التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تائید مطلب



خدا وند کریم کا ارشاد ہے:  لا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْن یہ صیغہ نفی یا تو معنی انشا ٔ میں استعمال ہے اور یا معنی خبر میں ہے، اگر معنی انشا ٔ میں ہے تو آیت مجیدہ کا معنی ہو گا (اس کو نہ مس کریں مگر وہ لوگ جو پاک ہیں) اور اگر معنی خبر میں ہے تو آیت مجیدہ کا معنی یہ ہو گا (اس کو مس نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو پاک ہیں)
لا یَمَسُّہُ  بمعنائے انشا ٔ:   پس اگر معنی انشا ٔ میں ہو اور نہی کے قائم مقام ہو تو یہ ایک حکم تشریعی مراد ہے اور قرآن کے مس کے متعلق جو احکام تفصیل کے ساتھ کتب فقہیہ اور رسائل عملیہ میں مذکور ہیں انہی کی طرف اشارہ ہے یعنی بغیر طہارت کے قرآن کا چھونا حرام ہے اور طہارت سے مراد صرف طہارت ازخبث ہی نہیں بلکہ حدث سے طہارت بھی مطلوب ہے یعنی بغیر وضو یا اغسال ضرور یہ کے یا بحالت اضطرار بغیر تیمم کے قرآن مجید کا مس کرنا حرام ہے صرف ہاتھ لگانے تک محدود نہیں بلکہ تمام اعضا ٔ میں سے کسی عضو کا کوئی حصہ قرآن کو لگا نا حرام ہے، نجس کاغذ پر قرآن کی کتابت بھی حرام ہے اسی طرح نجس سیاہی کے ساتھ قرآنی آیات کا لکھنا بھی حرام ہے، قرآن مجید کے حروف۔۔۔ شدّیں۔۔۔ مدّیں۔۔۔ حرکات اور سکنات وغیرہ سب کا یہی حکم ہے اور جس طرح قلم سے لکھے ہوئے قرآن کو حدث یا خبث کے ساتھ مس نہیں کیا جا سکتا اسی طرح پتھر۔۔۔ دیوار اور فرش وغیرہ پر کندہ شدہ الفاظِ قرآن کا مس کرنا بھی بغیر طہارت کے حرام ہے خواہ حروف کے مقامات کو کرید لیا جائے یا باقی جگہ کرید کر حرف کو اُبھرا ہوا رکھا جائے، اسی طرح بستروں۔۔۔ چادروں اور قالینوں وغیرہ پر نقش شدہ آیات خواہ ابتدا سے لکھی جائیں یا بعد میں ان کا اضافہ بذریعہ دستکاری صنعت کے ہوا ہو، اسی طرح کپڑے یا کاغذ کے حروف بنا کر الفاظِ قرآن کی ترتیب میں جوڑنے کے بعد بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ جس طرح قرآن کا بلا طہارت مس کرنا حرام ہے اسی طرح ہر وہ فعل جس سے قرآن کی توہین لازم آئے حرام ہے۔
مسئلہ  بنا بریں قرآن مجید کا فر کے حوالے کرنا حرام ہے اور ان کے قبضہ میں ہو تو حتی الامکان اس کا حاصل کرنا واجب ہے۔
مسئلہ  مقام نجاست سے باہر وہ مقام جہاں قرآن کی توہین ہو اس سے قرآن کا اٹھا لینا ضروری ہے۔
لا یَمَسُّہُ  بمعنائے خبر:  اگر لا یمسہ کو خبر کے معنی میں لیا جائے (یعنی اس کو مس نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو پاک ہیں) تو ظاہراً یہ معنی درست نہیں کیونکہ یہ خبر ہے اور خبر اگر واقع کے مطابق نہ ہو تو جھوٹ ہوتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کافروں کے پاس قرآن کے سینکڑوں نسخے موجود ہیں وہ انہیں مس بھی کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے وجود سے پہلے لاہور، پشاور میں سنت سنگھ و کھڑک سنگھ کے مطابع میں ہزاروں کی تعداد میں قرآن مجیدطبع ہوئے نو لکشور لکھنؤ نے اس سلسلہ میں بڑی خدمات انجام دیں بہر کیف اگر آیت مجیدہ کے اس جملہ کو خبر قرار دیا جائے تو یقینا خلاف وقع ہو گا اور کذب لازم آئے گا۔۔۔۔ وَ تَعَالٰی اللّٰہُ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا
لہذا ۔۔۔۔  ماننا پڑے گا کہ یہ ایک امر تکوینی کی طرف اشارہ ہے، یعنی قرآن کے حقائق و دقائق۔۔۔ رُموز و اَسرار سے سوائے ذواتِ مطہّرہ کے کسی کو مس تام حاصل نہیں ہو سکتا، لیکن وہ پاک اور مطہر ذاتیں کون ہیں؟ تو اس کا جواب آیۃ تطہیر نے واضح کر دیا اور علمائے اُمت کا اجماع ہے کہ اس سے مراد حضراتِ خمسہ نجبا ہیں: محمدؐ، علی ؑ، فاطمہ ؑ، حسن ؑ، حسین ؑ علیہم آلاف التحیہ والسلام   آیۃ تطہیر کا شان نزول اور مزید توضیح اپنے مقام پر آئے گی۔
لا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْن کا مطلب ہے کہ قرآن کا حقیقی مس اور لگائو کسی کو نہیں سوائے مطہرین  کے۔
اور آیۃ تطہیر کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت عصمت کے علاوہ کوئی بھی مطہر نہیں کیونکہ شان نزول صرف انہی حضرات سے مختص ہے، پس دونوں آیتوں کی تطبیق سے نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن سے حقیقی مس اور لگائو کسی کو نہیں سوائے محمد ؐ و آل محمدؐ کے علیہم الصلواۃ ولسلام ۔
اقول:  لا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْن وَ اَھْلُ الْبَیْتِ ھُمُ الْمُطَھَّرُوْن۔
 فَیُنْتَجُ مِنَ الْحَصْرَیْنِ الْمَذْکُوْرَیْنِ  اَنَّ الْقُرْآنَ لا یَمَسُّہُ اِلَّا اَھْلَ الْبَیْتِ وَ ھَذَا وَاضِحٌ لا سترہ فِیْہِ وَلَمَّا کَانَ الْمُرَادُ مِنَ الْمَسِّ ھٰھُنَا الْمَسُّ الْحَقِیْقِیْ لا الْمَسُّ الظَّاھِرِیْ کَمَا مَرَّ بَیَانُہُ وَالْمَسُّ الْحَقِیْقِیْ ھُوَ الْاِطِّلاعُ عَلٰی رُمُوْزِہٖ وَ مَعَارِفِہٖ وَالْاِحَاطَۃُ بِحَقَائِقِہٖ وَ دَقَائِقِہٖ فَثَبَتَ اِنْحِصَارُ رُسُوْخِ الْعِلْمِ فِیْھِمْ عَلَیْھِمُ السَّلام۔
پس ثابت ہوا کہ قرآن مجید کے حقیقی علمأ محمد ؐ و آل محمد ہی ہیں جو زیورِ تطہیر سے آراستہ ہیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت مجیدہ  لا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْن یہ ثابت کر رہی ہے کہ اس کا مس صرف مطہرین کو ہی کو حاصل ہے یعنی علوم قرآنیہ صرف معصومین ؑ ہی کے پاس ہیں تو چونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی سب کے سب معصوم ہیں لہذا وہ بھی گویا قرآن کا علم رکھتے تھے حالانکہ یہ خلافِ منقول ہونے کے علاوہ اختصاصِ محمدؐ و آل محمدؐ کے منافی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آیہ شریفہ کا معنی ہے قرآن سے حقیقی تعلق (علم) صرف مطہرین اور معصومین کو ہی حاصل ہے، یعنی جس کو قرآن مجید کا علم کامل عطا ہوا ہے وہ معصوم اور مطہر ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو بھی معصوم و مطہر ہے وہ عالم قرآن بھی ہے! جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر نبی معصوم ہے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ہر معصوم نبی ہے اسی طرح ہر عالم قرآن معصوم ہے لیکن اس کا الٹ کہ ہر معصوم عالم قرآن ہے درست نہیں۔
اقول:  کُلُّ مَاسٍّ وَ عَالِمٍ لِلْقُرْآنِ مُطَھَّرٌ لِقَوْلِہٖ وَلا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ فَھُوَ مُوْجِبَۃٌ کُلِّیَّۃٌ وَالْمُوْجِبَۃُ الْکُلِّیَّۃُ لا تَنْعَکِسُ کُلِّیَّۃً کَمَا یَعْلَمُ کُلّ مَنْ لَہُ اَدْنٰی مَسَاسٌ بِالْمِیْزَانِ بَلْ ھِیَ تَنْعَکِسُ مُوْجِبَۃً جُزْئِیَّۃً فَعَکْسُ الْکُلِّیَّۃِ بَعْضُ الْمُطَھِّرِیْنَ یَمُسُّوْنَہُ وَ یَعْلَمُوْنَہُ وَالْمُرَادُ مِنَ الْبَعْضِ ھُمْ اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّۃِ فَھُمْ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَھُمْ کَمَا ثَبَتَ مُتَوَاتِرٌ عَنِ النَّبِیِّ وَقَدْ ذَکَرْنَا بَعْضُ الْاَخْبَارِ الْوَارِدَۃِ فِیْ ھٰذَا وَسَیَأتِیْ بَعْضُھَا فِیْ مطَاوِی الْعَنَاوِیْنِ الآتِیَۃِ اِنْشَائَ اللّٰہ۔
پس ثابت ہوا کہ علوم قرآنیہ کما حقہٗ صرف اہل بیت عصمت ہی کے پاس ہیں، اس مطلب کی زیادہ توضیح بعد کی ابحاث میں ہو گی اس عنوان کے تحت ہم جو کچھ ثابت کرنا چاہتے تھے وہ عرض کیا جا چکا ہے اور اتنا ہی کافی ہے۔