التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نظریاتی فرق کی وجہ | nazaryat farq ki wajha | khilafat o malookiat

نظریاتی فرق کی وجہ | nazaryat farq ki wajha | khilafat o malookiat

نظریاتی فرق کی وجہ | nazryati farq ki wajha | khilafat o malookiat

نظریاتی فرق کی وجہ | nazaryat farq ki wajha | khilafat o malookiat

پہلا گروہ وہ (عامۃ المسلمین) برسر اقتدار جماعت کا حامی تھا بنا برین ان کی اکثریت متوقع اور فطری ہے دوسرا گروہ (شیعان علی)جو برسر اقتدار طبقہ سے ذہنی طور سے برسر پیکار تھا ان کا قلیل ہونا بعید از قیاس نہیں۔چونکہ قرب پیغمبرؐ کا زمانہ تھا اور لوگوں میں اسلامی و شرعی اقدار رچ چکے تھے اس لئے اگر برسرِ اقتدار طبقہ اپنے اقتدار کو اسلامی اقتدار نہ ثابت کرتا تو یقیناً ان کی حکومت پائیدار نہ ہوسکتی لہذا انہوں نے اپنے حاصل کردہ وہ اقتدار کو نیا بت پیغمبر خلافت رسول اور امارت مومنین ( اسلامی جمہوریت ) کا نام دے دیا۔ پس ان کے واعظمین و مقررین و خطبانے بڑےزور شور سے اس کا پروپیگڈا کیا اور سرکاری جماعت کے بعض اہم ارکان نے اگرچہ غیر شعوری طور پر بعض اوقات اپنے طریق کار کو غلط کہہ دیا جیسا کہ حضرت عمر کا قول گذر چکا ہے۔ لیکن اس کی تہ تک پہنچنے کی کسی نے جُرات نہ کی اور نیا بت پیغمبر اور خلافت اسلامیہ کے لیبل سے مرعوب ہو کر عوام نے اس کے جواز و عدم جواز کی بحث کو چھیڑ نا ہی پسند نہ کیا۔

برسر اقتدار جماعت نے اپنی غلطی پر گہرا پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایسا حربہ استعمال کیا جو اچھے بھلے انسانون کے لئے بھی حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے کے لئے مستقل الکھن بن کر رہ گیا اور وہ یہ کہ حضور کی طرف ایسی احادیث کی نسبت دے دی گئی جن کو عقلی طور پر کوئی ذی ہوش قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا البتہ اقتدار کی جڑیں ان سے خوب مضبوط ہوئیں ۔ مثال کے طور پر چند تذکرہ ضروری ہے مشہور بین المسلمین ہیں۔

اَصْحَابِیْ کَا لنُّجُوٌمبِاَیَّھِمُ اْقَتَدَیْتُمُ میرے اصحاب آسمانی ستاروں کی طرح ہیں ان میں جس کی تم اقتداکرو گے ہدایت پاؤ گے( اس میں نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں ہے اور یہ چیز یقیناً خلاف عقل ہے لیکن اقتدار کے لئے بہت مفید ہے)

(۲) خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ۔ الخ میرقرن سے بہتر ہے۔ الخ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس قرن کے تمام انسان خیر ہیں اور ان کا ہر اقدام خیر ہے لیکن عوام کے ذہن نشین یہی کرادیا گیا کہ اس قرن کے انسانوں میں سے جو انسان جو کام کرے خواہ اچھا یا بُرا اس پر تنقید نہ کی جائے۔

(۳) حضور کی طرف ایک حدیث منسوب کردی گئی کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو اور شرح عقائد میں تفتا زانی کئی اور احادیث کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں بالعموم صحابہ کے حق میں پیش کی گئیں اور برسر اقتدار لوگوں کی شان میں بالخصوص جواحادیث منظر عام پر آئیں اُن کا تو کوئی حساب و شمار ہی نہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام لوگوں میں اچھے و بُرے کی تمیز تک نہ رہی اور کر سئی اقتدار کی طرف ناقدانہ انگشت نمائی ایک بہت بڑی جسارت قراردے دی گئی اور انتقال اقتدار کی ترتیب کے لحاظ سے افضیلت کا عقیدہ جزو ایمان بنالیا گیا۔ حالانکہ اس پر نہ کوئی حدیث صحیح ناطق ہے اور نہ کوئی عقلی دلیل اس کی پشت پنا ہی کرتی ہے۔ حضرت ابوحنیفہ کے عقیدہ کی وضاحت مودودی صاحب نے یہی کی ہے۔ انہوں نے اجتماعی عقیدہ یہی قرار دیا کہ فضلیت کی ترتیب وہی ہے جو خلافت کی ترتیب ہے، ؃۲۳۲اور اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کا اقتدار افضلیت کے تابع نہیں بلکہ ان کی فضلیت پر حکومت کا سایہ ہے۔ اور صحابہ کے متعلق عقید ہ طحاویہ سے تفصیل یہ نقل کی ہے کہ "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے تمام اصحاب کو محبُوب رکھتے ہین ان میں سے کسی کی محبّت میں حد سے نہیں گذرتے اور نہ کسی سے تبرّی کرتے ہیں ان سے بغض رکھنے والے اور بُرائی کے ساتھ ان کا ذکر کرنے والے کو ہم نا پسند کرتے ہیں اور ان کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح نہیں کرتے، ؃۳۲۲۔

ان عقائد و احادیث مذکورہ کے نتیجے میں صحابہ کو تنقید سے بالا تر کردیا گیا۔ ان کے اقتدار کی جڑیں خوب مضبوط ہُوئیں اور سیاسی برسر اقتدار جماعت مذہبی پشیرؤں کی حیثیت اختیار کرگئی اور ان کے نظریات و اقوال جزو مذہب قرار پاگئے اور صحابہ کی غلطی کو غلطی کہنا ناجائز سمجھا گیا۔ حتیٰ کہ ایک صحابی اگر دوسرے صحابی کا قاتل ہوگیا تو قاتل و مقتول دونوں کو رضی اللہ عنہ کہہ کر عقیدہ کی لاج رکھ لی گئی ۔ جنگ جمل میں ہزارون کی تعداد میں صحابہ مارے گئے تو عقیدہ یہی رہا کہ مارے جانے والے شہید بھی رضی اللہ عنہم اور مارنے والے مجاہد بھی رضی اللہ عنہم ہم کسی کو بُرا نہیں کہتے جنگ صفین میں ہزاروں کی تعداد میں مارے جانے والے بھی شہید رضی اللہ عنہم اور مارنے والے بھی رضی اللہ عنہم ہوگئے

جنگ صفین میں حضرت عمار بن یاسر صحابی رسولؐ کا سرکاٹ کر معاویہ کے پاس لے جایا گیا لیکن میں دونوں رضی اللہ عنہما ؃۷۷۱ ۔ حضرت حجر بن عدی عابد و زاہد صحابی رسول کو معاویہ نے قتل کرادیا لیکن دونو رضی اللہ عنہما رہے اِسی طرح معاویہ اعلانیہ منبروں پر کھلے بندوں حضرت علی پر سب و لعنت کرتا اور کرواتا رہا لیکن دانو رضی اللہ عنہما ہیں ؃۴۶۱، ؃۴۷۱۔

جناب فاطؑمہ بنتِ رسولؐ کو ابوبکر نے حق نہ دیا اور وہ بقول بخاری شریف ناراض ہو کر پلٹیں حتیٰ کہ تادم ِ زلیت ان سے قطع تعلّقی جاری رکھی اور بقول ابن قتیبہ دینوری ہر نماز کے بعد ان پر نفرین کرتی رہیں۔

لیکن دونوں عقیدہ کے لحاظ سے رضی اللہ عنہما ہیں۔ اِسی طرح حضرت عمر و بن حمق خزاعی جو صحابی رسول تھا حضرت عثمان کے قاتلوں میں ہے اور اُس کا سرکاٹ کر دمشق میں معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا لیکن چونکہ سب کے سب صھابی ہیں لہذا ان سب کے متعلّق عقیدہ اچھا رکھنا ہے اور ان میں کسی پر ناقدانہ زبان کھولنا حرام ہے ۔۔اوراسی اندھا دھند آبائی تقلید ہی کا نتیجہ ہے کہ مودودی صاحب کی محتقفانہ جستجو بھی اسی عقیدہ سے جا بجا مرعوب ہے چناچہ وہ تاریخی دستاویزات میں سے صرف اِسی قدر مواد کو نقل کرتے ہیں جو ان کے مقتدار نہ عقیدہ سے متصادم نہ ہوا اور اِسی بنا پر دیدہ دوانستہ انعقاد ِ خلافت کی دھاندلیوں اور غیر آئینی و غیر شرعی کاروائیوں سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں اور اسے شرعی و اسلامی جمہوریت قراردے کر آبائی تقلید کی لاج رکھتے رہے ہیں لیکن خلفاء کی بے قاعدگیوں اور خلاف شرح کا رستانیوں کو دیکھ کر آخران کا پیمانہ صبر جب لبریز ہُوا تو عثمان و معاویہ کی اکثر و بشیتر اغلاط پر وہ دالنے کے باوجود بعض کی نشان وہی اور آبائی تقلید کو اپنی تحقیق کی شہ پر ٹھکراتے ہُوئے کہہ دیا ؃۶۱۱،؃۳۵۱تو پورے ملک میں عامۃ المسلمین کی طرف سے مودودی کا فر ہے، کے نعرے بلند ہُوئے حتیٰ کہ شہروں میں دیواروں پر جا بجا موٹی قلم سے لکھا ہوا یہ فقرہ ہر ایک نے دیکھا حالانکہ مودودی صاحب آبائی تقلید کے پیش نظر اس امر میں پُورے محتاط ہیں کہ معاویہ کی لاتعداد غلطیاں نقل کرنے کے باوجود اُس کے احترام سے منحرف نہیں ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں