عملیات کے دلدادہ افراد آیاتِ قرآنیہ کو تسخیر
کا آلہ قرار دے کر اس کو مشغلۂ عملیہ قرار دیتے ہیں، جنّات، ملائکہ اور ارواح کی
تسخیر کیلئے عجیب و غریب طرز ِعمل ان لوگوں نے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔۔۔ بعض عمل
قبرستان میں، بعض جنگل میں، بعض تاریک مکان میں و علیٰ ہذا لقیاس، پابندی وقت و
مقام و لباس و طعام وغیرہ کے ساتھ بجا لائے جاتے ہیں اور شاذو نادر بعض افراد سے
یہ عمل پایۂ تکمیل کو بھی پہنچ جاتا ہے، اس تسخیر کے عمل کرنے والوں کے اغراض و
مقاصدجدا جدا ہو ا کرتے ہیں:
٭ بعض
لوگ مال و دولت جمع کرنے کے لئے یہ عمل کرتے ہیں۔
٭ بعض
تسخیرات کی مدد سے اپنا ولی ہو نا ظاہر کر کے اپنی پیری کی دوکان کو فروغ دینا چاہتے
ہیں۔
٭ بعض
لوگوں کا مطمعِ نظر صرف عزّو جاہ اور وقارِ ظاہری ہوتا ہے۔
٭ بعض
لوگ دشمن کو گزند پہنچانے یا اُسے زیر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
٭ بعض
لوگ مادۂ شہویہ سے مغلوب ہو کر اس مشغلہ کو خواہشات ِجنسیہ کی تکمیل کا آلہ کار
بناتے ہیں۔
٭ بعض
لوگ صرف شو قیہ کرتے ہیں۔
بہر کیف اغراض جو بھی ہوں عمل تسخیر میں آیات
ِقرآنیہ کی تلاوت کو دخلِ عظیم حاصل ہے ان کے بغیر غالبا کوئی عمل کا مل نہیں
ہوتا خواہ تسخیرِ جن ہو یا ملائکہ وار واح و ہمزاد کی تسخیر ہو۔
اس میں شک نہیںکہ یہ عملیات بے اثر نہیں ہوا کرتے،
بعض لوگوں کی ناکامی بعض قیود کی پابندی چھوڑ دینے سے عموما ہوتی ہے۔۔۔۔ نیز اس
قسم کے عملیات میں دل کی طاقت کو بڑا دخل ہے کیونکہ تمام شب قبرستان یا جنگل یا
تاریک مکان میں تنہا وقت گزارنا صبر وحوصلہ کے علاوہ بڑے قلب و جگر کا کام ہے اور
اگر دورانِ عمل ذرا سا خوف وہراس پیدا ہوا تو عمل ضائع اور نتیجہ برعکس ہو جاتا
ہے۔
قرآن مجید میں اتنی طاقت ہے کہ اس کے ذریعہ سے
پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں، مردے بول اُٹھیں، زمین کے سفر طے ہو جائیں، حضرت
اما م جعفر صادقؑ کا ارشاد ہے کہ اگر مردہ پر ستر مرتبہ سورۂ فاتحہ دم کی جائے تو
عجب نہیں کہ اس میں روح واپس آجائے۔
نیز باقی آیا تِ قرآنیہ کا دم کرنا، بطورِ تعویز
پاس رکھنا اکثر امراض سے موجب ِ شفا ہوتا ہے، تو عملیات کی محنت شاقہ و کدو کا وش
یعنی چالیس روز یا کم و بیش ایامِ مقررہ تک کسی مقام پر ایک ہی آیت کا لاکھوں
مرتبہ روز مر ّہ وِرد کر نا اگر تسخیر کے نتیجہ پر پہنچ جائے تو اس میں کیا تعجب
ہے؟ لیکن کیا ہمارے لئے ایسا کرنا جائز ہے یا نہ؟ کیا قرآن کے نزول اور ہماری
پیدائش کا مقصد یہی ہے؟
اس سلسلہ میں قرآن مجید کی فرمائشات (جو تمام
انسانوں سے متعلق ہیں) پر غور فرمائیے:
٭ یَا
اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔
ترجمہ : اے لوگو! اُس اللہ کی عبادت کرو جس نے تمہیں
پیدا کیا۔
٭ یَا
اَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْارَبَّکُمْ۔
ترجمہ: اے لوگو! اللہ سے ڈر و۔
٭ مَا
خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔
ترجمہ : میں نے جنوں اور انسانوں کو عبادت
کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔
٭ کُلُّ
نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ۔
ترجمہ : ہر نفس اپنے کئے ہوئے کے ساتھ
مرہون ہے ۔
٭ مَنْ
یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرِّۃٍ خَیْرًا یَّرَہْ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ
شَرًّا یَّرَہْ۔
ترجمہ : جو ذرّہ بھر نیکی کریگا وہ اس کی
جزا ٔپائے گا اور جو ذرّہ برابر برائی کریگا اس کی سزا پائے گا۔
اِس مضمون کی آیات قرآن مجید میں بکثرت موجود
ہیں جن کا مقصد انسان کو خالق سے تعلقاتِ عبدیت قائم رکھنے کا حکم ہے، گروہ ِجنات
اِن احکام میں ہمارے ساتھ شریک ہے (ویسے تکوینی طور پر تو تمام مخلوقِ اَرضی و
سماوی، فرشی و عرشی اور بحری و بر ی مصروفِ عبادت ہیں)
انسان اس لئے پیدا نہیں ہوأ کہ صرف جذبۂ نفسانی
و شہوانی کے پیشِ نظر آیاتِ قرآنیہ سے تسخیرِ خلائق کرتا پھرے۔۔۔ اور نہ ہی
قرآن اس لئے اُترا ہے کہ اس سے تسخیر خلائق کرتے رہو، بلکہ وہ خلق کیلئے ہدایت ہے
اور اس کے لانے والا رسول عالمین کیلئے رحمت اور تمام جن ّو انس کیلئے بشیر و نذیر
ہے۔
انسان کا آخری کمال یہ ہے کہ اپنے قُوائے
نفسیّہ،شہویّہ اور غضبیہ وغیرہ کو قوت ِعاقلہ کی مدد سے قرآنِ مجید کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ کے لئے مسخر کر دے اور قرآنِ پاک خود بھی تمام انسانوں کے خالق کیلئے
مسخر ہونے کی دعوت دیتا ہے، بس انسان کا انسانی فریضہ یہی ہے کہ اللہ کیلئے اپنے
نفس کو تسخیر کرے اور اپنی تمام نفسانی قوتوں کو اُس کے اَوامر و نواہی کا
پابند رکھے۔۔۔ اور یہ امر یقینی ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کو اللہ کیلئے مسخر کرنے
پر کامیاب ہو جائے تو یہی انسان روحانی ارتقائی منازل طے کر کے بلند مرتبہ پر فائز
ہو سکتا ہے کہ باقی مخلوق خود بخود اس کی مطیع و زیرِ فرمان ہو جائے گی، اس کے
تصرّفات ِعامّہ مخلوقات میں نافذ اور اس کا ارادہ حاوی اور اس کا وقار مسلّم ہو
جاتا ہے، چنانچہ حدیث ِ قدسی جو زبان زد خواص و عوام ہے کا مطلب یہی ہے:
٭ عَبْدِیْ
اَطِعْنِیْ اَجْعَلُکَ مِثْلِیْ۔
ترجمہ : میرا بندہ میری اطاعت کر۔۔۔ تاکہ
تجھے اپنے جیسا بنا دوں۔
٭ کُنْ
لِیْ اَکُنْ لَکَ۔
ترجمہ : تو میرا ہو جا میں تیر اہو
جائوں۔
یاد رہے کہ خدا جیسا کوئی نہیں ہو سکتا وہ خود
فرماتا ہے:
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ۔
پس فرمانِ ایزدی کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان پورے
طور پر خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو خدا پنی مخلوق کی توجہ اس کی طرف پھیر
دیتاہے، گویا جب وہ خدا کا ہو جاتا ہے تو خدائی ا سکی ہو جاتی ہے، اگر یہ اللہ کا
فرمانبردار ہو جائے تو مخلوقات اس کی فرمانبردار ہو جاتی ہیں، یعنی جو اللہ کا
پورے طور پر فرمانبردار ہو وہ کائنات کا پورے طور پر فرمانروا ہو تا ہے، و ہ
کائنات میں جو چاہے کر سکتا ہے،بحار الانوار جلد دہم بابِ معجزات ِامام حسن علیہ
السلام میں ہے:
ایک مرتبہ امام حسن ؑ نے ایک مقام پر فرمایا: اگر
میں خدا سے دُعا کروں تو وہ شام کو عراق کر دے اور عراق کو شام بنا دے، مرد کو
عورت اور عورت کو مرد بنادے، یہ کہنا تھا کہ ایک منافق دشمنِ خد اکے سینے میں آتشِ
حسد بھڑک اٹھی وہ گستاخانہ لہجہ میں آپ ؑ پر طعنہ زن ہو کر کہنے لگا کہ یہ
کس کی طاقت ہے؟ ( اگر اتنی طاقت ہوتی تو معاویہ سے صلح کیوں کی جاتی؟ آپ ؑ نے
بخاموشی اس کے بکواسات سنے، جب وہ خاموش ہوا) آ پ ؑ نے فرمایا! اے عورت تو اِن
نامحرموں کے مجمع سے نکل جا، خدا نے تجھے عورت کر دیا ہے اور تیری عورت کو اب مرد
بنا دیا ہے، تو گھر پہنچ کر اُس سے ہمبستر ہو گی اور تیرے بطن سے ایک بچہ پیدا ہو
گا جو خنثیٰ ہو گا، امام کا کلام سن کر وہ شخص اپنے جسم کی طرف متوجہ ہوا، تو اپنے
آپ کو عورت پایا اور گھر آیا تو اپنی سابقہ بیوی کو مرد پایا اور بمطابق فرمانِ
امام مقاربت کے بعد اس کے پیٹ سے خنثیٰ پیدا ہوا، اس کے بعد وہ دونوں میاں بیوی
تائب ہوئے اور خدمت ِامام حسن علیہ السلام میں حاضر ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے،
پس امام عالی مقام نے معافی دی اور خدا نے اُن کی توبہ قبول فرمائی…اس کے بعد وہ
دونوں اپنی اصلی حالت پر آگئے اور ایک وقت تک زندہ رہے۔
یہ ایک واقعہ تبر کاً پیش کر دیا ہے ورنہ جنابِ
رسالتمآبؐ سے لے کر حضرت ِحجت عجل اللہ فرجہ تک ہر معصوم کی زندگی میں اِس قسم کے
تصرّفاتِ عام موجود ہیں جنہیں معجزات و کرامات سے تعبیر کیا جاتا ہے، اہل بیت
ِعصمت تو بجائے خود اُن کے دَر کے غلام اور کنیزیں بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں، تفصیل
کیلئے کتب سیر کا مطالعہ فرمائیں، اگر میں واقعات کو جمع کر نے لگ جائوں تو کتاب
موضوع سے خارج ہو جائے گی۔
میرا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر انسان اپنے
خالق کیلئے نفس کی تسخیر کر لے تو کائنات کی تسخیر اس کیلئے خود بخود ہو جائے گی،
قرآنی آیات کو باقی مخلوق جن، ملائکہ وغیرہ کی تسخیر کیلئے استعمال کرنا غلط ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غلط ہے تو خدا وندنے
قرآنی آیات میں یہ اثر کیوں رکھ دیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو خیر و شرّ کی
دونوں طاقتیں مرحمت فرما کر اس کا متحان لیا ہے، اگر صرف اطاعت یا صرف معصیت کا
جذبہ ہوتا یعنی دونوں میں سے ایک چیز کی طاقت دیتا تو پھر جزا ٔو سزا کا قصہ لغو
ہو جاتا، اسی طریقہ پر تمام موجودات کو نفع و نقصان کا حامل بنایا تاکہ انسان اپنے
اختیار سے عقل کی روشنی میں شریعت کی ہدایات کے ماتحت منافع حاصل کرلے اور مفاسد
سے گریز کرے، پس اِن جسمانی قوتوں کو جو اللہ نے بطورِ نعمت عطا کیں اگر انسان غلط
استعمال کرے یا با لکل معطل چھوڑدے تو یہ انسان کی اپنی غلطی ہے، اسی طرح نعماتِ
الٰہیہ جو موجوداتِ عالم میں ہیں اگر انسان اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھائے تو اس کی
نااندیشی یا بد باطنی ہے اس میں نعماتِ الٰہیہ کا کوئی قصور نہیں، اسی طرح قرآنِ
مجید نعماتِ الٰہیہ میں سے بزرگ ترین نعمت ہے۔
٭ اگر
انسان چاہے تو اس کی ہدایت پر عمل کر کے اُخروی فوائد حاصل کرے۔
٭ اگر
انسان چاہے تو اس کو کسب ِمال و دولت کا ذریعہ بنائے۔
٭ اگر
چاہے تو جھوٹی اور سچی قسموں کے کیلئے استعمال کرے۔
٭ اگر
چاہے تو تسخیرات پر استعمال کر کے اغراض دنیاویہ، مطالب شہویہ اور وقار و عز تِ
ظاہریہ کا اس کو وسیلہ قرار دے ( انسان اپنے اِن افعال میں خود مختار ہے)
لوہے سے نفع بھی حاصل ہو سکتا ہے اور نقصان بھی،
اگر لوہے کے کسی تیز دھار آلہ سے کسی نفسِ محترمہ کو قتل کر دے تو یہ عذر غیر
معقول ہے کہ کہے اگر قتل گناہ ہوتا تو خدا لوہا کیوں پیدا کرتا؟ انسان کو اس قسم
کے مہلک آلات کے بنانے یا استعمال کرنے کی طاقت کیوں دیتا؟ اسی طرح چور یہ عذر
کرے کہ اگر چوری گناہ ہوتی تو مجھے خدا ہاتھ نہ دیتا یا مدعی کو اپنے مال سے
غافل نہ کرتا، زانی یہ کہہ دے کہ اگر زنا ناجائز ہوتا تو مجھے قوتِ شہویہ یا قوتِ
فعل زنانہ دی جاتی یا عورت کو اس کو قابل نہ بنایا ہوتا۔۔۔ علی ھٰذا القیاس
ہر فعلِ بد کرنے والا اِسی قسم کے عذر پیش کر سکتا
ہے، پھر اس قسم کے عذر درست مان لئے جائیں تو جملہ عقلا کے وضع کردہ اصول برائے
نظامِ مملکت یا خالق کی طرف سے عائد شدہ احکامِ شریعت سب لغویت کی نذر ہو جائیں
گے، اور دریں صورت بنی نوعِ انساں کی تمدّنی زندگی مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گی۔
پس اگر عاملِ تسخیرات یہ عذر پیش کرے کہ اگر عملِ
تسخیر غلط و ناجائز ہوتا تو آیاتِ قرآنیہ اس امر کا فائدہ نہ دے سکتیں، محض لغو
اور بے جا ہے اور مقولہ (عذر گناہ بد تر از گناہ) کا مصداق ہے۔
ہمارے علمائے اَعلام قدّس اللّٰہ اَسرارہم نے عملِ
تسخیر کو جادو کی اقسام سے قرار دیا ہے اور اس کی حرمت کا قطعی فیصلہ فرمایا ہے،
بعض اکابر علمأ نے اس کی حرمت کو ضروریاتِ دین سے شمار کیا ہے اور اس حکم کے منکر
کو خارج از اسلام قرار دے کر کفر کا فتویٰ صادر فرمایا ہے:
{۱}
چنانچہ حجۃ الاسلام الاستاد العلام الشیخ محمد باقر زنجانی نجفی مدظلہ
نے درسِ خارج میں مکاسب ِمحرمہ کی اَبحاثِ تحقیقیہ کے بیان کے دوران اس مسئلہ کے
متعلق یوں ارشاد فرمایا تھا کہ:
اوّلا
تسخیر جنات و ملائکہ و ارواح وغیرہ سحر کے عنوان میں داخل ہیں، لہذا جن دلیلوں سے
سحر (جادو) باطل ہے انہی دلائل سے تسخیر بھی باطل ہے۔
ثانیاً تمام
علمائے شیعہ امامیہ کا تسخیر کی حرمت پر اتفاق ثابت ہے۔
ثالثاً
فخر المحقیقین اور شہیدین رَحِمَہُمُ اللّٰہ کی تصریحات موجود ہیں کہ اسکی حرمت
ضروریاتِ مذہب سے ہے، یہاں تک کہ اس کو جائز کہنے والا کافر ہے، لہذا بالفرض اگر
اجماع ثابت نہ بھی ہو تو اِن بزرگوں کا فرمان اس امر کی واضح دلیل ہے کہ تسخیر کی
حرمت میں علمائے شیعہ کا کوئی اختلاف نہیں اِنْتَہٰی مَااَفَاد۔
{۲}
عَنِ الدُّرُوْسِ لِلشَّھِیْدِ الْاَوَّلِ قَالَ وَمِنَ السِّحْرِ
الْاِسْتِخْدَامُ لِلْمَلائِکَۃِ وَالْجِنِّ (اِلٰی اَنْ قَالَ ) فَعَمَلُ ھٰذَا
کُلِّہٖ حَرَامٌ وَالتَّکَسُّبُ بِہٖ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ وَ یُقْتَلُ
مُسْتَحِلُّہٗ۔
ترجمہ : شہید اوّل نے کتاب دروس میں
فرمایا ہے کہ جادو کی اقسام سے ملائکہ و جنات کا تابع کرنا بھی ہے (یہاں تک کہ
فرمایا) پس یہ سب حرام ہے، اِن کے ساتھ کمانا بھی حرام ہے، پھر فرمایا اِسے جائز
جاننے والا واجبُ القتل ہے۔
{۳} عَنْ
اِیْضَاحِ فَخْرُ الْمُحَقِّقِیْن فِیْ عِدَادِ اَقْسَامِ السِّحْرِ مَالَفْظُہُ
اَوْ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِ سْتِعَانَۃِ بِالْاَرْوَاحِ السَّاذِجَۃ (اِلٰی اَنْ
قَالَ )وَالْکُلُّ حَرَامٌ فِیْ شَرِیْعَۃِ الْاِسْلامِ وَ مُسْتَحِلُّہُ کَافِرٌ
ترجمہ : فخر المحققین نے سحر کی قسموں
میں شمار کیا ہے اَرواح سے مدد حاصل کرنا (یہاں تک کہ فرمایا) یہ سب شریعت میں
حرام اور اسکا حلال کہنے والا کافر ہے۔
{۴}
قَالَ فِیْ ھِدَایَۃِ الطَّالِبِ یعْنٰی بِھَا الْاَرْوَاحَ
الْمُجَرَّدَۃَ عَنِ الْعَنَاصِرِ کَالْمَلَکِ وَالْجِنِّ وَالشَّیَاطِیْن۔
ترجمہ : ہدایۃ ُ الطالب میں ہے کہ
ارواحِ ساذجہ سے مراد اَرواحِ مجردہ ہیں، جیسے فرشتے، جنّ، شیاطین۔
{۵}
فِیْ شَرْحِ اللُّمْعَۃِ لِلشَّھِیْدِ الثَّانِیْ فِیْ عِدَادِ
اَقْسَامِ السِّحْرِ وَاِسْتِخْدَامِ الْجِنِّ وَ الْمَلائِکَۃِ وَ اسْتِنْزَلُ
الشَّیَاطِیْنِ فِیْ کَشْفِ الْغَائِبَاتِ (اِلٰی اَنْ قَالَ) فَتَعَلُّمُ ذَلِکَ
کُلُّہٗ وَ تَعْلِیْمُہٗ حَرَامٌ وَالتَّکَسُّبُ بِہٖ سُحْتٌ وَ یُقْتَلُ
مُسْتَحِلُّہٗ۔
شرح لمعہ میں شہید ثانی جادو کی اقسام کے بارے میں
فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔۔ اور تسخیر کرنا جن ّو ملائکہ کا اور حاضر کرنا شیاطین کا غائب
باتوں کے معلوم کرنے کیلئے (یہاں تک کہ فرمایا) پس اِن سب باتوں کا سیکھنا اور
سکھانا حرام ہے اور اس کے ذریعہ روزی کمانا بھی حرام ہے اور جو شخص اس کو حلال
جانے وہ واجب ُ القتل ہے۔
اِن علمائے متقدّ مین قدّس اللّٰہ اَسرارہم
کی تصریحات سے صاف معلوم ہو اکہ تسخیرِ جنات، ملائکہ، اَرواح اور ہمزاد و
غیرہ سب سحر (جادو) کی قسمیں ہیں، اِن کا سیکھنا اور سکھانا سب حرام ہے، اِس کو
کمائی کا ذریعہ بنانا بھی حرام ہے، حتیٰ کہ جو شخص اس کو حلال جانے وہ کافر اور
واجب ُالقتل ہے۔
خداوند ِکریم تمام مومنین کو خواہشاتِ نفسانی کے
پھندوں سے محفوظ رکھے اور اعما لِ صالحہ کی زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے اور
قرآنِ مجید سے صحیح فائدہ اُٹھانے کی جرأت عطافرمائے (آمین)