پس جس طرح خدا وند کریم کا جسم وجسمانیت سے مبرّا
ہو نا ادلہ قطعیہ سے ثابت ہے اور اس کے سوا وہم ڈالنے والی آیات کی صحیح و مناسب
توجیہ ضروری ہے اسی طرح ؎جب عصمت انبیا ٔ قطعی طور پر ثابت ہے تو اس کے خلاف جہا ں
وہم پیدا ہو سکتا ہو وہاں مناسب تاویل کرنا ضروری ولازم ہے، حضرت آدم ؑ کے متعلق
وارد شدہ شبہات کے حل کے لیے مقد مہ کے طور پر مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھنا
ضروری ہے:
(۱)
حضرت آدم ؑ کے سجدہ کے انکارکرنے کے بعدبنی آدم کو گمراہ کر نے کے
متعلق قسمیہ طور پر اس نظریہ کا ابلیس نے اظہارکیا تھا فَبِعِزَّتِکَ
لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْن تیری عزت کی قسم ہے ان کوضرور گمراہ کروں گا۔
(۲)
اس حتمی اور تاکیدی اعلان کے بعد خود ابلیس نے بعض لوگوں کے متعلق ان
صریحاً اور غیر مبہم لفظوں میں استشنا ٔکردیا: اِلَّاعِبَادکَ مِنْھُمُ
الْمُخْلصِیْن مگر ان میں سے تیرے بااخلاص بندے۔۔۔ان کوگمراہ نہ کروں گا یا نہ کرسکوں گا۔
(۳)
انبیا ٔ کے متعلق خداوندکریم نے یوں ارشاد فرمایاہے: اُوْلٰئِکَ
الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہ یہ وہ لوگ ہیں جن
کو اللہ نے ہدایت فرمائی فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ پس تم بھی انہی کے رستہ پر
چلو۔
(۴)
مَنْ یَھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدیْ جس کو اللہ ہدایت کردے وہ ہی
ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور نیز فرمایا: فَمَنِ اتّبع الْھُدیٰ فَلا یَضِلُّ وَ
لا یَشْقٰی جو میری ہدایت پر ہو نہ وہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ شقی ہوتاہے۔
(۵)
حضرت آدم ؑ کے لئے یہ بھی ارشاد ہے اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَم
تحقیق اللہ نے حضرت آدم ؑ کو چن لیا پس حضرت آدم ؑ مُہْتَدِیْن (ہدایت یافتگانِ درس خدا) سے بھی
تھے اور مُخْلصِیْن سے بھی تھے ورنہ مصطفیٰ نہ ہو سکتے چونکہ ہدایت یافتہ خدا تھے
لہذا ضلالت ان کے پاس نہیں آسکتی پس اُضلَّنَّھُم سے مستثنیٰ تھے اور چونکہ
مُخْلصِیْن میں سے تھے لہذا اغوائے شیطانی کا اثر ان پر نہیں ہو سکتا
پس اُغْوِیَنَّھُم سے مستثنیٰ ہیں۔۔۔ اور
یہ چیز مسلّم ہے کہ ہدایت خدا اور اخلاص دونوں جڑیں اور اصل ہیں تمام نیکیوں کی
اور اسی طرح اضلال اور اغوائے شیطانی جڑیں اور اصل ہیں تمام بدکاریوں اور برائیوں
کی۔
پس جب حضرت آدم ؑ سے ضلال اور غوایت جو من جانب
شیطان ہیں کی نفی ہو گئی تو ظلم اور عصیان جو ان کے فردعات میں سے ہیں خود بخود
منتفی ہو گئے۔۔۔۔۔ باقی رہا حضرت آدم ؑ کا جنت میں رہنا یا وہاں سے چلا جانا اس
بات کا تعلق نہ حقوق الناس سے ہے اور نہ حقوق اللہ سے بلکہ اس کا تعلق صرف اس کے
ذاتی نفع و نقصان سے تھا جو دنیا وی زندگی سے وابستہ ہیں پس نہ ان سے امر و نہی کا
تعلق اُمورِ دینیہ کی طرف راجع تھا اور نہ ان کے خلاف کرناحقوق العباد یا حقو ق
اللہ کی پا مالی کا موجب تھا۔
حضرت آدم ؑ کی خلقت ہی زمین کے لئے تھی جس طرح
ارشاد ہے اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا
ہوں۔۔۔ پس ان کو ابتدا میں ایک مقام خاص(جنت)میں سکونت دی گئی کیونکہ ابتدائے
آفرینش سے ان کو اتنی وسیع و عریض زمین میں بھیجنا ان کے مقتضائے بشریت کے
اعتبار سے ان کے لئے باعث وحشت تھا۔۔۔ لہذاایسی جگہ ان کی ابتدائی رہائش کا انتظام
کیا گیا جہاں ملائکہ کی تسبیح و تقدیس (میل جول یا باغ جنت کی سیر وتفریح سے ان کی
طبیعت قدرے مانوس ہو جائے اور ان کوبشری قوتیں سہویہ۔۔۔ غضبیہ۔۔۔ واہمہ۔۔۔ عاقلہ
وغیرہ سب عطا کر دی گئی تھیں، اب اس مقام پر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہدایت دو قسم
پر ہے ایک ہدایت عقل انسانی اور دوسرے ہدایت خدا جو انبیا ٔکو بذریعہ وحی والہام
اورعامتہ الناس کو بذریعہ انبیا ٔہو اکرتی ہے۔
عقل انسانی کی ہدایت صر ف اُمورِ ظاہر یہ تک محدود
ہوتی ہے جو تجربہ کے بعد انسان کو عمل میں مضبوطی کی دعوت دیتی ہے اور بخلاف اس کے
ہدایت الٰہیہ جو تجربہ کی محتاج نہیں بلکہ پہلی مرتبہ سے ہی اطمینانی طور پر اس کو
ماننا اور اس کو واجبُ العمل قرار دینا عقل انسانی کافریضہ ہے اس سے ذرّہ
بھرادھرہونا خطاکاری ہے و عمدی غلطی قراردی جاتی ہے کیونکہ ہدایتِ خد امیں غلطی کا
امکان ہی نہیں ہوتا تاکہ محتاجِ تجربہ ہو پس اس کے خلاف کر ناگناہ اور ظلم ہے۔
ہدایتِ عقل گو وہ بھی خدا کی عطاکردہ استعدادہی سے
ہوتی ہے لیکن اس میں پختگی خداخود ہی بعدتجربہ کے پیداکرتا ہے اور یہی دستورِ خدا
وندی ہے ورنہ اگر اس میں بھی غلطی کا امکان نہ ہوتا اور پہلی دفعہ سے ہی پختہ
دستور ہوتی توکبھی کوئی انسان کسی معاملہ میں خطاکار نہ ہوتا۔
ایک حکیم بڑی محنت سے معجون تیار کرتاہے یاکوئی
کشتہ یادوائی بناتا ہے اور اُسے تسلی واطمینان ہے کہ یہ دوا فلاں مرض کے لیے
سوفیصدمفید ہے بلکہ اکسیرِ اعظم ہے۔۔۔ دوائی تیار ہوجانے کے بعداگر اس کے دل میں
ایک وسوسہ ساپیدا ہوجائے مثلاً اس کی جز شایددرست حل نہ ہوئی تھی یااشیا ٔ کے اور
ان کی مناسبت میں فرق تھا تو وسوسہ کے پیدا ہوتے ہی وہ اس دوائی کوبے کارقراردے کر
ردّی کی ٹوکری میں پھینک دے گا اورجس بیماری کے لئے وہ نسخہ اس نے اپنی محنت ِشاقہ
سے تیار کیا تھا وہ اس کو اپنے کسی عزیزدوست کولاحق ہوجائے اور اس حکیم سے اسی
دوائی کا مطالبہ کیا جائے تو ہرگز وہ یہ دوائی استعمال کرنے پر تیار نہ ہوگا، گو
عقل اُسے پکار پکار کہے کہ دوائی بالکل درست تیار ہے اس میں کوئی خرابی نہیں لیکن
وہم کی وجہ سے اس کو قطعاً اطمینان نہ آئے گا، ہاں اگر یہی دوائی ایک دفعہ یا چند
مرتبہ استعمال ہوچکی ہو اور مفید نتیجہ اس سے برآمد ہو تو اب ہزاروں و سوسے آتے
رہیں اوہام کا مقابلہ ہوتا رہے شکوک پڑتے ہیں اس کا تجربہ سے پیدا شدہ اطمینان
قطعاً زائل نہ ہوگا اور عقل کے قطعی فیصلہ پر عمل کرنے میں اُسے کوئی تامل نہ ہوگا
(خواہ اس دفعہ نتیجہ خاطر خواہ نہ بھی ہو)
اسی طرح ایک زمیندار محنت ِشاقہ سے زمین کو نرم و
ہموار کرے اور عقلی نظریہ کسی خاص جنس کے متعلق رکھتا ہو پس پوری محنت کر چکنے کے
بعد اس زمین کے زرخیر ہونے کے متعلق اس کے شک پڑ جائے تو ہرگز اس میں قیمتی جنس کی
کاشت کرنے سے اوّلا گھبرائے گا کہ کہیں بیج ہی تلف نہ ہو جائے لیکن تجربہ کے بعد
ہزار وہم آئیں پرواہ نہ کرے گا۔
بہر کیف مقصد یہ ہے کہ قوتِ عاقلہ کی دنیاوی
اُمورمیں ہدایت گو اللہ کی جانب سے ہی ہے لیکن اس کے نظریہ کا راسخ ہونا تجربہ کا
محتاج ہے، آپ دنیاوی اُمور میں جس جس چیز کو لیں گے عموماً آپ کو یہ یقین کرنا
پڑے گا کہ عقلی نظریہ محتاجِ تجربہ ضرور ہے۔
پس حضرت آدم ؑ کا اسی عقلی نظریہ کے ماتحت یہ
فیصلہ تھا کہ اس درخت کے پاس نہیں جانا اور یہ اس لیے کہ وہ انہوں نے دیکھا کہ اس
ماحول میں رہنے والے اس سے گریزکرتے ہیں اوراس کے پاس نہیں جاتے اور یا اس لیے کہ
ابتدائی دورکے پیش نظران کو اللہ نے ہی بذریعہ وحی جتلادیا کہ یہ باعث ِنقصان ہے
اسکے قریب نہ جانا فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْن ورنہ تم کو خسارہ رہے گا۔۔۔ ظلم کا معنی خسارہ
ہے۔
ان کے اس عقلی نظریہ کو اللہ نے اپنی طرف اس لیے
منسوب فرمایا کہ استعداداتِ عقلیہ بھی اللہ کی جانب سے ہیں اورعقل بھی اللہ ہی کی
طرف سے انسان کے لیے رسولِ باطنی ہے اوراس عقلی حکم کو اللہ کاحکم کہاجایا کرتا
ہے۔۔۔ مثلاًعام کہتے ہیں۔۔۔اللہ کاحکم ہے کمائو اور کھائو۔۔۔ مقصدیہ ہے کہ چونکہ
استعدادِعقل اللہ کی طرف سے ہے اور اسی کا یہی فیصلہ ہے پس اللہ کا یہی حکم ہے۔
ابلیس چونکہ حضرت آدم ؑ سے حسد کر تا تھا۔۔۔
کیونکہ زمین کی خلافت قوم جن ّ سے لے کر حضرت آدم ؑ کو دی جا ری ہی تھی اور پھر
حضرت آدم ؑ کی عزت و و قار۔۔۔ یہ کہ ملائکہ کو ان کے سا منے جھکا دیا گیا جس وہ
اور زیادہ جل بھن گیا اور خود انکاری و فراری ہو گیا اور تیسرے ان کی تعظیم نہ
کرنے کی وجہ سے راندۂ بار گاہ و مستحقِ لعنت بھی ہو چکا تھا اپنے حدس کی بھڑاس
کسی اور ذریعہ سے تو نکا ل نہیں سکتا تھا کہ یہ مہدیٔ خدا اور مخلص و مصطفیٰ نبی ؐ
ہے لہذا اس کو ضلال و غی میں پھنسانا محال ہے (خود اس کا اپنا اعتراف بھی ہے کہ
مخلص و بر گزید گا نِ خدا کو میں گمراہ نہ کر سکوں گا۔۔۔ اور ذاتِ احدیت کا بھی سا
تھ ساتھ اعلان ہو چکا تھا کہ میرے مخصوص بندوں پرتجھے کوئی غلبہ نہ ہو گا) پس اُمورِدینیہ
میں حضرت آدم ؑ کو دھوکا دینا اور ان کو صراطِ مستقیم سے ہٹانا اور عبادتِ الٰہیہ
سے اُن کو منحرف کر نا قطعاًاس کے لیے ناممکن تھا اب اس نے یہ سوچا کہ دنیا وی
زندگی میں ان کی تلخی پیداکر دوں تاکہ کئی دن مبتلائے مصیبت رہیں۔
ان کے عقلی نظریہ میں چونکہ بذریعہ وسواس کے رخنہ
اندازی کی گنجائش تھی کیو نکہ حدِّ تجربہ کو نہ پہنچا تھا لہذا اُن کو بدلنے کی
کوشش میں لگ گیا وہ اس معاملہ میں پرانا خرانٹ تھا اور تجربہ سے اس کا باعث نقصان
ہو نا جانتا تھا۔۔۔ لگا اُن دونوں کے سامنے قسمیں کھاکھا کر اپنی خیر خواہی جتلانے۔۔۔
آخرکار حضرت آدم ؑ نے اس کی قسموں سے متاثر ہو کر اس کے وسواس کی وجہ سے بمشورہ
حضرت حوا ؑ اس عقلی نظریہ کو نظرانداز کر کے اس کی خلاف ورزی کرلی جس کے نتیجہ میں
اُنہیں اکیلا اس بنجر زمین پر آناپڑ گیا۔۔۔ اگر ایسانہ کرتے تو کچھ عر صہ اور بھی
وہاں گذار سکتے تھے۔
بہرکیف ان کا وہاں رہناویسے بھی عارضی تھا وہ پیدا
ہی صرف زمین پر آنے کیلئے کئے گئے تھے اور انہوں نے ایک وقت یہیں آنا تھا صرف
چند روزہ مانو سیت حاصل کرنے کے لئے ان کو وہاں ٹھہرایا گیا تھا اور اس عمل کی وجہ
سے چند روز قبل ان کو یہا ں آنا پڑگیا۔۔۔ جس کا کافی عرصہ تک احساس کر تے رہے اور
روتے رہے۔
پس عصیان سے مراد ہدایت ِعقل کی خلاف ورزی اور
امرِ ارشادی میں کو تاہی ہے۔۔۔ جس کا خسارہ صرف دنیا وی زندگی تک ہی محدود ہوا کر
تا ہے اور اس کے متعلق نہی ٔ ارشادی تھی جس طرح کہ عرض کر دیا گیا ہے۔
عصیان سے مراد ہدایت ِالٰہیہ شرعیہ کی مخا لفت
نہیں ہے یعنی یہ نہی مو لوی نہیں تھی تاکہ مخالفت کا وبال آخرت پر رکھا جائے۔۔۔
نہ اس فعل کا تعلق حقوق ُ العباد سے ہے اور نہ حقوق ُاللہ سے ہے بلکہ اس کا تعلق
صرف ان کے ذاتی نفع و نقصان سے ہے پس ان کی طرف غوایت اور ظلم کی نسبت سے مراد
خسارہ ٔ دنیاویہ ہے جو نا تجربہ کا ری کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھے کہ جس طرح ایک با پ۔۔ بیٹے
کو نصیحت کر تا ہے کہ دیکھو بیکا ر بیٹھنا اچھا نہیں۔۔۔ تجارت کرو لیکن راستے دو
ہیں: اگر فلاں کام کر و گے تو اس میں تکلیف زیادہ ہو گی اور فلاں کام کرو گے
تو تکلیف کم ہو گی، آمدنی دونوں صورتوں میں یکساں ہی ہے صرف تیری اپنی سہولت و
تکلیف میں فرق ہے۔۔۔ پس اگر بیٹا کسی کے کہنے سے یا اپنی ذاتی رائے سے اس راستہ کو
اختیار کر لے جس میں باپ کے خیال میں تکلیف زیادہ تھی تو یہ باپ کی نافرمانی نہیں
ہے بلکہ ہے وہ دونوں صورتوں میں باپ کا اطاعت گذار۔۔۔۔۔ فر ق یہ ہے کہ اس کے مشورہ
پر چلتا اور دوسری صورت اختیار کر تا تو وہ خود ذرا سہولت سے رہتا اور تکلیف سے بچ
جاتا۔
اس مقام پر حضرت آدم ؑ کا قصہ بعینہٖ یہی ہے کہ
اگر وہ کام نہ کر تے تو کچھ عرصہ زیادہ اس جگہ رہ کر ملائِ اعلیٰ کی صحبت میں
خوشنود ہو تے اور اس کا م کرنے سے ان کی وہاں رہنے کی مدت کو ختم کردیاگیا، بہر
کیف آنا ہر دو صورتوں میں زمین پر ضرورتھا کیو نکہ وہ پیدا ہی اس لیے کیے گئے تھے
اور زمین پر ان کا آجاناسزا نہیںتھا بلکہ ڈیوٹی تھی صرف عدمِ تجربۂ عقلی کی بنا
ٔپر چونکہ پہلاہی موقع تھا ناہموار راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے تکلیف کا سامنا
کرنا پڑااور ملا ئِ اعلیٰ کی صحبت سے بہت جلد محروم ہوجانے کی وجہ سے بہت عرصہ تک
کف ِافسوس ملتے رہے اور روتے رہے۔۔۔۔۔ پس اس بیان سے ثابت ہو ا نہ حضرت آدم ؑ کی
طرف راجع نہی (مولوی ) تھی اور نہ اس کی خلاف ورزی باعث گنا ہ تھی بلکہ وہ نہی
ارشادی تھی جس کی موافقت یا مخالفت نفع ونقصان دنیاوی زندگی تک محدود ہے۔۔۔ پس نہ
وہ مخالف امرِ خدا ہوئے نہ گنہگار۔۔نہ اُن سے عصیان سر زد ہو ا نہ ظلم۔۔ نہ اُن کا
یہ فعل مہدی و مخلص ہونے کے منافی تھا اور نہ مصطفائی میں مخل تھا۔۔۔ پس وہ مصطفیٰ
بھی تھے۔۔ اور معصوم بھی۔۔ اور نبی بھی۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن