چنانچہ بخاری شریف ج ۲
مطبو عہ مصر ص۱۴۵ کتا ب الانبیا ٔ میں ہے:
٭ عَنْ
اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاھِیْم عَلَیْہِ الصَّلٰواۃُ
وَالسَّلامُ اِلَّاثَلٰثَ کِذْبَاتٍ اِثْنَیْنِ مِنْھُنَّ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ قَوْلُہُ اِنِّیْ سَقِیْم وَقَوْلُہُ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ
ھٰذَاوَقَالَ بَیْنَ ھُوَ ذَاتَ یَوْمٍ وَسَارَۃ اِذْ اَتٰی عَلٰی جَبَّارٍ مِنَ
الْجَبَابِرَۃِ فَقِیْلَ لَہُ اِنَّ ھٰھُنَا رَجُلٌ مَعَہُ اِمْرَأۃٌ مِنْ
اَحْسَنِ النَّاسِ فَأرْسَلَ اِلَیْہِ فَسَئَالَہُ عَنْھَا فَقَالَ مَنْ ھٰذِہٖ
قَالَ اُخْتِیْ فَأتٰی سَارَۃ قَالَ یَا سَارَۃ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ
مُوْمِنٌ غَیْرِیْ وَغَیْرَکِ وَاِنَّ ھٰذَا سَألَنِیْ عَنْکِ فَأخْیَرْتُہُ
اَنِّکَ اُخْتِیْ فَلا تُکْزِبِیْنِیْ (الخبر)
ترجمہ: ابو ہریر ہ سے مر وی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ
نے صرف تین مقا مات پر جھوٹ بو لا ہے ان میں دو تو اللہ کے لئے (۱) ان
کا کہنا کہ میں بیمار ہوں (۲) ان کا
کہنا کہ یہ کا م ان کے بتوں میںسے بڑے نے کیا ہے (پہلے مقام پر بیمار نہ تھے اور
کہا بیما ر ہو ں اور دوسرے مقام پر کیا خود تھا اور بڑے بت پر تھونپ دیا ) (۳) ابو
ہریرہ نے کہا کہ ایک دن وہ اپنی بیوی سارہ کو لے کر جا رہے تھے کہ ایک جا بر
بادشاہ کے پاس سے گذرے (بادشاہ )سے کسی نے کہہ دیا کہ یہاں ایک شخص ہے جس کی بیوی
بڑی خوبصورت ہے پس اس نے ان کو بلا لیا اور پو چھا کہ یہ عورت کون ہے؟ آپ ؑ نے فر
ما یا یہ میری بہن ہے پھر آکر سا رہ سے کہا (کہ دیکھو) اس روئے زمین پر میرے اور
تیرے سوا اور کوئی مومن نہیں ہے اور (اس بادشاہ ) نے مجھے سے تیرے متعلق دریافت
کیا ہے تو میں نے اس کو بتا یاہے کہ یہ میری بہن ہے ( اگر تجھ سے کوئی پوچھے ) تو
مجھے نہ جھٹلا نا۔
٭ وَ
فِیْ کِتَابِ النِّکاحِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃ لَمْ یَکْذِب اِبْرَاھِیْم
اِلَّا ثَلٰث کِذْبَات۔
ترجمہ: اور بخاری کی کتاب النکاح میں بھی ہے کہ
ابو ہریرہ کہتاہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے صرف تین جھوٹ بولے تھے۔
٭ ایک
تیسری حدیث میں بھی ابو ہریرہ نے حضرت ابراہیم کی طرف جھوٹ بو لنے کا الزام لگا یا
ہے، لیکن (مَعَاذَ اللّٰہ ) اس حدیث میں جناب رسالتمآب کی طرف نسبت دے دی ہے
(کتاب الانبیا ٔ)
پہلی دو نوں حدیثیں جو اصل عبارت کے ساتھ میں نے
نقل کی ہیں ان میں ابو ہریرہ نے اپنی طرف سے یہ بات کی ہے اور تعجب ہے کہ مرزا
حیرت دہلوی (مترجم اُردو بخاری) نے ان دونوں حدیثوں کو بھی جناب رسا لتمآب کی طرف
سے منسوب کر دیا ہے اور صاف طور پر لکھ دیا کہ جناب رسالتمآبؐ نے ہی ایسا فرما یا
(اَلْعَیَاذُ بِاللّٰہ )
انصاف فر ما ئیے کہ۔۔۔ ابوہریرہ کے دامن کو بچا نے
کے لئے جناب رسالتمآب کی طرف غلط بیا نی کی نسبت سے ذرّہ بھر باک نہیں اور اگر
حضرت ابراہیم ؑ جیسے اولوالعزم نبی بھی جھوٹ وغیرہ سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو دیگر
عامۃ الناس پر جھوٹ کی حرمت کا فتویٰ کیسے عا ئد ہو سکے گا؟ حا لا نکہ خدا ارشا د
فر ما تا ہے وَاتّبعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَھِیْمَ حَنِیْفًا حضرت ابراہیم ؑ کی
ملت کی اتباع کا مطلب تو یہ ہے کہ پھر ملت اسلامیہ میں جھوٹ بو لنا جائز ہے کیونکہ
ابراہیم ؑ خود جھوٹ بولا کر تے تھے۔۔۔ یہ سب اہل بیت عصمت کے در وازہ سے کنارہ کر
نے کے نتائج ہیں!
حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ان مقا
مات پر تو ریہ فر ما یا ہے اور یہ تقیہ کی بہترین صورت ہے یعنی ایسی لفظ استعمال
کی جائے کہ سننے والا ظاہری معنی سمجھ کر خاموش ہو جائے اور یہ اپنے دل میں دوسرا
معنی مرادلے لے جومطابق واقع ہو، پس اِنِّیْ سَقِیْم سے مراد ہے کہ
اگرتمہارے ساتھ تمہارے تہوار میں شرکت کروں تو بیماری روحانی میں مبتلاہوجاتا ہوں
پس وہ لوگ ظاہری جسمانی بیماری سمجھ کر خاموش ہو گئے اور حضرت ابراہیم ؑ روحانی
بیماری مراد لے کر جھوٹ سے بچ گئے اور مسلمانوں نے بھی وہی ظاہری معنی مراد لے کر
حضرت ابراہیم ؑ پر جھوٹ کاالزام عائد کر دیا!!
اسی طرح بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرھُم کے بعد
حضرت ابراہیم ؑ نے ساتھ شرط لگادی اِنْ کانُوْا یَنْطِقُوْن اس عبادت میں
جھوٹ تودرکنار حضرت ابراہیم ؑ نے بہترین طریقہ پر ان کو دعوت توحید دی ہے اور
مصنوعی خدائوں سے کنارہ کشی کا درس دیا ہے۔۔۔ فرمایا ان بتوں سے سوال کرو اگر یہ
بول سکتے ہیں تو یہ کا م بت شکنی بھی ان کے بڑے نے کیا ہے اور اگر وہ بول نہیں
سکتے ہیں تویہ کام بھی اس نے نہیں کیا۔۔۔ یعنی جوبول تک نہیں سکتا وہ کسی کو نفع
یاضررپہچانے میں کیسے قدرت رکھ سکتا ہے؟ پس وہ لائق عبادت کیسے ہوسکتا ہے؟
اور اسی طرح تیسری صورت میںمراد ہے کہ میر ی د ین
کی بہن ہے نہ کے نسبی بہن۔۔۔ تاکہ جھوٹ لازم آئے (بشرطیکہ رؤیت مقبول ہو ) اسی
طرح چاند۔۔ سورج۔۔ ستاروں کی پر ستش کر نے والو ں کے سامنے حضرت ابراہیم ؑ کا
(ھٰذَا رَبِّی) کہنا استفہام انکاری ہے، ہاں بعض وہ آیاتِ قرآنیۃ جن میںعصیان۔۔۔
غوایت۔۔۔ ظلم یاضلالت کی لفظو ں کو انبیا ٔ کی طرف منسوب کیا گیا ہے جیسا کہ حضر ت
آدم علیہ السلام کے ذکر میں متعددمقام پر ایساہوا ہے وہ دقت طلب ضرورہیں۔