علم اور اہل علم کے فضائل میں کتب عامہ و خاصہ سے
احادیث بکثرت موجود ہیں، شہید ثانی قدّس سرّہ نے کتب فریقین سے کافی احادیث کو
یکجا کیا ہے، یہاں چند ایک کا ذکر کافی ہے۔
احادیث ِ نبویہ
٭ قَالَ
مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی عُتَقَائِ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ
اِلٰی الْمُتَعَلِّمِیْنَ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا مِنْ مُتَعَلِّمٍ
یَخْتَلِفُ اِلٰی بَابِ الْعَالِمِ اِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَـہُ بِکُلِّ قَدَمٍ
عِبَادَۃَ سَنَۃٍ وَبَنٰی اللّٰہُ لَـہُ بِکُلِّ قَدَمٍ مَدِیْنَۃً فِیْ
الْجَنَّۃِ وَیَمْشِیْ عَلٰی الْاَرْضِ وَھِیَ تَسْتَغْفِرُ لَـہُ وَیُمْسِیْ وَ
یُصْبِحُ مَغْفُوْرًا لَـہُ وَ شَہِدَتِ الْمَلائِکَۃُ اَنَّھُمْ عُتَقَائِ
اللّٰہِ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ: حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص چاہے
کہ میں ایسے لوگوں کی زیارت کروں جن کو اللہ نے جہنم سے آزاد کیا ہے پس وہ طالب
علم کی زیارت کرے، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ جب
کوئی متعلّم عالم کے دروازہ پر جاتا ہے تو اس کیلئے ایک سال کی عبادت کا ثواب لکھا
جاتا ہے اور ہر قدم کے بدلے اس کا جنت میں شہر بنتا ہے، جب چلتا ہے تو زمین اس
کیلئے استغفار کرتی ہے اور صبح و شام اس کیلئے بخشش کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور
فرشتے گواہ ہیں کہ وہ جہنم سے خدا وندکے آزاد کردہ ہیں۔
٭ مَنْ
جَائَ ہُ الْمَوْت وَھُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لِیُحْیِیَ بِہٖ الْاِسْلامَ کَانَ
بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْاَنبِْیَائِ دَرَجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ: جو شخص احیائے اسلام کے لئے علم سیکھتے
ہوئے مر جائے تو جنت میں اس کے اور انبیا ٔ کے درمیان صرف ایک درجہ کا فاصلہ ہوتا
ہے۔
٭ فَضْلُ
الْعَالِمِ عَلٰی الْعَابِدِ سَبْعِیْنَ دَرَجَۃً بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ
حَضْرُ الْفَرَسِ سَبْعِیْنَ عَامًا وَ ذٰلِکَ لِاَنَّ الشَّیْطَانَ یَضَعُ
الْبِدْعَۃَ لِلنَّاسِ فَیَبْصُرُھَا الْعَالِمُ فَیَزِیْلُھَا وَالْعَابِدُ
یَقَبْلُ عَلٰی عِبَادَتِہٖ۔
ترجمہ: عالم کو عابد پر فضیلت دی گئی ہے اور وہ
عابد سے ایسے ستّر(۷۰) درجات بلند ہے کہ ہر دو
درجہ کے درمیان کا فاصلہ تیز رو گھوڑے کے ستّر (۷۰) سال
کا سفر ہو اور یہ اس لئے کہ شیطان لوگوں میں بدعات پھیلاتا ہے تو عالم ان بدعات کو
دیکھ کر مٹاتا ہے اور عابد تو صرف عبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، یعنی عالم اپنے
نفس کے علاوہ عامّۃُ الناس کے نفوس کی اصلاح کرتا ہے اور عابد صرف اپنے نفس کو ہی
فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
٭ وَقَالَ
اِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ
ترجمہ: تحقیق علمأ انبیا ٔ کے وارث ہیں۔
یہ چار حدیثیں جناب رسالتمآب کی زبانِ وحی ترجمان
سے منقول ہیں اور بطریق اہل بیت ؑ جو احادیث اس ضمن میں وارد ہیں، ان کا احصا ایک
ضخیم کتاب میں ہو سکتا ہے، یہاں تبرکاً بعض کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱)
شہید ثانی نے باسنادِ صحیح حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کیا
ہے جس کی سند جناب رسالتمآب ؐ تک پہنچتی ہے کہ حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ حدیث: علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، پس علم
کو اپنے محل سے طلب کرو اور اس کے اہل سے حاصل کرو، کیونکہ اللہ (کی خوشنودی) کے
لئے علم کا سیکھنا اور حاصل کرنا عبادت ہے اور اس کا مذاکرہ تسبیح اور اس پر عمل
کرنا جہاد ہے، اس کا اَن پڑھ کو پڑھانا صدقہ اور اس کے اہل تک پہنچانا قربِ
خداوندی کا ذریعہ ہے، کیونکہ اسی سے حلال و حرام کا پتہ چلتا ہے اور یہی سبیلِ جنت
کا مینار اور مونسِ وحشت و غربت، تنہائی کا ساتھی، علیحدگی میں ہمکلام، خوشی و غمی
میں سہارا و ہمدم، دشمنوں کے مقابلہ میں ہتھیار اور دوستوں میں زینت ہے، اسی کی
بدولت خداوند اقوام کو بلند کرتا ہے اور ان کو امور ِخیر میں قیادت بخشتا ہے تاکہ
ان کے اقوال اخذ کئے جائیں اور ان کے افعال کی اقتدأ کی جائے اور ان کی بات آخری
اور قطعی فیصلہ ہو، فرشتے ان کی دوستی میں رغبت رکھتے ہیں اور ان سے اپنے پَروں کو
مس کرتے ہیں اور ان کی نمازوں میں برکت کا موجب ہوتے ہیں، ان کے لئے ہر خشکی و تری
حتی کہ دریائی مخلوق اور صحرائی جانور بھی استغفار کرتے ہیں۔
تحقیق۔۔۔۔۔ علم قلوب کی زندگی ہے جہالت کے مقابلہ
میں اور آنکھوں کی روشنی ہے تاریکی ٔ جہل میں، اور قوتِ جسم ہے ضعف و ناتوانی کے
مقابلہ میں، یہ علم انسان کو اخیار کی منازل، ابرار کی مجالس اور دنیا و آخرت کے
بلند درجات پر فائز کرتا ہے، اس کا مذاکرہ روزوں کے برابر اور اس کا درس عبادت کے
برابر ہے، اسی بدولت اللہ کی اطاعت وعبادت و صلہ رحمی اور معرفت حلال و حرام ہوتی
ہے، علم عمل کا مقتدا ہے اور عمل اس کا مقتدی، نیکوں کو نصیب ہوتا ہے اور بدبخت اس
سے محروم رہتے ہیں، پس طوبی ہے اس کے لئے جو اس (نعمت) سے محروم نہ رہے۔
(۲)
تفسیر برہان میں آمالی صدوق سے منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے ارشاد
فرمایا:
کہ جب
کوئی مومن مر جائے اور کوئی ایک ورق ایسا چھوڑ جائے جس پر علمی مطالب مکتوب ہوں تو
وہی کاغذ بروزِ محشر اس کے اور جہنم کے درمیاں حائل ہو گا اور اس کے ہر ہر حرف کے
بدلہ میں خدا اُسے ایک ملک عطا فرمائے گا جو پوری دنیا سے سات گنا بڑا ہوگا۔
(۳)
اصول کافی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ وہ عالم
جس کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے ستّر (۷۰) ہزار
عابد سے افضل ہے۔
(۴)
تفسیر برہان میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت
امیر المومنین ؑ سے دریافت کیا گیا کہ تمام خلق سے آئمہ ھدیٰ کے بعد کون
افضل ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا: کہ علمائے صالحین، پھر پوچھا گیا کہ تمام خلق خدا سے
ابلیس، فرعون اور تمہارے اعدأ کے بعد کون بدترین مخلوق ہے؟ تو فرمایا: علمائے فاسدین
ہیں جو باطل کو ظاہر کرتے ہیں اور حق پر پردہ ڈالتے ہیں۔
توضیح
جس طرح مادّی دنیا میں خلق خدا کے درمیان ظاہری
اصلاحات کے ذمہ دار افراد کو سلاطین یعنی بادشاہ کہا جاتا ہے اسی طرح روحانی دنیا
میں خلق خدا کے نفوس کی اصلاح کے ذمہ دار افراد روحانی حکمران و بادشاہ ہوتے ہیں،
ان کی بادشاہت و سلطنت ظاہری طاقت و اقتدار کے بل بوتے پر نہیں ہوا کرتی بلکہ دولت
ِعلم و معرفت سے سرفراز فرماکر خداوندکریم خود انہیں اس عہدہ کے لئے نامزد فرماتا
ہے اور حضرت آدم ؑ ابو البشر سے لے کر حضرت خاتم الانبیا ٔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وآلہ سلم تک کل ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ٔ و مرسلین اور ان کے بعد ان کے
اوصیائے طاہرین علیہم السلام سب کے سب خداوند کی جانب سے روحانی حکمران ہیں۔
چونکہ جناب رسالتمآبؐ اس سلسلہ میں سلطانُ
السلاطین کی حیثیت رکھتے ہیں اور سید الانبیا ٔ والمرسلین کے مقدّس لقب سے ملقب
ہیں، لہذا اُن کے اوصیائے طاہرین ان کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے صرف گذشتہ
اوصیأ سے افضل نہیں بلکہ تمام انبیائے سابقین سے بدرجہا افضل و اشرف ہیں۔
بادشاہ کے وزرا ٔ یا قائم مقام صرف اپنے بادشاہ ہی
کے ماتحت ہوا کرتے ہیں اور باقی تمام رعایا کے حاکم ہوا کرتے ہیں اور رعایا سب کی
سب ان کی محکوم ہوتی ہے خواہ عام انسان ہوں یا ان میں افسر وغیرہ ہوں، اور اس میں
کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام انبیائے سابقین حضور سرورِ کائنات کے سامنے رعایا کی
حیثیت سے ہیں، لہذا وہ ان کے اوصیا ٔ کے بھی رعایا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے انتظار میں موجود
ہیں اور ان کی اقتدأ میں نماز ادا کر کے دنیا والوں کو اپنے عمل سے بتائیں گے کہ
حاکم کون ہے اور محکوم کون؟ جب حضرت خاتم الانبیا ٔ کے آخری جانشین گذشتہ انبیا ٔ
کے سردار اور حاکم ہیں تو اُن کے پہلے جانشین گذشتہ انبیا ٔ کے سرادر و حاکم کیوں
نہ ہونگے؟
پس جس طرح مادّی حکمرانوں کی دفتری ملازمتیں اور
عہدہ جات، ظاہری عزّت و وقار اور چند روزہ وجاہت کی خاطر مرغوبِ طبع ہوا کرتی ہیں،
چونکہ روحانی سلاطین کے مشن کی ترویج کے لئے ملازمت یا عہدہ داری عینِ سعادت اور
کمالِ روح ہونے کے علاوہ محبوب خدا بھی ہے، لہذا اس کو پہلی قسم کے مقابلہ میں
زیادہ اہمیت دینا اور محبوب ِطبع بنانا انتہائی دانشمندانہ فیصلہ ہے، علمائے
دین کو حکومت دینیہ کا عہدۂ نیابت سپرد کیا گیا ہے جو ظاہری حکومتوں کی وزارت،
سفارت یا قائم مقام ہونے کے مقابلہ میں ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
فِیْ رِوَایَۃِ عَمْرِو بْنِ حَنْظَلَۃِ عَنِ
الصَّادِقِؑ فِی الْکَافِیْ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوٰی حَدِیْثَنَا
وَ نَظَرَ فِیْ حَلالِنَا وَ حَرَامِنَا وَ عَرِفَ اَحْکَامِنَا فَلْیَرْضَوْا
بِہٖ حَکَمًا فَاِنِّی قَدْ جَعَلْتُہٗ عَلَیْکُمْ حَاکِمًا فَاِذَا حَکَمَ
بِحُکْمِنَا فَلَمْ یَقْبَلْہٗ مِنْہُ فَاِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُکْمِ اللّٰہِ وَ
عَلَیْنَا رَدَّ وَالرَّادُ عَلَیْنَا الرَّادُ عَلٰی اللّٰہِ وَھُوَ عَلٰی حَدِّ
الشِّرْکِ بِاللّٰہِ
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے
ہیں جو شخص تم میں سے ہماری احادیث کو بیان کرے اور حلال وحرام اور دیگر احکامات
کو جانتا ہو پس مومنین کو اس کی حکومت پر راضی ہونا چاہیے، میں نے اس کو تمہارے
اوپر حق حکومت دیا ہے، پس جب وہ ہمارا حکم بیان کرے اور اسے قبول نہ کیا جائے تو
اللہ کے حکم کی توہین اور ہماری تردید ہوئی اور ہماری تردید اللہ کی تردید ہے اور
وہ شرک کی حد ہے۔
وَفِیْ حَدِیْثٍ مَنْ کَانَ مِنَ الْفُقَہَائِ
صَائِنًا لِنَفْسِہٖ حَافِظًا لِدِیْنِہٖ مُخَالِفًا لِھَوَاہُ مُطِیْعًا لِاَمْرِ
مَوْلاہُ فِلِلْعَوَامِ اَنْ یُّقَلِّدُوْہُ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ فقہأ میں سے ہر وہ شخص جو
اپنے نفس کا (گناہوں سے) بچانے والا اور دین کا نگہبان اور خواہشاتِ نفسانی کا
مخالف اور اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو تو عوام کو چاہیے کہ اس کی تقلید کریں۔
٭ دونوں
حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اعلم کی تقلید ضروری نہیں بلکہ ہر مجتہد جامع الشرائط کی
تقلید کی جا سکتی ہے۔
پس جو فرق حکومت ِظاہریہ کے عام وفادار رعایا اور
عہدہ دار میںہے وہی فرق حکومت ِ باطنیہ شرعیہ کے اطاعت گزار (عابد) اور عہدہ دار
(عالم) کے درمیان ہے، جس طرح ظاہری حکومت میں عام افرادِ رعایا کے جرم اور عہدہ
دار کے جرم میں نوعیت کا فرق ہے اسی طرح قانونِ شریعت کی رو سے عام لوگوں کے گناہ
اور عالم کے گناہ میں نوعیت جدا جدا ہے، کیونکہ عام انسانوں کی اطاعت یا مخالفت کا
نفع یا نقصان ان کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے، بخلاف اس کے عہدہ دارِ حکومت کی
فرمانبرداری یا نافرمانی، نیکی یا بدی اس کے تمام حلقہ رسوخ میں مبلّغانہ حیثیت سے
بہت افراد کے لئے مشعلِ راہ کا کام دیتی ہے، کیونکہ گفتار سے کردار زیادہ موثر ہوا
کرتا ہے، پس جس طرح اس کی اطاعت عام لوگوں کی اطاعت سے زیادہ وزنی اور قابل قدر
ہوتی ہے اسی طرح اس کی مخالفت اور نافرمانی عام نافرمانیوں اور مخالفتوں سے بدرجہا
زیادہ خطرناک اور قابل نفرت ہوتی ہے۔
لہذا مقتضائے عقل یہی ہے کہ اس کی اطاعت کا صلہ
عوام کی اطاعت کی جزا سے زیادہ ہو اور اس کی مخالفت کی سزا عام لوگوں کی مخالفت کی
سزائوں سے زیادہ سخت اور عبرتناک ہو۔
اس وضاحت سے صاف معلوم ہو گیا کہ احادیث ِسابقہ
میں جو معصوم ؑ نے عالم اور عابد کے درمیان فرق بیان فرمایا ہے اور عالم کو ستر
ہزار عابد سے افضل قرار دیا ہے یا عالم با عمل کا مرتبہ آئمہ کے بعد تمام خلق سے
افضل ہونا اور عالم بے عمل کا درجہ ابلیس و فرعون و دشمنانِ اہل بیت ؑ کے بعد سب
مخلوق سے پست ترین ہونا بیان فرمایا ہے قرین عقل ہے اور قانون عدل و انصاف کے عین
موافق ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعُہُ
الذِّکْرٰی