پس معرفت کی پہلی منزل ہے خدا کی پہچا ن۔۔۔۔۔ یعنی
آثارِ خا رجیہ ظا ہر ہ کا مشا ہدہ اور اعضائے جسمانیہ اور اس کے اسرار کا مطالعہ
کر نے سے عقلِ انسان و جودِ صانعِ حکیم کے اقرار کی رہبری کرتی ہے، لیکن اب اس تک
رسائی اور اس کی خوشنودی حا صل کر نے کے لئے ایک واسطہ کی ضرورت ہے جو اس کے اوا مرو
نواہی سے ہمیں روشنا س کر ائے لہذا معرفت کی دوسری منزل ہے نبی پہچان۔۔۔۔۔ تا کہ
اس کی فر مائشات پر عمل کر تے ہو ئے اور اس کی ہدایات کو لائحہ عمل قرار دے کر
اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکیں، لیکن ان کے گذر جا نے کے بعدان کی صحیح پہچان کیسے
ہو؟ اور ان کی فرمائشات تک دسترس کیسے ہو؟ جبکہ ظلم و عدوان کے جا بر ہا تھوں نے
ان کی اکثر تعلیمات کو زمانہ سے روپوش کر دیا۔۔۔ بہت سی بدعات کا آغا ز کر دیا
گیا۔۔۔ وا قعات و حقائق چھپا دئے گئے۔۔۔ ان کی طرف جھوٹی اور غلط حدیثیں منسوب
کردی گئیں۔۔۔ پس معرفت کی تیسری منزل ہے امام برحق حجت خداکی پہچان۔۔۔۔۔ جن کے
ذریعہ سے ہم صحیح طور پر جناب نبی علیہ السلام کی تعلیم حاصل کر کے ان پر عمل کرتے
ہوئے خدا کی رضاحاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، اسی بنا ٔپر زمانہ غیبت میں اس
دعاکاپڑھنامستحب قرار دیاگیاہے جو اصول کافی کے باب غیبت امام میں حضرت امام جعفر
صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ فَاِنَّکَ اِنْ
لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ نَبِیّکَ اللّٰھُمَّ عَرِّفْنِیْ
نَبِیّکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَبِیّکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ
اللّٰھُمَّ عَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ
ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِیْ۔
ترجمہ: اے میرے اللہ مجھے اپنی ذات کی معرفت
عطافرماکیونکہ اگر تونے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطانہ کی تو میں تیرے نبی کی معرفت
حاصل نہ کرسکوں گا، اے میرے اللہ مجھے اپنے نبی کی معرفت عطاکر پس اگر تونے مجھے
اپنے نبی کی معرفت نہ دی تومیں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کرسکوں گااے میرے اللہ
مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرماکیو نکہ تونے اگر مجھ کو اپنی حجت کی معرفت عطانہ
کی تو میں دین سے گمراہ ہوجائوں گا۔
کیونکہ ترتیب معرفت یہی ہے کہ ادلہ عقلیہ سے خدا
کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کے احکام پر مطلع ہونے کیلئے نبوت کی پہچان اور نبوت
کی پہچان کے بعد اس کی تعلیمات صحیحہ حاصل کرنے کے لئے اس کے صحیح جانشیں کی تلاش
لازم اور واجب ہے، توحید کی معرفت کے بعد ہی نظریہ قائم ہو سکتا ہے کہ خالق و
مخلوق کے درمیان واسطہ وہی ہو سکتا ہے جو انسانی امکانی کمالات میں سے آخری حد پر
پہنچا ہوا ہو، ہماری طرح کا عام انسان قطعاً اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا ورنہ
اسے پھر ایک اور واسطہ کی ضرورت ہوگی۔۔۔وعلیٰ ہذٰا لقیاس،اور یہ سلسلہ ختم نہ ہو
گا پس اس کا انتخاب بھی اللہ ہی کی جانب سے ہو نا ضروری ہے اور جب نبی کی صحیح
معرفت ہو جائے گی تو اس کے جانشین کی صحیح معرفت کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ اگر نبی
کو اپنے جیسا ایک عام انسان فرض کر لیا تو اس کا قائم مقام بھی اپنے جیسا ہی تصور
کریں گے لیکن جب نبی کو عام انسانوں سے ما فوق حیثیت کا حامل قرار دیں گے تو اس کے
جانشین کے متعلق بھی یہی نظریہ ہو گا پس جب نبی کا انتخاب اپنی انسانی دسترس سے
بالاترسمجھیںگے تواس کے حقیقی جانشین کا انتخاب بھی اپنی پہنچ سے بالاترجانیں گے
اورنبی کے انتخاب کی طرح اس کا انتخاب بھی خدا ہی کی جانب سے ضروری تصورکریں گے پس
جب امام کی معرفت (جو نبی کا قائمقام اور روحانی پیشوا ہے) ہو گئی توصراطِ مستقیم
مل گیا۔۔۔ ورنہ گمراہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
جس طرح عقل اس عالمِ اصغر (وجودِ انسانی) میں
معصومانہ حیثیت کی حامل ہے اسی طرح عقلِ کل (وجودِ نبوت) وجودِ کائنات میں معصومانہ
حیثیت کا حامل ہونا چاہیے اور یاد رہے کہ گذشتہ انبیا ٔ چونکہ محدود اور مختصر
ماحول کے نبی تھے لہذا وہ اپنے ماحول کے لحاظ سے اپنی امتوں کے جزوی عقول کے
مقابلہ میں عقلِ کل تھے اور جناب رسالتمآب ؐ چونکہ کائناتِ عالم کے لئے کلی نبی
اور رحمۃً للعالمین ہیں لہذا یہ کائنات اور عالمین کے مقابلہ میں عقلِ کل ہیں۔
عقلِ انسانی کو میں نے اس لئے معصوم کہا ہے کہ
باقی تمام اعضا ٔ کی غلطیوں پر اس کی نگاہ رہتی ہے اور جہاں تک اس کی قوت کی پہنچ
ہے اور اس کے علم کا تعلق ہے قطعاً فعل بد کے ارتکاب کو بُری نگاہ سے دیکھتی ہے اور
ہرگز افعالِ ناشائستہ کی دعوت نہیں دیتی ورنہ اگر نیکیوں کو پس پشت ڈال کر اس میں
بھی برائیوں کی بجا آوری کا جذبہ ہوتا تو اس کی وجودِ انسانی میں مبلّغ کی حیثیت
نہ ہوتی اور خدائی خطابات کا اس سے تعلق نہ ہوتا، حالانکہ خدائی خطابات سب عقل
والوں کے لئے ہی ہیں پس اس کا اپنا انداز معصومانہ ہے خواہ خواہشات نفسانیہ اس کو
مغلوب کر کے کس مپرسی کی حالت میں ہی کیوں نہ چھوڑدیں۔
نیز جس طرح عقل وجود انسانی میں اعلم ہے تمام اعضا
ٔ سے اسی طرح ہر نبی اپنی امت سے اور حضرت رسالتمآبؐ تمام کائنات سے اعلم ہیں
کیونکہ وہ ان کے مقابلہ میں عقل کل ہیں، یہاں تک پہنچ کر اب حضرت امیرالمومنین
علیہ السلام کے دوسرے شعر کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں: تمام عالم کا
وجود ۔۔۔ کتابِ اکبر اور وجودِ انسانی۔۔۔ کتابِ اصغر
آسمان و زمین کتابِ عالم کے دو بڑے باب ہیں،
آسمان میں شمس و قمر ستارے وغیرہ جدا جدا عنوانات ہیں اور ان کے جزوی حالات و
فوائد پُر از حکمت مصالح اور ان کی اوضاع و حرکات میں عجیب و غریب اسرار۔۔ فکر
کرنے والوں کے لئے، گویا ایک قسم کی بیّن و مفصّل تحریریں ہیں اور زمین میں عناصر
اربعہ۔۔۔ موالید ِ ثلاثہ وغیرہ جدا جدا فصول و عنوانات ہیں اور ان میں سے ہر ہر
جنس و نوع پر تفصیلی تبصرے کتابِ ہستی کا مطالعہ ہے۔
اسی طرح وجودِ انسانی میں سر اور باقی جسم دو
مستقل باب ہیں، ایک طرف سر میں ہر ہر عضو علیحدہ علیحدہ فصلیں ہیں اور دوسری طرف
جسم کا ہر ہر حصہ جدا جدا عنوان ہے اور پھر ہر ہر عضو کی تشریحات و تفصیلات۔۔۔
غوامض ودقائق۔۔۔ فوائد و مصالح اور ان میں عجیب و غریب ضائع و بدائع کتابِ وجود کی
مبرہن تحریریں ہیں۔
جس طرح طبیعات، فلکیات، عنصریات کا عالم ان حالات
و واقعات اور رموز و اسرار پر ایک حد تک مطلع ہو جانے کے بعد پکار اٹھتا ہے:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلا
میرے اللہ یہ چیز تو نے بیکار اور خالی از حکمت پیدا نہیں کی ہے، اسی طرح
علمِ اَبدان حاصل کرنے کے بعد اور پھر ہر ہر عضو کی وضع و ساخت پر نظر غائر ڈالنے
کے بعد قہراً انسان کی زبان سے نکل جاتا ہے: تَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ
الْخَالِقِیْن۔