَُوَ الَّذِیْ مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ وَ مَنِ ابْتَغٰی
الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْن وَ ھُوَ
الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْم ھُوَ الَّذِیْ مَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ وَ مَنْ حَکَمَ
بِہٖ عَدَلَ وَ مَنْ دَعَا اِلَیْہِ دَعَا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔
ترجمہ: حضرت امیر المومنین ؑ سے ایک حدیث ِطویل
میں مروی ہے کہ میں نے جناب رسالتمآبؐ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ضرور فتنے واقع
ہوں گے، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ پھر بچائو کیسے ہو گا؟ فرمایا: کتابُ اللہ
کے ذریعے، اس میں گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اور دورِ حاضر کے احکام مو جود ہیں،
یہ وہ فیصل ہے جس میں سخر یہ پن نہیں، اس کو خواہشات کج نہیں کر سکتیں، اس سے
علمأ سیر نہیں ہوتے، کثرت ِتلاوت سے پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائبات ختم نہیں
ہوتے، اگر اسے کوئی سر کش چھوڑے گا تو خداوند اس کو پست کردے گا، جو ہدایت کو اس
کے غیر میں طلب کرے گا وہ گمراہ ہو گا، یہ اللہ کی مضبوط رسی اور صراطِ مستقیم ہے
جو اس پر عمل کرے گا ثواب پائے گا جو اس کے ساتھ حکم کرے گا وہ عادل ہے، جس نے اس
کی طرف دعوت دی گویا اس نے سیدھے رستے کی طرف بلایا۔
(۷)
عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ ثَلٰـثَۃٌ یَشْکُوْنَ اِلٰی اللّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ مَسْجِدٌ خَرَابٌ لا یُصَلِّیْ فِیْہِ اَھْلُہٗ وَ عَالِمٌ بَیْنَ
جُھَّالٍ وَ مُصْحَفٌ مُعَلَّقٌ قَدْ وَقَعَ عَلَیْہِ الْغُبَارُ لا یُقْرَئُ
فِیْہِ۔
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ قیامت
کے روز تین چیزیں اپنا اپنا شکوہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کریں گی:
٭ وہ
مسجد غیر آباد جس میں کوئی نماز نہ پڑھتا ہو۔
٭ وہ
عالم جو جاہلوں کے درمیان ہو۔۔۔ اور وہ اس سے مسائلِ دینیہ نہ پوچھیں۔
٭ وہ
لٹکایا ہوا قرآن جس پر غبار پڑتا رہے اور کوئی اس کی تلاوت نہ کرے۔
(۸)
عَنْ الْبَاقِرِ مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ قَائِماً فِیْ صَلٰوتِہٖ
کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِکُلِّ حَرْفٍ مِأۃَ حَسَنَۃٍ وَ مَن قَرَئَ فِیْ صَلٰوتِہٖ
جَالِساً کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِکُلِّ حَرْفٍ خَمسِیْنَ حَسَنَۃً وَ مَنْ قَرَئَ
فِیْ غَیْرِ الصَّلٰوۃِ کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِکُلِّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ۔
ترجمہ: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی
ہے کہ جو بحالت ِقیام۔۔۔۔۔ نماز میں قرآن پڑھے اس کے لئے ہر حرف کے بدلہ میں ایک
سو نیکی کا ثواب ہے اور جو بیٹھنے کی حالت میں پڑھے تو اس کے لئے ہر حرف کے بدلہ
میں پچاس نیکیوں کا ثواب ہے اور جو شخص بغیر نماز کے قرآن پڑھے اس کے لئے ہر حرف
کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
(۹)
عَنِ الصَّادِقِ مَا یَمْنَعُ التَّاجِرَ مِنْکُمُ الْمَشْغُوْلَ فِیْ
سُوْقِہٖ اِذَا رَجَعَ اِلٰی مَنْزِلِہٖ اَنْ لَّا یَنَامَ حَتّٰی یَقْرَأَ
سُوْرَۃً مِنَ الْقُرْآنِ فَیُکْتَبُ لَـہٗ مَکَانَ کُلِّ آیـَۃٍ یَقْرَأُھَا
عَشَرُ حَسَنَاتٍ وَ یُمْحٰی عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئٰاتٍ۔
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ
کیا ہرج ہے بازاری کا روبار میں مصروف رہنے والے تاجر کو کہ گھر آکر سونے سے پہلے
قرآن مجید کا کوئی سورہ پڑھ لیا کرے! تا کہ اسکے نامۂ اعمال میں ہر آیت کے بدلہ
میں دس دس نیکیاں درج ہو ں اور د س دس برائیاں کٹ جائیں؟
(۱۰) عَنِ
النَّبِیِّ۔۔۔ اَلنَّظْرُ اِلٰی عَلِیِّ بْنِ أبِیْ طَالِبٍ عِبَادَۃٌ۔۔۔
وَالنَّظْرُ اِلٰی الْوَالِدَیْنِ بِرَأفَۃٍ وَ رَحْمَۃٍ عِبَادَۃٌ۔۔۔
وَالنَّظْرُ الصَّحِیْفَۃِ یَعْنِیْ صَحِیْفَۃِ الْقُرْآنِ عِبَادَۃٌ۔۔۔
وَالنَّظْرُ اِلٰی الْکَعْبَۃِ عِبَادَۃٌ۔
ترجمہ: جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا:
٭ علی
بن ابیطالب ؑ کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔
٭ نرمی
و مہربانی سے ماں باپ کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔
٭ قرآن
کے صحیفہ میں نظر کرنا عبادت ہے۔
٭ خانہ
کعبہ کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔
(۱۱) عَنْ
أبِیْ جَعْفَرٍ عَنْ أبِیْہِ قَالَ اِنَّہُ لَیُعْجِبُنِیْ أنْ یَکُوْنَ فِی الْبَیْتِ
مُصْحَفٌ یَطَّرِدُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہٖ الشَّیَاطِیْنَ۔
ترجمہ: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اپنے والد
بزرگوار سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے قرآن کا گھر میں رکھنا محبوب ہے
کیونکہ اس کے ذریعہ سے خداوند شیاطین کو دُور کرتا ہے۔
(۱۲) حضرت
امام محمدباقرعلیہ السلام نے حضرت رسالتمآبؐ سے نقل فرمایا:
٭ جو
شخص ہرشب قرآن مجید کی دس آیات کی تلاوت کرے اس کا شمار غافلین سے نہ ہوگا۔
٭ جو
شخص ہر رات قرآن مجید کی پچاس آیات پڑھتاہو وہ ذاکرین میں شمارہوگا۔
٭ جو
شخص ہر رات ایک سوآیات کی تلاوت کرے وہ قنوت کرنے والوںمیں لکھاجائے گا۔
٭ جو
شخص ہر رات پانچ سو آیات پڑھے وہ مجتہدین یعنی کوشش کرنے والوں میں شمار ہوگا۔
٭ جو
شخص ایک ہزار آیت ہر رات پڑھے اس کے نامہ اعمال میں ایک قِنطار سونے کا درج ہوگا
جو راہِ خدا میں خرچ کیا گیا ہو، ایک قنطار ہزار مثقال کے برابر اور ہر مثقال
چوبیس قیراط کے برابر کہ ہر قیراط کم از کم کوہِ اُحد اور زیادہ سے زیادہ زمین و
آسمان کے مابین فاصلہ کے برابر ہو گا۔
(۱۳) حضرت
امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہر انسان کو تعقیباتِ نماز صبح کے بعد پچاس
آیات تلاوت کرنی چاہییں۔
(۱۴) ایک
مرتبہ امام حسین علیہ السلام نے قرآن کی تلاوت کرنے والے اور اس کے سننے والے کا
بے حد ثواب بیان فرمایا تو ایک شخص قبیلہ اسد میں سے عرض گزار ہوا کہ حضوریہ ثواب
تو اس کا ہے جو پڑھا لکھا ہو اور جو اَن پڑھ ہو وہ کیا کرے؟ آپ ؑ نے فرمایا: اے
اسدی خدا جو ّ اد اور کریم ہے جیسا پڑھنا آتا ہو ویسا ہی پڑھے، اس کو بھی ویسا ہی
ثواب مل جائے گا۔
(۱۵)
جامع الاخبار
میں وارد ہے کہ جناب رسالتمآب ؐ نے سلمان پاک سے ارشاد فرمایا:
اے سلمان! قرآن کی تلاوت ضرور کیا
کرو کیونکہ یہ گناہوں کا کفارہ، جہنم کی ڈھال اور عذاب سے امان ہے، پڑھنے والے
کیلئے ہر آیت کے بدلہ میںسو شہید کا ثواب ہے، ہر سورہ کے بدلہ میں نبی مرسل کا
ثواب ملتا ہے، پڑھنے والے پراللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اورملائکہ اس کیلئے استغفار
کرتے ہیں،جنت اسکی مشتاق اور خدا اس سے خوشنود ہوتاہے، مومن جب قرآن پڑھتا ہے
خداوند اس پر نظررحمت فرماتاہے اورہر آیت کے بدلہ میں ایک ہزارحورعنایت فرماتاہے
اورہرہرحرف کے بدلہ میں اس کیلئے صراط پرنور ہوتا ہے، جب قرآن ختم کرلے تواس
کوتین سوتیرہ ایسے نبیوں کا ثواب ملے گا جنہوں نے اللہ کے احکا م کی تبلیغ کی
اورگویا اس نے تمام گذشتہ انبیا ٔ کی کتابوں کی تلاوت کی اورخداوند اس کے جسم پر
آتش جہنم کو حرام کرتا ہے اور اپنی جگہ سے ابھی حرکت نہیں کرتا کہ خدا اسکے
اوراسکے والدین کے گناہ معاف کردیتا ہے اور قرآن کے ہر سورہ کے مقابلہ میں جنت
الفردوس میں اس کو ایک شہر عطاہوتاہے جس کی بنأ سبز مرواریدسے ہے اورہر شہر میں
ایک ایک ہزار محل جو ایک ایک لاکھ کمروں پر مشتمل ہے اورہر کمرہ ایک لاکھ بیت پر
مشتمل ہے اورہر بیت کا ایک لاکھ دروازہ رحمت کا ہے ہردروازہ پر ایک لاکھ دربان
اورہردربان کے ہاتھ میں مختلف قسم کے ہدیے ہیں اورہر دربان کے سر پراستبرق کا
رومال ہے جودنیا اوراسکی تمام نعمات سے افضل ہے اورہربیت کے اندرایک ایک لاکھ مسند
عنبرکی ہے کہ ہر مسند پرایک لاکھ تخت اورہر تخت پرایک لاکھ بستر کہ ہر دو کے
درمیان ایک ہزار گز کا فاصلہ ہے اورہر بستر پر ایک ہزار حورموجود ہے (یہاں تک کہ
فرمایا) کہ خداوند قرآن کے پڑھنے والے کے منہ سے نکلے ہوئے ہرحرف کے بدلہ میں ایک
ایک فرشتہ پیداکرتاہے جو قیامت تک اس کیلئے تسبیح کرتاہے (الخبر)
تنبیہ
اعمال کے ثواب کے متعلق جواحادیث اہل بیت عصمت سے
مروی ہیں انکی صحیح تاویل اورحقیقی مفہوم وہ خود ہی جانتے ہیں، ہم اپنے فہم
قاصراورعقل فاترسے انکے متعلق کوئی نظریہ قائم نہیں کرسکتے، ہاں یہ ضرورہے کہ
خداوند کے فیض عمیم اوراس کی وسعتِ رحمت (جس کاکوئی کنارہ نہیں)کے پیش نظر
اتناانعام تودرکناراس سے کروڑ در کروڑبھی بعید از عقل نہیں، اپنی دماغی وسعت کے
ساتھ اسکی وسعتِ رحمت کا قیاس کرنا انتہائی نادانی اوربے عقلی ہے۔
معصوم کا فرمان ازراہِ تسلم مان لینا اوراس کے حکم
کے آگے سرجھکا دینا عین مقتضائے اسلام وایمان ہے جو لوگ ایسی باتوں کوخلافِ عقل
کہتے ہیں وہ عقل کے اندھے اورمعرفت سے کورے ہیں، قدرتِ خدا اورخالق علیم وحکیم کی
عظمت کو سمجھ ہی کیا سکتے ہیں؟ محدودقطعہ ارضیہ کے محدودماحول میں بیٹھ کر اپنی
محدودعقلوں سے خلّاقِ عالم کی لامحدود قدرت ورحمت کی حدبندی کرتے ہیں اورجس چیز کو
ماورأ عقل پاتے ہیںاس کا صاف انکار کرتے ہیں۔
تخلیق آسمان پرغور کیجیے اور پھر ہر ہر سیارہ اور
ستارہ کی خلقت کا ملاحظہ کیجئے اور سائنس دانوں سے ہر ایک کی عظمت وجود کے متعلق
معلومات حاصل کیجئے، بلکہ آسمانی مخلوق کے دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے ذرا مصالح
ارضیہ پر ایک نظر دوڑائیے اور اس کے اندر ایٹمی طاقتیں اور برقی قوتیں ملاحظہ
فرمائیے۔۔۔ و علی ہذ القیاس
آج سے ایک سو سال پیشتر ان باتوںکا تصور تک نہ
تھا اور آج نا قابل انکار حقیقت بن کر سامنے موجود ہیں اگر گذشتہ لوگوں سے ان
چیزوں کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا تو یقینا دورِ حاضر کی محیّرُ العقول ایجادات
سے ذرّاتِ ارضیہ میں قدرت و حکمت ِخالق کے ودیعت کردہ کمالات کے منصہ شہود میں
آسکنے کا انکار کرتے کیونکہ انسان فطرتاً اپنی ناقص عقل میں ہر نہ آنے والی چیز
کے انکار کا خوگر چلا آیا ہے۔
اگر مادّیات سے گزر کر مجردات کی طرف دھیان کر لیا
جائے اور نفوسِ ارضیہ و فلکیہ اور ملائکہ وارواح اور ان کی تفصیل خلقت اور کثرت
وجود و عظمت کا جائز لیا جائے تو ہماری عقول ورطۂ حیرت واستعجاب میں پڑجاتی ہیں۔
خطبات ِنہج البلاغہ میں ابتدائے خلقت ِکا ئنات اور
ایجاد آدم اور تخلیقِ ملائکہ کے متعلق مولائے کائنات، امیر موجودات، حلّالِ
مشکلات حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے جس قدر تفصیلات بیان
فرمائی ہیں ہمارے دماغ ذخائر برآمد ہو سکتے تھے، بعض اوقات ارشاد فرماتے تھے کہ
اس سینہ میںعلم کے خزائن موجود ہیں کاش ان کے حاملین ہوتے!
روایاتِ معراج پر اگر سر سری نظردوڑائی جائے کہ شب
معراج حضور رسالتمآبؐ نے کیا کیا دیکھا اور اس میں سے بھی جس قدر ہم تک پہنچایا
آسمانوں کی وسعت، کرسی کی عظمت، عرش کی رفعت، پھر ستو نہائے عرش کی کثرت،
قندیل ہائے نور کی بہجت اور کنگرہ ہائے عرش کی شوکت و اہمیت پھر ان کے آگے
دریا ہائے نور کی ہیبت و حشمت پھر حجابہائے قدرت و سرا دقاتِ عظمت کی جلالت، حتیٰ
کہ جبرائیل کے قدم رک گئے اورعرض کیا کہ اگر آگے بڑھوں تو پَر جل جائیں اور عرض
کیا کہ میرے مقام سے آپؐ کے محلِ رسائی تک نوے ہزار (۹۰۰۰۰) حجاباتِ نور ہیں کہ دو حجابوں کے درمیاں پانچ سو سال کی راہ ہے۔
بہر کیف ان کی تفصیل تو کسی اور مقام پر آئیگی،
مجھے تو صرف یہ کہنا ہے کہ خدا اپنے خاص بندوں کیلئے بطورِ انعام جو کچھ پیدا کرنا
چاہے وہ کر سکتا ہے نہ اسکی قدرت سے بعید ہے اور نہ اسکی رحمتِ بے پایا ں سے خلاف
متوقع ہے، ہمارا دماغِ نار سا اگر نہ پہنچ سکے تو اس سے اسکی قدرت و رحمت کی نفی
لازم نہیں آتی اور نہ ہمارے انکار سے اس میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے، اسی بنأ
پر معصوم فرماتے ہیںکہ ہماری احادیث صعب و مستصعب ہیںاسکی تاب برداشت کسی کو نہیں
سوائے مَلکِ مقرب کے یا نبی مرسل کے یا اس مومن کے جسکا ایمان امتحان کی کسوٹی پر
پورا اُترا ہوا ہو۔
احادیث میں ثواب کی تعبیر کے الفاظ بھی جدا ہیں
مثلاً کسی میں ایک حرف کے بدلہ میں د س نیکیوں کا ثواب، کسی میں ایک آ یت
کے بدلے دس نیکیاں اور کسی میں ایک حرف کے بدلہ میں سو نیکیاں بیان کی گئی ہیں، اس
اختلاف کو دیکھ کر جلد باز طبائع کو حرف گیری کی ہی سوجھتی ہے! حالانکہ ان میں
کوئی منافات نہیں، پڑھنے والے جس طرح اپنے مدارج میں فرق رکھتے ہیں انکے اذہان جدا
جدا، ایقان جداجدا، صلاحیتیں جدا جدا، خشوع و خضوع میںمنازل الگ الگ اور معرفت و
بصیرت میں مراتب کا معتد بہ فرق، تو اسی طرح اعمال کے ثواب میں بھی مدارج و مراتب
کا فرق ضروری و لازم ہے، لہذا بعید نہیں کہ معصومین ؑ کے کلام پاک میں ثواب کی
تعبیر کیلئے اختلافِ الفاظ اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہر معصوم کا کلام
حاضرین مجلس کی ذہنی وعقلی و ایمانی و عرفانی صلاحیتوں کے مطابق ہوا تھا۔