علامہ حسین بخش جاڑا اُن علمائے کرام میں سے تھے جن کی موت سے
دھرتی کانپ اٹھتی ہے
علامہ حسین بخش جاڑا 4دسمبر ۱۹۹۰ ء کی شام کو
جامعہ علمیہ کربلا گامے شاہ لاہور میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی
سے جا ملے وہ جامعہ امامیہ میں ایک عرصے سے پرنسپل کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
یہ دینی درسگاہ نواب مظفر علی قزلباش وقف ٹرسٹ کے زیر انتظام
قائم کی گئی اور اب تک بڑے نامور اور جیّد علمائے دین کسب فیض حاصل کر کے فارغ
التحصیل ہو چکے ہیں۔
علامہ حسین بخش جاڑا تبلیغ دین کے لئے وقت تھے انہوں نے ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان اول درجے میں پاس
کیا پھر دس سال علمی مدارج کے حصول کے لئے نجف اور دیگر حوزہ ہائے علمیہ سے علم
فقہ اور علم شریعت کے مراجع سے رجوع کرتے رہے اس دوران علامہ مفتی جعفر صاحب سے
بھی کافی رہنمائی حاصل کی۔
علامہ حسین بخش جاڑا جہاں ایک بہترین استاد تھے وہاں بلند پایہ
خطیب اور مصنف بھی تھے۔۔۔ جہاں تک ان کی تصانیف کا تعلق ہے ان میں سر فہرست قرآن
مجید کی تفسیر جو تفسیر انوار النجف کے نام سے بلند پایہ تفاسیر میں ایک منفرد
مقام کی حامل ہے اور ان کی تفسیرِ قرآن انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔۔۔ تفسیر چودہ
جلدوں پر مشتمل ہے، اس کے بعد اٹھائیس مجالس پر مشتمل ایک مبسوط کتاب اور تحقیقاتی
کتاب مجالس مرضیہ کے نام سے صاحبان ذکر و فکر کے لئے سیرابی نطق و لب کا سامان
مہیا کرتی ہے ان کی تیسری تصنیف جو بہت زیادہ شہرت کی حامل ہے اس کا نام اصحاب
الیمین ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم تصنیف امامت و ملوکت کے نام سے صاحبان شعور کے
لئے سرچشمہ بصیرت اور اسلام میں شخصی مطلق العنانیت کے خلاف جہاد کی حیثیت رکھتی
ہے۔
علامہ حسین بخش جاڑا کی نماز جنازہ 4دسمبر کو کربلا گامے شاہ
میں ادا کی گئی جس میں کثیر تعداد میں مومنین کے علاوہ ایرانی کونصلیٹ آقائے علی
قمی نے بھی شرکت کی۔۔۔ علامہ حسین بخش جاڑا کی موت سے ہم ایک نامور محقق۔۔ عالم
علم فقہ اور بلند پایہ خطیب سے محروم ہو گئے ہیں۔
ہم اس مضمون میں علامہ حسین بخش جاڑ اکی دستارِ علم کے وارث
علامہ اثیر جاڑوی صاحب کو مرحوم کی موت پر پرسہ دیتے ہیں اور علامہ مرحوم کی مغفرت
کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں۔