التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عزاداری | azadari| khilafat o malookiat

عزاداری | azadari| khilafat o malookiat

عزاداری | azadari| khilafat o malookiat

عزاداری | azadari| khilafat o malookiat

دور اموی میں سرکاری آرڈیننس کے ماتحت حضرت علی ان کی اولاد امجاد اور ان کے شیعوں پر گالی گلوچ اور سب وشتم کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا واقعہ ہائلہ کربلا میں شہادت عظمیٰ کے بعد شیعان علی میں سلسلہ عزاداری اس کا ردعمل ہے حکام جو حضرت علی اور شیعانِ علی کو گالیاں دیتے تھے اور جمہور اہل اسلام ان کے ہمنوا ہوکہ حکامت وقت کے سامنے اپنی وافاداری و ایمانداری کا ثبوت پیش کرتے تھے۔ المطاہرین کے حکم سے شیعان علی نے سلسلہ عزاداری کو جاری کر کے اور ہرسال واقعہ کر بلا کی یادمنا کر ایک طرف اموی نظام کو اجاگر کیا ہے اور دوسری طرف اپنی مظلومیت کی داستان دہرا کر اپنی بے گناہی کوطشت از بام کر کے عوام الناس اور بالخصوص اہل اسلام کو دعوت فکر دی ہے کہ ہمیں بے گناہ گالیاں دی جاتی رہی ہیں اور ہمارے خلاف ہر قسم کی غلط سلط افواہیں دور اموی کی ظالمانہ و جابرانہ پالیسی کی ایجاد ہیں لہذا ہمارے متعلق جو تنفر اموی دور حکومت میں پھیلا یا گیا تھا وہ بالکل بے بنیاد ہے ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ امدی دور کے بعد عباسی دور اگرچہ شیعان علی پر مظالم کے ؒھاظ سے کچھ کم نہ تھا حتیٰ کہ شیعوں کے ائمہ بھی ان کے جورو ستم کا نشانہ بنے رہے لیکن اس سلسلہ عزاداری کی بدولت شیعان ِ علی بجائے گھٹنے کے بڑھتے ہی رہے اور ان کی تعداد میں روزافزوں ترقی جاری رہی نہ وہ حکامت وقت کے مٹانے سے مٹ سکے اور نہ ان کے دبانے سے دب سکے۔


حکومت نے دعکھ لیا کہ جمہراہل اسلام کے مقابلہ میں ان کی تحریک ختم نہیں ہوسکتی حالانکہ کسی تحریک کو مٹانے کے لئے تین حربے انتہائی کارگر ثابت ہوتے ہیں۔1 حکومت وقت کی طرف سے جبر وتشدد 2 عوامی پروپیگنڈا۔ 3 تقسیم زرودولت اور شیعانِ علی کو مٹانے کے لئے اموی دور سے یہ تینوں طریقے حدامکان تک استعمال کئے گئے۔جبر و تشدد انتہا کو پہچایا گیا۔ ان کے نوجوانوں بوڑھوں کوں حتی کہ عورتوں تک کو بے دریغ تو تیغ کرنے کی انسانیت سوز حرکت کی گئی عوامی پروپیگنڈا کی تو حد ہوگئی کہ سرکاری حکم سے مساجد میں ممبروں پر خطبات جمعہ ع عیدین میں اور بالعموم ہر مجلس ووعظ و تقریر میں حضرت علی اولاد علی وشیعانِ علی کے خلاف زہر اگلنا سنت جاریہ بن گئی اور آج تک رسالوں میں اخباروں میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ واشتہاروں میں اور چھوٹی سے چھوٹی کتاب سے لے کہ مذہب کی بڑی بڑی کتابوں میں حتیٰ کہ کتبِ احادیث وتفاسیر میں بھی دل کھول کر شیعانِ علی کی مذمت ﷺرب خداوندی کا وسیلہ قرار دی گئی۔ اور تقسیم زرو دولت کی یہ حالت ہوئی کہ جہاں ایک طرف شیعان علی پر مقدمات چلاکران پر جرمانے و تاوان لگانے کے علاوہ ان کے گھر تک لوٹ لئے گئے اور ان کی املاک و جاگیریں ضبط کرلی گئیں حتی کہ ان کی عورتوںتک کولونڈیوں کی حیثیت سے اسیری میں لایاگیا جیسا کہ بسرین ارطاۃ سالار لشکر معاویہ کے متعلی خود مودودی صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے سنہ 176 وہاں دوسری طرف جاہ پرستوں اور خوشامدیوں پر انعامات لاکر امات کے لئے سرکاری خزانوں کے منہ بھی کھول دئے گئے اور سرکاری عہدہ جات اور مناصب پر بھی ایسے لوگوں کو مسلط کردیا گیا۔

ان تمام حیلہ سازیوں کے باوجود بھی شیعانِ علی کے ہاتھوں میں حق کا پرچم لہراتا رہا چناچہ ان کا دائرہ اثر روزافزوں وسیع سے وسیع پر ہوتا گیا اور جہمور مسلمیں کو یقین ہوگیا کہ حکومتی تشدد وعوامی پروپیگنڈا وتقسیم زر ودولت اور جوائز ومناصب کے ذرائع شیعانِ علی کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اتنی کمی نہیں کرتے جتنی کہ ان کی عزاداری ان کے مذہب کی ہمہ گیر مقبولیت اور ان کے حلقہ اثر میں توسیع کی باعث بنتی ہے بنابریں جمہور کے علمائ وفقہائ ومفتیان دین ومقررین وواعظین نے اپنا زور علم وبیان اس کے خلاف صرف کرنا شرہع کردیا کہ عزاداری کا برپاکرنا حرام ہے شہیدوں پر رونا حرام ہے ان پر ماتم کرنا گناہ ہے اور ایسی مجالس میں شریک ہونا بدعت ہے وغیرہ حالانکہ اموی دور حکومت میں کسی فقیہ ومفتی کو یہ جرات نہیں ہوئی تھی کہ حضرت علی وشیعان ِ علی پر اعلانیہ سب وشتم کے خلاف زبان کھولتا ویسے تو یہ حدیث پاک ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے أفضل الجهاد كلمة عَدْلٍ عند سُلْطَانٍ جَائِر سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے اانصاف کی یا حق کی بات کہنا ہے (خلافت و ملوکیت سنہ 79 بحوالہ ابودائود ترمذی نسائی ابن ماجہ ، لیکن یوں لگتا ہے کو اموی دور اقتدار میں خطباء و واعظین کے صیفہ خاطر ہے۔ یہ حدیث بالکل محو ہوچکی تھی یا حکامتی مناسب وجرائذ کے لالچ کے سرپوشوں میں اسے بنک کردیا گیا تھا۔ عزاداری کا اہم ترین مطمح نظر صرف یہ ہے کہ حضرت علی اور اولاد علی کے فضائل ومحامد کی نشلواشاعت کی جائے جو امویہ سلاطین جو کے صبر آزما دور میں طاق نسیاں کی زینت کردئے گئے تھے اور پھر ان پر کئے جانے والے مظالم اور ڈھائے جانے والے مصائب کا برملا تذکرہ کیا جائے جو نشئہ اقتدار میں بدمست حکمران طبقہ کے آمرانہ ومنشی وان طرز حکومت کے نتیجے میں ہوئے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو مظالم سلاطین بنی امیہ سے نفرت ہوتی ہے اور آل محمد سے عقیدتمندی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ دینی قیادت اور سیاسی قیادت کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور کتب تاریخ کی چھان بین بخوبی اس نتیجہ تک لے جاتی ہے کہ دور رسالت کے بعد سے ہی یہ دو لائنیں نکلی تھیں حضرت علی دینی قیادت کے سربراہ تھے اور مقابل میں خلیفہ کہلانے والے صرف سیاسی قیادت اور ظاہری اقدار کے ہی مالک تھے اس طرف ظاہری اقتدار کی مسندیز ید تک پہنچی تو اس طرف دینی قیادت کی باگ ڈور حسین علیہ السلام تک پہنچ گئی اور ظاہری اقتدار نے دینی اقدار کو اپنے قدموں میں روند نا چا ہا توحضرت حسین علی السلام وقت کے تقاضوں کو بھانپ کر باطل کے طوفان کے سامنے کوہ گراں بن کرڈٹ گئے اورآخر کارخود مر مٹ کہ شہادت کا جام شیریں پی کر راہ حق اور راہ باطل میں جلی امتیاز پیدا کر گئے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاں انسان کے دل میں ایک طرف مظلوم سے محبت ہوتی ہے وہاں ظالم سے نفرت کا پیدا ہونابھی ضروری امر ہے اسی طرح حب حق سے محبت ہوتی ہے تو باطل سے بیزاری کر نا بھی فطری چیز ہے تو جہاں جنگ جمل وصفین کے معاملہ میں لیپ پوت کر کے معاویہ طلحہ وزبیر وغیرہ کا احترام باقی رکھا گیا تھا امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ نے اس لیپ پوت کا پردہ بھی چاک کرکے رکھ دیا کیونکہ جب لوگ عزاداری سے متاثر ہو کر یزعد سے بیزار ہوئے تو یزید کے باپ معاویہ سے بعزاری لازمی تھی کیونکہ اسی نے ہی اس ناخلف بعٹے کے لئے اقتدار کی راہیں ہموار کی تھیں اور معاویہ کے اقتدار کی ذمہ داری اوپر کو جاتی ہے اور تڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اسی خطرے کے پیش بظر جمہوراہل اسلام کے مفتیان نے عزاداری کی حرمت کا ٖتوی دے دیا اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اپنے بعض اکابر اہل سنت کا قول نول کیا ہے کہ ان کے نزدیک امام حسین کی عزاداری اس لئے ناجائز ہے کہ اس سے اکابر صھابہ پر بدظنی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور مودودی صاحب نے بھی اہل سنت کے ایک گروہ کی طرف یہی بات منسوب کی ہے چناچہ فرماتے ہیں۔

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ انہی احادیث کی بنیاد پر علما کے ایک گروہ نے یزید پر لعنت کو جائز رکھا ہے اور ایک قول ان کی تائید میں امام احمد بن ضنبل کا بھی ہے مگر ایک دوسرا گروہ صرف اس لئے اس سے منع کرتا ہے کہ کہیں اس طرح اس کے والد یا صحابہ سے کسی اور پر لعنت کرنے کا دروازہ نہ کھل جائے سنہ 183 اور خود بھی اسی دوسرے گروہ کے حامی معلوم ہوتے ہیں چنانچہ نیچے حاشیہ پر لکھتے ہیں۔"ہمیں ایسے لوگوں کے غلط کاموں کو غلط کہنے پر اکتفا کرنا چاہیے اور لعنت سے پرہیزی کرنا اولیٰ ہے"

ایک تبصرہ شائع کریں