اس میں شک نہیں کہ بینائی نابینائی سے نور ظلمت سے
اور علم جہل سے بہتر ہے لیکن کیا ہر جہالت گردن زدنی اور ہر علم واجب التحصیل ہے؟
تو ہر ذی شعور کی طرف سے اس کا جواب نفی میں ہوگا
کیونکہ ہر علم کی تحصیل امکانِ بشری سے بالاتر ہے، بلکہ ہر جہل سے تنزّہ اور ہر
علم سے اتصاف صرف ذات ِعلیم و حلیم ہی کا خاصہ ہے۔
انسان پر تو صرف ایسے علوم کی تحصیل حتی الامکان
واجب ہے جو انسان کو تمام ایسے نقائص و عیوب سے بچنے کی دعوت دیں جو وقارِ انسانیت
کے لئے باعث ِ عار اور ناموسِ انسانیت کے لئے باعث ِ ننگ ہوں اور ایسے علوم کی
دریافت ضروری ہے جو اَوج و کمال انسانیت کے آخری زینہ تک پہنچا دینے والے اسرار و
رموز کا پتہ دیں۔
ہر صاحب ِعقل جانتا ہے کہ انسانی وجود دو اہم اجزا
ٔ کا مجموعہ ہے یعنی روح اور بدن، بدن جزوِ کثیف مادّی ہے جو عناصر اربعہ (مٹی،
ہوا، آگ، پانی) سے مرکب ہے اور اس کا تعلق عالم سفلی سے ہے، روح جزوِ لطیف
مجرّدہے اور بسیط ہے یعنی مرکب نہیں اور بدن کا مدبّر ہے، اور یہ عالم علوی سے
تعلق رکھتا ہے۔
بنابریں جزوِ اوّلِ بدن ظلمانی اور محکوم ہے،
دوسری جزو (روح) نورانی اور مدبّر ہونے کی حیثیت سے حاکم ہے، بدن اور روح دونوں کی
بقا ٔ و ارتقا ٔ کے لئے حفاظت اور ترتیب ضروری ہے۔۔۔ پس بدنی نشوو نما یا اصلاح
کیلئے ایسے علوم کے حاصل کرنے کی سعی لازم ہے جو صرف کسب ِ معاش میں سہولت کے موجب
ہوں تاکہ جسمانی صلاحیتوں سے بودوباش کی فطری ذمہ داریوں سے سبکدوشی حاصل ہوسکے
اور بقائے نسلِ انسانی کے اہم فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے علاوہ منازلِ روحانیت کی
طرف قدم بڑھانے کیلئے کوئی ظاہری رکاوٹ سدّ راہ نہ ہو، کیونکہ جب تک انسان تندرست
نہ ہو یا فکرِ معاش سے پوری طرح سکون واطمینان حاصل نہ کر لے باطنی اصلاح کی طرف
قدم اٹھانا نہایت مشکل و دشوار ہے۔
لیکن یہ علوم چونکہ صرف بقا ٔ و ارتقا ٔ جسمانیت
کیلئے ہیں لہذا اُتنی ہی مقدار پر اکتفا ٔ کر لینا ضروری ہے جس سے یہ مقصد پورا ہو
سکے، حدّ ضرورت سے تجاوز صرف وبالِ جان ہی نہیں بلکہ وبالِ اُخروی کا پیش خیمہ بھی
ہے، گویا جسمانی ترقیاں روح کی تربیت کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ہیں، خود مقصود
بالذات نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انسان عامۃُ المخلوق کے مقابلہ میں اشرف
المخلوقات کے زرّین لقب سے ملقب ہے۔
روح کی تربیت اور فلاح وبہبود کے لئے ایسے علوم
حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کی بدولت انسان اپنی اُس حقیقی منزل تک رسائی حاصل کر
سکے جس کا وہ اہل قرار دیا گیا ہے اور وہ صرف علوم شرعیہ ہی ہیں جن کی اصل و اساس
قرآن مجید ہے، انہی علوم کی بدولت انسان اپنے خالق سے قرب حاصل کر کے حیاتِ
جاودانی اور عیشِ سرمدی کے بلند ترین مقصد پر فائز ہو سکتا ہے، اَوج شرافت کے
آخری کنگرہ تک رسائی حاصل کر کے وَلَقَدْ کَرَّمْنَابَنِیْ آدَمْ کا حقیقی
مصداق بن سکتا ہے۔
لــہٰـــذا:
٭ وہ علوم جو نہ صرف مادّہ پرستی کی
دعوت دیتے ہیں بلکہ روحِ انسانیت کے لئے پیغام موت بھی ہیں۔
٭ وہ علوم جو نہ صرف شکم پری کا ذریعہ
ہیں بلکہ ظلم و تشدد کا آلہ کار بھی ہیں۔
٭ وہ علوم جو صرف ظاہری وجاہت و
اقتدار کا سبب ہیں۔
٭ وہ علوم جو خود ستائی یا خود نمائی
کے لئے حاصل کئے جاتے ہیں۔
صرف جسد عنصری کے لئے چند روزہ بہار تو ضرور ہیں
لیکن اس کا انجام روحِ انسانیت کی تباہی وبربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ اس قسم کی
زندگی حیوانی زندگی یا اس سے بدتر اور موت حیوانی یا اس سے بھی پست تر ہے۔
پس انسان کی زندگی صرف روح کی بقا ٔ و ارتقا ٔ سے
وابستہ ہے اور ایسے علوم کی تحصیل جو اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوں۔۔ انسانیت کے
فرائض میں سے اہم فریضہ ہے، لہذا زندگی کا اہم ترین حصہ اسی مقصد ِعظیم کی تحصیل
کے لئے وقف کر دینا انسان کی عین سعادت اور اس سے پہلو تہی کرنا یا جی چرانا عین
شقاوت اور کمال بدبختی ہے۔
اصول کافی میں منقول ہے۔۔ ایک روز حضرت رسالتمآبؐ
وارد مسجد ہوئے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سبب دریافت فرمایا؟ کسی نے عرض کیا حضوریہاں
ایک علامہ موجود ہے جس کے ارد گرد لوگ جمع ہیں، آپؐ نے فرمایا: علامہ کا کیا مطلب
ہے؟ عرض کیا گیا حضور ایک شخص ہے جو قدیم تاریخِ عرب اور علم الانساب کا ماہر ہے
لوگ اس سے باتیں دریافت کر رہے ہیں، آپؐ نے فرمایا: یہ ایک ایسا علم ہے جس کے
عالم کو اس سے کچھ فائدہ نہیں اور اس کے جاہل کو اس کا کچھ ضرر نہیں بلکہ علم تو
صرف تین اقسام میں منحصر ہے:
(۱) آیات
محکمہ کا علم (۲) فرائض کا علم
(۳) سنت کا علم (قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ تمام علوم لغو ہیں)
گویا یہی علوم وہ ہیں جن کا عالم ان سے فائدہ حاصل
کرتا ہے اور ان کا جاہل ان کی جہالت سے نقصان اٹھاتا ہے اور یہی علوم انسان کو
مادّیت کے پست ترین گڑھے سے نکال کر اَوجِ انسانیت کے بلند ترین زینہ پر فائز کرتے
ہیں اگر ان علوم کے حاصل کرنے والا ظاہری دنیا سے انتقال بھی کر جائے تاہم اس کے
روحانی فیوض و برکات کبھی مردہ نہیں ہو سکتے، اور ان علوم کا جاہل باوجود زندہ
ہونے کے مردہ ہونے کے مترادف ہے۔
٭ اسی
طرح ان کا عالم بعد از موت بھی زندہ و جاوید ہے۔
٭ اوّل
الذکر کی زندگی ناموسِ انسانیت کے لئے عار ہے۔
٭ موخّر
الذکر کی زندگی وقارِ انسانیت کی بہار ہے۔
٭
ننگِ انسانیت مرنے کے بعد ذکرِ خیر سے قطعا ً محروم ہوتا ہے۔
٭
محسن انسانیت صحیفۂ انسانیت کے مقدس اوراق پر اپنی علمی و عملی وجاہت اور حسن
سیرت و بلند کردار کے وہ اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے جو انسانیت نواز افراد سے رہتی
دنیا تک خراج تحسین حاصل کرتے رہیں گے۔
پس انسانیت کی مختار زندگی اور اس کی لازوال
درخشندگی کے لئے علوم دینیہ کی تحصیل میں انتھک کوشش، غیر متزلزل ارادہ اور بے
پناہ جدّ وجہد از بس ضروری ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ جسمانی تربیت کیلئے اُسی قدر
کسب معاش ضروری ہے جس سے بقأ نوع انسانی کی عائد شدہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ
ہونا سہل ہو اور روحانی تربیت کیلئے اس کے اسباب و ذرائع کی تلاش اس قدر ضروری ہے
کہ اس سے اس کی بعد میں حاصل ہونے والی غیر فانی زندگی نہایت پر سکون اور خوشگوار
بن سکے۔
کس قدر افسوس و حیرت کا مقام ہے کہ جزو باقی (روح)
کی ابدی زندگی کی فلاح و بہبود کو سراسر نظر انداز کر کے پس پشت ڈال دیا جائے!!!
اِس سے بڑھ کر ناعاقبت اندیشی اور کیا ہو سکتی ہے؟؟؟
فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار