گذشتہ بیان میں ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن آخری
کتاب اور اس کے لانے والا رسول آخری رسول ہے۔
حدیث قدسی مشہور’’ لَوْلاکَ لَمَا خَلَقْتُ
الَْاَفْلاکَ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حضور رسالتمآبؐ ہی مقصد تخلیق عالم تھے، تو جب
آپؐ اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف تشریف لے گئے تو کائنات کے وجود کا بھی
تو ختم ہو جانا چاہیے تھا!کیوںکہ جس کی خاطر یہ سب کچھ بنایا جب وہ نہ رہا تو اس
سب کچھ کے باقی رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس معزز مہمان کی آمد کیلئے بستر لگایا
جائے۔۔۔ دستر خوان بچھایا جائے۔۔۔ فانوس جگایا جائے تو اس کے رخصت ہو جانے کے بعد
سب سامان سمیٹ دیا جاتا ہے، پس اسی طرح جب مقصد خلقت کائنات و آسمانی آخری کتاب
(قرآن مجید) کا آخری مبلّغ موجود نہیں تو یہ کتاب کس لئے ہے؟ اور دیگر تکالیفِ
شرعیہ کیوں باقی ہیں؟
تو اس کا جواب بلکہ واحد حل یہی ہے کہ ابھی کسی
آنے والے کا انتطار ہے اور ابھی وجود کائنات کا سہارا اور کتاب خدا کا مدرّس ایک
ایسا فرد موجود ہے جو حدیث ِلولاک کے مصداق کا حصہ ہے، ورنہ جس طرح حضوؐر تشریف
لائے اور چلے گئے اگر ان کے بعد حدیث لولاک کے اور مصادیق کی آمد نہ ہوتی
اور دنیا میں ان کا حقیقی جانشین باقی نہ ہوتا تو نہ کتاب باقی رہتی اور نہ جانشین
باقی رہتا، پس کتاب اور مکتب کا وجود مدرّس کتاب کے وجود کی دلیل ہے۔
علاوہ ازیں گذشتہ صفحات میں وجود حضرت ولی العصر
مہدی ؑ آخر الزمان علیہ السلام کے متعلق مختصر طور پر روشنی ڈالی جا چکی ہے اور
صاحب انصاف کے لئے وہ کافی ہے، قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جن کی تاویل حضرت
حجت ؑ کے وجود مسعود اور ان کے زمانہ اور زمانہ والوں سے کی گئی ہے:
٭ وَلَقَدْ
کَتَبْنَا فِی الزّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا
عِبَادِیَ الصَّالِحُوْن۔
ترجمہ: ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ بات لکھ دی
ہے کہ میرے صالح بندے ہی میری زمین کے وارث ہوں گے، ان سے مراد حضرت حجت عجل اللہ
فرجہ اور ان کے اصحاب ہیں (بحار الانوار ج۱۳)
٭ یُرِیْدُوْنَ
لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ۔۔۔۔
لِیُظْہِرَہُ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔
ترجمہ: لوگ اللہ کے نور کو منہ سے بجھانا چاہتے
ہیں اور خدا اپنے نور کو تمام کرنے والا ہے۔۔۔ تاکہ تمام ادیان پر اس کو غلبہ دے،
حضرت قائم عجل اللہ فرجہکا دور مراد ہے (بحار الانوار ج۱۳)
٭ ھُوَ
الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلٰی
الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔
ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور
دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غلبہ دے، حضرت قائم عجل اللہ فرجہ کا
زمانہ مراد ہے (بحار الانوار ج۱۳)
پہلی آیت میں ہے کہ میری زمین کے وارث صالح بندے
ہوں گے اور تیسری آیت بتلاتی ہے کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غلبہ دے گا تو جو
لوگ اس وقت تک دعوائے مہدویت کر چکے ہیں ان کی تکذیب کے لئے تو ان آیات مجیدہ کے
ظاہری الفاظ ہی کافی ہیں کیونکہ حضرت مہدی ؑ کی حکومت پوری روئے زمین پر ہو گی اور
یہ چیز کسی بھی مدعی مہدویت کو نصیب نہ ہوئی، نیز حضرت مہدی ؑ کے دور میں خدا کا
دین تمام باطل ادیان پر غالب ہو جائے گا حالانکہ ان مدعیان مہدویت کی تحریکات۔۔۔
معدود افراد تک محدود ہیں، پس معلوم ہوا کہ یہ لوگ ان آیات کے مصداق نہیں تھے
بلکہ غلط دعویدار تھے اور جھوٹے مدعی مہدویت تھے، آیات متذکرہ جس مہدی ؑ کی آمد
کا پتہ دیتی ہیں وہ ابھی آنے والا ہے اور جب آئے گا تو اس کی حکومت بھی پوری
روئے زمین پر ہو گی اور دین خدا غالب بھی ہو گا حتی کہ ادیانِ باطلہ مٹ جائیں گے۔
نیز ان مدعیان مہدویت کا جب سے سلسلہ شروع ہوا
عالم اسلامی تو در کنار پوری زمین سے رفتہ رفتہ امن و آرام۔۔۔چین و اطمینان ختم
ہونے لگ گیا اور فسق و فجور کا دور دورہ عام ہونے لگ گیا، حتی کہ پوری دنیا سے امن
و آرام صرف برائے نام ہی باقی رہ گیا، لیکن ان آیات سابقہ کے حقیقی مصداق جب
ظہور فرمائیں گے تو پوری دنیا امن و آرام سے اس طرح معمور ہو جائے گی جس اس سے
پہلے ظلم و ستم اور فسق و فجور سے بھر پور ہو چکی ہو گی۔
٭ وَعَدَ
اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ
قَبْلِھِمْ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَ
لَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔
ترجمہ: وعدہ کیا ہے اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ جو
ایمان لائے تم میں سے اور عمل صالح کئے ہیں کہ ضرور خلیفہ ٔ زمین ان کو بنائے گا
جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا اور ضرور پوری قدرت دے گا ان کے اس دین کو جو چن
لیا ان کیلئے اورالبتہ ضرور ان کے خوف و ہراس کو امن سے تبدیل کر دے گا۔
٭ وَ
نُرِیْدُ اَنْ نَمُنَّ عَلٰی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ
نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَ نَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْن۔
ترجمہ: ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو
زمین میں کمزور قرار دئیے گئے اور ان کو امام بنائیں اور زمین کا وارث مقرر کریں۔
بحار الانوار ج۱۳
میں ہے کہ یہ ہر دو آیات حضرت حجت ؑ عجل اللہ فرجہکے متعلق ہیں اور بھی بہت سی
آیات ہیں جن کی تاویل حضرت حجت ؑ عجل اللہ فرجہ کے متعلق کی گئی لیکن سب کا ذکر
کرنا اثبات مطلب کے لئے ضروری نہیں، لہذا ہم ان ذکر شدہ پانچ آیات پر اس مقام میں
اکتفأ کرتے ہیں البتہ اپنے اپنے مقام پر آیات کی تاویلات (جو آئمہ سے منقول
ہیں) بیان کر دوں گا۔
ان دونوں آیتوں میں پہلی آیت کو بعض ناسمجھ لوگ
خلافت اجماعیہ پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے مصداق وہی لوگ
تھے جو خلیفے بن گئے لہذا ان کی خلافت سے ثابت ہوا کہ وہ ایماندار اور صالح بھی
تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’ حُبُّ الشَّیْئِ یُعْمٰی وَ
یُصَمّ‘‘ یعنی محبت انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے، اگر اس آیہ مجیدہ کے صرف
تحت اللفظی ترجمہ پر غور کیا جائے تو قطعاً خلافت اجماعیہ کے انعقاد کے بطلان پر
دلالت کرتی ہے کیونکہ آیت مجیدہ میں خدا وعدہ فرماتا ہے کہ میں بنائوں گا یعنی
میری طرف سے منصوص ہوگا اور وہ سوائے حضرت علی ؑ صحابہ میں اور کوئی بھی نہیں،
جناب رسالتمآبؐ نے مقام غدیر پر اعلان فرمایا اور عملی طور پر انہیں بلند کر کے
بھی دکھایا تاکہ کوئی شک و شبہ نہ رہ جائے اور حضرت کے سامنے لوگوں نے’’ بَخٍّ
بَخٍّ ‘‘کی صدائیں بھی بلند کیں۔
اگر ’’ لَیَسْتَخْلِفَنّ‘‘کا کوئی مصداق صحابہ میں
سے ہو سکتا ہے تو وہ صرف حضرت علی ؑ کی ذات با برکات ہے ان کے علاوہ نہ کوئی اور
منصوص من اللہ ہے اور نہ اس آیہ شریفہ کا مصداق بن سکتا ہے، نیز اس امر کی
مزید وضاحت کیلئے خدا نے یہ بھی ساتھ ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو خلیفہ اسی طرح
بنائوں گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا، اب آثارِ صحیحہ سے صاف
معلوم کیا جاسکتا ہے کہ پہلی خلا فتیں آیا اجماع سے منعقد ہوئیں تھیں یا خدا کی
طرف سے منصوص تھیں؟ پس جس طرح خدا نے ان گذشتہ لوگوں کو خود خلافت کیلئے منتخب
فرمایا اور لوگوں کو حق انتخاب سے محروم رکھا اسی طرح یہاں بھی فرماتا ہے کہ میں
اسی طریق سے خلافت دونگا جس طرح گذشتہ لوگوں کو خلافتیں دیں۔
اور اگر بالفرض یہ آیہ استخلاف ان لوگوں کی خلافت
پر نص ہے جن کو خلیفہ بنالیا گیا تو کم از کم ان خلیفہ بننے والوں کو تو یہ علم
ہونا چاہیے تھا کہ یہ آیت ہماری خلافت پر نص ہے اور سقیفائی لمبے چوڑے نزاع میں
انصار و مہاجرین کی خلافت کی رسہ کشی کے موقعہ پر اس آیہ مجیدہ سے استشہاد کر
لینا ضروری تھا تاکہ جھگڑا طول نہ کھینچتا اور عجیب معمہ ہے کہ محبت کرنے والے اور
عقیدت مند تو کہتے ہیں کہ یہ آیہ مجیدہ ان کی خلافت پر دال ہے اور خود ان کو علم
ہی نہیں تھا ورنہ ضرور استشہاد کے طور پر پیش کردی ہوتی۔
ہاں ضرور ان کو یہ علم تھا کہ ہم اس آیت کے مصداق
نہیں کیونکہ اگر ہم اس کو اپنے متعلق مخصوص کر دیں یا اختصاص کا دعویٰ کریں تو
مجمع کا ہر فرد بول اٹھے گا کہ اس صفت میں میں بھی شریک ہوں تو دریں صورت چار و
ناچار یا تو حرب و ضرب پر نوبت پہنچ جاتی اور یا آیات مجیدہ کی رہبری کے پیش نظر
انتخاب خداوندی کو اپنا لیا جاتا اور عہد غدیری کا اعادہ ہو جاتا۔۔۔ لیکن یہ دونوں
صورتیں خلافت کی قمیص اوڑھنے والوں پر گراں تھیں لہذا اس آیت کو پیش کرنے کی
جرأت ہی پیدا نہ ہوئی اس کی مزید تفسیر و تفصیل (ج ۱۰
ص۱۵۲) پر ملاحظہ فرمائیں۔
اب رہی آخری آیت۔۔۔۔۔ وہ صاف بتلاتی ہے کہ وارث
زمین اس کو بنایا جائے گا جو پہلے کمزور و ضعیف کر دیا گیا ہو، وہ خلیفہ و امام
بھی ہو گا اور وارث زمین بھی ہو گا۔
آیہ استخلاف کے آخری الفاظ ہیں کہ خلیفہ بننے
والوں کی خاطر اپنے پسندیدہ دین کو تمکین تام (پوری طاقت) دوں گا اور ان کے خوف کو
امن سے تبدیل کر دوں گا۔
آخری آیت میں ہے کہ کمزور کئے جانے کے بعد ان کو
خلافت و وراثت زمین عطا ہو گی۔
ان ہر دو آیات کی تطبیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی
مصداق وہ خلافتیں نہیں اور ہر گز نہیں اس لئے کہ:
( ۱)
دین اسلام کو تمکین تام حاصل نہ ہو سکی ورنہ اطرافِ عالم میں کوئی بھی غیر
مسلم نہ ہوتا۔
(۲)
جناب رسالتمآبؐ کے دور میں ان کو کون سا خوف تھا جس کو خدا نے خلافت
کے سایہ میں امن سے تبدیل کیا؟ بلکہ یہاں تو بالکل معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے
کیونکہ جناب رسالتمآبؐ کے دور میں اہل اسلام پورے امن میں ہو گئے تھے، اغیار پر
ان کا اقتدار قائم تھا۔۔۔ آپس میں صلح و آشتی تھی۔۔۔ خلافت کے انعقاد کے بعد
مسلمانوں میں آپس میں قطعاً صلح و آشتی نہ رہی، اگر صرف خلافت راشدہ ہی کا دور
لیا جائے تو پہلے خلیفہ کے بعد باقی سب خلفأ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، کیا
اسلام کی تمکین اور خوف کے بعد امن اسی کا نام ہے؟
(۳)
کمزور کئے جانے کے بعد ان کو طاقت نہیں ملی بلکہ الٹا اس خلافت کے
انعقاد کے بعد تفرق و تشتُّت کی خلیج کا پاٹ وسیع سے وسیع تر ہوگیا۔۔۔ حتی کہ اس
کے تلخ اثرات سے خلافت مآب خود بھی نہ بچ سکے۔
(۴)
پوری روئے زمین کی وراثت (حکومت و ملکیت) حاصل نہ ہو سکی۔
اسلامی تاریخ کی اوراق گردانی اور صحیح مطالعہ سے
صاف پتہ چلتا ہے کہ آیات صرف آل محمد ہی کی رجعت اور حضرت قائم آل محمد کی ہمہ
گیر حکومت پر ولایت کرتی ہیں کیونکہ:
٭ پہلی
آیت کی رو سے جس قدر امت نے ان کو خائف و ہراساں کیا ہے اتنا کسی قوم کو کسی دور
میں نہیں کیا گیا، ان کو گھروں سے نکال دیا گیا۔۔۔ قتل کیا گیا۔۔۔ قید و بند کی
صعوبتوں میں مبتلا کیا گیا۔۔۔ حقوق سے محروم کیا گیا۔۔۔ زندہ دیواروں میں چنا دیا
گیا۔۔۔ گھروں کو آگ لگا دی گئی۔۔۔ عورتوں کی رُلایا گیا۔۔۔ دربد پھرایا گیا۔۔۔
چھوٹے بچوں پر تشدّد کیا گیا۔۔۔ غرضیکہ کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ اور حدیہ کہ اپنے
مقتولین اور شہدا ٔ کی مظلومیت کی داستان پڑھنا اور سننا ان کیلئے ممنوع قرار دیا
گیا !؟ان پر گریہ کرنا اور آنسو بہانا حرام قرار دیا گیا !؟ اگر تاریخ سادات کا
مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سی سادانیاں اپنے بے گناہ شہیدوں کے شہید
کر دیئے جانے کے بعد اپنے یتیم بچوں کو ساتھ لے کر جنگلوں میں ویرانوں میں پہاڑوں
میں بھوک و پیاس کی شدتیں نبھا نبھا کر پیدل سفر کی تکلیفیں اُٹھا اُٹھا کر
انتہائی غربت و کسمپرسی کی حالت میں دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
خوف کا یہ عالم تھا کہ سادانیاں اپنے خوردسال بچوں
کو گھر سے باہر قدم رکھنے سے روکتی تھیں اور بالفرض بچہ باہر جانے پر مصرّ ہوتا تو
مائیں بار بار سمجھایا کرتیں کہ دیکھو بیٹا اگر کوئی تم سے اپنا نسب پوچھے تو یہ
نہ کہنا کہ میں سید ہوں اور سادات نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا، چنانچہ بہت سے
سادات اپنے نسب چھپانے میں اس قدر محتاط رویہ اختیار کرتے تھے کہ اپنی بیوی تک کے
سامنے اپنا سید ہونا ظاہر نہ کر سکتے تھے جس کی وجہ سے اولاد کو بھی اپنے سید ہونے
کا علم نہ ہو سکتا تھا، چنانچہ حضرت عیسیٰ بن زید (امام زین العابدین ؑ کے فرزند
زید کا لڑکا گویا امام زین العابدین ؑ کا پوتا تھا) لڑکی کی رحلت کے بعد یہی درد
لے کر دنیا سے گئے کہ ہائے میری لڑکی کو مرتے دم تک یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ میں
سید زادی ہوں اور علی ؑ و فاطمہ ؑ کی اولاد سے ہوں۔
آج کل کی حالت بھی دیکھئے۔۔۔ فرق صرف اس قدر ہے
کہ اُس وقت حکومت وقت اور رعایا مل کر سادات کو پامال کرنے کی کوشش میں تھے اور اب
حکومت کا رویہ غیر جانبدارانہ ہے، ورنہ اگر آج بھی حکومت کی طر ف سے خوف نہ ہوتا
تو کیا مجال تھی کہ آلِ محمد کا اعلانیہ طور پر کوئی نام لیتا یا سادات اپنے
بزرگوں کے مصائب کی یاد تازہ کرتے؟
اہل اسلام کے علمأ نے فتویٰ دے دیا تھا کہ امام
حسین ؑ کے مصائب سننے سے چونکہ بعض صحابہ کے متعلق بدظنی پیدا ہونے کا امکان ہے
لہذا شریک مجلس ہونا ناجائز ہے، بہر کیف خوف و ہراس میں جس قدر آل محمد اور ان کے
تابعین کو رکھا گیا ہے اس سے بڑھ کر واقع ہونا تو درکنار۔۔۔ تصور کرنا بھی مشکل
اور محال ہے۔
٭ دوسری
آیت کی رو سے بھی ظاہر ہے کہ آل محمد سے بڑھ کر کسی قوم کو کمزور کرنے کی کوشش
نہیں کی گئی۔
پس ان آیات مجیدہ کی تاویل سوائے قائم آل محمد
عجل اللہ فرجہ اور ان کے انصار کے اور کسی کے متعلق ہر گز نہیں کی جاسکتی وہ منصوص
من اللہ ہیں، لہذا وہی خلیفۃُ اللہ ہیں، ان کی آمد کے بعد دین اسلام کی جملہ
کمزوریاں ختم ہو جائیں گی اور تمام باقی ادیان پر اس کو غلبہ حاصل ہو جائے گا وہ
امام برحق اور وارث زمین ہیں ان کی تشریف آوری خوف کے بعد امن اور ضعف کے بعد
طاقت کی حقیقی مصداق ہو گی۔
بہر کیف قرآن مجید میں کافی آیات موجود ہیں جن
کی تاویل زمان مہدی ؑ سے کی گئی ہے، ص۹۴ پر
ایک طویل روایت میں ہے کہ حضرت امام جعفرصادقؑ نے ابوحنیفہ سے من جملہ اور سوالات
کے۔۔۔ اس آیت مجیدہ کی تاویل بھی پوچھی تھی ’’وَ قَدَّرْنَا فِیْھَا السَّیْرَ
لیَالِیَ وَ اَیَّامًا آمِنِیْنَ ‘‘ وہ تو خیر بتا ہی کیا سکتا تھا۔۔۔ اس
کے چلے جانے کے بعد بعض حاضرین نے امام عالی مقام سے تاویل دریافت کی، تو امام نے
فرمایا اس سے مراد زمانِ حضرت قائم آلِ محمد علیہم السلام ہے۔
بحار الانوار ج ۴
باب احتجاجات حضرت امیرالمومنین ؑ میں ہے آپ ارشاد فرماتے ہیں:
لَوْ قَدْ قَامَ قَائِمُنَا لَاَنْزَلَتِ
السَّمَائُ قَطَرَھَا وَ لَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ نَبَاتَھَا وَ لَذَھَبَتِ
الشَّحْنَائُ مِنْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ وَ اصْطَلَحَتِ السِّبَاعُ وَ الْبَھَائِمُ
حَتّٰی تَمْشِی الْمَرْأۃُ مَا بَیْنَ الْعِرَاقِ اِلٰی الشَّامِ لا تَضَعُ
قَدْمَیْھَا اِلَّا عَلٰی النَّبَاتِ وَ عَلٰی رَاسِھَا زِیْنَتُھَا لا
یَھِیْجُھَا سَبْعٌ وَ لا تَخَافُہٗ۔
ترجمہ: ہمارے قائم عجل اللہ فرجہ کا دور شروع ہو
گا تو آسمان سے بارانِ رحمت برسے گی، زمین اپنی انگوریاں اُگائے گی اور لوگوں کے
دلوں سے کیلئے چلے جائیں گے اور عام حیوانات اور درندے آپس میں اتفاق سے رہنے
لگیں گے، یہاں تک کہ ایک عورت (تنہا) عراق سے شام تک سفر کرے گی تو پوری راہ میں
اس کے قدم سبزہ زار پر ہی آئیں گے اور اس پر اسباب زینت بھی موجود ہوں گے لیکن
کوئی درندہ اسے دیکھ کر ہیجان میں نہ آئے گا اور نہ وہ خوفزدہ ہو گی۔
دعا برائے ظہور حضرت حجت ؑ عجل اللہ فرجہ
اَللّٰھُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحُجَّۃِ ابْنِ
الْحَسَنِ صَلَوَاتُکَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آبَائِہٖ فِیْ ھٰذِہٖ السَّاعَۃِ وَ
فِیْ کُلِّ سَاعَۃٍ وَلِیًّا وَّ حَافِظًا وَّ قَائِدًا وَّ نَاصِرًا وَّ
دَلِیْلاً وَّ عَیْنًا حَتّٰی تُسْکِنَہُ اَرْضَکَ طَوْعًا وَّ تُمَتِّعَہُ
فِیْھَا طَوِیْلاً ۔۔۔۔۔اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ وَ سَھِّلْ
مَخْرْجَھُمْ وَ اَھْلِکْ اَعْدَائَھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔