اب ذرا چشمِ انصاف سے حضرت علی ؑ کے کلمات کا
مطالعہ کیجیے اور ابن قتیبہ دنیوری کی زبا نی سنیے:
٭ ثُمَّ
اِنَّ عَلِیًّا کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ اَتٰی بِہٖ اِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ
وَھُوَیَقُوْلُ اَنَا وَعَبْدُاللّٰہ وَاَخُوْ رَسُوْلِہٖ فَقِیْلَ بَایِعْ
اَبَابَکْر فَقَالَ اَنَا اَحَقُّ بِھٰذَا الْاَمْرِ مِنْکُمْ لا اُبَایِعُکُمْ
اَخَذْتُمْ ھٰذَا الْاَمْرُ مِنَ
_____________________________________________________
۱-
۱س کے مقابلہ میں حضرت علی ؑ کا اپنے متعلق نظریہ،۱۰۳،
۱۳۶، ۱۵۹،پر ملا حظہ فرمائیے اور جناب رسالتمآب کی
فرمائشات کی تطبیق کیجیے (منہ)
۲-
یعنی مجھ سے احکا م شریعت کی تبلیغ اور مقاصد رسالت کی ترویج (جس طر ح کہ
جناب رسا لتمآبؐ فر ماتے تھے) کی امید نہ رکھنا، میں خود تم جیسا ایک بے علم
آدمی ہو ں،اگر دیکھو ٹھیک چل رہاہوں تو فبہا ورنہ مجھے تم خود ٹھیک کر لینا
(منہ)
الْاَنْصَارِ وَاحْتَجَجْتُمْ عَلَیْھِمْ
بِالْقَرَابَۃِ مِنَ النَّبِیّ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ
وَتَأخُذُوْنَہُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ غَصْبًا۔
ترجمہ: پھر حضرت علی ؑ کرّ مَ اللہ وجہ ٗکو حضرت
ابوبکر کے پاس لا یا گیا تو آ پ ؑ کی زبان سے یہ لفظ جاری تھے کہ میں اللہ تعالیٰ
کا بندہ اور اس کے رسول کابھائی ہوں۔۔۔ پس آ پ ؑ سے ابوبکرکی بیعت کے لئے کہا گیا
تو فرمایا میں تم سے خلافت کا زیادہ حقدار ہوں لہذا تمہیں میری بیعت کرناچاہیے میں
تمہار ی بیعت نہیں کرتا۔۔۔۔۔ تم نے جناب رسالتمآب کی قرابت کو پیش کر کے انصار سے
امر خلا فت لیا ہے اور ہم اہل بیت ؑ سے اب خود غصب کر کے لے رہے ہو؟ (قرابت دار تو
ہم تم سے زیادہ ہیں)
أَ لَسْتُمْ زعتُمْ لِلْاَنْصَارِ اَنَّکُمْ
اَوْلٰی بِھٰذَا الْاَمْرِمِنْھُمْ لَمَّاکَانَ مُحَمَّدٌ مُنْکُمْ فَاعْطُوْکُمْ
الْمقَادَۃِ وَسلّمُوْا اِلَیْکُمُ الْاَمَارَۃِ وَاَنَا اَحْتَجُّ عَلَیْکُمْ
بِمِثْلِ مَا احْتَجَجْتُمْ بِہٖ عَلٰی الْاَنْصَارِ نَحْنُ اَوْلٰی بِرَسُوْلِ
اللّٰہِ حَیًّا وَمَیِّتًا فَانْصِفُوْنَا اِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ وَاِلَّا
فَبَئُوْوا بِظُلْمٍ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔
کیا تم نے انصار کو یہی نہیں کہا کہ چونکہ جناب
رسالتمآبؐ ہم میں سے تھے لہذا اس امرِ خلافت کے ہم ہی حقدار ہیں؟ پس انصار نے
تمہاری اطاعت کرلی اور تمہیں حکومت دیدی۔۔۔ میںبعینہٖ وہی دلیل تمہارے اُوپر پیش کرتا
ہوں جوتم نے انصار پر پیش کی تھی، ہم جناب رسالتمآبؐ کے زیادہ قریبی ہیں زندگی
میں بھی اور موت کے بعد بھی، پس اگر تم میں ایمان ہے تو ہمارے ساتھ انصاف کرو ورنہ
دیدہ دانستہ ظالم بنے رہو۔
فَقَالَ لَہُ عُمَرْ۔۔اِنَّکَ لَسْتَ مَتْرُوْکًا
حَتّٰی تُبَایِعْ! فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ اِحْلَبْ حَلْبًا لَکَ شَطْرہٗ وَ اشْدُدْ
لَہُ الْیَوْمَ اَمْرُہُ یَرُدّہُ عَلَیْکَ غَدًا ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ یَاعُمَرْ
لا اَقْبَلُ قَوْلَکَ وَلا اُبَایِعُہُ فَقَالَ لَہُ اَبُوْبَکْر فَاِنْ
لَمْ تُبَایِعْ فَلا اُکْرِھُکَ۔
عمر نے کہا تمہیں چھوڑ ا نہیں جائے گا جب تک بیعت
نہ کر وگے، پس حضرت علی ؑ نے فرمایا تو یہ دودھ دوہ لے کیونکہ تیرا اس میں حصہ ہے،
آج اس کے معاملہ کو مضبوط کرلے کیونکہ کل وہ اُسے تیری طرف پلٹا دے گا۔۔۔۔۔ پھر
فرمایا خدا کی قسم اے عمر میں تیری بات نہ مانوں گا اوراس کی بیعت نہ کروں گا، پس
ابو بکر نے کہا کہ اگر تم بیعت نہیںکرتے تو میں تمہیں محبور نہیں کرتا۔
فَقَالَ اَبُوْعُبَیْدَۃِ بْنِ جَراح لِعَلِیّ
کَرّمَ اللّٰہ وَجْھَہُ یَابْنَ عَمّ اِنّکَ حدیْث السنِ وَھٰؤُلائِ مَشِیْخَۃِ
قَوْمِکَ لَیْسَ لَکَ مِثْلَ تَجْربَتِھِمْ بِالْاُمُوْرِ وَلا اَریٰ اَبَابَکْرٍ
اِلَّا اَقْویٰ عَلٰی ھٰذَا الْاَمْرِ مِنْکَ وَاَشَدّ اِحْتِمَالاً وَاِضْطِلاعًا
بِہٖ فَسَلّمَ لِاَبِیْ بَکْرٍ ھٰذَا الْاَمْر فَاِنَّکَ اِنْ تَعشّ وَ یطل بِکَ
بَقَائَ فَاَنْتَ لِھٰذَا الْاَمْرِ خَلِیْقٌ وَ بِہٖ حَقِیْقٌ فِیْ فَضْلِکَ وَ
دِیْنِکَ وَ عِلْمِکَ وَ فَھْمِکَ وَ سَابِقَتِکَ وَ نَسَبِکَ وَ صھْرِکَ۔
پس ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت علی ؑ کو کہا اے چچا
کے بیٹے۔۔۔ تم نو جوان آدمی ہو اور یہ لوگ تیری قوم کے عمر رسیدہ ہیں، تیرے پاس
ان جیسا تجربہ اور معاملہ فہمی نہیں ہے اور میں ابو بکر کو اس معاملہ میں تجھ سے
زیادہ مضبوط اور صاحب برداشت اور حوصلہ مند سمجھتا ہوں پس اس معاملہ(خلافت) کو ابو
بکر کیلئے چھوڑ دو۔۔۔ پس اگر تم زندہ رہے اور تمہاری حیاتی طویل ہو ئی تو تم اس
(خلافت) کے بوجہ فضل۔۔۔ دین۔۔۔ علم و فہم۔۔۔ سبقت الی الاسلام۔۔۔ قرابت داری اور
دامادی ٔ رسول کے سزا وار اور حقدار ہو۔
(حضرت ابوبکر کے سابق اعتراف اور ان کے وکیل
ابوعبیدہ بن جراح کے بیان میں ٹھنڈے دل سے مطابقت پیدا کیجئے وہی بات ہے۔۔۔۔۔
مدعی سست گواہ چست؟)
فَقَالَ عَلِیّ کَرّمَ اللّٰہُ وَجْھَہُ۔۔۔
اَللّٰہُ اَللّٰہُ یَامَعْشَرَ الْمُھَاجِرِیْن لا تُخْرِجُوْا سُلْطَانَ مُحَمَّد
فِی الْعَرَبِ عِنْ دَارِہٖ وَقَعْر بَیْتِہِ اِلٰی دَوْرِکُمْ وَ قُعُوْد
بُیُوْتِکُمْ وَلا تدفَعُوْا اَھْلَہُ عَنْ مَقَامِہِ فَی النَّاسِ وَحَقّہٗ
فَوَاللّٰہِ یَامَعْشَرَ الْمُھَاجِرِیْن لَنَحْنُ اَحَقُّ النّاسَ بِہٖ لِاَنّا
اَھْلَ الْبَیْتِ وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا الْاَمْرِ مِنْکُمْ مَا کَانَ فِیْنَا
الْقَارِیُٔ لِکِتَابِ اللّٰہِ الْفَقِیْہُ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ الْعَالِمُ
بِسُنَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ الْمضْطَلِعُ بِاَمْرِِ الرَّاعِیّۃِ الدَّافِعُ عَنْھُمُ
الْاُمُوْرَ السَّیِّئَۃِ الْقَاسِمُ بَیْنَھُمْ بِاالسَّوِیَّۃِ وَاللّٰہِ اِنّہُ
لَفِیْنَا فَلا تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی فَتَضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
فَتَزْدَادُوْا مِنَ الْحَقِّ بُعْدًا۔
پس حضرت علی ؑ نے فرمایا۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو
اللہ تعالیٰ سے ڈرو اے گروہ مہاجرین۔۔۔ حضرت محمد ؐ مصطفیٰ کی حکومت کو عرب میں اس
کے گھر اور مکان سے نکال کر اپنے گھروں اور مکانوں کی طرف نہ لے جائو اور اس کے
اہل بیت کو اس مقام اور حق سے نہ ہٹائو جو لوگوں میں معلوم ہے۔۔۔ پس خدا کی قسم اے
گروہِ مہاجرین بہ نسبت اور لوگوں کے ہم رسالتمآبؐ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں،
ہمیشہ ہم میں قاری ٔ قرآن۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا فقیہ۔۔۔ جناب رسالتمآب کی
سنتوں کا عالم۔۔۔ اُمورِ رعایا میں واقف کار۔۔۔ ان سے آمدہ مصائب کے دفع کرنے
والا موجود ہے، اللہ کی قسم وہ صرف ہم میں ہی ہیں، پس خواہشات کے پیچھے نہ جائو
ورنہ اللہ تعالیٰ کے رستہ سے گمراہ ہو جائو گے۔۔۔ اور حق سے دُور تر ہوتے جائو گے۔
فَقَالَ بَشِیْرِ بْنِ سَعْدِ الْاَنْصَارِیْ لَوْ
کَانَ ھٰذَا الْکَلامُ سَمِعَتْہُ الْاَنْصَارُ مِنْکَ یَاعَلِیّ قَبْلَ
بَیْعَتِھَا لِاَبِیْ بَکْرٍ مَا اخْتَلَفَ عَلَیْکَ اِثْنَان قَالَ وَ خَرَجَ
عَلِیّ کَرّمَ اللّٰہُ وَجْھَہُ یُحْمَلُ فَاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلٰی
دَابَّۃٍ لَیْلاً فِیْ مَجَالِسِ الْاَنْصَارِ تَسْألُھُمُ النُّصْرَۃِ
فَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ یَابِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَدْ مَضَتْ بَیْعَتُنَا لِھٰذَا
الرَّجُلِ وَ لَوْ اَنَّ زَوْجُکَ وَابْنُ عَمِّکَ سَبَقَ اِلَیْنَا قَبْلَ اَبِیْ
بَکْرٍ مَا عُدِلْنَا بِہٖ فَیَقُوْلُ عَلِیّ کَرّمَ اللّٰہُ وَجْھَہُ اَفَکُنْتُ
ادْعُ رَسُوْل اللّٰہِ فِی بَیْتِہٖ لَمْ ادْفَنْہُ وَ اَخْْرَجَ انْزع النَّاس
سُلْطَانہ؟ فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ مَا صَنَعَ اَبُو الْحَسَنِ اِلَّا مَا کَانَ
یَنْبَغِیْ لَہُ وَلَقَدْ صَنَعُوْا مَا اللّٰہ حَسِیْبُھُمْ وَ طَالِبُھُمْ۔
پس بشیربن
سعد انصاری نے کہا کہ یا علی ؑ اگر آپ کا یہ کلام انصار نے ابو بکر کی بیعت کرنے
سے پہلے سن لیا ہوتا تو تیرے خلاف دو آدمیوں کی آواز بھی نہ اٹھتی۔۔۔۔۔ کہتا ہے
(اس کے بعد) حضرت علی کرّم اللہ وجہٗ چلے گئے اور ہر رات حضرت فاطمہ ؑ بنت رسول ؐ
اللہ کو سواری پر بٹھا کر انصار کے گھروں میں جا کر (احتجا جاً) ان سے اپنے حق کی
نصرت کا سوال کرتے، وہ بی بیؑ کو یہ جواب دیتے تھے کہ اے بنت رسول ؐ اب تو ہم اس
شخص (ابو بکر) کی بیعت کر چکے ہیں اگر تیرا شوہر و چچا زاد (علی ؑ) ہمارے پاس ابو
بکر سے پہلے پہنچ جا تا تو ہم اس سے روگردانی نہ کرتے۔۔۔ پس حضرت علی ؑ کرّم اللہ
وجہٗ فرماتے تھے کہ کیا میںجناب رسالتمآبؐ (کی میت) کو ان کے گھر میں بغیر دفن
کئے چھوڑ آتا اور لوگوں کے ساتھ حکومت(خلافت) کا جھگڑا کرتا؟ پس حضرت فاطمہ ؑ
فرماتی تھیں کہ جو کچھ ابو الحسن (علی ؑ) نے کیا ہے انہیں ایسا ہی کرنا چاہے تھا
اور البتہ ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے خداوند ان سے حساب لے گا اور مطالبہ کرے گا۔
( الا ما مۃ و السیا سۃ الجزء ُ الاول مطبوعہ مصر ص۱۱تا
۱۲)