التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

انصاف کا تقاضا | insaf ka taqaza | khilafat o malookiat

انصاف کا تقاضا | INSAF KA TAKAZA | khilafat o malookiat

انصاف کا تقاضا | insaf ka taqaza  | khilafat o malookiat

انصاف کا تقاضا | insaf ka taqaza  | khilafat o malookiat

واقعات و حقائق کا منصفانہ جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فوراً ہی ا قتدار کی طرف للچائی ہوئی نظریں اٹھیں اور موقد غنیمت جان کہ فرضی الیکشنی بورڈ تجویز کر کے خلافت سازی کے معاملہ میں عجلت کی گئی اورمن مانی کاروائی کر گزرنے کے بعدا سے شرعی حیثیت دے دی گئی پس بیان کردہ آئین اسلامی کے ماتحت نہ پہلی خلافت منعقد ہوئی اور نہ اس کے انعقاد کے وقت کسی معیار کا لحاظ رکھاگیا۔ چنانچہ بروایت ابن قتیبہ دینوری سرکاری وکیل حضرت عبیدہ بن جراح نے حضرت علی کے اعتراض اعتراض کی معقولیت کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ واقعی معیارخلافت آپ (حضرت علی) میں موجود ہے لیکن آپ بزرگان قوم کے اقتدار کو اب چیلنج نہ کریں گر وقت نے ساتھ دیا تو آپ کا بھی نمبر آجائے گا ۔

میں طرح پہلی خلافت میں معیار کو ملحوظ نہ رکھا گیا تھا اسی طرح دوسری خلافت کے انعقاد کا مسئلہ ہے کہ خلیفہ اول نے باراحسان سے سبکدوش ہونے کے لئے حضرت عمر کو نامزد کر دیا اور اپنے اقتدار کے سایہ میں لوگوں سے ہاں کرائی جس طرح بعد میں معاویہ نے اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یزید کومسلمانوں کی گردنوں پر سوار کر دیا لیکن معاویہ کے فعل کو ملوکیت سے تعبیر کیا گیا اور عمر کی خلافت کو راشدہ کا نام دے دیا گیا اگر چہ طریق کار میں ذرا بھر فرق نہیں ہے۔

بھلا ہومودودی صاحب کاتیسری خلافت کے بارے میں ان کا اس قدر تسلیم کرلینا کہ وہ معیار مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے بھی غنیمت ہے کاش ، ان کی تحقیق پسندی۔ آبائی تقلید کا جوا گردن سے اتار پھینکنے کی جرات کر سکتی تو انہیں آنا پڑتا اور اپنی تحقیق کی روشنی میں انہیں اعتراف کرنا پڑ تاکہ ان میں سے کسی کے انتخاب کے وقت نہ کسی آئین اسلامی کا لحاظ رکھا گیا اور معیار مطلوب کی پاس کی گئی تھی بلکہ اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا اور اقتدار پر وہ قابض ہو گئے۔ بعد والوں نے ان کے فعل کو آئین اسلامی کا نام دینا شروع کر دیا اور ان کے ہرعمل کو شرعی حیثیت دے دی گئی جس طرح ہر جیتنے والے کی ہردھاندلی کوخوشامد پرست اور حکومت نواز جماعت جائز ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا کرتی ہے پس وہ مسلمانوں کے سیاسی قائد تھے اور یکے بعد دیگرے مسلمان حکمران تھے اس سے آگے پڑھنا انصاف کا خون کرنا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام ان کے ادوار حکومت میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرتے رہے اور ان کی صلاحیتوں کو چھپانے کی خاطر برسراقتدار جماعت نے کبھی ان کو حکومتی کاموں میں وخل دینے کا موقع تک نہ دیا اور دور رسالت میں ان کے سپا ہیانا خدمات اور فوجی تجربات عیاں را چہ بیان کے مصداق تھے لیکن تینوں حکومتوں میں دیدہ دانستہ ان کو نظرانداز کر دیا گیا تاکہ ان کا استحقاق خلافت منظر عام پر نہ آ سکے اور تو اور حضرت علی کی مسلمہ قرآن دانی و قرآن فہی کا علم رکھنے کے با وجود جب خلیفہ ثالث نے جمع قرآن کے لئے ایک کیٹی کی شکل کی تو اس میں حضرت علی کو شامل کرنے کی جرات نہ کی گئی اور جن لوگوں کو مامور کیا گیا وہ بدرجہ حضرت علی سے کم پایہ رکھتے تھے۔ ان اور دیگراس قسم کے روح فرسا واقعات و حقائق سے نتیجہ نہ اخذ کرنا اور آبائی کورا نہ تقلید کے زیرسایہ تحقیق انصاف کی گردن پر چھری پھیرتے ہوئے دعوی کر نا خلافت راشدہ کا یہ دور ایک روشنی کا مینار تھا دیدہ دلیری کے سوا اور کچھ نہیں حضرت عثمان کی بدعنوانیوں کی طویل فہرست گنوانے کے بعد اور خلافت کے معیار مطلوب کو قائم رکھنے کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی خلافت راشدہ کے دائرہ میں اسے جگہ دینی تحقیق کا فیصلہ نہیں بلکہ تقلید کا وبال ہے جو حلق میں پھنسے ہوئے لقمے کی طرح نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ ا کلاباسکتا ہے اصول حکمرانی میں نویں نمبر پرامر بالمعروف کے ذیل میں فرماتے ہیں معاشرے کے ہر فرد کا فریض ہے کہ مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کو روکنے میں اپنی ؎حدت تک پوری کوشش کرے۔ اس کے پیش نظر حضرت عثمان کی او با نوازی کے افسوسناک دور میں مسلم معاشرے پرفرض عائد ہوتا تھاکہ حکومت کی غلط اور ناجائز پالیسی کو بدلنے میں حتی الامکان کوشش کریں چنانچہ جب حضرت عثمان کو سمجھانے اور معاملہ کوسلجھانے کی تمام تر کوشیش را ئگاں اور بے اثر ثابت ہوئیں۔ اور بقول مودودی صاحب کے حضرت عائشہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کی اصلاح سے مایوس ہو گئے۔ سنہ 232اور بقول ان کے پورے مدینے کی آبادی میں سوائے چار آدمیوں کے ان کا ہمنوا کوئی نہ تھا ۔ سنہ 330 تو ایسے حالات میں مسلم معاشرہ پر فرض تھا کہ ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیں چنانچہ بصریوں اور کوفیوں نے نہیں بلکہ

صحابہ اور صحابہ زادوں نے تنگ آکر خلیفہ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ان میں پیش پیش خلیفہ اول حضرت ابو بکر کے صاحبزادے حضرت محمدبن ابی بکر مدینہ کے رہنے والے تھے اور ساتھ حضرت عمرو بن حمق خزاعی صحابی رسول تھے جو مدینہ میں ہی سکونت پذیر تھے یہ کہنا کہ شورشیوں نے قتل کر دیا واقعات و حقائق کامنہ چڑا ناہے باہر سے آنے والے تو اپنے اوپر مسلط مظالم امومی حکام کے استبداری رویوں سے تنگ آکر دارالحکامت سے داد خواہی کے لئے حاضر ہوئے تھے جب اہل مدینہ کی پوری کی پوری کوششوں کے باوجود ناکامی ہوئی اور خلیفہ نے اپنے رویہ کو بدلنے سے انکار کر دیا تو مزکورہ بالا مدینہ کے متقدر لوگوں نے خودہی ان کو موت کے گھاٹ اتار کر مسلمانوں کی گردنوں سے اقرباء نواز حکومت کا جو اتار پھینکا۔

تمام اہل مدینہ کے نزدیک یہ قتل حق بجانب تھا سوائے ان لوگوں کے جو اقتدار کی ہوس میں حضرت علی سے انتقام کا دعویٰ لیکر اٹھے۔ اور اہل بصرہ سے جاکر انتقام لے لیا۔ ان کا مقصد صرف مملکت میں انتشار پھیلاکر حضرت علی سے اقتدار چھیننا تھا ورنہ مارنے والے صحابی اور صحابی زادے مدینہ میں ہی تھے اگر ہمت تھی توہیں ان سے انتقام لیا جا تا یا حضرت علی سے ہی انتقام لینا تھا تو مدینہ میں ہی یہ آواز اٹھائی جاتی اس کا بصرہ سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جنگ جمل کے بعد جنگ صفین اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ معاویہ نے جب دیکھا کہ طلحہ وز بیر حضرت علی سے اقتدار چھننے میں ناکام رہے ہیں تواس نے علم بغاوت کڑا کرلیا اورخون عثمان کا انتقام بہانہ بنالیا تاکہ اقتدار ہاتھ میں آجائے اور ہرطالب اقتدار ملک میں انتشار پھیلا کرہی لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا کرتا ہے ۔

اہل مدینہ کے نزدیک قتل عثمان کو ئی جرم نہ تھا بلکہ مسلم معاشرہ کی فلاح کا راز اسی میں ہی مضمر تھا اس لئے اہل مدینہ میں سے کسی نے بھی خلیفہ مقتول کا نہ سوگ منایا اور نہ ان کا جنازہ پڑہنے اٹھانے اور دفن کرنے میں انہوں نے شرکت کی حتٰی کہ حضرت علی علیہ السلام نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی نہ مقتول خلیفہ کے پس ماندگان کو پیٖغام تعزیت بھیجا اور نہ کبھی ان کے قاتلوں کے فعل کو ناجائز ٹھرایا بنابر یں حضرت علی کے نزدیک قاتلین عثمان جرم کے مرتکب نہ تھے بلکہ انہوں نے ایک صحیح قدم اٹھایا تھا پس حضرت علی کا ان سے بدلہ نہ لینا بلکہ ان کو عہدے ومناصب دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا بالکل درست اور بجا اقدام تھا جناب مودودی صاحب صرف آبائی تقلید کے پیش نظرہی حضرت علی کے اس اقدام کو غلطی سے تعبیر کرتے ہیں ورنہ اگر اس گر و ہ کو تحقیق و انصاف کے ناخنوں سے کھولتے تواس الجھن میں نہ پڑتے اور نہ ان کوظالم و مظلوم اورقاتل ومقتول دونو کو رضی اللہ عنھما کہنے کی ضرورت ہوتی بلکہ حق کو حق سمجھ کر اس کو سینے سے لگالیتے اور غلط کو غلط جان کر اس سے الگ ہوجاتے۔


ایک تبصرہ شائع کریں