التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حاملینِ قرآن کے اوصاف



حضرت امیرالمومنینعلیہ السلام متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے حاملین قرآن کیلئے ارشاد فرماتے ہیں:
رات کے وقت ان کے قدم (مقامِ عبادت) میں صف بستہ رہتے ہیں، ترتیل کے ساتھ قرآن کے پاروںکی تلاوت کرتے ہیں، اپنے نفوس کو قرآن کے ذریعہ خوفزدہ کرتے ہیں، گناہوں کو یاد کر کے اپنے غموں کو تازہ کرتے اور روتے ہیں، جب کسی خوف کی آیت سے گزریں تو ان کے دلوں کی آنکھیں اور کان اس طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور ان کے جسموں پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کے جگر کانپتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کی آواز اور اس کے شعلوں کی بھڑک اور گرمی اُن کے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ اور جب کسی ایسی آیت سے گزریں جس میں شوقِ جنت ہو تو از روئے طمع اس طرف جھکتے ہیں اور اُن کے نفوس اس کے منتظر ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کا نصبُ العین ہے، جناب رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: کہ ظاہر و باطن میں خشوع کا زیادہ حقدار حاملِ قرآن ہے۔
اے حاملِ قرآن:  عاجزی کر خدا تجھے بلند کرے گا تکبر نہ کر۔۔۔۔ ورنہ خدا تجھے ذلیل کرے گا، اللہ کیلئے قرآن کو اپنی زینت بنا خدا تجھے زینت دے گا، لوگوں کیلئے قرآن کو اپنی زینت نہ بنا ورنہ خدا تجھے رسوا و خراب کرے گا۔
یاد رکھو:  جو شخص پورے قرآن کو ختم کرے گا گویا اس کے پہلو میں نبوت آگئی، جس کے پہلو میں قرآن ہو وہ جاہلوں کے ساتھ جہالت کا سا سلوک نہیں کرتا بلکہ وہ تو عفو و درگزر، چشم پوشی اور حلم کو پیش پیش رکھتا ہے کیونکہ قرآن کی عظمت اس کے اندر ہے، جس کو قرآن عطا ہو اور پھر کسی دوسرے کی ضمانت کو اہمیت دے گویا اس نے اللہ کے عظیم کو حقیر اور اللہ کے حقیر کو عظیم سمجھا۔
حضرت امیرالمومنین ؑ نے فرمایا: کہ اس امت کا قاریٔ قرآن اگر جہنم میں داخل ہو تو سمجھ لو کہ وہ آیات ِقرآنیہ سے مسخری کیا کرتا تھا۔
حفص سے روایت ہے کہ مقامِ رجا و خوف میں۔۔۔ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ سے زیادہ کسی کو نہیں پایا، جب وہ تلاوت کیا کرتے تھے تو ایسا روتے تھے جیسے کسی کے روبرو باتیں کر رہے ہوں۔
جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا: اللہ کی عظمت و جلال سے ہے کہ تین قسم کے لوگ اسکی بارگاہ میں نہایت مکرّم ہیں:
(۱) مسلم سفید ریش  (۲) امامِ عادل  (۳) حاملِ قرآن (جو معانی میں ردّ و بدل اور اس سے تجاوز نہ کرے)
٭      قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یُوْضَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنَابِرٌ مِّنْ نُوْرٍ عِنْدَ کُلِّ مِنْبَرٍ نَجِیْبٌ مِنْ نُجُبِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُنَادِیْ مُنَادٍ مِنْ قَبْلِ رَبِّ الْعِزَّۃِ اَیْنَ حَمْلَۃُ کِتَابِ اللّٰہِ؟  اِجْلِسُوْا عَلٰی ھٰذِہٖ الْمَنَابِرِ فَلاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلا اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ حَتّٰی یَفْرَغَ اللّٰہُ مِنْ حِسَابِ الْخَلائِقِ ثُمَّ ارْکَبُوْا عَلٰی ھٰذِہٖ النُّجُبِ وَاذْھَبُوْا اِلٰی الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ: رسالتمآبؐ نے فرمایا: قیامت کے روز نور کے منبر نصب کئے جائیں گے اور ہر منبر کے پاس ایک نور کی سواری ہو گی پھر اللہ کی طرف سے منادی ندا کرے گا کہاں ہیں کتابُ اللہ کے حامل؟
(کہا جائے گا) کہ جب تک خدا خلائق کے حساب سے فارغ نہ ہو تم بلاخوف و حزن اِن منبروں پر بیٹھو، اس کے بعد اپنی سواریوں پر سوار ہو کر جنت کی طرف چلے جائو۔
سبحان اللہ۔۔۔۔اللہ کے نزدیک حاملینِ قرآن کی کیا قدر و منزلت ہے؟
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاحْشُرْنَا فِیْ زُمْرَتِھِمْ بِجَاہِ مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ الطَّاہِرِیْنَ عَلَیْھِمُ السَّلام