قبل اس کے کہ قرآن مجید کا معجزہ ہو نا ثابت کیا
جائے معجزہ کی حقیقت کا سمجھ لینا ضروری ہے اور اس کے سمجھنے کیلئے محال کی اقسام
میں فرق معلوم کرنا لازمی ہے محال کی چار قسمیں ہیں:
محالِ ذاتی ، محالِ عقلی ، محالِ شرعی
، محالِ عادی
محالِ ذاتی: وہ ہے جس کی ذات عدم کی مقتضی
ہو جیسے شریک باری عزَّاِسمہٗ (خداکا شریک)
محالِ عقلی: وہ محال ہے جس کے وجود سے
اس کا عدم لازم آئے مثلاً اجتماع ضدین یا دَور و تسلسل۔
محالِ شرعی: کسی شئے کا ایک شرعی خصوصیت سے
الگ ہو کر بغیر تصرّفِ شارع کے دوسری شرعی خصوصیت کا حامل ہو جانا مثلاً آبِ مضاف
کا مضاف ہوتے ہوئے مُطہرّ ہونا۔
محالِ عادی: وہ ہے جس میں اشیائے موجودہ کا
عام عادی دستور کو ترک کر کے ایک غیر متوقع شکل یا حالت میں منصئہ شہود پر آنا۔
محالِ ذاتی اور محالِ عقلی قطعاً وقوع پذیر نہیں
ہو سکتے بلکہ وہ حیطہ ٔ مقدوریت سے باہر ہیں اور جو چیز مقدوریت کے دائرہ سے خارج
ہو اس سے معجزہ و کرامت کا تعلق نہیں ہوا کرتا اور محالِ شرعی شارع مقدس کے
تصرّفات سے ممکن بن جاتا ہے لیکن اس کو نسخ کہا جاتا ہے، پس معجزہ کا تعلق آخری
قسم سے ہے یعنی ایک ممکن ذاتی کا (جو عادتاً محال ہو ) غیر عادی صورت میں بحکمِ
خدا کسی نبی و رسول یا اُولی الامر کی دُعا یا برکت سے ظہور پذیر ہونا معجزہ
کہلاتا ہے۔
معجزہ کے
وقوع کی صورتیں
۱-
بغیر اسبابِ ظاہریہ اور مادّہ معہودہ کے کسی چیز کا معرضِ وجود میں آنا
جیسے ناقہ صالحؑ کا پہاڑ سے پیدا ہونا۔
۲-
مادّہ ظاہریہ سے باعتبارِ اسبابِ ظاہریہ۔۔۔۔ استعداد ِحیات ختم ہونے کے بعد
دوبارہ استعداد کا آجانا جیسے احیائے موتیٰ (مردے کو زندہ کرنا)
۳-
موجوداتِ عالم میں سے کسی موجود کے فعلی مزاج کو دوسرے موجود کے فعلی مزاج
سے بدل دینا مثلاً:
٭ مزاجِ جماد کو مزاجِ حیوان سے بدلنا جیسے عصا
سے سانپ۔
٭ مزاجِ
حیوان کو مزاجِ جماد سے بدلنا جیسے نگاہ ِغضب سے کسی کافر کے اعضا ٔ کو لکڑی کی
طرح خشک کرنا۔
٭ مزاجِ
جماد سے مزاجِ نبات میں بدلنا جیسے عصا کا درخت بن کر ثمر آور ہونا، پھر حالت
سابقہ پر عود کرنا۔
٭ ایک
نوعِ جما د کو دوسری نوع سے بدلنا جیسے سنگریزوں کا جواہر بن جانا یا جواہر کا
ٹھیکر یاں بن جانا۔
۴-
موجوداتِ عالم میں سے کسی شئے سے تدریجیہ منازل طے کئے بغیر پہلی منزلوں میں
آخری مراتب کے اَثرات کا ظاہر ہونا جیسے بچپنے میں حضرت عیسیٰؑ کا کلام کرنا یا
لوہے کا حضرت دائود کیلئے نرم ہونا۔
۵-
کسی موجود کے نظامِ فعلی کو خلاف ِتوقع تبدیل کرنا جیسے شقُّ القمر، ردّا
لشمس اور نزول النجم۔
۶-
کسی موجود کے مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اس سے مافوق موجود کے آثار کا ظاہر
ہونا جیسے بساطِ سلیمانی کا پرواز کرنا۔
۷-
کسی شئے کی موجودہ استعداد میں تغیرواقع کئے بغیر محیّرالعقول انداز میں اس
کے اجزا ٔ کو ترتیب دینا جیسے آیاتِ کلام اللہ۔
۸-
موجودہ استعداد و قوت کے ماتحت کسی انسان سے مافوق العادۃ آثارِ غریبہ کا
ظہور جیسے اخبار گذشتہ و آئندہ بلا تعلیم و تعلّم اور بغیر حساباتِ متعینہ کے۔
۹-
مدارجِ ارتقأ میں بغیر تدریج کے ادنیٰ سے اعلیٰ تک پہنچنا یا اعلیٰ سے
ادنیٰ کی طرف پلٹنا جیسے بچے کا جوان یا بوڑھا ہو جانا، یا جوان و بوڑھے کا بچہ
ہونا، یا بوڑھے کا جوان ہو جانا۔
۱۰-
صنفی تبدیلی جیسے مرد کا عورت یا عورت کا مرد کر دینا یا پھر ان کا اپنی
اپنی حالت پر پلٹ جانا۔
غرضیکہ موجودہ عادی رفتار کا بغیر اسبابِ ظاہریہ
کے اس طرح محیّر العقول طور پر انقلاب پذیر ہونا کہ اس کی تہہ تک رسائی عقولِ
انسانیہ اور افکارِ بشریہ کے بس سے باہر ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے اُمور یعنی
جو بصورتِ معجزہ منظر عام پر آتے ہیں اگرچہ ظاہراً خلافِ توقع اور بغیر علل و
اسبابِ ظاہریہ کے صدور پذیر ہوتے ہیں آیا واقع میں بھی علل و اسباب سے بے نیاز
اور خلافِ توقع ہوتے ہیں؟ یا ان کیلئے واقع میں اسباب ہوا کرتے ہیں لیکن ہمیں علم
نہیں ہوتا لہذا ان کو خلافِ توقع کہہ دیتے ہیں؟
اب اس بات میں اُلجھنا اور اس کی گہرائیوں میں
جانے کی کوشش کرنا ہمارے لئے یقینا نتیجہ خیز نہ ہو گا کیونکہ ہماری بشری صلاحیتیں
جب ماورأ البشریت کا ادراک نہیں کر سکتیں تو اسکے متعلق کوئی اٹل نظریہ قائم کرنا
صاف و صریح نااندیشی ہے! اور ایسا ہے جیسے منقولات کو نہ سمجھ سکنے والے کا
معقولات میں دخل۔۔۔ مثال کے طور پر ایک کمسن بچہ جب اسکا ذہن ابتدأ میں کسی حد تک
ظاہری دنیا سے تعلق قائم کر لیتا ہے تو اسکے سامنے پہلے پہل ماں، باپ کی زبان
سیکھنا اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں ان سے کچھ کہوں۔۔۔ وہ اپنی
زبان کو حرکت بھی دیتا ہے لیکن لفظ نہیں بنا سکتا، اسی طرح کان سے الفاظ کو سنتا
ہے لیکن ان کی تعیین و تمیز اور حفظ و ضبط سے اُسکا ذہن و شعور کوتاہ ہوتا ہے پس
وہ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ماں باپ کا منہ تکنے لگتا ہے
اور وہ اپنے اندر طاقتِ گویائی کو ایک محالِ عقلی اور قطعاً نشدنی اَمر قرار دیتے
ہوئے اپنے والدین کے تکلّم سے متأثر ہو کر محوِ حیرت ہوتا ہے اور اُن کو بولتا
دیکھ کر استعجاب سے ہنس پڑتا ہے اسکے ماں باپ کے بس میں نہیں کہ بچے کو حیرت و
استعجاب کے موجودہ بھنور سے نکال لیں، وہ اس مرحلہ میں اس کو ہزار سکھائیں اور
تکلّم کے واقعی اسباب و ذرائع کی طرف لاکھ توجہ دلائیں سب فضول اور بے فائدہ ہو گا
کیونکہ اس میں متوجہ ہونے اور سمجھ سکنے کی اہلیت ہی نہیں، وہ بہر کیف ماں اور باپ
کے تکلّم بلکہ ہر اس سے نہ ہو سکنے والی بات کا ماں اور باپ سے صادر ہونے کو اپنے
اندر معجزہ اور خلافِ عادت اور غیر متوقع اَمر قرار دیتا ہے، اسی طرح ہمارے اَذہان
گو کتنے ہی کامل ہوں انبیا ٔ کے اذہان و افکار کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کمسن
بچے کا دماغ ہمارے مقابلہ میں۔۔۔۔ جس طرح بچہ اپنے ماحول کی عادی رفتار کے ماتحت
اپنے سے مافوق کی حرکات کو غیر ممکن اور ناشدنی امر قرار دیتا ہے اور ان کے اسباب
و علل واقعیہ سے نہ مطلع ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے اسی طرح ہم بھی اپنے ماحول کے
اعتبار سے ناشدنی و غیر ممکن امور کے اسباب واقعیہ سے نہ مطلع ہیں اور نہ مطلع ہو
سکتے ہیں کیونکہ اذہان میں صلاحیت ہی نہیں! اسی طرح ذات واجب الوجود کے علم محیط
اور قدرت کاملہ کے مقابلہ میں انبیا ٔ کے علوم و اقدار کو سمندر و قطرہ یا
شمس و ذرّہ کی نسبت ہے بلکہ اسکی ذات و صفات سے مخلوقات کو کوئی نسبت ہی نہیں۔
پس ممکن ہے کہ ان کے علل و اسباب ہوں اور انبیا ٔ
جانتے ہوں۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ صرف اللہ کے علم تک ہی محدود ہوں اور چونکہ
خداوندکریم نہ ایجادِ کائنات میں محتاج تھا نہ بقائے کائنات میں محتاج ہے، لہذا
ممکن ہے کہ بغیر علل و اسباب اس قسم کے امور کو ظاہر کر دے کیونکہ ممکن کو اسباب
کی احتیاج ہوا کرتی ہے اور واجب کو اسباب کی قطعاً احتیاج نہیں ہوا کرتی،
بالجملہ ہم ہزاروں بلکہ لاکھوں
کوششیں کریں کہ انبیا ٔ و اوصیا ٔ کے ہاتھوں صادر شدہ معجزات کے اسباب واقعیہ
معلوم کر لیں ناممکن ہے اس مقام تک معجزہ کے معنی کی وضاحت بہت ہو چکی اب اصل مقصد
کر طرف رجوع کرتا ہوں۔
اس میں شک نہیں کہ انبیا ٔ کی بعثت سے غرض یہ ہے
کہ وہ عبد و معبود کے درمیاں عہدہ ٔ سفارت کے فرائض انجام دیں اور خالق کائنات نے
اپنے کمال لطف و کرم سے ہر انسان کو عمومی دعوت بھی دے دی کہ اے میرے بندے میری
اطاعت کر تاکہ تجھے وہ قدرت عطا کروں کہ تیرا ارادہ کائنات میں نفوذ کرے، یا بعض
اسرار فطرت اور اسباب حقیقت کی تیرے سامنے نقاب کشائی کر دوں تاکہ تیرے افعال
ظاہری دنیا میں اعجازی حیثیت کے حامل ہوں جس طرح عام سردار اپنے خاص وفادار اور
اطاعت شعار غلاموں کو بعض ایسے خصوصی اسرارو رموز پر اطلاع دے دیتے ہیں جو کسی اور
کے سامنے بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اس قسم کے غلاموں کو محرم راز کہا جاتا
ہے اور سردار اس کو محرم راز بنا کر بعض اوقات انہیں اپنے خصوصی اختیارات بھی دے
دیا کرتے ہیں اسی طرح اطاعت شعار انسان کے لئے ذات احدیت بعض رموزِ حقیقت منکشف
فرما دیتی ہے اور بعض اُمور میں تصرف کا حق بھی عطا کر دیتی ہے جن کی بدولت ان سے
خارق العادہ افعال کا صدور ہوا کرتا ہے چونکہ مادّہ و طبیعت کے پرستار ذہنیّتیں
ہمیشہ پیغام توحید سے برسر پیکار رہی ہیں وہ ہر شئے کو اسباب و علل ظاہریہ کو
مخلوق سمجھتی ہیں لہذا داعیان توحید کے لئے ضروری تھا کہ ان آفت زدہ اَذہان کو
خالق کائنات کی طرف اسی طرح بلائیں کہ علل و اسباب کے متلاشی مادہ طبیعت کی قید و
بند سے آزاد ہو کر ذات واجبُ الوجود کی معرفت کا درس حاصل کر سکیں جو نہ خلق اشیا
ٔ میں مادّے کا محتاج ہے اور نہ نظام اکمل کائنات میں طبیعت کا ممنون احسان ہے۔
ممکن ہے کہ مادّہ پرستوں کی طرف سے انبیا ٔ پر یہ
سوال کیا جاتا کہ مادّہ کے بغیر کس طرح کوئی شئے منصہ شہود پر آسکتی ہے یا طبیعت
کے سوا کیسے نظام عالم برقرار رہ سکتا ہے؟ تو ان کے سوالات کو عملی طور پر سمجھانے
سلجھانے کے لئے انبیا ٔ کو ایسی قوت کا دینا ضروری تھا جس کے استعمال سے ہر دور کا
مہذب گروہ اور ترقی یافتہ طبقہ براہینِ وجود ذاتِ احدیت کو سن کر ان کے قبول کرنے
میں پس و پیش نہ کر سکے اسی بنا ٔ پر جس دور میں ترقی یافتہ طبقہ کے نزدیک کوئی
فعل اسباب و علل ظاہریہ کے ماتحت انتہائی عروج کے منازل پر پہنچا ہوا تھا کہ اس
دور کے اعلیٰ مفکرین و ماہرین فنون کے نزدیک اس سے بلند قدم رکھنا مافوق العادہ
امر تھا جس سے علل و اسباب کی دنیا ناآشنا تھی تو اس دور میں فرائض تبلیغ انجام
دینے کے لئے جس نبی کو مبعوث فرمایا اسے وقتی مصلحت کے لحاظ سے وہ قوت عطا کی یا
ایسے اسرار فطرت پر اطلاع دی جس کے استعمال سے متفکرین کی گردنیں جھک گئیں اور
انہیں چار و ناچار تسلیم کرنا پڑا کہ ہمارے قویٰ و افکار سے ایک بالادست ایسی طاقت
موجود ہے جو خلق میں مادّہ سے اور نظام میں طبیعت سے بے نیاز ہے چنانچہ عصائے
موسیٰؑ، فن دائود، دم عیسیٰؑ علی نبینا و علیھم السلام اسی سلسلہ کی اہم کڑیاں
تھیں۔
جناب رسالتمآبؐ کے زمانہ بعثت میں چونکہ فصاحت،
بلاغت کا چرچہ اس حد تک تھا کہ عرب لوگوں کی نگاہوں میں جمع ممالک غیر عربیہ گنگ
کی حیثیت سے تھے اسی بنا ٔ پر غیر عربوں کو عجم سے تعبیر کیا کرتے تھے کیونکہ عجم
کا معنی یہی ہوتا ہے اور تاریخ بتلاتی ہے کہ اس زمانہ میں اقوام عالم کے مقابلہ
میں عرب قوم شجاعت، سیاست، سیاحت اور تجارت کے لئے اعتبارات سے مہذب ترین قوم شمار
ہوتی تھی لہذا اس دور کے مہذب اور متمدن طبقہ کو پیغام خدا پہنچانے کے لئے ایک
ایسے مافوق العادہ کلام کی ضرورت تھی جو فصحأ و بلغأ کی گردنیں جھکا دے حتی کہ
وہ اس کلام کے مقابلہ میں گنگ نظر آئیں۔
پس اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے جناب رسالتمآب کو
قرآن عطا ہوا تاکہ دستور ِبعثت کے ماتحت موجودہ دور کے اعلیٰ مفکرین کو مقصد
ِتبلیغ کے تسلیم کرانے میں زیادہ سے زیادہ موثر ثابت ہو، لہذا یہ کلام بصورت معجزہ
نازل ہوا اور قیامت تک تمام آئندہ طبقات کیلئے نسلاً بعد نسل ہادی قرار دیا گیا
اور اس میں متعدد خارق العادہ اعجازی پہلو سمو دئیے گئے۔
(۱)
الفاظ و معانی کی نظم و نسق اور مقتضائے حال و مقام کی مطابقت کے
اعتبار سے وہ کمال کہ باوجود ببانگ دہل اعلانیہ چیلنج اور تحدّی کہ کسی کو مقابلے
کی جرأت نہ ہو سکی اور ایک چھوٹے سے چھوٹے سورۂ کوثر کو پڑھ کر (مَا ھٰذَا
کَلامُ الْبَشَرْ) کے اعتراف پر مجبور ہو گئے۔
(۲)
تدقیق مطالب اور اسرار و رموز و معارف کے وہ خزانہ ہائے بیش قیمت اس
میں تفویض کر دئیے کہ تاقیام قیامت حقائق جو مفکرین عالم کی انتہائی تگ و دَو اور
غیر معمولی جدوجہد انہیں ناپائید نہ کر سکے بلکہ ہر مفکر اپنی آخری کوشش کے بعد
اس کے دقائق کے استقصا ٔ سے اظہارِ عجز پر مجبور ہو اور روایات میں ہے کہ قرآن کا
ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور پھر باطن کا باطن، یہاں تک کہ سات بواطن تک اور وہ
سوائے حضرت علی ؑ اور ان کی اولادِ امجاد کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔
(۳)
سلاست کلام اور روانی کے علاوہ مرغوبیت اور حلاوت کا وہ عالم کہ کبھی
عارف طبیعتیں تلاوت سے ملول کا شکوہ نہ کریں بلکہ جس قدر تلاوت میں اضافہ ہو اسی
قدر لطف اندوزی میں زیادتی ہو، چنانچہ فضائل قرآن کے باب میں معصومین ؑ کے کلام
سے اس امر کو صراحت سے ذکر کیا گیا ہے:
عَنِ الرِّضَا عَنْ اَبِیْہِ عَلَیْھِمَا
السَّلامْ اَنَّہُ سُئِلَ اَبُوْ عَبْداللّٰہِ مَا بَالُ الْقُرْآنِ لا یَزْدَادُ
عَلٰی النَّشْرِ وَ الدُّرُوْسِ اِلَّا غَضًّا فَقَالَ لِاَنَّ اللّٰہَ
تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَمْ یَجْعَلْہُ لِزَمَانٍ دُوْنَ زَمَانٍ وَلِنَاسٍ دُوْنَ
نَاسٍ فَھُوَ فِیْ کُلِّ زَمَانٍ جَدِیْدٍ وَ عِنْدَ کُلِّ قَوْمٍ غَضٌّ۔
حضرت امام رضا ؑ اپنے والد ماجد سے روایت فرماتے
ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن مجید باوجود زیادہ نشرو
اشاعت اور درس وتدریس کے زیادہ تازہ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا وجہ
یہ ہے کہ خداوندکریم نے اس کو صرف ایک زمان اور ایک قوم کے لئے تو نہیں بھیجا
(بلکہ ہر زمانہ اور ہر قوم کیلئے ہے) لہذا ہر زمان میں نیا اور ہر قوم کے لئے تازہ
رہے گا۔
(۴)
بیانِ احکا م میں اس قدر لازوال اور غیر متزلزل مصالح و مفاسد کا
اعتبار کہ سیاستد انانِ عالم اور دانایانِ ہر دَور تا قیامت اس میںنقص و عیب جوئی
کی جرأت نہ کر سکیں۔
(۵)
امم سابقہ اور قرونِ عالیہ کے وہ مفصل حالات و واقعات اور تاریخی مفید
حقائق و معلومات کا خزینہ جس کا واقعیت سے سر موفرق نہ ہواور ایسے نبی کی وساطت سے
جو علل و اسباب کی ظاہری دنیا میں اہم سابقہ اور قرونِ ماضیہ کے بقایا افراد۔۔۔۔
خصوصا ان کے علمأ سے مجالس و مصاجت کاکوئی ربط نہ رکھتا ہو حتیٰ کہ ظاہر بین لوگ
اس کو اَن پڑھ سے تعبیر کرتے ہیں۔
(۶)
آئندہ کی اخبارمیں وہ صداقت کہ فن کہانت کے ممتاز لوگ حیرت سے انگشت
بد نداں ہو کر ظاہری اسباب سے اس کی بے نیازی کا اعتراف کر لیں، خلقت کائنات اور
ایجادِ عالم کے متعلق وہ حقیقت آمیز تبصرہ کہ انصاف پسند اور حقیقت رس طبائع
تسبیح و تقدیس خدا کے علاوہ منہ سے حرف تک نہ نکال سکیں۔
(۷)
معرفت خدا کے متعلق وہ نا قابل تردید براہین جن کو سن کر مشرکین کے
جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جواب میں دم بخود ہو جائیں۔
(۸)
حشر و نشر اور موت و حیات کی وہ جزوی تفصیلات بمعہ استدلالات کہ
فلاسفۂ دَور سر پکڑ لیں۔
(۹)
الفاظ و معانی میں وہ توازن کہ ہر دَور کے ماہرین علوم عربیہ ایک حرف
و حرکت کی اُونچ نیچ یا کمی بیشی کا فرق نہ نکال سکیں۔
(۱۰) لسانیت
کے لحاظ سے وہ کمال کہ باوجود بعد میں آنے کے پورے کلام عرب کی اصل و اساس تسلیم
کی جائے، حتیٰ کہ اہل لسان کے نزدیک بھی کلام کی تصحیح و تغلیط کا معیار قرار پائے
ور علمائے عربیت کلامِ عرب کی صحت و خطا کو اسی مقدس کلام سے جانچنے پر مجبور ہوں۔
(۱۱) سب سے
محیّر العقول پہلو یہ کہ اس کلام کے لانے والا نبی ظاہری دنیا میں ناخواندہ اور
موجودہ دَور کے خطبأ فصحأ و بلغأ سے کنارہ کش، شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر
المومنین ؑ کے عام خطبات و مواعظ و مکاتیب میں فصاحت و بلاغت کے وہ بے پناہ سمندر
موجزن ہیں کہ مخالفین کو تسلیم کرنا پڑا کہ کلام اللہ کے بعد فصاحت و بلاغت میں
نہج البلاغہ کے مقابل کوئی کلام نہیں، لیکن جناب رسالتمآبؐ کے عام خطبات و مواعظ
یا احادیث شریفہ میں وہ رنگ نہیں بلکہ عام عربی کلام سے اس کو ظاہراً کوئی خاص
امتیاز حاصل نہیں۔
کیونکہ جناب رسالتمآب ؐ کے ذاتی کلا م میں اگر یہ
جوہر ہوتا تو معترضین کو کہنے کا موقعہ مل جاتا کہ کلام مجید انہی کا اپنا کلام ہے
اس لئے کہ جب ان کا عام بیان اور فی البداھۃ تکلّم اس قدر فصاحت و بلاغت کا حامل
ہے تو وہ سوچ سمجھ کر فکر و تدبر کے بعد قرآن مجید جیسا بے نظیر کلام کیوں نہ پیش
کریں؟ پس قرآن مجید کو سرکارِ رسالت کا نتیجہ فکر قرار دیا جاتا اور و ہ مقصد
تشنہ تکمیل رہ جاتا جس کیلئے قرآن معجزہ بنا کر بھیجا گیا۔
دیگر کتب ِسماویہ اور قرآن میں ایک اہم فرق یہ
بھی ہے کہ ان کتابوں میں صرف وہ احکام تھے جو فقط اسی وقت کیلئے موزوں تھے اور
قرآن جمیع علوم عقلیہ و نقلیہ کا غیر فانی اور پائیدار خزانہ ہونے کے علاوہ اپنے
اندر ایسے مثبت و غیر متزلزل احکام رکھتا ہے جن کو مرورِ زمانہ نہ مضمحل کر سکتا
ہے اور نہ وہ قابل ترمیم و تنسیخ ہیں، اسی لئے اس نبی کے بعد کسی نبی کے آنے کی
ضرورت نہیں رہی کیونکہ انکی شریعت آخری شریعت ہے اور انکا قانون آخری قانون ہے،
یہی وجہ ہے کہ سابق کتب کی افادی حیثیت محدود تھی جو بالآخر ختم ہو گئی اور قرآن
کی افادیت تا قیامت محفوظ ہے اور رہے گی۔
موجودہ نئی روشنی کے اعلیٰ مفکرین جب بڑی غور و
خوض اور بحث و تمحیص میں غیر معمولی عرق ریزی کے بعد ایک قانون مرتب کرتے ہیں تو
اپنی حد امکان تک اس کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کر کے متعدد اجتماعات میں جرح و
قدح اور تصحیح و تعدیل کے بعد اس کے نفاذ کا اعلان کرتے ہیں اور بایں ہمہ اسے
ناقابل نسخ و ترمیم قرار دینے کی جرأت نہیں کر سکتے کیونکہ آئے دن کے واقعات اور
بارہا کے تجربات شاہد ہوتے ہیں کہ کل کا بنایا ہوا قانون آج نہیں توکل تک ضرور
منسوخ نہیں تو قابل ترمیم ضرور ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ نت نئے قانون اور نت نرالے
ضوابط منظر عام پر آتے ہیں اور اسی طرح قوانین و ضوابط کا ایک تانتا بندھا
رہتاہے۔
بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون ساز کتنا ہی قابل کیوں نہ
ہو چیزوں کے تمام مصالح و مفاسد (خوبیوں اور برائیوں) کو جان سکتا ہی نہیں اورا سی
لئے ہر قانون ساز خود چند روز کے بعد اپنے قانون کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر خود
ضد پر ڈٹا رہے تو اس کے ایام اقتدار ختم ہونے کے بعد تو یقینا اس کا قانون ختم ہو
جائے گا، کیونکہ:
ھر کہ آمد عمارتِ نو ساخت
لیکن ذات علیم و قدیر نے احکام قرآنیہ کی بنیاد
ایسے غیر متزلزل اصول پر رکھی ہے جو کسی زمانہ میں نہ منسوخ ہو سکتے ہیں اور نہ
قابل ترمیم قرار دئیے جا سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آ ج پونے چودہ سو سال یاا س
سے بھی زیادہ عرصہ گذر جانے کے با وجود قرآنی احکام و ضوابط میں نئی روح اور تازہ
جان موجود ہے اور تا قیامت رہے گی۔