التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۱۱ -- یہود آنحضرت کے انتظار میں تھے

تفسیر رکوع ۱۱ -- یہود آنحضرت کے انتظار میں تھے
تفسیر رکوع ۱۱ -- یہود آنحضرت کے انتظار میں تھے


وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسٰى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ مبَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيْسٰى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَآءكُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَاْ تَهْوٰٓى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيْقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيْقاً تَقْتُلُوْنَ (87) وَقَالُواْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ (88) وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوْا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلٰى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهِ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلٰی الْكَافِرِيْنَ (89)
ترجمہ:
اورتحقیق دی ہم نے موسی کو کتاب اورپے درپے بھیجے اس کے بعد رسول اوردئیے ہم نے عیسی بن مریم کو معجزات اورہم نے اس کی تائید کی ساتھ روح قدس کے کیا جب بھی لائے تمہارے پاس وہ چیز کہ نہ چاہے جی تمہارا تو تم نے تکبر کیا پس ایک فریق کو جھٹلایا اورایک فریق کو قتل کرتے تھے(87)اورانہوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں ہیں بلکہ لعنت کی ہےان پر اللہ نے بوجہ ان کےانکار کے پس ایمان تھوڑا ہی لاتے ہیں(88) اور جب آئی ان کے پاس کتاب اللہ کی جانب سے جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو ان کے پاس ہے حالانکہ تھے وہ پہلے فتح طلب کرتے تھے اوپر کافروں کے پس جب آئی ان کے پاس وہ جس کو انہوں نے پہچانا تو اس کا انکار کر دیا پس اللہ کی لعنت ہے انکار کرنے والوں پر(89)


تفسیر رکوع ۱۱ -- یہود آنحضرت کے انتظار میں تھے


اَلْبَیِّنَاتِ :حضرت عیسٰی  کو معجزات عطا کئے گئے تھے مثلًا مردہ کو زندہ کرنا، نابینا کوبینا کرنا، مبروص و اپاہج کو تندرست کرنا، مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں رُوح پھونکنا وغیرہ یہ سب بینات ہیں یعنی حضرت عیسٰی کی نبوت کی واضح دلیلیں ہیں، بعض نے کہا ہے کہ بینّات سے مراد انجیل اور اس میں درج شدہ جمیع احکام حلال و حرام ہیں- [1]
رُوْحِ الْقُدُسِ:  بعض کہتے ہے اس سے مرادجبرائیل ہے اور بعض انجیل مراد لیتے ہے اور بعض کہتے ہیں اس سے مرد اسم اعظم ہے-
سوال:  جبرائیل مراد لینے کی صورت میں سوال پیدا ہو تا ہے کہ جبرائیل کی حضرت عیسیٰ  سے کیاخصوصیت ہے حالا نکہ وہ ہر نبی پر وحی لایا کرتاتھا ؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ بچپنے سے آخر تک ہر وقت حضرت عیسیٰ کے ہمراہ رہتا تھا اور جب یہود نے حضرت عیسیٰ کو قتل کرنےکا ارادہ کیا تھا تو آسمان پر جبرائیل خود ساتھ لے گیا اورحضرت مریمکو حضرت عیسیٰ  کی بشارت دینے کے لئے بھی انسانی شبیہ بن کر آیا تھا-[2]
فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ الخ:ایک گروہ کی تکذیب کی جیسے حضرت عیسٰی اور حضرت رسالتمآبﷺ اور ایک گروہ کو قتل کر ڈالا جیسے حضرت یحیی وحضرت زکریا-
تفسیر برہان میں عیاشی سے منقول ہے امام محمد باقر نے فرمایا کہ حضرت موسٰی اور ان کے بعد والے رسولوں کا ذکر اُمت محمد ﷺ کیلئے ایک مثال ہے اورآیت کی تاویل اور باطن یہ ہے کہ جب حضرت محمد مصطفیﷺ تمہارے پاس وہ چیز لائے جس کو تمہارے دل نہ چاہتے تھے یعنی ولایت علی تو تم اکڑ گئے اورآلِ محمد میں سے بعض کو جھٹلادیا اوربعض کو قتل کرڈالااوراسی معنی میں کلینیv سے روایت منقول ہے-
غُلْفٌ: ”اَغْلَف“ کی جمع ہے، غلاف کے اندر جو چیز ہو اسے اَغْلَف“ کہتے ہیں، ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں تمہاری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، پس اللہ نے  تردید فرمائی کہ ان کے دل غلاف میں نہیں بلکہ کفر وعناد کی وجہ سے ان پر لعنت ہے لہذا ایمان تھوڑا ہی لاتے ہیں یعنی نہیں لاتے-
وَکَانُوْا مِنْ قَبْل یَسْتَفْتِحُوْنَ الخ:یعنی جناب رسالتمآبﷺ کی بعثت سے پہلے یہودی لوگ عربوں  )اَوس و خزرج( پر جنا ب رسولِ خداﷺ کی آمد کی خبر سے فتح طلب کرتے تھے یعنی جب یہ لوگ ان کو تنگ کرتےتھے تو یہودی ان کو کہا کرتے تھے کہ جب رسول آخر ُالزمانﷺتشریف لائیں گے تو ہم ان کے ہمرکاب ہو کر تمہارا پتہ کریں گے خدا وند ہم کو ان کی بدولت تم پر فتح دے گا اورتم مغلوب ہو جاوٴ گے لیکن جب حضورﷺ تشریف لائے تو یہودی انکاری ہو گئے اوراَوس وخزرج مسلمان ہو گئے، پس معاذ بن جبل وغیرہ اُن کو کہتے تھے کہ اللہ سے ڈرو پہلے جب ہم مشرک تھے تو تم جناب رسول خداﷺ کی آمد کی خبر سنا کر ہم پر فتح طلب کرتے تھے اور خداوند﷯سے دعائیں مانگتے تھے اور جب وہ تشریف لائے ہیں تو تم انکار کرتے ہو؟ تو سلام بن مشکم یہودی جو بنی نضیر سے تھا کہتا تھا کہ یہ وہ نہیں جس کا ہم ذکر کرتے تھے-[3]
تفسیر مجمع البیان میں تفسیر عیاشی سے بروایت ابوبصیر  امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ یہودیوں یہودیوں نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ حضرت  محمد مصطفیﷺ کی ہجرت گاہ عیر اوراُحد کے درمیان ہو گی، پس اسی مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ان کا گزر ایک پہاڑ سے ہوا جس کو حداد کہا جاتا ہے تو انہوں نے سوچا کہ اُحداورحداد ایک ہی جیسے لفظ ہیں )پس سمجھا کہ وہ یہی مقام ہے( تو اسی پہاڑ کے گردونواح  متفرق ہو کر اُتر پڑے کچھ تیما میں، کچھ فدک میں اورکچھ خیبر میں آباد ہوگئے- [4] پس تیما والے اپنی دوسری برادری کی ملاقات کےلئے گھر سے تیار ہوئے تو بنی قیس کا ایک شخص ان کے پاس سے گزرا اُنہوں نے اُس سے اونٹ کرایہ پر لئے اس اعرابی نے ان کو بتایا کہ میں تم کو عیر اوراُحد کے درمیان سے لے کر گزروں گا انہوں نے کہاکہ وہاں پہنچنا تو ہمیں خبر دینا، پس جب مدینہ کی زمین پر پہنچے تو اعربی نے کہا کہ یہ اُحدہے اوروہ عیر ہے یعنی اب تم ان دومقاموں کے درمیان میں ہو پس وہ اونٹوں سے اتر پڑے اوراعرابی کو کہا کہ ہمیں اپنا مطلوب مل گیاہے اب ہم کو تیرے اونٹوں کی ضرورت نہیں تو بے شک جاسکتا ہے اوروہاں سے فدک اورخیبر کے یہودیوں کو خط لکھا کہ ہم نے وہ مقام تلاش کر لیا ہے پس تم یہاں چلے آوٴ اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم اب آرام سے یہاں آباد ہیں اوریہاں ہم نے مال ومتاع جمع کرلیاہے اورہم تمہارے قریب بیٹھے ہیں جب وہ وقت آیا تو ہم فورا ًپہنج جائیں گے پس انہوں نے مدینہ  بسایا اور اپنے مال جمع کئے جب ان کے پاس مال زیادہ ہوا تو عرب کے بادشاہ تبّع کو خبر پہنچی اس نے ان پر چڑھائی کر دی اور یہ اپنے قلعوں میں داخل ہو گئے بہت دیر تک اس نے محاصرہ کیے رکھا اورآخر کاران کو امان دے دی اورکہاکہ مجھے تمہاری آبادیاں پسند ہیں لہذا میں یہاں ٹھہر نا چاہتا ہوں یہودیوں نے کہاکہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ مقام نبیﷺ کی ہجرت گاہ ہے جب تک وہ تشریف لائیں دوسرے کسی کو ہم یہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتے پس اس نے کہاکہ میں تم میں اپنے خاندان سے کچھ آدمی ٹھہر اتا ہوں تاکہ ان کی آمد پر یہ بھی ان کی نصرت کریں پس اس نے اَوس اورخزرج دونوں قبیلے وہاں چھو ڑے اورخود چلاگیا جب اَوس وخزرج تعداد میں زیادہ ہو گئے تو انہوں نے یہودیوں کے اموال پر دست درازی شروع کردی پس یہودی ان کو کہتے تھے کہ جب محمد مصطفی ﷺتشریف لائیں گے تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا کہ جب آپ تشریف لائے تو انصار مسلمان ہوگئے اوریہودی اپنی ضد پر اڑگئے چنانچہ آیت میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے-

بِئْسَ مَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَن يَّكْفُرُوْا بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰهُ بَغْياً أَن يُّنَزِّلُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلٰى مَن يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُوْا بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ وَّلِلْكَافِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ (90) وَ إِذَا قِيْلَ لَهُمْ آمِنُوْا بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا  اَ نُؤْمِنُ بِمَآ أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ أَنبِيَاءَ اللّٰهِ مِن قَبْلُ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (91) وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوْسٰى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن مبَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُوْنَ (92)
ترجمہ:
بری ہے وہ چیز کہ  بیچ دیا ہے بدلے اس کے ا نہوں نے اپنے نفسوں کو انکار کرنا اس چیز کا جو نازل کی اللہ نے اس حسد سے کہ نازل کرتا ہے اللہ اپنے فضل سے جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں سے پس حاصل کیا انہوں نے غضب بالائے غضب اورکافروں کےلئے عذاب ہے رسواکن(90) اورجب ان کو کہا جائےکہ ایمان لاوٴ ساتھ اس کے جواللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ساتھ اس کے جو ہم پر اتری اورکفر کرتے ہیں ساتھ اس کے جواس کے علاوہ ہو حالانکہ وہ حق ہے تصدیق کرنے والی ہے اس کی جوان کے پاس ہے کہے پھر کیوں قتل کرتے تھے اللہ کے نبیوں کو اس سے پہلے اگر تم مومن ہو(91) اورتحقیق آیا تمہارے پاس موسیٰ ساتھ معجزات کے پھر پوجا تم نے گوسالہ اس کے پیچھے درحالیکہ تم ظلم کرنے والے تھے (92)

بِئْسَ مَا :یعنی یہ سودااُن کا خسارے میں ہے اوربرا سودا ہے کہ اپنے نفسوں کو انہوں نے عذاب جہنم میں دے دیا اورکفر وانکار کی وجہ سے نعماتِ جنت سے محروم ہو نا اختیا ر کرلیا اوراس حسد کی وجہ سے کہ نبوت حضرت اسماعیل کی اولاد میں کیوں آگئی؟ کیوں کہ اس سے پہلے سارے نبی حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب کی اولاد سے تھے جن کو اسرائیل کہاجاتا تھا، حالانکہ تورات میں جو اوصاف رسول خدا کے ذکر کئے گئے تھے ان کے لحاظ سے ان کو دل میں یقین تھا کہ آپ برحق نبی ہیں اورخداوند ﷯اپنا فضل یعنی نبوت جس کو وہ چاہے عطا کرتا ہے اوراس کے اختیار میں ہے خواہ بنی اسرائیل سے نبی بنائے یا بنی اسماعیل سے نبی بھیجے ،لیکن اُن کو حسد پیدا ہوا کہ ایساکیوں ہوا؟ پس غضب درغضب کے مستحق ہو گئے -
غَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ: یہاں غَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ یاتو تاکید کے لئے ہے اوریادوسرے غضب سے مراد انکار نبوت خاتم الانبیاہے اورپہلے غضب سے مراد یاتورات کی تحریف یا گوسالہ پرستی یاحضرت عیسٰی کا انکار ہے اورآخری معنی اہل بیت﷨ سے مروی ہے پس پہلے غضب میں ان کو بندر سور کی شکل میں مسخ ہونا نصیب ہوا اوردوسرے غضب سے ان کو محمد وآل محمد کی تلواریں یاجزیہ قبول کرنا حاصل ہوا-

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ: یعنی جب اُن کو کہا جائے کہ قرآن پر ایمان لاوٴ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس کو مانتے ہیں جو ہم پر اُتری یعنی تورات، پس خداوند﷯ اُن کی تردید میں فرماتا ہے کہ یہ غلط کہتے ہیں کیونکہ اگران کا تورات پر ایمان ہوتا تو نبیوں کو کیوں قتل کرتے؟ تورات میں انبیا﷨ کی اطاعت کا حکم ہے پس چونکہ انہوں نے نبیوں کو قتل کیا تو گویا تورات پر بھی ان کا ایمان نہیں تھا اورنیز کتب سماویہ میں سے جو ایک کتاب کو نہ مانے گویا اس نے تمام کتابوں کا کفر کیا یہ بھی چونکہ قرآن کو نہیں مانتے پس تورات پر بھی ان کا ایمان کالعدم ہے -




[1] مجمع البیان ج۱
[2] مجمع البیان ج۱
[3] ترجمہ قرآن مولوی اشرف علی تھانوی کے  حاشیہ ص ۱۶ پر مرقوم ہے کہ حضرت محمد مصطفی کے نبی ہونے سے پہلے یہود کی قبیلہ اَوس وخزرج سے جب کبھی لڑائی ہوتی تھی اورہزیمت نظر آتی تھی تو نبی اُمی خاتم النبیّین کے وسیلہ سے دُعامانگتے تھے اوردشمن پر فتح وغلبہ چاہتے تھے اوریہ پاک وسیلہ لاتے ہی فوراً اُن کو فتح ہو جاتی اورجب وہ وجود ِباجُود دنیا میں سایہ  فگن ہوا یعنی خود نبی ہو کر دنیا میں تشریف لائے تو یہ یہودی لوگ کا فرہو گئے اورایمان نہ لائے، اس کے بعد محشّی نے معاذبن جبل اورسلام بن مشکم یہودی کا مکالمہ ذکر کیا ہے)منہ(
[4] تفسیر عیاشی ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں